خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍فروری ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: آج میں پیشگوئی مصلح موعود کے بعض پہلوؤں کا ذکر کروں گا۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوال کہ حضرت مصلح موعودؓ کی سالگرہ کیوں منائی جاتی ہے؟کی بابت کیاوضاحت فرمائی؟

جواب: فرمایا: میں بچوں اور بعض نوجوانوں کو بھی اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں، پہلے بھی کئی دفعہ دے چکا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ جب ہم سالگرہ نہیں مناتے تو حضرت مصلح موعودؓ کی سالگرہ کیوں منائی جاتی ہے؟ اس بارے میں واضح ہو جیساکہ میں نے کہا میں کئی مرتبہ بیان کرچکا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی پیدائش کی سالگرہ نہیں منائی جاتی بلکہ پیشگوئی کے پورا ہونے پر جلسے کیے جاتے ہیں۔ حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ کی پیدائش تو ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کی ہے۔ دوسرے جن گھروں میں یہ ذکر نہیں ہوتا وہاں خود والدین کو پڑھ کر بچوں کو بتانا بھی چاہیے،سمجھانا بھی چاہیے کہ پیشگوئی مصلح موعود کیا ہے۔ یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو پہلے نوشتوں کے مطابق جن کی پہلے انبیاء نے بھی خبر دی اور پھر آنحضرتﷺ کے ارشاد کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو یہ اعلان کرنے کا فرمایا تھا۔

سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح موعودؓ کی بابت مولانا غلام رسول صاحب مہر کےکیا تاثرات بیان فرمائے؟

جواب: فرمایا: مولانا غلام رسول صاحب مہر ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ آپ یعنی مولانا غلام رسول صاحب 1885ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ایک محقق، مصنف، ادیب، صحافی اور مؤرخ تھے۔ روزنامہ زمیندار سے منسلک رہے۔ بعد میں مولانا عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر اخبار انقلاب لاہور سے جاری کیا۔ ۲۰ اور ۲۵؍دسمبر ۱۹۶۶ء کو شیخ عبدالماجد صاحب آف لاہور مولانا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوران گفتگو حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق مولانا غلام رسول مہر صاحب نے بتایا کہ آپ لوگوں کی کسی کتاب میں اس عظیم الشان انسان کے کارناموں کی مکمل آگاہی نہیں ملتی۔ ہم نے انہیں قریب سے دیکھا ہے۔ کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ پرائیویٹ تبادلہ خیالات کیا ہے۔ مسلم قوم کے لیےتو ان کا وجود سراپا قربانی تھا۔ پھر کہنے لگے کہ ایک دفعہ مجھے راتوںرات قادیان جا کر حضرت صاحب سے مشورہ کرنا پڑا۔ وہ سفر اب بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ انسانیت کے لیے اس شخص کے دل میں بڑا درد تھا۔ یعنی حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں بڑا درد تھا۔ اورجہاں کہیں مسلم قوم کی بہتری اور بہبودی کا معاملہ درپیش ہوتا آپ کی قابل عمل تجاویز ہمارا حوصلہ بڑھانے کا موجب بنتیں۔ ایسے مواقع پر آپ کا رؤاں رؤاں قومی درد سے تڑپ اٹھتا تھا۔ فرقہ بازی کا تعصّب میں نے اس وجود میں نام کو نہیں دیکھا۔ مرزا صاحب بلا کے ذہین تھے۔پیشگوئی کے الفاظ ہیں ذہین و فہیم ہوگا۔ غیر از جماعت بھی اس کی گواہی دے رہا ہے۔ پھر سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے پاک و ہندمیں سیاسی نہ مذہبی لیڈر ایسا دیکھا ہے جس کا دماغ پریکٹیکل پالیٹکس میں ایسا کام کرتا ہے جیسا مرزا صاحب کا دماغ کام کرتا تھا۔ بے لوث مشورہ، واضح تجویز اور پھر صحیح خطوط پر لائحہ عمل یہ ان کی خصوصیت تھی۔ مجھے ان کی وفات پر بڑا صدمہ ہوا۔ کہنے لگے میں نے اسماعیل صاحب پانی پتی کو تعزیت کا خط بھیجا ہے۔ اس خط میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ حضرت صاحب سے متعلقہ تعزیتی فقرات کو شائع بھی کراسکتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں افسوس! مسلمانوں نے مرزاصاحب کی قدر نہیں کی۔ سخت مخالفت کی آندھیوں کے باوجود میں نے مرزا صاحب کو کبھی افسردہ اور سردمہر نہیں دیکھا۔ مرزا صاحب کے دل کی شمع ہمیشہ روشن رہی۔ ہم یاس و افسردگی کی تصویر بنے ان سے ملاقات کے لیے جاتے اور جب باہر آتے تو یوں معلوم ہوتا کہ ناامیدی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور مقصد میں کامیابی سامنے نظر آ رہی ہے۔ وزنی دلیل دیتے اور قابل عمل بات کرتے اور پھر اسی پر بس نہیں ہر نوع کی قربانی اور تعاون کی پیشکش بھی ساتھ ہوتی جس سے ہم میں جرأت اور حوصلہ کے جذبات پیدا ہوتے۔

