سفرایک رات کا
جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیاتھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکتِ اسلام کے زمانہ سے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکاتِ اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا۔(حضرت مسیح موعودؑ)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت پر ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزرچکا تھا۔اس تمام عرصے کے دوران آپﷺ نے باوجود تکالیف اور پریشانیوں کے بڑی محنت اور اخلاص کے ساتھ اشاعتِ اسلام کی کوششوں کو جاری رکھا اور یوں اب صرف مکہ ہی میں نہیں بلکہ یہ پیغام قریش کے علاوہ دیگر کئی علاقوں اور قبیلوں میں بھی پھیل چکا تھا۔مکہ سے باہر طائف میں بھی آپؐ خود جاکر اپنا پیغام پہنچاچکے تھے جبکہ حج کے ایام میں بھی ہر سال آپ بیرونی علاقوں سے آنے والے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔ ان کوششوں اور تبلیغی جدوجہد کے نتیجے میں جہاں بہت سی سعید روحیں آہستہ آہستہ اسلام میں داخل ہوتی چلی جا رہی تھیں وہیں اس ترقی کو دیکھ کر مخالف سردارانِ قریش اور رئیسان قوم اپنی حکومتوں کے کھوجانے کے ڈر سےکافی فکرمند بھی تھے اور اسلام کے خلاف نفرت اور مخالفت کی یہ آگ دن بدن بڑھتی چلی جارہی تھی۔طائف کے رئیس بھی آپ کا انکار کرچکے تھے اور تبلیغِ اسلام کےاس جرم میں آپ کا خون بہانے پر بھی آمادہ ہوگئے تھے لیکن ایسی بے بسی کی حالت میں بھی وہ نبی فداہ ابی و امی،جن کا پورا بدن خون سے تر بتر تھا اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی ہی کمزوری کا اظہار کرتے رہے لیکن دوسری طرف خالق کائنات کے عرش پر جب یہ دردبھری فریاد پہنچی تو خدا نے اپنے محبوب فرستادہ کی تسلی کے لیےپہلے سے بڑھ کرآئندہ ملنے والی ترقیات کے اشارےکشوف اور نظاروں کی صورت میں ظاہر فرمانا شروع کردیے۔ شہر نصیبین سے آنے والے جنات کے وفد کا نظارہ آپﷺ نے دیکھا جس میں اسلام کی عالمگیرروحانی ترقیات اور فتوحات کی طرف اشارہ تھا۔پھر ہجرت کے حوالے سے کئی خبریں اشارۃً آپﷺ کو ملنا شروع ہوگئیں۔لیکن اسی دَور میں ان سب امور کے ساتھ ساتھ ایک بہت عظیم الشان روحانی واقعہ بھی رونما ہوا جس میں رسول کریمﷺ کےاعلیٰ مقام اور مرتبہ کا اور آپ کو مستقبل میں ملنے والی ترقیات کا واضح اشارہ اور فیصلہ فرمادیا گیا۔
واقعہ اسراء
یہ واقعہ اسراء کے نام سے موسوم ہے جو ہجرت سے ایک سال یا بعض روایتوں کی رُو سے چند مہینے پہلے ظاہر ہوا۔(الخصائص الکبریٰ جزء ۱ دارالکتب العلمیۃ۔بیروت صفحہ ۲۶۸)یہ واقعہ درحقیقت ایک روحانی سفر تھا جو آپؐ کو مکہ سے بیت المقدس کی طرف کروایاگیا تھا۔ اسی طرز کا ایک روحانی سفر آپ کو اس سے پہلے بھی کروایا جاچکا تھا جس میں آپ کو آسمان کی سیر کروائی گئی تھی۔ بہت سے مفسرین نے ان دونوں واقعات کو ایک ہی واقعہ کے طور پر شمار کرتے ہوئے غلطی کھائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں واقعات کا الگ الگ ہونا قرآن اور احادیث کی رو سے بالکل واضح ہے۔اسراء کے سفر کا ذکر معراج کے واقعہ سے بالکل علیحدہ طور پر سورت بنی اسرائیل میں آیا ہے۔ امام بخاری نےکتاب مناقب الانصار میں ان دونوں واقعات کے علیحدہ ابواب رکھنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں واقعات کی تفصیل میں بھی ان واقعات کوآپس میں نہیں ملایا یعنی نہ تو آسمان کے روحانی سفر میں بیت المقدس کا ذکر کیا ہے اور نہ ہی بیت المقدس کے سفر میں آسمان پر جانے کا۔ گویا ان دونوں سفروں کی ابتدا علیحدہ علیحدہ طور پر مکہ سے ہی ہوئی اور اختتام بھی مکہ پر ہی ہوا جس سے ان کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ثابت ہے۔تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس حوالے سےزیرِسورت بنی اسرائیل تفصیلی طور پر اپنی تحقیق پیش فرمائی ہے۔آپؓ نے یہ ذکر کیا ہے کہ گو وہ روایات بھی ملتی ہیں جن میں ان واقعات کو ساتھ میں ملایا گیا لیکن کافی راویوں نے اس واقعہ کے حوالہ سے سیدھا مکہ واپسی کا ہی ذکر کیا ہے۔اور وہ راویان جنہوں نے ان دونوں واقعات کو الگ بیان کیا ہے وہ یا تو اولین مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں یا آپﷺ کے قریبیوں میں سے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں: ’’وہ توظاہرہی ہے کہ اس امر کی بیّن دلیل ہیں کہ بیت المقدس کے اسراء کے ساتھ آسمان کامعراج نہیں ہوا۔بلکہ ا س بارآپ صرف بیت المقدس تک لے جائے گئے تھے۔ان احادیث کے راوی عبداللہ بن مسعودؓ۔ ابن عباس ؓ۔شداد بن اوسؓ۔ امّ ہانیؓ۔حضرت عائشہؓ اورحضرت امّ سلمہؓ ہیں۔ان میں سے عبداللہ بن مسعودؓ کا ذکر میں نے اوپر کردیا ہے۔(آپ ان صحابہ میں سے ہیں جو شروع میں اسلام لائے) عبداللہ بن عباسؓ۔حضرت عباس کے لڑکے ہیں جوآنحضرت صلعم کے چچا تھے۔اوربوجہ اس کے کہ یہ واقعہ گھر میں پیش آیا تھا ان کو اس کے صحیح حالات جاننے کاسب سے بہتر موقعہ تھا۔ حضرت عائشہؓ اور امّ سلمہؓ آنحضرت صلعم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں اوراس واقعہ کی بہترین شاہد ہوسکتی ہیں۔پھرامّ ہانیؓ ہیں جن کے گھرمیں یہ واقعہ گذرا۔ اورجن کے سامنے سب سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کاذکرکیا‘‘۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ، مسلم کتاب الایمان باب اسراء برسول اللہ،الخصائص الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۱۵۴ تا ۱۵۹ و ۱۷۶ تا ۱۷۹، العصابۃ باب الکنی حرف الذال والعین(تفسیر کبیر جلد ۶صفحہ ۲۷۰۔۲۷۱،ایڈیشن۲۰۲۳ء)
رات کے وقت میں حکمت
دوسری غلطی جو اس واقعہ کے حوالے سے مسلمانوں کو لگی وہ اس واقعہ کا جسمانی طور پر ظہور پذیر ہونا ہے۔معراج کی ہی طرح جب اسراء کے مکمل واقعہ کو تفصیل کے ساتھ پڑھا جائے تو ہر موڑ پر ہی اس سفر کا روحانی سفر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اسراء کا واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے۔ رسول کریمﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ وفات پاچکی تھیں اور روایات کی رُو سے آپ اس وقت امّ ہانیؓ کے ہاں رہا کرتے تھے۔اس واقعہ کے رونما ہونے کے وقت بھی آپ امّ ہانیؓ کے مکان میں ہی تھے اور وہی اس واقعہ کی سب سے پہلی گواہ ہیں۔آپؓ نے اس بات کا برملا ذکر فرمایا کہ رسول کریمﷺ نے سب سے پہلے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا۔ آپؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اس خیال سے کہ لوگ اس انوکھے واقعہ کاانکار کریں گے اورمخالفت میں بڑھ جائیں گے آپﷺکو لوگوں کے سامنے اس کے بیان کرنے سے روکنے کی بھی کوشش کی مگر آپ نے میری یہ بات نہ مانی۔ امّ ہانیؓ نے اس واقعہ کے بیان میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں کیا کہ آپؐ جسم سمیت بیت المقدس گئے تھے۔ بلکہ اس کے برعکس آپ نے یہ بیان کیا ہےکہ نبی کریمﷺواقعہ اسراء کی رات بعد از نمازِعشاء میرے گھر پر سوئے اور صبح نماز فجر کے قریب ہم نے آپ کو جگایااور آپ کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔ نمازِفجر کے بعد رسول کریمﷺ نے اس تمام واقعہ سے ہمیں آگاہ فرمایا۔(تلخیص از الخصائص الکبریٰ جزء ۱دارالکتب العلمیۃ۔بیروت صفحہ ۲۹۲۔۲۹۳)
