الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم حافظ عبدالکریم خان صاحب۔ خوشاب
محترم حافظ عبدالکریم صاحب آف خوشاب کا ذکرخیر روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲٤؍جنوری ۲۰۱٤ء میں مکرم راناعبدالرزاق خان صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات خوشاب پہنچے تو کئی بزرگان نے احمدیت قبول کرلی جن میں سے حضرت مولوی فضل الدین صاحبؓ، حضرت میاں حاجی وریام صاحبؓ اور حضرت حبیب شاہ صاحبؓ کا ذکر ’’انجام آتھم‘‘میں تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست میں شامل ہے۔
حضرت مولوی فضل الدین صاحبؓ آہیرانوالی مسجد کے امام تھے۔ آپؓ کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی تو حبیب شاہ صاحب ۱۹۲۹ء تک امام رہے اور اُن کی وفات کے بعد حافظ عبدالکریم خان صاحب باقاعدہ امام مقرر ہوئے۔ آپ بھی احمدیت کی صداقت کے دل سے قائل تھے لیکن اظہار نہ کرتے تھے۔ ۱۹۳۱ء میں مردم شماری کے موقع پر آپ مع اپنے ۷۳ مقتدیوں کے احمدیت میں داخل ہوگئے۔ اس کا ذکر الفضل میں شائع ہوا اور اُس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد خوشاب میں احمدیوں کی شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ حتیٰ کہ ۲۰؍فروری۱۹۳۱ء کو عیدالفطر کے موقع پر مخالفین نے اعلان کیا کہ وہ احمدیوں کو مسجد میں عید نہیں پڑھنے دیں گے۔
آہیرقوم میں سے ملک کبیر خان صاحب احمدیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اُن کو معلوم ہوا تو انہوں نے مخالفین کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔ جب مخالفین نہ مانے تو انہوں نے کہا کہ احمدی تھانے میں اطلاع کریں گے تو تم کو پولیس پکڑ کر لے جائے گی۔ اُن دنوں حضرت سیّد عزیزاللہ شاہ صاحبؓ خوشاب میں جنگل کے داروغہ تھے اسی طرح ملک گُل محمد صاحب احمدی بھی SDO کے ریڈر تھے۔ ملک صاحب کے کہنے پر احمدیوں نے مولوی عبدالکریم صاحب کی اقتدا میں مسجد میں نماز عید ادا کی۔
فروری ۱۹۳۲ء میں مولوی عبدالقادر صاحب قادیان سے تشریف لائے اور اللہ دتہ ولد جیون کے گھر جمعہ پڑھایا۔ یہاں احمدیوں نے اپنی مسجد بنانے سے متعلق مشورہ کیا تو اللہ دتہ نے اپنی دو مرلے زمین پیش کی۔ اس پر حافظ عبدالکریم صاحب نے زیادہ بڑی جگہ پیش کی۔ اس زمین میں اُن کے بھائی عبدالرحیم خان صاحب کا بھی نصف حصہ تھا جس کی اُس وقت مالکہ ان کی پھوپھی فتح بی بی صاحبہ تھیں۔ انہوں نے بھی مسجد کے لیے بخوشی زمین دے دی۔
مسجد کا نقشہ حافظ عبدالکریم صاحب نے بنایا۔ یہ دو منزلہ مسجد تھی جس میں اوپر مسجد اور نیچے لائبریری، مہمان خانہ اور ایک کمرہ حافظ صاحب کے لیے تھا۔ مخالفین نے میونسپل کمیٹی میں احمدیوں کو مسجد کی اجازت نہ دینے کی درخواست دی جو ردّ ہوئی اور احمدیہ مسجد کا نقشہ ۲٤؍مارچ۱۹۳۲ء کو منظور کرلیا گیا۔ اگلے روز حدبندی ہوئی اور اُس سے اگلے روز سے تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔ مسجد کی تعمیر کے لیے ہر احمدی نے حسب استطاعت شاندار مالی قربانی پیش کی۔ بہت سوں نے ایک ایک ماہ کی تنخواہ پیش کردی۔ خواتین نے زیور دیے۔ تین چار احمدی مستریوں نے مفت اپنی خدمات پیش کیں۔ مزدوروں نے بلامعاوضہ کام کیا۔ مئی ۱۹۳۲ء میں تکمیل ہونے پر محترم سیّد سردار شاہ صاحب نے یہاں اس میں جمعہ پڑھایا اور محترم ملک گُل محمد صاحب نے افتتاح کیا۔
محترم حافظ عبدالکریم خان صاحب ۱۹۰۱ء میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ لمبا عرصہ خوشاب میں سیکرٹری مال اور صدر جماعت رہے۔ امام الصلوٰۃ بھی رہے اور قریباً چالیس سال نماز تراویح پڑھائیں۔بےشمار احمدیوں اور غیراحمدیوں کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھایا۔ آپ نہایت متقی اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ چندوں میں سبقت لے جانے والے تھے اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔ آپ کے چھ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں۔ آپ موصی تھے۔ ٤؍جنوری۱۹۸۱ء کو اسّی سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے دادا اور محترم حافظ مظفر احمد صاحب کے نانا تھے۔