سوال نمبر۴: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح موعودؓ کی بابت لالہ کنورسین صاحب سابق چیف جج کشمیرکےکیاتاثرات بیان فرمائے؟

جواب: فرمایا: لالہ کَنورسَین صاحب سابق چیف جج کشمیر آپؓ کے بارے میں ان کا ایک اظہار خیال ہے۔ لالہ کَنور سین صاحب لالہ بھیم سین صاحب کے فرزند تھے۔ انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی تقریر ’’عربی زبان کا مقام اَلْسِنَہ عَالَم میں‘‘ اور صاحب صدر کے شکریہ کے بعد خاص طور پر شکرگزاری کے جذبات سے لبریز انگریزی میں ایک مؤثر تقریر فرمائی جس کا مفہوم یہ تھا، (حضرت مصلح موعودؓ کا ایک لیکچر تھا اس کو سننے کے بعد کہا) کہ آج قابل لیکچرر نے زبانِ عربی کی فضیلت پر جو دلچسپ اور معرکة الآراء تقریر کی ہے، اسے سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔اور اس لحاظ سے بھی مجھے خوشی ہے کہ ذاتی طور پر میرے آپ سے تعلقات ہیں۔ چنانچہ ان کے والد ماجد سے میرے والد صاحب نے عربی سیکھی تھی۔ لالہ صاحب کے والد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عربی سیکھی تھی۔ کہتے ہیں جب میں لیکچر سننے کے لیے آیا تو اس وقت میں نے خیال کیا کہ مضمون اس رنگ میں بیان کیا جائے گا جس طرح پرانی طرز کے لوگ بیان کرتے ہیں۔ کہنے لگے مشہور ہے کہ کسی عرب سے ایک دفعہ زبانِ عربی کی فضیلت کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا اس کی فضیلت کی تین وجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ میں عرب کا رہنے والا ہوں۔ یہ عربی کی فضیلت ہے۔ دوسری یہ کہ قرآنِ مجید کی زبان ہے۔ چلو یہ ماننے والی بات ہے۔ تیسرے اس لیے کہ جنت میں بھی عربی بولی جائے گی۔ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا تھا کہ شاید اس قسم کی باتیں زبانِ عربی کی فضیلت میں پیش کی جائیں گی مگر جو لیکچر دیا گیا وہ نہایت ہی عالمانہ اور فلسفیانہ شان اپنے اندر رکھتا ہے۔ میں جناب مرزا صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیکچر کے ایک ایک حرف کو پوری توجہ اور کامل غور کے ساتھ سنا ہے اور میں نے اس سے بہت ہی حظ اٹھایا اور فائدہ حاصل کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس لیکچر کا اثر مدتوں میرے دل پر قائم رہے گا۔

سوال نمبر۵: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح موعودؓ کی بابت ایک امریکی پادری کےکیاتاثرات بیان فرمائے؟

