حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ نیو یارک ریجن، امریکہ کے ایک وفدکی ملاقات

کوشش کریں کہ اپنا دینی علم بڑھائیں۔ قرآنِ کریم کو پڑھیں اور قرآنِ کریم کا مطلب سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر ممکن ہو تو قرآنِ کریم کی تفسیر پڑھیں۔ …
پھر اس کے علاوہ آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ دینی کتابیں پڑھیں، خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تا کہ یہ علم حاصل ہو کہ کس طرح اچھے اور دیندار انسان بن سکتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ مَیں نے ایک کتاب کشتی نوح لکھی ہے، اس کو پڑھو، یہ بھی تمہیں ہدایت دے گی

مورخہ۱۴؍ اپریل ۲۰۲۵ء بروز سوموار امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ نیویارک ریجن امریکہ کےتئیس(۲۳) رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے نیویارک امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔
جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔دورانِ ملاقات جملہ شاملینِ مجلس کو دربار خلافت میں اپنا تعارف اور مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جوابات کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کی کہ ایسی حالت میں جبکہ ہم نے کسی سے نا انصافی کا سلوک کیا ہو ہمیں کب تک ان سے معافی مانگنی چاہیے اور صرف اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنی چاہیے؟

اس کے جواب میں حضورِانور نے نہایت جامع اور نصیحت آموز انداز میں تلقین فرمائی کہ کسی سے غلط یا نا انصافی کا سلوک کرنا ہی کیوں ہے؟ آپ کو اپنے اچھے اخلاق دکھانے چاہئیں۔ ایک احمدی کے طور پر آپ کو ایک شریف اور اچھے انسان کی طرح سلوک کرنا چاہیے۔ احمدی کا رویہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی سے غلط طریق سے یا ناانصافی سے بات کرے۔ لیکن اگر کبھی بھی آپ کو احساس ہو جائے کہ آپ نے کچھ غلط کیا ہے اور آپ حق پر نہیں تھے یا آپ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے، تو پھر آپ کو فوراً معافی مانگنی چاہیے، یہ اللہ کو پسند ہے اور یہ اللہ ہم سے چاہتا ہے۔

ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ مَیں روحانی شکوک یا کمزوری سے کس طرح مقابلہ کروں؟

حضورِانور نے اس پر نہایت شفقت اور حکمت سے جواب دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ پہلی بات ہے کہ آپ پنجوقتہ نمازوں کو ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سب شکوک دُور کرے،جو بھی آپ کے ذہن میں آتے ہیں۔ آپ سجدہ یا رکوع میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور اللہ سے مغفرت مانگیں اور اس سے دعا کریں کہ وہ آپ کو صحیح راستے کی طرف ہدایت دے۔ جب بھی آپ سورۂ فاتحہ کی تلاوت کریں آپ کو بار بار اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ دُہرانا چاہیے کہ اے اللہ تعالیٰ! مجھے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے۔
حضورِانور نے دینی علمی معیارکو بڑھانے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے نصائح فرمائیں کہ آپ کوشش کریں کہ اپنا دینی علم بڑھائیں۔ قرآنِ کریم کو پڑھیں اور قرآنِ کریم کا مطلب سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر ممکن ہو تو قرآنِ کریم کی تفسیر پڑھیں۔ پھر آپ کو پتا چلے گا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کا قرب کیسے پا سکتے ہیں۔پھر اس کے علاوہ آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ کچھ دینی کتابیں پڑھیں، خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تا کہ یہ علم حاصل ہو کہ کس طرح اچھے اور دیندار انسان بن سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ مَیں نے ایک کتاب کشتی نوح لکھی ہے، اس کو پڑھو، یہ بھی تمہیں ہدایت دے گی۔آخر میں حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ یہ سب کچھ آپ کی کوشش پر ہی منحصر ہے۔

