حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اصل اسلامی خلق خوش دلی سے مہمان نوازی کرنا ہے

مہمان نوازی ایک ایسا وصف ہے جس کا خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کی مہمان نوازی کے ذکر میں فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰھِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوا سَلٰمًا۔ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ(ھود:۷۰) اور یقیناً ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوشخبری لے کر آئے۔ انہوں نے سلام کہا، اس نے بھی سلام کہا اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔ پس مہمان نوازی یہی ہے کہ اپنے عمل سے کسی قسم کا ایسا اظہار نہ ہو کہ مہمان آ گیا تو مصیبت پڑ گئی۔ بلکہ مہمان کو پتہ بھی نہ چلے اور اس کی خاطر مدارات کا سامان تیار ہو جائے۔ جو بہترین کھانا میسر ہو، جو بہترین انتظام سامنے ہو وہ مہمان کو پیش کر دیا جائے۔رہائش کاجو بہترین انتظام مہیا ہو سکتا ہے، مہمان کے لئے مہیا کیا جائے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ضروراتنی خاطر داری ہو کہ ایک دو مہمان آئے ہیں تو بے تحاشا کھانا تیار کیا جائے، بچھڑے کی مہمان نوازی کے بغیر اس کا حق ادانہیں ہو سکتا یا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔ اُس زمانے میں وہ لوگ بھیڑ بکریاں پالنے والے تھے، بازار تو تھے نہیں کہ بازار گئے اور چیز لے آئے، بھیڑیں موجود تھیں اور وہی فوری طور پر میسر آ سکتی تھیں تو اصل چیز اس میں یہ ہے کہ مہمان سے بغیر پوچھے کہ کھانا کھا ئیں گے یا نہیں اس کی مہمان نوازی کے سامان تیار کرلئے جائیں۔… آپؐ کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے۔ کھجوریں میسر ہوئیں تو وہ بھی پیش کیں۔ اگر گوشت یاکوئی اور اچھا کھانا ہے تو وہ مہمانوں کو کھلا دیا۔ تو اصل اسلامی خلق جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے خوش دلی سے مہمان نوازی کرنا ہے۔ مہمان کو یہ احساس نہ ہو کہ میرا آنا میزبان کے لئے بوجھ بن گیا ہے۔ بلکہ حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں نے تو یہ محسوس کیا کہ کھانے کی طرف ہمارا ہاتھ نہ بڑھنا حضرت ابراہیمؑ کے دل میں تنگی پیدا کر رہا ہے۔ جس کی پھر انہوں نے وضاحت بھی کی کہ ہم لوطؑ کی طرف جا رہے ہیں۔ تو یہ اسلامی خلق ایسا ہے کہ ہر مسلمان کو اس کو اپنانا ضروری ہے۔ مختلف رنگ میں دوسری جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔ پس یہ ایسی تعلیم ہے جس کا ایک احمدی کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍جولائی ۲۰۰۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ ۱۰؍اگست ۲۰۰۷ء)

مزید پڑھیں: بچیوں کو سکارف کس عمر میں لینا چاہیے؟

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button