مکتوب ایشیا(فروری تا مارچ ۲۰۲۵ء)
براعظم ایشیا کے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ
پاک آذربائیجان اقتصادی معاہدے
پاکستان اپنی معیشت کی زبوں حالی کے باعث اس وقت مشکلات کا شکار ہے۔وزیراعظم اسی مقصد کے لیے ۲۵؍فروری کو وسطی ایشیا کے ایک اہم ملک آذربائیجان کے دوروزہ دورے پر گئے۔آذربائیجان کے دارالحکومت باکو(Baku) میں آذری صدر الہام علیوف سے ان کی ملاقات کے دوران کثیر الجہتی تعاون کے کئی معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔جن کی رُو سے پاکستان میں آذر بائیجان کی جانب سے ۲؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق امور کو حتمی شکل دینے،دوطرفہ تجارتی حجم کو بڑھانے اور مشترکہ دفاعی پیداوار کو فروغ دینے پر اتفاق ہوا۔تعاون کے ان منصوبوں کو اپریل میں صدر الہام علیوف کے دورہ پاکستان کے دوران عملی شکل دی جائے گی اور حتمی دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے۔دارالحکومت باکو میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان تیل وگیس،زراعت،ماحول کے تحفظ،سیاحت،تعلیم اورسائنس وٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے متعدد معاہدوں اور تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ایک معاہدے کے تحت آذربائیجان کی کمپنی کراچی سے شمالی علاقوں تک تیل کی پائپ لائن بچھائے گی۔ پاکستان سے آذربائیجان کو باسمتی چاول برآمد کیا جائے گا۔آذربائیجان کے صدر نے اس سلسلے میں پاکستانی چاول پر درآمدی ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ایک اور معاہدے کے تحت مشترکہ ڈیفنس مینوفیکچرنگ فیسیلٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا،جس سے اس شعبے میں تعاون کو فروغ حاصل ہوگا۔
غزہ کے بارے میں امریکی منصوبہ مسترد
اور بحالی کے عرب منصوبے کی عالمی حمایت
فلسطین میں جاری انسانیت کش اقدامات کے ذمہ دار اور عالمی قوت ہونے کے دعویدار امریکہ کی جانب سے فلسطینیوں سے ان کے گھر بار چھین لینے کی سازش اور دھمکیاں انسانیت کے خلاف سنگین جرم سے کم نہیں۔او آئی سی (Organization of Islamic Cooperation)نے بجا طور پر ٹرمپ کے اس خونیں، استعماری اور سازشی منصوبے کو مسترد کردیا ہے، جو اس قابل بھی نہیں تھا کہ اس پر غور کیا جائے۔ امریکی منصوبہ اپنے ہی ظلم و جبر کے بوجھ تلے ٹوٹتی، تباہ ہوتی اسرائیلی حکومت اور ریاست کو بچانے اور عالمی فوجداری عدالت کو مطلوب نیتن یاہو کی جانب سے غزہ میں انسانی المیے کومزید سنگین بنانے کی کوششوں سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے۔ جنگ بندی اور معاہدوں کے باوجود اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ حقیقی طور پر امریکہ کی جانب سے گریٹر اسرائیل کے قیام کی بڑی سازش کا اوّلین قدم نظر آتا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے غزہ جنگ بندی توڑ دی، غزہ پرصیہونی طیاروں کی۱۸؍مارچ کو سحری کے وقت امریکی ساختہ بموں سے وحشیانہ بمباری، حماس کے وزیراعظم، نائب وزیر انصاف اور نائب وزیر داخلہ سمیت ۴۱۳؍فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے،شہداءمیں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ امریکہ نے تصدیق کی کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے سے قبل صدر ٹرمپ سے مشاورت کی تھی،وائٹ ہاؤس نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس نے اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کیا اس لیے تمام تر ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطین میں اپنے باقی ماندہ قیدیوں کی زندگیوں کی قربانی دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ، روس، چین، فرانس،جرمنی، برطانیہ، یورپی یونین اور اٹلی سمیت دیگر ممالک نے اسرائیلی حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ قطر،سعودی عرب، ایران، ترکی، مصر اور اردن سمیت دیگر ممالک نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف او آئی سی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے اور اس کے باشندوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ مسترد کرتے ہوئے، عرب لیگ کا غزہ بحالی کا منصوبہ منظور کرلیا ہے اور عالمی برادری سے حمایت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عرب لیگ نے یہ منصوبہ قاہرہ میں ہونے والے اجلاس میں پیش کیا تھا۔ منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر ۵۳؍ارب ڈالر کی لاگت سے فلسطین اتھارٹی کے ذریعے غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی۔ ا س منصوبے کو عرب ملکوں کے بعد ۵۷؍رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے علاوہ چار اہم یورپی ملکوں کی حمایت کا حاصل ہوجانا اور اس کے مقابلے میں امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر امریکی قبضے اور یہاں سے فلسطینی آبادی کو دوسرے ملکوں میں دھکیل کر غزہ کو تفریح گاہ بنادینے کے غیر منصفانہ منصوبے کا مسترد کردیا جانا، اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ عرب منصوبہ ہر اعتبار سے معقول، منصفانہ اور قابل عمل ہے۔ اس تجویز کا مقصد پیشہ ور فلسطینی ماہرین پر مشتمل عبوری انتظامیہ کے زیر اہتمام غزہ کے ۲۴؍لاکھ باشندوں کو بے گھر کیے بغیر پانچ سال کے اندر غزہ کی تعمیر نو کرنا ہے، جس کے بعد اہل غزہ انتخابات کے ذریعے اپنی منتخب حکومت قائم کرسکیں گے۔
۵۷؍مسلم ملکوں پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس نے سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک ہنگامی اجلاس میں اُس تجویز کو باضابطہ طور پر منظور کیا۔اس سے تین دن قبل عرب لیگ نے قاہرہ میں ہونے والے ایک اجلاس میںاس کی توثیق کی تھی۔اسلامی ملکوں کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ او آئی سی عرب منصوبے کو منظور کرتا ہے، بین الاقوامی برادری، عالمی اور علاقائی فنڈنگ کے ادارے فوری طور پر ضروری مدد فراہم کریں۔حماس بھی اس منصوبے کی حمایت کر چکی ہے۔ فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ اس کی حمایت کر چکے ہیں جبکہ دیگر ممالک میں بھی اسے خوب پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ او آئی سی کو ایک متحرک پلیٹ فارم میں تبدیل کیا جائے تاکہ وہ امت مسلمہ کی مضبوط آواز بن کر سامنے آسکے۔
جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملہ
کوئٹہ سے ۱۵۷؍اور سبی سے۲۱؍کلومیٹر دُور وادی بولان میں ڈھاڈر کے علاقے میں پنیر ریلوے اسٹیشن کے قریب مشکاف ٹنل کے مقام پر ۱۱؍مارچ کی دوپہر دہشت گردی کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔کالعدم تنظیم بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی )کے دہشت گردوں نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو روکنے کے لیے ریلوے پٹڑی دھماکے سے اڑادی۔ڈرائیور قریبی پہاڑوں سے ہونے والی فائرنگ سے بچنے کے لیے ٹرین کو واپس سرنگ میں لے آیا،جسے دہشت گردوں نے گھیرے میں لے کر ہائی جیک کرلیااور عورتوں اور بچوں سمیت تقریباً ساڑھے چارسو مسافروں کو یرغمال بنالیا۔سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرکے۱۹۰؍مسافر بازیاب کرالیے۔اس دوران دہشت گردوں اور فورسز میں شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران ۳۰؍دہشت گرد واصل جہنم ہوئے۔جبکہ ٹرین ڈرائیور اور سیکیورٹی اہل کاروں سمیت ۱۰ا؍افراد نے جام شہادت نوش کیا۔دہشت گرد مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرکے ان میں سے کافی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ پہاڑوں پر لے گئے۔یہ مسافر وہ لوگ ہیں جو عید گزارنے کے لیے بلوچستان سے اپنے آبائی علاقوں کو جارہے تھے۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے تمام۳۳؍دہشت گردوں کو عین موقع پر کیفرکردار تک پہنچانےاور ٹرین میں سوار ۳۳۹؍مسافر بحفاظت بازیاب کرانے میں پاک فوج، بالخصوص اس کی ضرار کمپنی نے بے مثال کردار ادا کیا۔
پاک ازبک معاہدے
وزیراعظم پاکستان کے دورہ ازبکستان میں ان کے استقبال اورصدر شوکت مرزا یوف سے دو طرفہ اور وفود کی سطح پر ملاقات، دفاع و ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں، مفاہمتی یادداشتوں، مشترکہ اعلامیےاور مشترکہ پریس کانفرنس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کا عزم نمایاں ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاع، ٹیکنالوجی، تیکنیکی تربیت، میڈیا اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون مضبوط بنانے کے لیے دس معاہدوں اور ایم اویوز پر دستخط ہوئے ہیں۔ فریقین نے سائنس، تحقیق، ٹیکنالوجی، سیاحت، سفارتی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے ویزا فری سفر، ملٹری انٹیلی جنس، داخلی امور، پیشہ ورانہ و تیکنیکی تربیت اور سفارتکاروں کی تربیت کے شعبوں میں معاہدوں کی دستاویزات کا تبادلہ کیاجبکہ آئندہ چار برسوں میں باہمی تجارتی حجم دو ارب ڈالر تک پہنچانے پر اتفاق ہوا۔
