یادِ رفتگاں

میرے نانا ابو۔ ڈاکٹر بشیر احمد فاروقی صاحب

میرے نانا ابو کا نام ڈاکٹر بشیر احمد فاروقی تھا جوکہ ضلع منڈی بہاؤالدین کے گاؤں گڈہو کلاں کے رہائشی اور جماعت احمدیہ سعداللہ پور سے تعلق رکھتے تھے۔وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت قابل ہومیوپیتھی ڈاکٹر اور ٹیچر تھے۔ان کوانسانیت کی خدمت کا بہت موقع ملا۔ نانا ابو ایک نہایت شفیق باپ، مثالی شوہر، فرمانبردار بیٹے اور بہت اچھے ہمسایہ تھے۔وہ ہر ایک سے حسنِ سلوک کرتے اور دوسروں کی غلطیوں پر ان سے درگزر کرتے۔انہوں نے ۶۳؍سال کی عمر میں ۱۹۹۹ء میں وفات پائی۔


میرے نانا ابو بہت نیک فطرت، شریف النفس انسان اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔چونکہ ان کو بچپن سے ہی دین سے شغف تھا، انہوں نے احادیث سن رکھی تھیں کہ یہ امام مہدی کے آنے کا وقت ہے۔احادیث کی روشنی میں ان کویہ اندازہ تھا کہ یہ امام مہدی کے ظہور کا زمانہ ہے۔سب نشانیاں پوری ہو چکی ہیں اور امام مہدی کہاں ہے؟ان کوامام مہدی کی تلاش تھی۔وہ ایسی جگہوں پر جاتے تھے جہاں سے انہیں لگتا تھا کہ ان کی روحانی ترقی ہوگی۔وہ مختلف مولویوں کے پاس جاکر سوال کیا کرتے تھےلیکن ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ایک دفعہ ان کا ایک احمدی سے رابطہ ہوا۔وہ احمدی ان کوجلسہ سالانہ پر لے گئے۔میرے نانا ابو کہتے ہیں کہ انہوں نے آخری دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سنی۔ اس تقریر کا ان کےدل پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ ان کویقین ہو گیا کہ یہ جماعت سچی ہے ۔انہوں نے جلسہ سالانہ سے کتب لیں اور ان کامطالعہ کیا۔پھر بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے خاندان میں احمدیت آئی۔
نانا ابو میں بہت عاجزی اور انکسار تھا اور وہ ہر قسم کی ترقیات کی وجہ محض حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کو سمجھتے تھے۔میرے ماموں بتاتے ہیں کہ جب وہ کبھی سکول میں اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن لیتے تھے اور جلدی سے گھر آ کر ناناابو کو بتاتے تو وہ انہیں ہمیشہ یہی کہتے کہ یہ سب جماعت کی برکتیں ہیں اور حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کی وجہ سے ہے۔وہ یہ مثال دیا کرتے تھے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موسویؑ کے ماننے والوں کو دنیا میں ترقی دی ہے اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ مسیح محمدیؐ کے ماننے والوں کو دنیا میں ترقی دے گا اور دوسروں سے ممتاز کرے گا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے نانا ابو کا اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق تھا۔ان کواکثر سچی خوابیں آیا کرتی تھیں ۔جب وہ فوت ہونے لگے تو ان کوپہلے خوابیں آگئی تھیں کہ ان کی موت قریب ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر خوشی سے رویا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کووقت کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔میری امی کہتی ہیں کہ جب بھی وہ نماز پڑھاتے تھے تو ان کی آواز میں ایک سوز ہوتا تھا ۔وہ الحمدللہ تہجد گزار تھے۔اللہ تعالیٰ پر بہت توکل تھا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر ہی اپنا ہر معاملہ چھوڑ دیتے تھے۔ہر پریشانی میں وہ صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے تھے۔ جب میرے نانا ابو بیمار ہوئے تو لوگ ان کی عیادت کرنے آتے تھے۔اسی طرح ایک ہمسائی عیادت کے لیے آئیں اور رونے لگ گئیں ا ورکہنے لگیں کہ ڈاکٹر صاحب اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو آپ کے بچوں کا والی وارث کون ہوگا؟اس پر میرے نانا ابو نے کہا کہ میں ان کاوالی وارث کبھی تھا ہی نہیں،ان کاوالی وارث ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ ہی ہے۔اور میرے بعد بھی ان کاوالی وارث اللہ ہوگا(ان شاءاللہ)۔اور ایسا ہی ہوا۔اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات کے بعد ان کےبچوں کو سنبھال لیا۔اور اپنے خاص فضلوں سے نوازا اور آج بھی نواز رہا ہے۔الحمدللہ