قرآن کریم اس واقعہ کو سورت بنی اسرائیل میں یوں بیان کرتا ہے:سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ۔(بنی اسرائیل:۲)پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۔ تاکہ ہم اسے اپنے نشانات میں سے کچھ دکھائیں۔ یقیناً وہ بہت سننے والا (اور) گہری نظر رکھنے والا ہے۔
اس آیت کی روشنی میں صریح طور پرواقعہ اسراء کا روحانی ہونا ثابت ہوتا ہے۔یہ سفر رات کے وقت تھا جس کا اشارہ لفظ اسریٰ میں کیا گیا ہےاور پھر یہ کہ سفر رات ہی کے وقت مکمل ہوگیا جس کا اشارہ لفظ لیلاً میں کیا گیاہے۔اور تیسری بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی کہ اس سفر کے ذریعہ ہم نے نبیﷺ کو اپنے نشانات دکھائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واقعات معراج اور اسراء کے روحانی سفر ہونے کی دلیل میں اسی امر کا ذکر فرمایا ہےکہ چونکہ یہ دونوں واقعات کشوف تھے اسی وجہ سے رات کا وقت منتخب کیا گیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے اپنی کتاب سیرت خاتم النبیینؐ میں بیان فرماتے ہیں: ’’پس اللہ تعالیٰ نے رات کا لفظ استعمال کر کے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ یہ ایک روحانی سفر تھا جو بصورت رؤیا وقوع پذیر ہوا۔ ورنہ رات کے ذکر میں کوئی خاص حکمت نظر نہیں آتی‘‘۔نیز فرمایا :’’کیونکہ مکہ سے لے کر بیت المقدس کا ظاہری اور جسمانی سفر خواہ وہ ایک رات کے قلیل عرصہ میں ہی تکمیل کو پہنچ جائے ایک عجوبہ نمائی کے سوا اپنے اندر کوئی خاص شان کا پہلو نہیں رکھتا جسے مقام نبوت کے مناسب حال سمجھا جا سکے؛ البتہ اگر اس سفر کو کشفی رنگ میں ایک روحانی امر سمجھا جائے جس سے تصویری زبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی آئندہ ترقیات اور فتوحات مراد ہوں تو تب بیشک وہ ایک مقتدرانہ پیشگوئی کی صورت میں ایک بہت بڑا نشان قرار پاتا ہے جس کے مقابل پر ظاہری سفر کو کچھ بھی حیثیت حاصل نہیں‘‘۔(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحات ۲۱۵۔۲۱۶)
واقعہ اسراء کی تفصیل
واقعہ اسراء کی رات آنحضرتﷺ کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئےاور حضورؐ کے پاس ایک سفید سواری براق نامی لائی گئی جس کا قد اندازاً گدھے اور خچر کے درمیان کا تھا۔ یہ وہ سواری تھی جس پر گذشتہ انبیاء بھی سوار ہوچکے تھے۔رسول کریمﷺ جب سوار ہوئے تو براق ذرہ سا ہچکچایا۔اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس سے کہا :براق! ٹھہرجاؤ،تم پر کبھی بھی اس شان کا انسان نہیں بیٹھا۔اس پر براق احساسِ شرمندگی کے باعث پسینہ پسینہ ہوگیا۔اس سواری کی تیزرفتاری کی نشاندہی یوں کروائی گئی کہ جب وہ چلتا ہے تو اپنا قدم اپنی آخری نگاہ پر رکھتا ہے۔ جن علماء نے اسراء کو روحانی واقعہ قرار دیا ہے، وہ خاص طور پر اس سواری کا بھی ذکر کرتے ہیں، جس پر حضورﷺ نے سفر کیا تھا۔ براق کوایک ایسی غیر معمولی مخلوق کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو اس دنیا کے عام قوانین سے بالا ہے۔ براق کی یہ صفات ظاہر کرتی ہیں کہ یہ سفر روحانی تھانہ کہ جسمانی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر وہاں سےروانہ ہوئے۔ راستے میں آپؐ نے ایک بڑھیا کو دیکھا۔آپﷺ نے حضرت جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کون ہے۔ جبرئیلؑ نےاس پر کوئی جواب نہ دیا بس کہا کہ چلیے،یہاں سےآگے چلیے۔چنانچہ آپ کو وہاں سے آگے لےجایا گیا، پھرآپﷺ نے ایک شخص کو راستہ میں پایا جوآپ کو اپنی طرف بلارہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ اے محمدؐ! ادھر آئیے۔ جبرئیل نے اس موقع پر بھی آپ کوجواب دینے سے منع فرمایااور کہا کہ محمدؐ آگے چلیے۔ آپ کچھ آگے گئے توآپ کو کچھ لوگ ملے جنہوں نے آپﷺ سے کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَااَوَّلُ۔اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اٰخِرُ۔السَّلَامُ عَلَیْکَ یَاحَاشرُ۔جبرئیلؑ نے آپﷺ کو ان کے سلام کاجواب دینے کو کہا۔آپﷺان کو سلام کا جواب دینے کے بعدآگے گئےتوپھر آپ کو ویسی ہی ایک اَور جماعت ملی۔اس نے بھی پہلی جماعت ہی کی طرح آپ کوسلام کہا۔پھر آپ کو مزید آگے لے جایا گیا یہاں تک کہ آپﷺ بیت المقدس تک پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر حضرت جبرئیل ؑنے آپﷺ کے سامنے تین پیالے پیش کیے ایک میں پانی تھا،ایک میں شراب اور ایک میں دودھ تھا۔آپﷺ نے دودھ کے پیالے کو لیا اور اسے نوش فرمایا۔جبرئیلؑ نے آپﷺسے کہا آپؐ نے فطرت صحیحہ کو پالیااور کہا کہ اگر آپ پانی پی لیتے تو آپ اور آپ کی امت غرق ہوجاتی۔اسی طرح اگر آپ شراب پی لیتے تو بھی آپ کی امت گمراہی میں مبتلا ہوجاتی۔اس کے بعد آپﷺ کی ملاقات گذشتہ انبیاء سے ہوئی اور آپ نے انہیں نماز پڑھائی۔(جامع ترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورة بنی اسرائيل حدیث نمبر۳۱۳۱) (تفسیر الطبری لابن جریر زیر آیت سورۃ بنی اسرائیل جزء ۱۴ طبعہ اولیٰ ۲۰۰۱ء مصر صفحہ ۴۲۲۔۴۲۳)
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ بآسانی نکالا جاسکتا ہے کہ یہ سفر جسمانی نہیں تھا بلکہ یہ ایک روحانی امرتھا۔ اس سفر میں رونما ہونے والے واقعات کی متعدد بار حضرت جبرئیل ؑ تعبیر بھی ساتھ ساتھ ہی بیان فرمارہے تھے۔جس کی کچھ تفصیل آگے بھی آئے گی۔یہاں پر آپﷺ کے سامنےچند پیالے پیش کرنا اور جبرئیل ؑ کا ان تمام پیالوں کی الگ الگ تعبیر کرنا بتاتا ہے کہ یہ سفر جسمانی نہیں تھا بلکہ اپنے اندر بے شمار مخفی معانی اور اشارہ رکھتا ہے۔اسی طرح آپﷺ کا گذشتہ انبیاء سے ملاقات کرنا بھی اس سفر کا روحانی ہونا ثابت کرتا ہے۔تمام گذشتہ انبیاء تو فوت ہوچکے ہیں،ان کی روح سے ملاقات کرنا روحانی طور پر ہی ممکن ہے۔
کیا اُس وقت مسجد اقصیٰ موجود تھی؟
یہاں پر ان علماء کرام یا مسلمانوں پر جو اس واقعہ کو جسمانی طور پر لیتے ہیں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جس وقت رسول کریمﷺ نے بیت المقدس کی طرف سفر اختیار فرمایا اور وہاں پر انبیاء کی موجودگی میں نماز کی امامت کرائی،اس وقت بیت المقدس میں موجود عمارتوں اور اس علاقہ کی اصل حالت کیا تھی؟قرآن کریم نےاس رات نبی کریمﷺ کا مسجد اقصیٰ کی طرف جانے کا ذکرفرمایا ہے جبکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس زمانہ میں وہاں پرکوئی مسجد موجود ہی نہیں تھی۔ بیت الاقصیٰ کے نام سے مسجد تو خلافت امیہ کے زمانہ میں تعمیر کی گئی،پھر وہ کونسی مسجد تھی جس کی طرف رسول کریمﷺ کو لے جایا گیا؟پس اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ اس مقام پر جسمانی طور پر نہیں گئےتھے۔اور یہ کہ مسجد اقصیٰ کا سفر اپنے اندر کوئی اور مخفی معانی رکھتا ہے۔
