عہدیداران اور واقفین اپنے اور دوسروںکے علمی معیار بلند کرنے کی کوشش کریں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۰؍جنوری۲۰۱۵ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ انسانی نفوس کو ان کی وسعت علمی سے زیادہ کسی بات کو قبول کرنے کے لئے تکلیف نہیں دیتا اور وہی عقیدے پیش کرتا ہے جن کا سمجھنا انسان کی حد استعداد میں داخل ہے تا اس کے حکم تکلیف ما لا یطاق میں داخل نہ ہوں۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ432)
پس ہر ایک کے عمل اور سمجھ کی جو استعداد کی حد ہے وہی اس کی نیکی کا معیار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ طاقت سے بڑھ کر کسی کو تکلیف میں نہیں ڈالتا۔
یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر ہمارے دل کی پاتال تک ہے، گہرائی تک ہے۔ کسی بھی قسم کا بہانہ اپنی کم علمی یا کم عقلی یا استعدادوں کی کمی کا اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں چل سکتا۔ اس لئے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے پھر اپنی استعدادوں کے جائزہ لے کر اپنے ایمان اور عمل کو پرکھنا چاہئے۔ یہی نہیں کہ تھوڑے سے تھوڑا معیار ہے تو بس ہمیں چھٹی مل گئی۔ کم از کم معیار بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا وہ یہ تھا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اور ایک مرد کے لئے پانچ نمازیں باجماعت فرض ہیں۔ روزے فرض ہیں اور اگر مال پر قربانی یا زکوٰۃ لگتی ہے تو وہ بھی فرض ہے۔ پس یہ کم از کم معیار ہیں۔ پس ان معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے جائزے لے کر ہر ایک کو پرکھنا چاہئے۔
جیسا کہ میں نے کہا اس حدیث میں اس شخص نے کہا تھا کہ نہ اس سے زیادہ کروں گا نہ کم تو وہ کم از کم معیار تھا جس کا اس نے اعلان کیا تھا۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو نماز بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ادا نہیں کرتے جو فرض ہے جیساکہ مَیں نے کہا مردوں کو باجماعت نماز فرض ہے۔
پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ جس طرح دنیا کے کاموں کے لئے کوشش ہوتی ہے اس سے بڑھ کر دین کے کام کے لئے کوشش ہونی چاہئے اور استعدادوں کو بڑھانے کی بھی کوشش ہونی چاہئے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کمزور لوگ ہمیشہ اپنے لئے سہارے کی تلاش کرتے ہیں لیکن کیونکہ صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں اس لئے بعض لوگ جن میں کچھ قابلیت ہو آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن بعض مزید سہارے کو چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ وہ تھک کر اس لئے بیٹھ جائیں کہ ان کی صلاحیت ہی اتنی تھی۔ دنیاوی قانون میں تو ممکن ہوسکتا ہے کہ صلاحیت سے زیادہ کا وزن کسی پر ڈالا جا رہا ہو لیکن دین کے معاملات میں یہ نہیں ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ کم از کم معیار کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ صلاحیت سے زیادہ کا بوجھ کسی پر لادا جا رہا ہو۔ ہاں بعض باتوں کو سمجھنے کے لئے بعض سہاروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جیسا کہ دنیاوی معاملات میں پڑتی ہے۔ ان سہاروں کی طرف کمزور مومنوں کو رجوع کرنا چاہئے اُسی طرح جس طرح ایک کمزور طالب علم استاد سے بار بار کوئی سبق سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور استاد کی کوشش سے ان کے معیار بہتر ہو جاتے ہیں لیکن استاد مددنہ کرے تو بالکل پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن ایسے استاد جو مددنہ کریں ان کے رویے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ استاد صحیح طور پر اپنے فرائض اور اپنا حق ادا نہیں کر رہے بلکہ اپنے کام سے خیانت کرنے والے استاد ہیں۔ یہاں مَیں دین کے لئے جو استاد مقرر ہیں ان کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں یعنی ہمارے مربیان و مبلغین اور صاحب علم لوگ کہ اللہ تعالیٰ نے جو اُن کی استعدادوں کو بڑھایا ہوا ہے تو وہ ان کا صحیح استعمال بھی کریں اور اپنی استعدادوں سے کمزوروں کی استعدادوں کو علمی لحاظ سے بڑھانے کی کوشش کریں کیونکہ یہ آپ کی طرف سے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا شکرانہ ہو گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی حقیقی رنگ میں شکر گزاری نہ ہو تو انسان گنہگار بن جاتا ہے۔
پس مربیان اور مبلغین اور دوسرے واقفین زندگی جن کو دین کا علم ہے خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ کریں کہ لوگوں کی استعدادوں کو سہارے دے کر اوپر لائیں۔ کم ازکم درجے سے اوپر کے درجوں کی طرف استعدادوں کو بڑھانے میں مدد دیں یا جن درجوں پر ہیں ان کے بھی جو مختلف معیار ہیں ان کو بھی بڑھانے کی کوشش کریں۔ یہ بات جہاں ترقی کرنے والے افراد کے ایمان و یقین میں اضافہ کرنے والی ہو گی وہاں جماعتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
