حضرت مصلح موعود ؓ

ہماری مشکلات اور ہماری ذمہ واریاں

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرمودہ۸؍اپریل ۱۹۲۱ء)

۱۹۲۱ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے اشاعتِ اسلام کے حوالے سے ہماری ذمہ داریوں اور درپیش مشکلات کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

تکالیف اور مصائب ہر طرف ہیں مگر ہمیں امیدیں بھی بہت ہیں اور ہم کامیابی کو بھی گھر کے دروازے پر دیکھتے ہیں

حضورؓ نے تشہّد و تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
میرے دل میں تھا کہ جماعت کے متعلق بعض ضروری باتیں آج کے خطبہ میں بیان کروں۔ لیکن صبح سے میرے ناک اور حلق میں تکلیف ہے اس لیے آج میں اگرچہ تفصیل سے بیان نہیں کر سکوں گا مختصراً بیان کرتا ہوں۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے ہماری ذمہ داریاں دوسروں سے بہت بڑھی ہوئی ہیں۔ ہماری مثال اُس ڈاکٹر کی ہے جس کو علاج کے لیے ایک بڑی جماعت پاگلوں کی سپرد کی جائے۔ ایک سرکاری پاگل خانے ہوتے ہیں اُن میں ڈاکٹر پر بوجھ نہیں ہوتا۔ وہاں وہ اپنے فرض کو حکومت خیال کرتے ہیں، مار پیٹ بھی لیتے ہیں، ضرورت ہوئی تو دوا بھی دیتے ہیں۔ مگر ان کے علاوہ ایک اَور پاگل خانے یورپ اور امریکہ میں ہوتے ہیں جہاں امراء اپنے پاگل رشتہ داروں کو علاج کے لیے رکھتے ہیں۔ اور وہ پاگل خانے تجارتی طور پر ہوتے ہیں۔ وہاں ڈاکٹروں کو معقول معاوضہ ملتا ہے۔ مگر ڈاکٹروں کی ذمہ واری نازک ہوتی ہے۔ کیونکہ جتنے مریض شفا پائیں اُن کی شُہرت کا مدار اُن پر ہوتا ہے۔
چونکہ ایسے مریض کی عقلی حالت اچھی نہیں ہوتی اس لیے اُس کو دوا دیں تو وہ کہتا ہے کہ تندرست ہوں مجھے بیمار کون کہتا ہے۔ وہاں ایک شرط یہ بھی علاج میں ہوتی ہے کہ مریض کو یقین دلایا جائے کہ وہ بیمار نہیں تندرست ہے۔ جب ڈاکٹر کا یہ بھی فرض ہو تو مریض کو دوا کیسے دی جائے۔ دوائی دو تو وہ کہتا ہے مجھے بیمار کہتے ہو۔ اور اگر نہ دیں تو علاج کیسے ہو۔ وہاں بڑی محنت اور ہوشیاری سے کام کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال ہمارا ہے۔ پھر ایک اَور فرق ہوتا ہے کہ ان کو مریض کے رشتہ دار تمام خرچ دیتے ہیں۔ یہاں ہمیں اپنے پاس سے ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ تو ہماری مثال تو ایسے ڈاکٹر کی ہے جس کو کمرے میں بند کر دیا جائے اور مریضوں کو اُس پر حاکم مقرر کیا جائے۔ اور ساتھ ہی حکم ہو کہ ان کا علاج کرو۔
پس

ہماری ذمہ واریاں بڑھی ہوئی ہیں۔ ہمارے پاس سامان کم اور طاقت بھی بہت کم ہے۔ ذمہ واری کے مطابق نہ سامان ہے نہ طاقت۔

پھر باوجود اس حالت کے جو سامان بھی ہمیں میسر ہیں انہیں سے کسی ایک کو اگر ہم ترک کر دیں تو ہمیں کامیابی کی کیا اُمید ہو سکتی ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ اس میں بعض وقت ہم پر خطرناک آتے ہیں اور تکلیف ہمیں گھیر لیتی ہے اور سکھ کا کوئی پہلو ہمارے سامنے نہیں رہتا۔ دولت مند کے لیے ہر وقت آرام نہیں۔ بیمار کے لیے ہر وقت تکلیف نہیں۔ اگر ہر وقت اس کی ایک سی تکلیف رہے تو وہ فوراً مر جائے۔ اس پر تکلیف وقفوں کے ساتھ آتی ہے اور اس طرح ایک مریض لمبے عرصہ تک زندگی پاتا ہے۔