اس مقدس مقام پر ایک عمارت ہوا کرتی تھی جو کہ ہیکل سلیمانی (Solomon Temple)کے نام سے جانی جاتی تھی۔ نبی کریمﷺ کے ظہور سے ۵۰۰؍سال قبل جب رومن افواج کاجو کہ مذہباً عیسائی تھے یروشلم پر قبضہ ہواتو سنہ۷۰عیسوی میں ٹائٹس (Titus) کے حملہ کے بعد یہودیوں کوبڑی بے رحمی کے ساتھ شہر سے نکال دیا گیا اور پورے شہر کو تہ و بالا کردیا گیا۔ چنانچہ اس وقت اس عمارت کو بھی جلا کر تباہ کردیا گیا۔ آج بھی اس کی یاد میں بیت المقدس کی جنوب مغربی دیوار کے پاس اس ہیکل کے کھنڈرات موجود ہیں۔
While the holy house was on fire, everything was plundered that came to hand, and 10,000 of those that were caught were slain; nor was there a commiseration of any age, or any reverence of gravity; but children, and old men,
(Antiquities of the Jews; Wars of the Jews Book 6 page 846)
یعنی جب وہ مقدس گھر جل رہا تھا، اس موقع پر ان کے ہاتھ جو بھی لگا انہوں نے اسے لوٹ لیا، اور ۱۰,۰۰۰ لوگ جو پکڑے گئے سب کے سب قتل کر دیے گئے؛ عمر کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا، بچے اور بوڑھے سب مارے گئے۔
اس شدید تباہی کے بعد ہیکل دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکا، جب تک کہ مسلمانوں کا یہاں پر قبضہ نہیں ہوا۔ چنانچہ اسراء کے موقع پر وہاں نہ تو مسجد اقصیٰ تھی اور نہ ہیکل سلیمانی موجود تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب یروشلم فتح ہوا تو آپ نے دیکھا کہ عیسائیوں نے یہودیوں سے نفرت کی وجہ سے اس مقام کو کوڑا کرکٹ اور گند پھینکنے کی جگہ بنایا ہوا ہے۔ غرض حضرت عمریروشلم میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنےاصحاب کے ساتھ گندگی کو صاف کیا اور اسی چٹان پر نماز ادا کی جہاں روایات کی رو سے نبی کریمﷺ نے انبیاء کو نماز پڑھائی تھی۔ بنو امیہ کے دور میں اس چٹان پر ایک عمارت تعمیر کی گئی جسے قبۃ الصخرۃ کہا جاتا ہے۔یہ وہی مشہور عمارت ہے جس کے گنبد کا رنگ سونے کا بنایا گیا ہے۔یہ عمار ت Dome of the Rock کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔اسی کےساتھ بالآخر مسجد اقصیٰ کو بھی تعمیر کیا گیا۔پس یہ تمام باتیں واضح کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے جسمانی طور پر ان مقامات کا سفر نہیں کیا بلکہ یہ ایک روحانی نظارہ تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اپنی ترجمۃ القرآن کلاس میں بیان فرماتے ہیں:’’ظاہری مسجدِاقصیٰ تو اس وقت موجود ہی نہیں تھی۔وہاں تو جو Solomon’s Temple ہےاس کے کھنڈرات تھےوہاں شہر کا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھااور کافی گندگی بھی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ اُس مٹے ہوئےاور کھنڈر بنے ہوئےTemple میں مسجد اقصیٰ کہہ کر نمازکے لئے لےجائے۔اس لئے وہ مسجد اقصیٰ دور کی مسجد ہےیعنی یہ مادی مسجد نہیں بلکہ ایک روحانی مسجد ہےاور اس کا کوئی مادی وجود نہیں ہے‘‘۔(ترجمۃ القرآن کلاس ۲۲؍جولائی ۱۹۹۶،کلاس ۱۴۲سورت بنی اسرائیل آیت نمبر ۲)
جبرئیلؑ کادوبارہ تعبیرکرنا