………٭………٭………٭………
پاکستان میں واپسی اور ربوہ کی یادیں
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲٤؍جنوری ۲۰۱٤ء میں مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کے قلم سےایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وہ زندگی وقف کرنے کے بعد ربوہ میں گزارے ہوئے اپنے ابتدائی شب و روز نہایت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔
آپ رقمطراز ہیں کہ خاکسار نے ۱۹٦۱ء میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا اور میو ہسپتال میں ہاؤس جاب کے بعد مزید تعلیم کے لیے انگلستان چلاگیا۔ وہاں بچوں کی بیماریوں کا ڈپلومہ کیا اور پھر ۱۹٦۸ء میں ایڈنبرا سے کارڈیالوجی میں MRCP کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں تحریر کیا کہ اب مَیں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرسکتا ہوں اور فضل عمر ہسپتال ربوہ میں خدمت کرنے کا خواہشمند ہوں۔ حضورؒ نے کچھ مزید ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ربوہ آجانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد مَیں نے اپنا سامان بحری جہاز کے ذریعے پاکستان بھجوایا اور خود اپنی بیوی اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان پہنچا۔ میری خواہش تھی کہ اپنے ہمراہ ایک کار بھی لے جاؤں لیکن اس کے لیے سرمایہ میسر نہیں تھا اس لیے دل کی صحت چیک کرنے یعنی ECG کرنے والی مشین خرید کر ساتھ لے گیا۔ یہ فیصلہ بہت عمدہ رہا۔
لندن سے روانہ ہوکر ہم چند دن کراچی میں محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب کے پاس ٹھہرے جو میرے خسر تھے اور کراچی میں مربی تھے۔ پھر چند روز لاہور میں قیام کیا جہاں میرے والدین کا گھر تھا۔ پھر ربوہ اپنی اہلیہ کے چچا جان مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب کے گھر پہنچے۔ بیوی بچوں کو وہاں چھوڑ کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری پہنچا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت ملاقات کا شرف عطا فرمایا اور فرمایا کہ مَیں نے آپ کی رہائش کے لیے انجمن کے ایک سینئر کوارٹر کا انتظام کرکے رکھا ہوا ہے آپ ناظرامور عامہ (حضرت صاحبزادہ مرزا منصوراحمد صاحب) سے کوارٹر کی چابی لے لیں۔
میرا دل اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات سے پُر تھا جس نے ہماری رہائش کا بندوبست کردیا۔ اس کوارٹر میں ہم سولہ سال تک مقیم رہے جس کے بعد اپنا ذاتی مکان بنانے کی توفیق مل گئی۔ کوارٹر میں ہم سے پہلے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظراعلیٰ مقیم تھے۔ ہمارا سامان ابھی نہیں پہنچا تھا اس لیے مَیں بازار سے دو نواڑی پلنگ اور بستر خرید لایا تاکہ سونے کا انتظام ہوسکے۔ والد صاحب نے اپنے گھر کے کچھ برتن ہمیں استعمال کے لیے دے دیے۔ میٹھا پانی اور سوئی گیس لگ چکی تھی۔ ہم نے کوارٹر میں رہنا شروع کردیا اور ہسپتال میں ڈیوٹی بھی سنبھال لی۔
جلسہ سالانہ کی آمد آمد تھی اور ہسپتال میں کام بڑھ رہا تھا۔ جلد ہی جلسے کے مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی۔ ہمیں اتنے مہمانوں کی تواضع کا تجربہ نہیں تھا۔ مہمان نوازی کا سارا کام میری اہلیہ پر ہی پڑگیا۔ نئے ملک اور نئے ماحول کا تجربہ بھی نہیں تھا۔ ایسے میں پہلے تو بچے بیمار ہوئے اور آخرکار میری اہلیہ شدید بیمار ہوگئیں کہ جان کے لالے پڑگئے۔ محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے تشخیص اور علاج کے سلسلے میں بہت مدد کی۔ چنانچہ کافی لمبے علاج اور حضورؒ کی خصوصی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمادیا۔ اسی دوران میرے خسر صاحب کا تبادلہ ربوہ میں ہوگیا اور وہ بھی ہمارے ساتھ ہی مقیم ہوگئے۔ میری اہلیہ کی بیماری کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہم استخارہ کرکے حضورؒ کی اجازت سے انگلستان آگئے۔