ایردوان کی تیسری مرتبہ صدر بننے کی کوششیں
۲۳؍فروری کو انقرہ سپورٹس ہال میں منعقدہ برسر اقتدار آق پارٹی (جماعت انصاف و ترقی )کے گرینڈ کنونشن میں صدر رجب طیب ایردوان کو ایک بار پھر پارٹی کا چیئرمین منتخب کرلیا گیا ہے۔ پارٹی کے نئے چیئرمین کےانتخاب میں صدر ایردوان کے سامنے کوئی بھی امیدوار کھڑا نہیں ہوا تھا۔ صدر ایردوان، آق پارٹی کے ۱۶۰۷؍مندوبین میں سے ۱۵۴۷؍کے ووٹ حاصل کرتے ہوئے پارٹی کے نئے سرے سے چیئرمین منتخب ہو گئے ہیں اور قرین قیاس یہی ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر ملک کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یہ طریقہ استعمال کیا ہے۔ اس طرح انہوں نے ایک بار پھر اپنی پارٹی کی مکمل حمایت حاصل کرلی ہے لیکن ان کے دوبارہ سے یعنی تیسری بار صدر منتخب ہونے کی راہ میں آئین کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔ ایردوان نے اس رکاوٹ کو عبور کرنے کے لیے پہلے ہی سے پارلیمنٹ میں کُردوں کی نمائندگی کرنے والی جماعت dem کے ساتھ ملک میں دہشتگردی کے خاتمے کےلیے مذاکرات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اس طرح وہ کردوں کی جماعت کی ہمدردیاں اور حمایت حاصل کرتے ہوئے آئین میں کسی بھی امیدوار کے تیسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی پابندی کوآئینی دو تہائی اکثریت حاصل کرتے ہوئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔
صدر ایردوان ملک میں اپنی مقبولیت کی جانچ پڑتال کروانے کے لیے بڑی باقاعدگی سے سروے بھی کرواتے رہتے ہیں۔صدر ایردوان کے پھر سے صدر منتخب ہونے سے متعلق کروائے گئے سروے،جس میں شہریوں سے ’’آپ اگلے صدارتی انتخابات میں کسے صدر دیکھنا چاہتے ہیں؟‘‘سوال کیا گیا تو سروے کے ۳۵؍فیصد شرکاء نے صدر ایردوان کے حق میں جبکہ ان کے بعد انقرہ کے میئر منصور یاواش (جو ری پبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں) نے ۲۸؍فیصد ووٹ اور استنبول کے میئر اکرم امام اولو نے ۲۲؍فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ان حالات میں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ایردوان نے آئندہ پھر سے صدر منتخب ہونے کے لیے بھر پور طریقے سے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
ٹرمپ اور ایران مذاکرات،پُر امن حل کی توقع
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ۸؍مارچ کو فاکس بزنس سے گفتگو میں یہ انکشاف کہ انہوں نے ایرانی قیادت کو خط لکھا تھا جس میں ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر ایران بات چیت کا راستہ اختیار نہیں کرتا تو پھر امریکہ کو فوجی کارروائی کرنا ہو گی جو ایران کے لیے خوفناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم دنیا میں ایک اور ایٹمی طاقت کے وجود میں آنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بظاہر یہ خط ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کو لکھا گیا تھا تاہم وائٹ ہاؤس نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، فوجی کارروائی یا معاہدہ۔ میں معاہدہ کرنے کو ترجیح دوں گا، ایران کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا۔ ایرانی حکومت نے ایسے کسی خط کے موصول ہونے کی تصدیق نہیں کی۔ تاہم ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ایک غیرملکی خبر رساں ادارے کے سوال پر اپنی حکومت کا موقف ان الفاظ میں واضح کیا کہ ہم اس وقت تک امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے براہ راست مذاکرات نہیں کریں گے، جب تک وہ اپنی دباؤ کی پالیسی اور اپنی دھمکیاں جاری رکھے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو فوجی کارروائیوں سے تباہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی تواس کا دائرہ بہت وسیع ہوجائے گا اور پورے خطے میں جنگ کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ مذاکرات کے لیے صدر ٹرمپ کی دھمکی آمیز پیشکش پر ایرانی وزیر خارجہ کا یہ ردعمل ایک خوددارو خود مختار مملکت کے متوقع رویے کے عین مطابق ہے جبکہ ایک عالمی طاقت کے سربراہ کی حیثیت سے صدر ٹرمپ سے جس متحمل مزاجی، حکمت و تدبر اور غیر عجلت پسندانہ طرز عمل کی توقع کی جاتی ہے، بالعموم وہ اس پر پورا نہیں اترتے۔
مزید پڑھیں: مکتوب افریقہ(مارچ ۲۰۲۵ء)