صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ انسان خود اپنی اصلاح کرے
جب تک اولاد کی خواہش محض اِس غرض کے لیے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرماںبردار ہو کراُس کے دین کی خادم بنے، بالکل فضول بلکہ ایک قسم کی معصیّت اور گناہ ہے اور باقیات صالحات کی بجائے اُس کا نام باقیات سیّئات رکھنا جائز ہو گا۔ لیکن ا گر کوئی شخص یہ کہے کہ مَیں صالح اور خداترس اور خادمِ دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں، تو اُس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی دعویٰ ہو گا جب تک کہ وہ اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ کرے۔ اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اورمنہ سے کہتا ہے کہ مَیں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو وہ اپنے اِس دعویٰ میں کذّاب ہے۔ صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ زندگی بناوے تب اُس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اِس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں لیکن اگر یہ خواہش صرف اِس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہویا وہ بڑی ہی نامور اور مشہور ہو۔ اِس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے …
پھر ایک اور بات ہے کہ اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے، مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ اولاد کی تربیت اور اُن کو عمدہ اور نیک چلن بنانے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں، نہ کبھی اُن کے لیے دعا کرتے ہیں …
میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لیے دعا نہیں کرتا۔ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بُری عادتیں سکھا دیتے ہیں۔ ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں، تو اُن کو تنبیہہ نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بےباک ہوتے جاتے ہیں۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۵۶۰ تا ۵۶۲، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
مزید پڑھیں: مہمان کی خدمت اور تواضع