اسی طرح ہم پر جو اوقات ہوتے ہیں وہ بعض دفعہ اس قسم کے آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں پامال کر دیں گے۔

لیکن پھر ہمیں آرام کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ یہ وقفہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ یا توہماری طرف سے ہوتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ یا خداتعالیٰ کی طرف سے کہ وہ خیال فرماتا ہے کہ اب ہم کام کرتے کرتے اس حد پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمیں آرام کی ضرورت ہے۔ بہرحال کسی طرف سے جو آرام ہمیں ملتا ہے وہ سانس لینے کے لیے وقفہ ہوتا ہے۔ پھر جس کو تکلیف کا وقت کہتے ہیں وہ اصل ذمہ واری کا وقت ہوتا ہے۔ ایسے ہی وقت میں سے ہم آجکل گزر رہے ہیں۔ کیونکہ

ایک طرف کام کی حالت بڑھتی جا رہی ہے اور ایک رَو ہے جو چل رہی ہے اور طبائع میں ایک جوش ہے جو لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کر رہا ہے

اور ہندوستان کے ایسے طبقہ میں جوش ہے جس میں پہلے نہ تھا اور اسی طرح غیر ممالک میں بھی ایک لہر چل رہی ہے ۔ باہر سے جو خطوط آتے ہیں اُن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
امریکہ سے ایک حبشی ولایت میں آیا ہے۔ وہ افریقہ کا باشندہ ہے اور اس نے اپنی تمام قوم میں دورہ کیا ہے۔ وہ مذہباً عیسائی تھا اور ولایت میں آ کر مسلمان ہو گیا ہے۔ امریکہ میں حبشیوں کی بہت سی آبادی ہے جو دو کروڑ کے قریب یعنی پنجاب کی آبادی کے برابر ہے۔ جب یورپ کے لوگوں نے امریکہ میں نوآبادیاں قائم کیں اور ان کو مزدوروں کی ضرورت پڑی تو سفید رنگ کے مزدور چونکہ زیادہ مزدوری مانگتے تھے اس لیے مزدور بہم پہنچانے کا یہ طریق اختیار کیا گیا کہ زبردستی افریقہ کے حبشیوں کو پکڑتے تھے اور اُن سے بیلوں کی طرح جو کام چاہتے تھے لیتے تھے۔ اور اُن کا قصور محض یہ ہوتا تھا کہ کمزور ہوتے تھے۔ اور پکڑنے والوں کا حق یہ تھا کہ وہ طاقتور تھے۔ ان غلاموں پر بڑے بڑے مظالم ہوتے تھے۔ آخر ایک عورت نے ایک ناول لکھا جس میں بتایا کہ کس طرح ان حبشیوں پر ظلم ہوتے ہیں۔ کس طرح ماں باپ کو بچوں سے اور بچوں کو ماں باپ سے جدا کیا جاتا ہے اور کس طرح ان کو مارا اور زخمی کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس میں جذبات کو اپیل کی گئی تھی کئی لاکھ کاپی اس کی چند دنوں میں نکل گئی اور آخر اس کو قانوناً روکنا پڑا۔ مگر چونکہ وہ اپنا اثر کر چکا تھا اس لیے ملک میں دو پارٹیاں ہو گئیں۔ ایک وہ جو غلامی کے خلاف تھی اور ایک تائید میں۔ دونوں میں جنگ شروع ہو گئی اور بڑے لمبے عرصے تک یہ جنگ رہی۔ جس میں غلامی کے حامی ہار گئے اور مخالف جیت گئے۔ اور اس طرح ان غریب حبشیوں کو امریکہ میں آزادی ملی۔ ان میں ایک شخص افریقہ سے گیا جو اپنی قوم کی فلاح کی تدبیریں سوچتا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ یہ سب لوگ عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہونے کو تیار ہیں۔ یہ تو یقینی نہیں کہ سب مان لیں گے مگر یہ بعید از قیاس بھی نہیں۔ یہ کروڑوں کا میدان ہے۔