مبلغین اور مربیان کو تو اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ تمہارے علم کی وجہ سے تمہاری استعدادیں بڑھائی گئی ہیں ان کو اپنے بھائیوں کی استعدادیں بڑھانے کے لئے استعمال کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ (آل عمران: 105) اور تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جس کا کام صرف یہ ہو کہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے۔ آجکل اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے کئی جامعات چل رہے ہیں جہاں سے دینی تعلیم حاصل کر کے مربیان اور مبلغین نکل رہے ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ جماعت کی تربیت کی طرف بھی پوری توجہ دیں۔ دینی علم انہوں نے صرف خاص موقعوں اور تقریروں یا مناظروں یا صرف چند افراد کو تبلیغ کرنے کے لئے نہیں سیکھا بلکہ مسلسل اپنے آپ کو اس کام میں مصروف رکھنا ہے۔ یہ ان کے فرائض میں داخل ہے۔ اپنوں کی تربیت بھی کرنی ہے۔ ان کے ایمان و ایقان میں اضافے کے طریق بھی انہیں سکھانے ہیں۔ ان کی استعدادوں کو بڑھانے کی بھی کوشش کرنی ہے اور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کے نئے سے نئے راستے اور طریق بھی ایجاد کرنے ہیں۔ بعض زیادہ تجربہ کار ہو جاتے ہیں۔ یہ کہہ دیتے ہیں کہ کام نہیں ہے۔ جو کام دیا جاتا ہے ہم اسے فوری طور پر بجا لاتے ہیں۔ لیکن یہ چیز غلط ہے۔ صرف یہ بہانے ہوتے ہیں۔ بعض اپنے کام کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہوتے ہیں۔ بعض اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے والے ہوتے ہیں چاہے وہ چند ایک ہی ہوں۔ لیکن اگر ایسے نظر آتے ہیں تو چھوٹی سی جماعت میں بہت ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ ہفتہ میں تین دن سٹوروں میں پھرتے رہتے ہیں۔ مَیں صرف نئے آنے والوں کی بات نہیں کر رہا۔ ان میں سے بہت سے اللہ کے فضل سے ایسے ہیں جو قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں اور ابھی تک وہ ایک جذبے سے کام کر رہے ہیں اور اللہ کرے کہ وہ کام کرتے رہیں۔ اکثریت اپنے وقت کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ جو پہلے جیسا کہ مَیں نے کہا تجربہ کار ہیں ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دینی علم کی جو استعدادیں بڑھائی ہیں ان کے فرائض جو اُن پر عائد کئے ہیں ان کا اپنے طور پر بھی صحیح استعمال کریں اور افراد جماعت کی استعدادیں بڑھانے میں ایک اچھے استاد کی طرح ان کا استعمال کریں۔ دنیا میں کوئی بھی نظام ہو، اللہ تعالیٰ کو تو پتا تھا کہ نظام کو چلانے کے لئے مختلف قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں جو اپنے ایمان اور دینی علم کی استعدادیں بڑھا کر پھر دنیا کی بھلائی کے لئے اسے استعمال کریں اور واقفین زندگی نے اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کیا ہے۔ پس یہ علم اور یہ پیشکش اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس کا حق ادا کریں۔ یہ صحیح ہے کہ اس علم کے سیکھنے اور سکھانے میں بھی سب برابر نہیں ہو سکتے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی صلاحیتیں ہیں۔ جیسا کہ ہر ایک ایک جیسا نفع دوسروں کو نہیں پہنچا سکتا۔ دوسروں کی صلاحیتوں کو اجاگر نہیں کر سکتا۔ ہر ایک کی اپنی انفرادی صلاحیت دین کا علم سیکھنے اور سکھانے میں مختلف ہوتی ہے۔ لیکن جتنی صلاحیت ہے، جتنی استعداد ہے اس کے استعمال کے تو اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور جب ہر ایک اس طرح سنجیدگی سے کوشش کرے گا تو وہ جہاں اپنے کمزور بھائیوں کے لئے فائدہ مند ہوں گے وہاں جماعت کے معیار بھی بلند کرنے و الے ہوں گے۔
پس واقفین زندگی اور خاص طور پر مربیان کی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور افراد جماعت کی استعدادوں کے معیار بلند کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عہدیدار ہیں۔ افراد جماعت انہیں اس لئے عہدیدار بناتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جن افراد کو ہم کوئی عہدہ دینا چاہتے ہیں ان کی استعدادیں، ان کا علم، ان کی عقل ہم سے بہتر ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ منتخب کرنے والوں کی یہ سوچ ہونی چاہئے اور یہ سوچ رکھنا فرض کی ادائیگی کا کم از کم معیار ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کرتے۔ اگر یہ کم از کم معیار عہدیدار منتخب کرتے وقت سامنے ہو تو کبھی کوئی ایسا عہدیدار منتخب نہ ہو جو صرف عہدے کے لئے منتخب کیا گیا ہو۔