آنحضرتﷺ جب انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھا چکے تو جبرئیل ؑنے آپؐ کو ان اشخاص کے بارے میں بتایا جو آپ کو راستہ میں ملے تھے۔آپ نے فرمایا کہ راستہ میں آپ نے جو بڑھیا دیکھی تھی وہ دراصل دنیا تھی۔دنیا کی عمر بھی اب اسی قدر باقی رہ گئی ہے جیساکہ اس بوڑھی عورت کی عمر باقی ہے۔پھر وہ دوسرا شخص جو آپ کو بلاتاتھا جس سےآپ کو بات کرنےسے منع کیا گیاتھا وہ خدا کا دشمن ابلیس تھاجوآپ کو راہ راست سے ہٹانا چاہتا تھا۔اورآخر پر وہ گروہ جو آپ کو سلام کہہ رہا تھا وہ انبیاء ابراہیم، موسیٰ وعیسیٰ وغیر ہ تھے۔جس طرح پہلے اُن پیالوں کے نظارہ کی تعبیر کی گئی اسی طرح اس کو بھی جبرئیل ؑ نے تعبیر کے رنگ میں پیش کیا اور اس کے مخفی معنوں کو واضح کردیا۔
واقعات کی اندرونی ترتیب
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں ان دونوں نظاروں کی باہم ترتیب کا بھی ذکر فرمایا ہے جس سے اس کے معانی اور بھی وسیع اور عمیق ہوتے چلے جاتے ہیں،آپؓ فرماتے ہیں:’’اب دیکھو اس میں کیسی ترتیب نظرآتی ہے۔پھر تعبیر نہایت صاف اورصحیح ہے۔پہلے آپ نے عورت کودیکھا تھا اور اس کی تعبیر جبرائیل علیہ السلام نے دنیا بتائی تھی۔اس کے مقابل پر پہلے پانی کا پیالہ پیش کیا گیا۔اوراس کی تعبیر بھی دنیا ہی کی گئی۔
قرآ ن کریم میں بھی پانی کو دنیا سے تشبیہ دی گئی ہے۔ فرماتاہے:وَاضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ (الکہف :۴۶) انہیں دنیوی زندگی کی مثال سناکہ وہ پانی کی طرح ہے جسے ہم اتارتے ہیں۔عورت کے بعد آپ نے شیطان کو دیکھا تھا۔اسی ترتیب سے پانی کے بعد شراب کاپیالہ پیش کیاگیا اور بتایاگیا کہ جس طرح شیطان غاوی ہے اسی طرح شراب بھی غاوی ہے۔اس کے بعد کشف کے پہلے حصہ میں انبیاء کی جماعت کو دیکھا تھا اورانہوں نے سلام کیاتھا۔یعنی سلامتی کی دعاکی تھی۔ اس کے مقابل پر پیالوں میں سے دودھ کا پیالہ تیسرے نمبر پرپیش کیا گیا جس میں اس طرف اشارہ تھا کہ آپ کی امت علوم الٰہیہ سے ہمیشہ حصہ لیتی رہے گی۔اورتباہی سے بچی رہے گی۔پس یہ ترتیب اورتعبیر بتاتی ہیں کہ یہ خبریقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی گئی ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد۶، ایڈیشن ۲۰۲۳ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے دونوں ٹکڑوں کی نسبت یہی رائے ظاہر کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسم کے ساتھ نہ بیت المقدس میں گئے نہ آسمان پر بلکہ وہ ایک رؤیا صالحہ تھی‘‘۔(ازالہ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۲۵۰)
کشف میں بیت المقدس کا نقشہ
آنحضرتﷺ نے اس سفر میں جن انبیاء سے ملاقات کی ان انبیاء کی مزید تفصیل بھی بیان فرمائی۔ام ہانی ؓاس حوالے سے روایت کرتی ہیں کہ نبیﷺ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ وہ اخلاق اور صورت میں بالکل میرے مشابہ تھے۔حضرت موسیٰؑ کو بھی آپﷺ نے دیکھا، آپ کا قد لمبا اور بال سیدھے تھے۔پھر حضرت عیسیٰؑ کو بھی دیکھا جودرمیانہ قد اور سفید سرخی مائل رنگت کے تھے۔ام ہانیؓ کہتی ہیں کہ جب یہ تمام قصہ آپؐ بیان فرما چکے توآپﷺ نےفرمایا کہ اب میں چلتا ہوں تاکہ قریش کو اس واقعہ سے آگاہ کروں۔آپ نے رسول کریمﷺ کو یہ نظارہ اپنی قوم میں بیان کرنے سے روکا۔آپﷺ نے آپ کی یہ بات نہ مانی اور فوراً قریش کے مجمع میں یہ ساری باتیں بیان فرمادیں۔