ممکن ہے کہ جلد ہی لاکھوں اسلام میں داخل ہوں۔ اس کے لیے آدمیوں کی ضرورت ہے۔

ادھر روس چاہتا ہے کہ اس میں آدمی بھیجے جائیں۔ تبھی وہ پیشگوئیاں پوری ہوں گی جو وہاں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہیں۔ کیونکہ وعدے کی پیشگوئی میں ایک حصہ انسان کا ہوتا ہے اور ایک خدا کا۔ انسان جب اپنا کام کرتا ہے تو باقی کا حصہ خدا خود پورا کر دیتا ہے۔

زار کا عصا چھینا جا چکا ہے۔ بخارا کے امیر کی کمان پڑی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہمارا آدمی جائے اور اپنے شکار میں مصروف ہو۔

لیکن ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ تیس ہزار کے بل واجب الادا دفتر بیت المال میں پڑے ہیں اور چالیس ہزار پہلے لے کر خرچ کیا جا چکا ہے۔ اور بعض لوگوں کو چار چار مہینے کی تنخواہ نہیں ملی اور تنخواہ نہ ملنے سے کئی لوگوں پر فاقہ کی نوبت گزر رہی ہے۔ اور ان کی تنخواہ ماہوار اتنی ہے کہ جو باقاعدہ ملے تو ان کا گزارہ ہو سکتا ہے۔ ایسی حالت میں ہم باہر کس طرح کام کر سکتے ہیں۔ یہ اُن تاریک وقتوں میں سے ایک ہے جن کے لیے حافظ نے کہا ہے۔
؎ شب تاریک و بیم موج و گرداب چنیں حائل

چاروں طرف ظلمت ہے لیکن ادھر دنیا ہمیں بلا رہی ہے۔ یہ ایک صدمہ ہے اور نہایت دردناک حالت ہے۔

اس وقت ہماری ایسی حالت ہے کہ بچہ مصیبت میں ہے، ماں کو بلاتا ہے مگر ماں مجبور ہے کہ اُس کی مدد نہیں کر سکتی۔
اس حالت سے ایک خوشی بھی ہوتی ہے اور ایک صدمہ بھی ہے۔ خوشی اس سے ہے کہ بچہ ماں کو پہچانتا ہے اور رنج اس کا کہ ماں مدد نہیں کر سکتی۔ یہ بھی ظلمت ہے کہ ہم ان کی مدد نہیں کر سکتے۔ اور لوگوں کی مخالفت کا طوفان بھی ایک ظلمت ہے۔ غرض ظلمت پر ظلمت ہے۔ اگرچہ یہ خطرے کی بات نہیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ اِس وقت یہ سوال ہمارے لیے موت اور زندگی کا سوال ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ یہ خدا کا کام ہے لیکن جب تک بندہ اپنا کام نہ کرے اُس وقت تک خدا اپنا کام نہیں کیا کرتا۔

دو کام خدا کے ہوتے ہیں۔ پہلے خدا اپنا کام کرتا ہے۔ پھر انسان کا کام آتا ہے۔اگر یہ اپنا کام کرے تو خدا دوسرا اپنا کام کر دیتا ہے۔ اِس بات پر قرآن میں اتنا زور دیا گیا ہے جس کی حد نہیں۔ قرآن کریم کی ہر سورت کے ابتدا میں اِسی مضمون پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہےبِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کہ اﷲ کے نام سے شروع کرتے ہیں جو پہلے اپنی رحمانیت کے ماتحت کام کرکے ہمیں ہر قسم کے سامان عنایت کرتا ہے۔ چنانچہ

اس نے ہمیں مسیح موعودؑ دیا، ہمارے لیے علم کے دروازے کھول دیئے،ہمیں ہدایت دی۔ یہ اُس کی رحمانیت ہے۔

آگے رحیم ہے۔ اس صفت کا تقاضا ہے کہ جب ہم اس کے ماتحت خوب کام کریں گے تو پھر وہ ہمارے لیے کام کرے گا۔ پہلا کام اُس کی طرف سے ہو چکا۔ اب اگر ہم اس اپنے کام کو نہ کریں تو وہ اپنا دوسرا کام نہیں کرے گا۔ سورہ فاتحہ کی ابتداء میں بھی اسی مضمون پر زور ہے اور تمام قرآن میں بھی اِس مضمون پر زور دیا گیا ہے۔