نانا ابو کو خلافت سے بے لوث محبت تھی۔خلافت سے محبت اس حد تک تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔جب شروع کرتے اور ایک جملہ لکھتے تو آنسوؤں سے کاغذ تر ہو جاتے اور چھوڑ دیتے اگلے دن پھر یہی کوشش کرتے اور ایسے کئی دن لگ جاتے ۔ ایک دفعہ جب حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ  بطور صدر مجلس انصاراللہ ضلع گجرات تشریف لائے تو نانا ابو کو نظم پڑھنے کا موقع ملا۔ جب نظم پڑھ کے سٹیج سے نیچے اترے تو حضور ؒنے گلے لگایا اور منہ پر ہاتھ پھیرا۔نانا ابو کہتے تھے کہ اس سے حضور کا اشارہ تھا کہ داڑھی رکھ لیں۔اس کے بعد نانا ابو نے داڑھی رکھ لی۔نانا ابو نے اس واقعہ کا ذکر کئی سال بعد ایک خط میں کیا کہ آپ کو یاد ہے کہ میں نے فلاں سال فلاں گاؤں میں یہ نظم پڑ ھی تھی اور آپ سے داد وصول کی تھی اس پر حضور نے جواب میں لکھا تھا کہ مجھے یاد ہے تو اس پر نانا ابو بہت خوش ہوئے کہ حضور نے انہیں پہچان لیا ہے اور یہ خوشی ان کی آخری دم تک رہی کہ میرے آقا نے مجھ ادنیٰ کو یاد رکھا ہے۔وہ خلیفہ وقت کی کامل اطاعت کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔خلافت کی رضا ان کی رضا ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ میرے نانا ابو بہت رو رہے تھے۔میری امی نے جب ان سے وجہ پوچھی تھی تو انہوں نے کہا کہ میرے پیارے حضور مجھ سے اتنی گرمی میں ملنے آئے تھے۔انہوں نے یہ کشفی حالت میں دیکھا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ان سے ملنے آئے تھے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ہجرت کرکے انگلینڈ تشریف لے گئےتو نانا ابو ان کی تصویر دیکھ کر رویا کرتے تھے۔ ان کی بہت خواہش تھی کہ ان کی خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات ہو۔لیکن ان کےپاس وسائل نہیں تھے کہ وہ انگلینڈ جا سکیں یا قادیان جلسہ پر جا سکیں۔
قبول احمدیت کے بعد نانا ابو نے حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش کی۔ہمیشہ اپنے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات رکھتے تھے۔وہ جیسے گھر میں تھے ویسے ہی باہر تھے۔ان کاقول اور فعل ایک تھا۔ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا سلوک تھا۔غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔کبھی بھی غریب اور امیرمیں فرق نہیں کیا۔ ہر ایک سے اچھے سے بات کرتے تھے اور اعلیٰ اخلاق سے پیش آتے تھے۔مربیان کی بہت عزت کرتے تھے اور کہتے تھے یہ آسمان کے ستارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے در کے درویش ہیں ۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی ادائیگی کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے ۔انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی زندگی خدمت دین کے لیے وقف کر دی تھی۔
جب میری نانو کھانا بناتی تھیں تو اگر اُس میں کوئی کمی بیشی ہوتی تھی تو میرے نانا ابو نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا بلکہ تعریف کی۔ وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ واقعہ سنایا کرتے تھے جب حضرت اماں جان نے پہلی مرتبہ آپ علیہ السلام کے لیے گڑ والے چاول بنائے اور صحیح نہیں بنے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس کی بہت تعریف فرمائی۔وہ اپنی اہلیہ کا اس طرح خیال رکھنے کی کوشش کرتے تھے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا۔
اپنے والدین کی بہت فرمانبرداری کرتے تھے۔وہ ان کےچھوٹے بیٹے تھے۔ نانا ابو کی بیعت کے بعد ان کی والدہ نے فوراً بیعت کر لی جبکہ والد کو خواب آئی تھی اور اس خواب کے بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی تھی۔شادی سے پہلے گھر سے کافی دُور کام کیا کرتے تھے، ان کی والدہ نے انہیں کہا کہ مجھے پیسے نہیں چاہئیں تم بس میری آنکھوں کے سامنے رہا کرو۔انہوں نے فوراً کام چھوڑ دیا اور اپنی والدہ کی اطاعت کی۔
ان کےبچے کہتے ہیں کہ وہ نہایت ہی شفیق باپ تھے۔وہ بچوں کو مارنے کے سخت خلاف تھے۔ہمیشہ نرمی سے بات کرتے اور ہمیشہ اچھی باتوں کے لیے اپنا نمونہ پیش کرتے۔وہ بارہ سال ہائی سکول لنگے میں نویں اور دسویں جما عت کو ریاضی اور تاریخ پاکستان پڑھاتے رہے اور اس وقت سکول میں بچوں کو سبق یاد نہ کرنے پر مارنا معمولی سی بات سمجھی جاتی تھی لیکن انہوں نے اس عرصہ بارہ سال میں کبھی بھی کسی بچے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔وہاں کے طلبہ میرے نانا ابو کو کہتے تھے کہ آپ جیسا شفیق ماسٹر ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔
نانا ابو کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ جماعتی لٹریچر کے علاوہ احادیث کی کتب بھی پڑھی ہوئی تھیں اور ان کے ذریعہ مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جواب دیا کرتے تھے ۔ سوالات کرنے والوں کو ان کی ذہنی صلاحیت کے مطابق جواب دینے کا ملکہ بھی نانا ابو کو خاص اللہ تعالیٰ سے عطا ہوا تھا۔ایک دفعہ ان کاایک بہت بڑے عالم سے مباحثہ ہوا۔وہ بہت اعتراضات کرتا تھا اور اُس کے سوالوں کے جواب گاؤں میں کوئی نہیں دے سکتا تھا۔ناناابو جب اس کے پاس مباحثہ کرنے گئے تو اُس نے بہت سے اعتراضات کیےاور نانا ابو نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر اعتراض کا جواب دیا اور ایسا جواب دیا کے اس کے پاس کوئی اعتراض رہ ہی نہیں گیا تھا ۔لوگ جب کوئی سوال کرتے تھے تو کہتے تھے کہ ہمیں ڈاکٹر صاحب سے جواب چاہیے۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نانا ابو کو جنون کی حد تک تبلیغ کا شوق تھا۔قبول احمدیت کے بعد جب بھی وقت ملتا وہ تبلیغ کرتے۔جب بھی کوئی مربی صاحب ان سے کہتے تھے کہ دورہ پہ جانا ہے یا تبلیغ کرنے جانا ہے تو وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوتے اور کبھی بھی سستی نہ دکھاتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تبلیغ سے بہت سے نفوس آغوش احمدیت میں آئے۔ جو بھی بیعت کرنا چاہتا تھا ان سے نانا ابو کہتے تھے کہ پہلے جماعتی کتب کا مطالعہ کریں اور پھر اس کے بعد وہ بیعت کرواتے تھے۔انہوں نے جتنی بیعتیں کروائی ہیں وہ سب الحمدللہ بہت مخلص احمدی ہیں ۔ان کو تبلیغ کا اتنا شوق تھا کہ وہ اگر کسی کو دوائی دینے جاتے تھے تو وہاں ان کو تبلیغ کرتے تھے اور اکثر بہت دیر ہو جاتی تھی۔ان کی عمر پچاس ساٹھ سال کی ہوئی تو وہ تب بھی سائیکل پر دورہ پہ جاتے تھے۔اور کبھی بھی تھکتے نہیں تھے اور نہ ہی تنگ پڑتے تھے۔جب بھی تبلیغ کے لیے نکلتے ان کے چہرے پر ایک خاص خوشی اور چمک ہوتی تھی اور جب واپس گھر آتے تو بہت شوق سے جو سوال و جواب ہوتے تھے اپنے بچوں کو بتاتے تھے اور ان کے بچے بھی بہت شوق سے سنتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کوموقع دیا کہ انہوں نے تبلیغ کی اور بیعتیں بھی کروائیں لیکن پھر بھی وہ اپنے آخری وقت میں روتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے اور وقت ملتا اور میں دین کی اور خدمت کرسکتا۔دنیاوی لذات کو انہوں نے کبھی بھی اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا، ان کے لیے باقی چیزیں ثانوی تھیں۔
نانا ابو جماعت احمدیہ سے ہمیشہ وفادار رہے۔وہ نظامِ جماعت کی اطاعت کرتے تھے۔انہوں نے ذوالفقار بھٹو کا دور دیکھا اور ان کابائیکاٹ بھی ہوا۔ نانا ابو کے بڑے بھائی ان کے پاس آئے۔وہ غیراحمدی تھے ۔وہ ڈر گئے تھے کہ اُن کے بھائی کو کچھ ہو نہ جائے۔ اِس پر میرے نانا ابو نے کہا تھا کہ یہ جماعت خدا تعالیٰ کی جماعت ہے اور بھٹو ختم ہو جائے گا۔جب بھٹو مر گیا تو یہ دیکھ کر ان کے بڑے بھائی جو میرے دادا ابو بھی تھے وہ احمدی ہو گئے۔
جب ان کا بائیکاٹ ہوا تو میرے نانا ابو کو مخالفین گھر کے سامنے آکر بہت گالیاں دیتے تھے۔ نانا ابو اپنے بچوں کو کہتے تھے کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم دین کے لیے گالیاں سن رہے ہیں۔وہ خوشی سے جماعت کے لیے ہر تکلیف اٹھاتے تھے۔جب ان کابائیکاٹ ہوا تو وہ بہت خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی توفیق دی کہ وہ دین کے لیے تکلیف اٹھائیں۔اور ان کااللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان بھی بہت مضبوط رہا اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔الحمدللہ۔
اللہ تعالیٰ میرے نانا ابو کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اُن کی اولاد کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(امۃالسبوح)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ذکرِ خیر محترمہ نسیم بی بی صاحبہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button