ربوہ کے شب و روز بہت مسرور کُن تھے۔ مسجد مبارک ہمارے گھر کے سامنے ہی تھی۔ پانچوں نمازیں حضورؒ کی اقتدا میں ادا کرنے کی توفیق ملتی۔ ایک جمعہ کی نماز میں میرے ساتھ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نماز ادا کرنے میں مصروف تھے۔ ان کی قربت میں نماز ادا کرنے کا بہت لطف آیا۔ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اکثر فجر کی نماز کے بعد اپنے کوارٹر میں لے جاتے اور چائے کی پیالی سے تواضع کرتے۔ اُن کے کوارٹر کا پانی ابھی نمکین تھا جس سے چائے بنائی جاتی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے بزرگوں نے ربوہ میں رہائش کے ابتدائی ایام میں کس قدر تکالیف ہنسی خوشی سے برداشت کیں۔ صحابہ ابھی کثرت سے تھے جن کی خدمت کی توفیق بھی ملتی ۔ پڑوس میں بہت بزرگ فیملیاں مقیم تھیں۔ خاکسار سے مشورے کے لیے مریض گھر بھی آیا کرتے تھے اور محلے پڑوس والے بھی کبھی دروازہ کھٹکھٹا دیتے۔ پڑوسی یہ سب بڑے تحمل سے برداشت کرتے۔ خدا کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرنے اور ہنسی خوشی تکالیف برداشت کرنے والے انہی لوگوں کی اولادیں آج دنیا کے ہر براعظم میں موجود ہیں۔
فضل عمر ہسپتال چھوٹا سا تھا لیکن مریضوں سے بھرا رہتا تھا۔ اکثر مریض غریب دیہاتی ہوتے تھے۔ اپنے شدید مریضوں کو چارپائیوں پر اٹھاکرگاؤں کے آدھے افراد ہسپتال پہنچتے اور وہیں ڈیرہ لگالیتے۔ مریض ہسپتال میں داخل ہوجاتا اور لواحقین باہر بیٹھے رہتے، وہیں کھاتے پیتے اور وہیں سوتے۔ ہسپتال والے بھی ان کی اس عادت سے واقف تھے اس لیے بڑے تحمل سے انہیں برداشت کرتے تھے۔ جب مریض تندرست ہوجاتا تو ہنسی خوشی واپس جاتے اور ڈاکٹر کے لیے بڑی محبت سے دودھ یا چند انڈے پیش کردیتے۔
مکرم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ہسپتال کے انچارج تھے۔ تشخیص میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ مریضوں اور غریبوں کی ہمدردی دل میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں ہر طرف تنگدستی کا عالم تھا، بعض دوائیں مہنگی اور غریبوں کی دسترس سے باہر ہوتی تھیں۔ میاں صاحب کوشش کرکے ہرممکن علاج مریضوں کو فراہم کرنے کی پوری کوشش فرماتے۔ مَیں انگلستان سے آیا تھا جہاں علاج مفت تھا لیکن ربوہ آکر مالی اعتبار سے بےحد تفاوت کے باوجود مجھے کبھی کسی مریض کو صحیح علاج فراہم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ تپ دق کا مرض عام تھا لیکن ہمارے ہسپتال میں اس کا علاج صحیح اور سائنسی طریق پر کیا جاتا تھا۔ خون اور بلغم ٹیسٹ کرنے اور ایکسرے کرنے کا بہترین انتظام تھا۔ اکثر مریضوں کا علاج مفت ہوتا تھا۔ ٹی بی کا علاج مَیں نے انگلستان میں ٹی بی سینیٹوریم میں تربیت کے دوران سیکھا تھا جس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں ربوہ سے اس بیماری کا خاتمہ ہوگیا۔ بیرونی مریضوں کا علاج جاری رہا۔ میاں صاحب نے غریب مریضوں کی ہمدردی میں جماعت کے افراد کو تحریک کی اور علاج کے لیے ایک مستقل فنڈ قائم کیا جو آج بھی جاری ہے۔
ربوہ میں جلسوں، اجتماعات اور مشاعروں کا خوب رنگ تھا۔ علماء کی تقاریر ازدیاد علم کا باعث بنتیں۔ اجتماعات میں حضرت خلیفۃالمسیح بنفسِ نفیس شرکت فرماتے۔ کالج سکول ابھی جماعت کی تحویل میں ہی تھے، وہاں بہت عمدہ محفلیں ہوتیں۔ کھانے سادہ اور لذیذ، زمین پر دسترخوان اور مٹی کے برتنوں میں کھائے جاتے۔ موٹریں چند تھیں، گلیاں اور سڑکیں کچی تھیں۔ چند تانگے شہر کے رہنے والوں کے لیے نقل و حمل کی ضروریات کو پورا کرتے۔ مریضوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بہت دشوار ہوتا اس لیے مریضوں کو گھروں میں ہی دیکھنے کا رواج پکڑ گیا۔ آندھی آتی تو دھول مٹی تمام فضا میں پھیل جاتی۔ بارش ہوتی تو کیچڑ کی وجہ سے چلناپھرنا بھی دشوار ہوجاتا۔ چند دکانیں تھیں، دو تین بازار تھے۔ ایک دو بیکریاں تھیں۔ چیزیں خالص اور ملاوٹ سے پاک ہوتی تھیں۔ دودھ سبزی باہر سے لائی جاتی تھیں۔ لیکن کوئی دشواری لوگوں کو دل برداشتہ نہیں کرتی تھی کیونکہ سب ہی درویش صفت اور خدا پرست تھے۔
………٭………٭………٭………
مزید پڑھیں: شرائط بیعت کی اہمیت حضور انور ایدہ اللہ تعالی ٰ بنصرہ العزیز کے خطبات جمعہ کی روشنی میں