ہم میں اگر کرب ہو گا، ہم اگر اُس کی طرف رجوع کریں گے اور اس کے حضور گریں گے تو وہ ہمیں اُٹھائے گا۔

لیکن اگر ہم مطمئن ہو جائیں اور اپنے آپ کو اُس کے فضلوں کا جاذب نہ بنائیں تو پھر ہم انعام نہیں پاسکتے۔ اور خدا اپنا کام جو ہمارے متعلق ہے نہیں کرے گا کیونکہ وہ ہمیں اہل نہیں پائے گا۔
ہمارے اس کرب سے خدا کے علم میں اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو جانتا ہے بلکہ وہ دوسروں پر ظاہر کرتا ہے اور ہماری حالت سے خود ہمیں مطلع کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ماں بچے کو مٹھائی دینے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہے، بچہ لینے کو لپکتا ہے، وہ ہاتھ ہٹا لیتی ہے۔ اگر بچہ مٹھائی لینے کے لیے ضد کرتا اور روتا ہے تو دے دیتی ہے۔ اگر وہ ہاتھ نہ بڑھائے بلکہ اَور طرف متوجہ ہو جائے تو وہ نہیں دیتی۔ کیونکہ جان لیتی ہے کہ اس کو ضرورت نہیں۔ پس ہمیں کرب پیدا کرنا چاہیے اور اُس کے حضور گر کر طلب کرنا چاہیے۔ تب اُس کی مدد آئے گی۔

مسلمانوں سے یہی غلطی ہوئی کہ وہ خدا کے حضور نہ جھکے اور ان میں مصائب اور مشکلات کے وقت کرب پیدا نہ ہوا۔ اب ہمیں اس غلطی کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے۔

جب تک مسلمانوں کا پہلا حصہ اِس حال میں رہا کہ جب دشمن کی طرف سے اسلام پر حملہ ہوا اور حالت نازک ہوئی وہ لوگ خدا کے حضور گِرے تو خدا نے سنبھالا اور ایسا بارہا ہوا۔ لیکن آخر میں مسلمانوں نے گمان کر لیا کہ خدا تو اسی طرح کیا کرتا ہے اور اسلام کو بچا ہی لیا کرتا ہے۔ وہ مطمئن ہو گئے اور اسلام ان کے سامنے ڈوب گیا اور انہوں نے خبر نہ لی۔ جب طوفان اُٹھا تو انہوں نے کہا کہ ایسا ہوتا ہی ہے اور بچاؤ کی فکر نہ کی۔ جہاز گرداب میں پڑا۔ پھر انہوں نے توجہ نہ کی۔ آخر ڈوبنے لگا۔ وہ ہنس پڑے کہ کیا ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ جہاز نہیں ڈوبے گا۔ آخر جب وہ ذرا ٹس سے مس نہ ہوئے تو جہاز ان کی آنکھوں کے سامنے غرق ہو گیا اور انہوں نے کچھ نہ کیا۔
اِس وقت ہم مشکلات میں ہیں۔ ہماری ذمہ واریاں بہت بڑھ رہی ہیں اور تیس ہزار کے بل پڑے ہیں اور چالیس ہزار پہلا قرض ہے اور باہر مبلّغوں کے بھیجنے کی ضرورت ہے۔ جب تک خاص جدوجہد نہ کریں گے کام درست ہوتا نظر نہیں آتا۔ پس

ہمیں ضرورت بہت دعاؤں کی ہے اور بہت کوشش کی ہے۔

میں اِس وقت مختصر بولنا چاہتا تھا مگر پھر بھی بہت بول گیا اور میرے حلق میں تکلیف بڑھ گئی ہے مگر آخر میں دوستوں کو کہتا ہوں کہ تکالیف اور مصائب ہر طرف ہیں مگر ہمیں امیدیں بھی بہت ہیں اور ہم کامیابی کو بھی گھر کے دروازے پر دیکھتے ہیں۔ دعا کرنی چاہیے کہ یہ محض لالچ ثابت نہ ہو بلکہ خدا ہمیں ان کامیابیوں کے حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

(الفضل۲۱؍اپریل۱۹۲۱ء)

مزید پڑھیں: تمہارا سب سے بڑا عزیز اور دوست خداتعالیٰ ہےاس لیے تم اسی کے سامنے جھکو اور اسی سے مدد طلب کرو

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button