جواب: فرمایا: شیخ اسماعیل صاحب پانی پتی نے بیان کیا۔ مولوی عمرالدین صاحب شملوی نے ایک دفعہ ایک واقعہ سنایا۔ کہتے ہیں کہ حضور کے خلیفہ ہونے کے چند ماہ بعد یعنی حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ 1914ء میں خلافت پر متمکن ہوئےتو چند ماہ بعد امریکہ کا ایک بڑا پادری قادیان آیا۔ جو بڑا عالم فاضل بھی تھا اور اپنے علم و فضل پر نازاں بھی تھا۔ قادیان پہنچ کر اس نے ہم لوگوں کے سامنے چند مذہبی سوالات پیش کیے جو نہایت وقیع اور بڑے اہم تھے اور ساتھ ہی کہا کہ میں امریکہ سے چل کے یہاں تک آیا ہوں اور میں نے مسلمانوں کی ہر مجلس میں بیٹھ کر ان سوالات کو دہرایا ہے مگر آج تک مجھے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا عالم اور فاضل ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔میں یہاں ان سوالوں کو آپ کے خلیفہ صاحب کے سامنے پیش کرنے کے لیے خاص طور پر آیا ہوں۔ دیکھئے خلیفہ صاحب ان سوالوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔ یہ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ سوالات اتنے پیچیدہ اور عجیب قسم کے تھے کہ انہیں سن کر مجھے یقین ہوگیا کہ حضرت صاحب ابھی بالکل نوجوان ہیں اور الٰہیات کی کوئی باقاعدہ تعلیم بھی انہوں نے نہیں پائی۔ عمر بھی چھوٹی ہے اور واقفیت بھی بہت تھوڑی ہے، وہ ان سوالوں کے جواب ہرگز نہیں دے سکیں گے اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کی بڑی بدنامی اور سبکی ساری دنیا میں ہوگی کیونکہ جب حضرت صاحب ان سوالوں کے جواب نہ دے سکے تو یہ امریکن پادری واپس جا کر ساری دنیا میں اس امر کا پراپیگنڈہ کرے گا کہ احمدیوں کا خلیفہ کچھ بھی نہیں جانتا اور عیسائیت کے مقابلے میں ہرگز نہیں ٹھہر سکتا۔وہ صرف نام کا خلیفہ ہے ورنہ علمیت خاک بھی نہیں رکھتا۔ کہتے ہیں اس صورت حال سے میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ امریکن پادری حضرت صاحب سے نہ ملے اور ویسے ہی واپس چلا جائے مگر مجھے اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی۔ وہ امریکن اس بات پر مصر رہا کہ میں ضرور خلیفہ صاحب سے مل کر جاؤں گا۔ ناچار میں گیا اور میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ ایک امریکن پادری آیا ہے۔ آپؓ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتا ہے۔ اب کیا کریں؟ اس پر حضرت صاحب نے بغیر توقف کے اور بلاتامل فرمایا کہ بلا لو اسے۔ناچار میں اسے لے کر آگیا۔حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دونوں کے درمیان ترجمان کہتے ہیں میں ہی تھا۔ وہ انگلش میں بول رہا تھا۔ آپؓ اردو میں جواب دے رہے تھے۔ یہ ترجمانی کررہے تھے۔ کہتے ہیں امریکن پادری نے کچھ رسمی گفتگو کے بعد اپنے سوالات حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیے جن کا ترجمہ میں نے آپؓ کو سنا دیا۔ حضرت صاحب نے نہایت سکون کے ساتھ ان سب سوالوں کو سنا اور پھر فوراً ان کے ایسے تسلی بخش جوابات دیے کہ میں سن کر حیران ہوگیا۔ مجھے ہرگز بھی یقین نہ تھا کہ ان سوالوں کے حضرت صاحب ایسے پُرمعارف اور بے نظیر جواب دے سکیں گے۔جب میں نے یہ جوابات انگریزی میں امریکن پادری کو سنائے تو وہ بھی حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ میں نے آج تک ایسی معقول گفتگو اور ایسی مدلل تقریر کسی مسلمان کے منہ سے نہیں سنی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا خلیفہ بہت بڑا سکالر ہے اور مذاہب عالم پر اس کی نظر بڑی گہری ہے۔ یہ کہہ کر اس نے بڑے ادب سے حضرت صاحب کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور واپس چلا گیا۔

سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت مصلح موعودؓ کی عراق کےحالات پرکی جانےوالی تقریرپر سکھ اخبار کےتبصرہ کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:عراق کے حالات پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک تقریر فرمائی جو آل انڈیا ریڈیو سٹیشن لاہور سے 25؍مئی 1941ء کو نشر ہوئی۔اس تقریر کا محرک دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور اٹلی کا عراق پر حملہ آور ہونا تھا۔دہلی کے مشہور سکھ اخبار ریاست 2؍جون 1941ء نے اس پر حسب ذیل تبصرہ کیا۔ کہتا ہے کہ ’’غلام اقوام اور غلام ممالک کے کیریکٹر کا سب سے کمزور پہلو یہ ہوتا ہے کہ ان کے افراد اخلاقی سچائی اور جرأت سے محروم ہوجاتے ہیں اور چاپلوسی، جھوٹ، خوشامد اور بزدلی کی سپرٹ ان میں نمایاں ہوجاتی ہے۔‘‘ پھر مثال دے رہا ہے کہ ’’عراق کا رشید علی برطانوی حکومت یا برطانوی رعایا کے نکتہ نگاہ سے غلطی پر ہو یا اس کا برطانیہ سے جنگ کرنا غیر مناسب ہو مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ شخص اپنے ملک کی سیاسی آزادی کے لئے لڑرہا ہے اور اس کو کسی قیمت پر بھی اپنے ملک کا غدار یا ٹریٹر قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ہمارے غلام ملک کے والیانِ ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر دیکھئے جو والئ ریاست عراق کے متعلق تقریر کرتا ہے۔ رشید علی کو غدار کہہ کر پکار رہا ہے۔ اور جو لیڈر جنگ کے متعلق بیان دیتا ہے سب سے پہلے وہ رشید علی کو ٹریٹر قرار دیتا ہے اور پھر اپنے بیان کی بسم اللہ کرتا ہے اور ان والیان ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر‘‘ یعنی یہ مسلمان یا ہندوستان سمیت بعض دوسرے بھی جو لیڈر ہیں، ان لیڈروں کا کیریکٹر ’’غلامی کے باعث اس قدر پست ہے کہ یہ غلط خوشامد اور چاپلوسی کو ہی ملک یا حکومت کی خدمت سمجھ رہے ہیں۔ ہمارے والیانِ ریاست اور لیڈروں کی اس احمقانہ خوشامد کی موجودگی میں قادیان کی احمدی جماعت کے پیشوا کی اخلاقی جرأت آپ کا بلند کیریکٹر اور آپ کی صاف بیانی دلچسپی اور مسرت کے ساتھ محسوس کی جائے گی جس کا اظہار آپ نے پچھلے ہفتہ اپنی ریڈیو کی ایک تقریر میں کیا۔‘‘

مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی2024ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button