لوگوں نے پوچھا کہ تم ایک رات میں بیت المقدس سے ہوکر آئے ہو۔آپﷺ نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے۔اس پر قریش نے آپ سے تمسخر کرنا شروع کردیا اور آپ کو جھوٹا کہنے لگے۔پھر انہوں نے آپؐ سے پوچھا کہ اچھا چلو اگر تم واقعی بیت المقدس سے ہوکر آئے ہو تو ہمیں اس کانقشہ بتاؤ۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ میں بیت المقدس کو نہیں جانتاتھا اس وجہ سے میں اس کے بیان کرنے سے ہچکچایا۔لیکن اسی موقع پر آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ مجھ پردوبارہ کشفی حالت طاری ہوئی اور بیت المقدس کا تمام نقشہ میرے سامنے کردیا گیا اور میں نے سب حال و احوال ان کے سامنے بیان کردیا۔ چنانچہ جابربن عبداللہ کی روایت ہے۔آپ نے فرمایا: فَـجَلَّی اللّٰہُ لِیَ الْبَیْتَ المَقْدِسِ فَطَفِقْتُ اُخْبِرُھُمْ واَنااَنْظُرُ اِلَیْہِ۔کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کومیرے سامنے کردیا۔ میں اس کو دیکھتا اورلوگوں کوبتاتاجاتا تھا۔لوگ یہ سن کر حیران ہوئے اور ایک دوسرے کوکہنے لگے کہ آپ نے تو یہ نقشہ بالکل ٹھیک بیان کیا ہے۔(تفسیر ابن کثیرالجزء ۵ صفحہ ۱۸ کتاب العلمیہ، بیروت طبعہ اولیٰ ۱۹۹۸ء)
اس روایت سے صاف ظاہرہے کہ چونکہ یہ ایک کشف تھا اس وجہ سے شروع میں رسول کریمﷺ نے اس کے بیان کرنے میں تامل کیا کہ کہیں میں قریش کے سامنے کچھ غلط بیان نہ کر دوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی تضحیک کے جواب میں اسے دوبارہ کشفاً ظاہر فرما دیا۔آنحضرتﷺ نے جب یہ واقعہ قریش کو سنایا تو وہ فوراً حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ کا دوست یہ دعویٰ کررہا ہے کہ وہ رات کو بیت المقدس سے ہوکر آیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس پر جواب دیا کہ اگر تو انہوں نے ایسا کہا ہے تو یقیناً سچ کہا ہے۔لوگوں نے اس پر کہا کہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں،کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ وہ ایک رات میں بیت المقدس سے ہوکر لوٹے ہیں۔ کیا ایسے خلافِ عقل واقعہ پر آپ یقین کریں گے؟آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس کی تصدیق کرتا ہوں بلکہ صبح وشام آپ پر اترنے والی آسمانی خبروں کے حوالے سے بھی آپ کی تصدیق کرتا ہوں۔چنانچہ یہ ذکر آتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد حضرت ابو بکر کا لقب صدیق پڑگیا۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ جلد۳ صفحہ ۸۱حدیث۴۴۵۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲۰۰۲ء)
واقعہ اسراء کی اصل حقیقت
اس مکمل واقعہ کو پڑھنے کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سفر کی اصل حقیقت کیا تھی،اس نظارہ کے دکھانے کا اصل مقصد کیا تھا۔ اب یہ تو واضح ہے کہ یہ جسمانی سفر نہیں تھا بلکہ روحانی تھا۔یہ کشفی نظارہ تھاجو نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں دیکھا جاتا ہے۔کشف کے حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تین اقسام بیان فرمائی ہیں۔ پہلے کشف کی حالت میں نظارے اسی شکل میں دکھائے جاتے ہیں جس شکل میں کہ وہ مادی دنیا میں موجود ہوتے ہیں۔دوسری قسم میں بعض مادی چیزیں دکھائی جاتی ہیں اور کچھ حصہ تعبیر طلب ہوتا ہے۔اور آخری قسم میں کشف مکمل طور پر تعبیر طلب ہوتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے اسراء کے واقعہ کو دوسری قسم کا کشف قرار دیا ہے۔