ایک سائل نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ مختلف کاموں کو آخری منٹ تک چھوڑنے کی عادت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضورِانور نے عمومی معاشرتی رویے کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو ہماری ایشین نیچر ہے کہ آخری وقت کام کرتے ہیں اور پہلے وقت پر پلان کر کے نہیں کرتے۔ ویسے بھی جماعتِ احمدیہ میں کوئی ایسا مزاج بن گیا ہے کہ جماعتی طور پر بھی ہم کہتے ہیں کہ eleventh hour جاکے آخری وقت میں کام کو کرنا ہے۔ پہلے پلان کر کے پوری طرح کام نہیں کرنا۔ ہمارے مربیان کا بھی یہی حال ہے۔ پوری طرح پلاننگ نہیں کرتے۔
حضورِانور نے پنجابی محاورے کے ذریعے اس رویے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ پنجابیوں میں ایک محاورہ بھی اس کے بارے میں بنا ہوا ہے کہ ’بُوئے آئی جنج تے وِنو کُڑی دے کَن‘۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری لڑکی کی شادی کے وقت بَرات گھر میں آ جاتی ہے، تب دلہن کو تیار کرنا شروع کرتے ہیں یا اس کے کانوں میں pierce (چھید یا سوراخ) کر کے ٹاپس یاجو کچھ بھی ڈالنا ہے، وہ ڈال سکیں۔ مطلب یہ ہے کہ آخری وقت میں کام کرنے کی عادت ہے۔تو یہ بہت بُری عادت ہے۔
اس کے حل کے طور پر حضورِانور نے فرمایا کہ کوشش کرو کہ تم نے پہلے کام کرنا ہے۔ پہلے کام کا پتا ہونا چاہیے کہ یہ یہ کام مَیں نے کرنے ہیں۔دن کے کاموں کو لکھو اور اس میں preference order بناؤ کہ یہ یہ کام مَیں نے فلاں فلاں وقت میں کرنے ہیں، اس کی دو چار دفعہ عادت ڈالو گے تو پھر صحیح وقت پر کام کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔

ایک خادم نے حضورِانور سے استفسار کیا کہ ہم روحانی ذمّہداریوں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ گھریلو رشتوں میں ہم آہنگی کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟

اس پر حضورِانور نے پُر شفقت انداز میں راہنمائی فرمائی کہ تمہاری جو گھریلو رشتہ داریاں ہیں، ان پر تمہاری ذمّہداری یہی ہے کہ تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ہیں، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ ایک تو یہ ہے کہ پانچ نمازیں پڑھو۔ اس میں ان کے لیے دعا کیا کرو اور جب تم کسی کے لیے دعا کرو گے تو تمہارے دل میں ان کےلیے سافٹ کارنرزیادہ بڑھ جائے گا۔ اپنے بہن بھائیوں، بڑوں اور اپنے اُمّی ابّا کے لیے respect زیادہ بڑھ جائے گی۔ اس لیے نماز میں دعا کیا کرو۔ جو تمہاری ذمّہداری پہلے ہے۔
روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیاوی ذمّہداریوں کو متوازن رکھنے کے بارے میں توجہ دلاتے ہوئےحضورِانور نے فرمایا کہ جوتم پڑھائی کر رہے ہو، تو وہ کسی پرتم احسان نہیں کر رہے،تم اپنا فیوچر بنانے کے لیے پڑھائی کر رہے ہو اور اس کے لیےتم پڑھائی پر جب concentrate کر رہے ہو اور اس دوران تمہیں کوئی تمہارا چھوٹا بہن بھائی تنگ کرتا ہے تو غصّے میں آنے کی بجائے، دروازہ بند کر کے علیحدہ ہو کے بیٹھ جاؤ اور پڑھائی کرو۔ تو یہ تو اپنے کنٹرول کی بات ہے، اپنے آپ اور اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنا ہے۔
آخر میں حضورِانور نے ہم آہنگی کی بنیاد ی اساس کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم آہنگی یہی ہے کہ یہ معلوم ہوکہ میرے یہ فرائض پڑھائی کرنے کے ہیں، یہ میرے فرائض اللہ تعالیٰ کے ہیں، یہ میرے فرائض ماں باپ کی respect کے ہیں، یہ فرائض میرے بہن بھائیوں سے dealing کے ہیں۔ ہر ایک کے rights ہیں، ان کوdue rights دینے ہیں اور جو تمہاریdue responsibilities ہیں، ان کو ادا کرنا ہے۔

حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا ایک سوال یہ تھا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز بے حیائی اور بُرائی سے روکتی ہے، مگر بہت سے لوگ باوجود باقاعدہ نماز پڑھنے کے، پھر بھی گناہ کرتے ہیں۔ اس طرح کیوں ہوتا ہے اور ہم اپنی نمازوں کو کس طرح حقیقت میں تبدیلی پیدا کرنے والی نمازیں بنا سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس پرتوجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ یہ بھی قرآنِ کریم میں کہتا ہے کہ تمہاری نمازیں قبول نہیں ہوں گی اگر وہ صحیح طور پر ادا نہ کی جائیں گی، حتٰی کہ وہ تمہیں جہنّم تک لے جائیں گی باوجود اس بات کے کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، تووہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ تمہیں جہنّم میں بھی لے جا سکتی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کیونکہ آپ اپنی نماز قرآنِ کریم اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق نہیں ادا کر رہے۔
حضورِانور نے اس حوالے سے مزید وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم نماز پڑھو تو پہلی بات آپ کے اندر یہ ہونی چاہیے کہ آپ کا اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ آپ کے تمام افعال اور اعمال دیکھ رہا ہے، وہ آپ پر ہر وقت نظر رکھ رہا ہے۔دوسری بات آپ حقوق العباد ادا کرنے والے ہوں۔ اگر آپ نماز پڑھتے ہو مگر لوگوں سے اچھا برتاؤ نہیں رکھتے یا ناانصافی کرتے ہو یا غلط سلوک کرتے ہو تو پھر اللہ کہتا ہے کہ نہیں چونکہ تم نے حقوق العباد ادا نہیں کیے تو مَیں نے تمہاری نمازیں بھی قبول نہیں کرنی۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نماز پڑھو تو پہلی بات یہ ہے کہ تم میری ہدایات کی پیروی کرو، میرے تمام احکامات پر عمل کرو، فرمانبرداری اختیار کرو اور بندوں کے حقوق اداکرو۔ پھر مَیں یقیناً تمہاری نمازیں قبول کروں گا اور جو بھی تم مجھ سے مانگو گے مَیں قبول کروں گا۔ اللہ تعالیٰ سورت بقرہ میں فرما چکا ہے کہ اوّل تم میری ہدایات کی پیروی کرو اور مجھ پر پختہ ایمان لاؤ اور میرے تمام حکموں کو مانو،پھر مَیں تمہاری نمازیں قبول کروں گا، اور پھر وہ آپ کو ایک اچھا اور ہدایت یافتہ انسان بنا دیں گی۔
حضورِانور نے خشوع و خضوع اور تبتّل سے بھرپورحقیقی نماز کی فلاسفی پر روشنی ڈالتے ہوئے توجہ دلائی کہ اس لیےمَیں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا سکھائی ہے۔ وہ کہتا ہے تم یہ کہو کہ اَے اللہ تعالیٰ! مجھے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے۔تو اگر آپ بار بار اس دعا کو پڑھو گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو بےحیائی کی باتوں اور برائیوں سے بچائے گا ورنہ نہیں۔ تو اس کے پیچھے ایک فلسفہ ہے۔ ایسا نہیں کہ اگر آپ نماز پڑھ رہے ہیں، اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ پڑھتے جاؤ، جبکہ آپ کا دماغ کہیں اَور ہے تو اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کی پوری توجہ نماز میں ہونی چاہیے۔ جب آپ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ پڑھیں تو اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ کا مطلب بھی پتا ہونا ضروری ہے۔مَیں کیوں اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ کہہ رہا ہوں کہ تمام تعریف اللہ کی ہے، کیوں؟ جب آپ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ پڑھیں تو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کا مطلب پتا ہونا بھی ضروری ہے کہ مجھے یہ کیوں پڑھنا چاہیے؟ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ سے تضرّع کے ساتھ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ! مَیں نے ساری دعائیں پڑھی ہیں، جو تُو نے ہمیں سکھائی ہیں، اب میری زندگی پاکیزہ بنا دے اور میرے تمام اعمال اپنے حکموں، منشاء اور رَضا کے مطابق بنا دے، پھر آپ اچھے بنیں گے ورنہ نہیں۔