تعبیر طلب حصوں کا ذکر اوپر ہوچکا ہے،ظاہری حصہ کے حوالہ سے آپؓ فرماتے ہیں:’’ظاہری شکل میں دکھائے جانے والے حصہ کے بارہ میں احادیث میں آتا ہے کہ واپسی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک قافلہ مکہ کی طرف آرہاہے۔اوراس قافلہ والوں کاایک اونٹ گم ہوگیا ہے جس کی وہ تلاش کررہے ہیں۔اورچند دن بعد معلوم ہواکہ بعینہٖ یہ واقعہ مکہ کے ایک قافلہ سے پیش آیا تھا۔چنانچہ جب وہ قافلہ مکہ پہنچا توانہوں نے اس امرکوتسلیم کیا‘‘۔ (الخصائص الکبریٰ حدیث شداد بن اوس جلد او ل صفحہ ۱۵۸و۱۵۹) (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۲۸۱، ایڈیشن۲۰۲۳ء)
اب رہی بات یہ کہ اس نظارہ کے دکھانے کا اصل مقصد کیا تھا۔یاد رہے کہ جیسا پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ یہ واقعہ ہجرتِ مدینہ سے تھوڑا عرصہ قبل ہی رونما ہوا تھا۔تفسیر کبیر میں اس واقعہ کو ہجرت مدینہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور مسجد اقصیٰ سے مراد مسجد نبوی کی تعمیر لی گئی ہے۔اس میں یہ اشارہ کیا گیا کہ اب اسلام مکہ سے نکل کر چاروں اطراف میں پھیلے گا۔گذشتہ انبیاء کی امامت بھی اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہے کہ باقی تمام امتیں اب اسلام میں داخل ہوجائیں گی اور اسلام کو ایک غلبہ عظیم عطا ہوگا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں:’’اسریٰ بعبدہ : یہ اشارہ ہے ہجرت کی طرف کہ کس طرح خانہ کعبہ سے مدینہ کی مسجد میں پہنچے یا معراج کے ایک حصہ کا ذکر ہے‘‘۔ (تشحیذ الاذہان جلد ۸ صفحہ۴۶۳)
ایک عظیم الشان پیشگوئی
یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس کشف کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے بعد آنے والے خلفاء نے صرف ہجرت اور اس وقت کی فتوحات تک ہی محدود نہیں کیابلکہ اس حوالے سے اس کی مزید تفصیلات بھی بیان فرمائی ہیں۔اسراء کے واقعہ میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہےجبکہ اسلام پر تاریکی کا زمانہ آچکا ہوگا۔اس زمانے میں اللہ تعالیٰ جو اپنےوعدوں کا سچا ہےآخری زمانے کی پیشگوئیوں کے تحت مسیح محمدی کی جماعت کو دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا کرے گا جن کے طفیل ایک مرتبہ پھر روحانیت دنیا میں قائم ہوجائے گی ان شاء اللہ۔ واقعہ اسراء کی اس تعبیر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیر زمانی کا نام دیا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف کی یہ آیت کہسُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ (بنی اسرائیل:۲) معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدالحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیاتھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکتِ اسلام کے زمانہ سے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکاتِ اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا۔… پس اس پہلو کے رو سے جواسلام کے انتہاءِ زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجداقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیاں میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بارکنا حولہ کےمطابق ہے۔(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحات ۵۴-۵۵،حاشیہ، ایڈیشن ۲۰۱۸)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: تمام برکات خلیفۃ المسیح کی اطاعت میں مضمرہیں