ایک خادم نے عرض کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ احسان کا مطلب یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کریں کہ جیسے ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اگر ہم یہ کیفیت حاصل نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ نیز اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ ہم اپنی روز مرہ عبادت میں اس خلوص اور دھیان کو عملی طور پر کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں انسانی طبیعت پر واقع ہونے والی مختلف حالتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ انسان کے خیالات بھٹکتے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نماز قائم کرنے کا حکم ہے،تو قائم کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ نماز گر جاتی ہے، اس کو کھڑا کرو اور کھڑا کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اس نے جو دعائیں سکھائی ہیں وہ بار بار پڑھو۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ پڑھو۔ نمازوں میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے سیدھے راستے پر چلائے اور میری نمازیں صحیح طرح مجھے ادا کرنے کی توفیق دے اور تُو مجھے دیکھ رہا ہے، اگر چہ میرا اِیمان ابھی اتنا نہیں پہنچا کہ مَیں تجھے دیکھ رہا ہوں۔
سوال کے نفسِ مضمون کے حوالے سے حضورِانور نے حقیقی احساسِ حضوری کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اوّل تو یہ ہونا چاہیے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کےحضور جھکا ہوا ہوں، کسی کے سامنے مَیں مانگ رہا ہوں، اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ مَیں ظاہر میں بھی ہوں، اُوپر بھی ہوں، نیچے بھی ہوں، غائب میں بھی ہوں اور ہر جگہ موجود ہوں۔ تو اگر یہ ایمان پیدا نہیں ہوا کہ یہ دیکھ سکے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے یامَیں اس کو دیکھ رہا ہوں توکم از کم یہ ایمان ضرور ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔
جواب کے آخر میں حضورِانور نے یاد دلایا کہ مَیں نے پہلے بھی یہ بتایا ہے کہ ہمیشہ یہ سوچو کہ اللہ تعالیٰ میرے ہر کام کو دیکھ رہا ہے اور جب اللہ تعالیٰ میرے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو پھر دل میں پیدا ہوتا ہے کہ مَیں کوئی غلطی ایسی نہ کروں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو اَور مجھے سزا مل جائے۔ پتا ہو،یہاں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں تو تم غلط کام نہیں کرو گے۔ اب جب پتا ہو یہاں کچھ نہیں ہے تو مَیں جو مرضی چاہوں کر لوں۔ تو نماز پڑھتے ہوئے ہمیشہ یہ خیال رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سی سی ٹی وی کیمرے ہمیشہ ہر جگہ لگے ہوئے ہیں، جب لگے ہوئے ہیں تو پھر یہ جو اللہ تعالیٰ کا کلوزسرکٹ ہےوہ مشکل میں ڈال دے گا۔ بس یہی دماغ میں رکھو اور یہی دیکھنے کا مطلب ہے۔

ایک شریکِ مجلس نے استفسار کیا کہ حضور انورایّدہ اللہ کس طرح انتخاب کرتے ہیں کہ کس خط کا جواب ذاتی طور پر دیا جائے اور کون سے خطوط کا جواب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے دیا جائے؟

حضورِانور نے عمومی بات بیان فرمائی کہ بعض خطوط دعا کے حوالے سے مشترک ہوتے ہیں۔ عام طور پر اگر کوئی مخصوص بات اس میں نہیں ہوتی، تو پھر مَیں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کہتا ہوں کہ ان خطوط کا جواب لکھ دیں۔ اگر کوئی ایسا خط ہو جس میں لکھنے والے کو کسی راہنمائی کی ضرورت ہے یا اس میں کوئی خاص سوال کا جواب دینا ہے یا اسے سمجھانا ہو پھر مَیں خود جواب لکھتا ہوں۔ اس طرح ہوتا ہے ورنہ مَیں ان تمام خطوط کا جواب خود نہیں لکھ سکتا،جو مجھے ملتے ہیں، جو ایک مہینے میں تقریباً تیس یا چالیس ہزار ہوتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔
حضورِانور نے اس کی بابت مزید فرمایا کہ ان میں سے بعض خطوط مَیں خود پڑھتا ہوں یعنی مکمل خط جو دن میں چار یا پانچ سو بن جاتے ہیں اور خطوط کی ایک کافی تعداد میرے آفس سٹاف کی طرف جاتے ہیں اور وہ ان کے خلاصے تیار کرتے ہیں۔ اگر ان میں کوئی مخصوص امر نہیں ہوتا تو مَیں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو کہتا ہوں کہ جواب لکھ دیں اور اگر ان میں کوئی مخصوص امر ہو تو مَیں خود جواب لکھتا ہوں۔
حضورِانور نے آخر میں انتہائی بشاشت کے ساتھ سائل کو ایک مفید مشورہ بھی عطا فرمایا کہ اگر آپ کو کسی خاص راہنمائی کی ضرورت ہے تو آپ اس کے اوپر ’خاص‘ یا’ضروری‘لکھ سکتے ہیں تو پھر مَیں جواب لکھ دوں گا۔

ایک شریکِ مجلس نےحضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارے سب اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے۔ نیز راہنمائی طلب کی کہ ہم کسی بھی نیک عمل کرنے سے پہلے اپنی نیّت کو پاک اور صاف کس طرح کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے دل میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو؟

حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اگر جو لوگ الله کو نہیں بھی مانتے، atheist ہیں یا کسی مذہب کو نہیں ماننے والے یا مسلمان نہیں ہیں، buddhist ہیں، ہندو ہیں، عیسائی ہیں، یہودی ہیں، ان کے اخلاق تو اچھے ہیں۔ تو وہ اخلاق کے لحاظ سے اپنے اپنے دلوں کو صاف کرتے ہوئے بات کرتے ہیں، کوئی grudge نہیں ہوتا، ذاتی خواہشات نہیں ہوتیں اور انصاف کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ نیک نیّتی سے بات کرتے ہیں تو ان کی نیّتیں بھی نیک ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو بھی reward دے دیتا ہے۔
حضورِانور نےاخلاصِ نیّت کی باریکیوں کو مزید وضاحت سے بیان کرتے ہوئے سمجھایا کہ ایک کام آپ اصلاح کا کر رہے ہیں، مثلاً کسی نے کوئی بُرائی کی ہے، اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ اصلاح کرنا اچھا کام ہے، لیکن آپ کی نیّت یہ ہے کہ مَیں لوگوں کے سامنے اس کو کہوں کہ تمہاری یہ بُرائی ہےاس کو روکو۔ تو آپ کی نیّت خراب ہے اور اس کا آپ کو ثواب نہیں ملے گا، اس کا گناہ ہی ملے گا، کیونکہ نیّت ٹھیک نہیں تھی۔ اگر نیّت نیک ہو تو انسان سوچ سمجھ کر بات کرتا ہے۔ مطلب یہی ہے کہ مَیں ایسے کام کروں جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں، نیّت نیک ہو اور دوسرے آدمی کی اصلاح کے لیے ہو، جب اس طرح کی سوچ ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کا reward بھی دیتا ہے۔
حضورِانور نے نیّت کی خرابی کی جڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ انسان بدنیّت کیوں ہوتا ہے؟بدنیّت وہی ہوتا ہے، جس کے دل میں شیطان گھسا ہوتا ہے، تو ہر بات میں پہلے اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ پڑھا کرو۔
حضورِانور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصولی ہدایت کے حوالے سے متوجہ فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تم لوگ شکایتیں کرتے ہو کہ فلاں نے یہ کیا، فلاں نے وہ کیا، تو اس کے لیے پہلے چالیس دن دعا کیا کرو۔ چالیس دن دعا کرو، پھر دیکھو کہ ہاں! اس کی شکایت کرنی چاہیے۔ اگر تمہاری دعا سے اصلاح ہو گئی ہے تو پھر شکایت کی کوئی ضرورت نہیں۔
حضورِانور نے نیّت کے فہم میں خود احتسابی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ انسان کی نیّت تو خود انسان اپنے آپ کو ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس میں مَیں تمہیں کیا بتاؤں گا، یہ کیا پتا ہو کہ کس کے لیے ہے؟ خود اپنے دل کو دیکھو۔ بعض فتوے انسان اپنے دل سے لیتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ ہر فتویٰ مفتی صاحب سے جا کے پوچھو۔ مفتی صاحب سے فتویٰ نہیں پوچھنا بلکہ دل سے فتویٰ لو کہ مَیں یہ کام کرنے لگا ہوں، آیا اس کا فائدہ ہے یا نقصان ہے؟ آیا میں کسی بہتری کے لیے کر رہا ہوں، جماعت کے مفاد کے لیے کر رہا ہوں، کسی انسان کی بہتری کے لیے کر رہا ہوں یا صرف مَیں اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کر رہا ہوں؟تو اگر بڑائی ظاہر کرنا نیّت ہے تو اس کو ثواب نہیں ہے، وہ گناہ ہے، تو یہ تو سوچنا خود پڑتا ہے۔ نیّتوں کو دیکھو کیا نیّت ہے؟ اب مَیں کیا بتا سکتا ہوں کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ اپنے دل کا حال تو یا آپ جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے۔مَیں تو نہیں جانتا۔ ہمیں غیب کا علم تو نہیں ہے۔
آخر میں حضورِانور نے انتہائی فکر انگیز امر کی جانب توجہ مبذول کراتےہوئے فرمایا کہ آپ مجھے آ کرکوئی بات بتاتے ہیں اور مَیں کہتا ہوں کہ ہاں! بڑی اچھی بات ہے، لیکن نیّت میں آپ کی کچھ اَور ہے کہ مَیں اس فلاں آدمی کی ٹانگیں کھینچوں یا اس کو سزا دلواؤں، تو وہ تو آپ کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔اس لیے اِستغفار پڑھ کے، دعا کر کے بات کرنی چاہیے۔

ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سٹاک ایکسچینج کے حوالے سے عرض کیا کہ بینکنگ کمپنیز ہیں، ان کا کاروبار سود پر ہوتا ہے، اس طرح کریڈٹ کارڈ کمپنیز ہیں، وہ کُلیۃً سود پر کام کرتی ہیں۔ اس طرح جو انٹرٹینمنٹ کمپنیز جس طرح کہ گوگل، نیٹ فلکس وغیرہ ہے، میڈیا کمپنیز ہیں، ان میں اچھی باتیں بھی ہیں اور گندبھی دکھایاجاتاہے۔ اس حوالے سے سائل نے راہنمائی طلب کی کہ ایسی کریڈٹ کارڈ کمپنیز، بینکس اور انٹرٹینمنٹ کمپنیز کے شیئرز میں انویسٹمنٹ (سرمایہ کاری) کی جاسکتی ہے، کیایہ شرعی طور پر حلال اور جائزہے؟

حضورِانور نے اس پر حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں اصولی راہنمائی فرمائی کہ بات یہ ہے کہ وہی اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيّٰتِ۔ نیز واضح فرمایا کہ دنیا میں آجکل کوئی ایسا کام نہیں،جہاں غلط کام نہیں ہو رہے، ملکوں کے ٹی وی چینل ہوں یا کہیں کے ہوں یا اگر کوئی لمیٹڈ کمپنی ہے ان کے ہوں، وہ بھی اپنے اشتہار دیتے ہیں تو گندے اشتہار دے دیتے ہیں۔ کوئی بھی پروڈکٹ بنانے والی چیز ہے، وہ اپنے اشتہار دے رہے ہیں، تو ننگی عورتوں کی تصویریں دکھا دیتے ہیں۔ تو اس گہرائی میں گئے تو پھر کسی بزنس میں بھی آ جکل نہیں آ سکتے۔ اس لیے آپ کی نیّت نیک ہونی چاہیے۔ ہاں! اگر اس سے بہتر بزنس مل جاتا ہے، جو ان چیزوں سے پاک ہے، تو بہتر ہے کہ انسان اس میں جائے اور ان چیزوں میں نہ پڑے، لیکن اگر کوئی مجبوری ہے تو اَور بات ہوتی ہے۔
حضورِانور نے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی کہ باقی حرام کھانے کی اجازت بھی بھوکے وقت میں ہے۔تو یہ بھوکا تو نہیں مر رہا،جس نے یہاں انویسٹمنٹ کرنی ہے، وہ پیسے والا ہی ہے۔ تو وہ کہیں اَور انویسٹمنٹ کر سکتا ہے۔ ضرور ان جگہوں پر ہی جانا ہے،جہاں گند ہو رہا ہے۔بہتر یہی ہے کہ اگر اس سے بچ سکتے ہیں تو بچا جائے۔ اور جب پتا ہے کہ یہاں غلط کام ہو رہا ہے اور اگر کہیں انویسٹمنٹ کی بھی ہے تو پھر یہ نیّت ہونی چاہیے کہ جو اچھے کام ہیں، ان کے لیےمَیں انویسٹمنٹ کر رہا ہوں۔یہ بڑےsubtle قسم کا فرق ہے۔ یہ خود سوچنا پڑے گا۔
آخر میں حضورِانور نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار فرمایا کہ لیکن میرا تو یہی ہے، مَیں اگر اپنا کہوں تو اگر میرے پاس پیسے ہوںتومَیں خود ان کمپنیوں میں انویسٹمنٹ نہ کروں۔

ایک شریکِ مجلس نے اپنے ذاتی مشاہدہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا کہ پچھلے کچھ دن جو اسلام آباد میں آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو مَیں نے دیکھا کہ آپ فجر کی نماز میں نسبتاً لمبی تلاوت فرماتے ہیں۔ کیااس کی کوئی خاص حکمت یا اہمیت ہے؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم فجر کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھا کرتے تھے، یہی خلفائے راشدین اور خلفائے احمدیت کا بھی طریقِ عمل رہا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کی پیروی میں ہے۔
بعد ازاںحضورِانور نے شاملینِ مجلس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ چلو پھراللہ حافظ ہو!
ملاقات کے اختتام پر تمام حاضرینِ مجلس کو حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے کی سعادت حاصل ہوئی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ ساؤتھ ویسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button