ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر۱۹۰)
مخلوق کی ہمدردی
فرمایا:۔‘‘پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شئے ہے کہ اگر انسان اُسے چھوڑدے اور اس سے دُور ہوتا جاوے تو رفتہ رفتہ پھر وہ درندہ ہو جاتا ہے۔انسان کی انسانیت کا یہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے۔جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروّت، سلوک اور احسان سے کام لیتا ہے اور اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے ؎
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
یاد رکھو ہمدردی کا دائرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔کسی قوم اور فرد کو الگ نہ کرے۔میں آج کل کے جاہلوں کی طرح یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں سے ہی مخصوص کرو۔نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اَور۔میں کبھی ایسے لوگوں کی باتیں پسند نہیں کرتا جو ہمدردی کو صرف اپنی ہی قوم سے مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔’’(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۲۸۲۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
تفصیل:۔اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی مصرع دراصل شیخ سعدی کےشعر کا ایک مصرع ہے ،جو گلستان سعدی کے پہلے باب کی ایک حکایت میں اس طرح آیا ہے۔
حکایت مع شعر:شیخ سعدی کہتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں حضرت یحییٰ پیغمبرعلیہ السلام کی قبر پر معتکف تھا کہ عرب کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ جو بے انصافی میں مشہور تھا آیا اس نے نماز پڑھی اور دعا مانگی اور منت چاہی۔‘‘فقیر اور مال دار اس در کی خاک کے غلام ہیں ۔اور جو زیادہ مال دار ہیں وہی زیادہ محتاج ہیں۔’’ پھر مجھ سے کہا ‘‘چونکہ درویشوں میں روحانی طاقت ہے اور ان کا خدا سے سچا معاملہ ہے ذرا میری طرف باطنی توجہ فرمائیےکہ مجھے ایک سخت دشمن کا اندیشہ لگا ہوا ہے ۔’’ میں نےاس سے کہا‘‘ کمزور رعایا پر رحم کھا،تاکہ پھر قوی دشمن سے تجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔’’
ازیں بعد نظم (اردوترجمہ نظم)
شعرنمبر۱۔طاقت ور بازوؤں اور پنجہ کی قوت سے کمزور مسکین کا پنجہ موڑنا غلطی ہے ۔
شعر ۲۔وہ شخص جو گرے پڑوں پر رحم نہیں کھاتا کیا اس بات سے نہیں ڈرتاکہ اگر اس کا پیر پھسلے گاتو اس کی کوئی دستگیری نہ کرے گا۔
شعر ۳۔جس نے بدی کا بیج بویا اور بھلائی کی توقع رکھی۔ اس نے فضول اپنا دماغ پکایا اور باطل خیال باندھا۔
شعر ۴۔کان سے روئی نکال لے اور مخلوق سے انصاف کر اگر تو انصاف نہ کرے گا تو انصاف کا ایک دن ضرور ہے۔(ازیں بعد مثنوی)
مثنوی
بَنِیْ آدَمْ اَعْضَائے یِکْ دِیْگَرْاَنْد
کِہْ دَرْ آفرِیْنَشْ زِ یِکْ جُوْہَرْاَنْد
ترجمہ: آدم کی اولاد ایک دوسرے کے اعضاء ہیں (یعنی تمام اولاد آدم بمنزلہ ایک جسم کے ہے اور ہر فرد ایک دوسرے کے اعضا کی طرح ہے) ۔اس لیے کہ وہ پیدائش میں ایک ہی اصل (حضرت آدم علیہ السلام)سے ہیں۔
چُو عُضْوے بِدَرْد آوَرَدْ رُوْزگَارْ
دِگَرْ عُضْوہَا رَا نَہْ مَانَدْ قَرَار
اگر زمانہ کسی ایک عضو میں درد پیدا کرتا ہے ، تو دوسرے اعضاء کو بھی قرار نہیں رہتا۔
تُوکَزْمِحْنَتِ دِیْگَرَاں بِےغَمِیْ
نَہْ شَایَدْ کِہْ نَامَتْ نِہَنْد آدمی
اگر تُو دوسروں کی تکلیف سے بے غم ہے تو اس قابل نہیں کہ تجھے آدمی کہیں !
لغوی بحث: بَنِیْ آدَمْ(آدم کی اولاد)اَعْضَائے یِکْ دِیْگَرْ(ایک دوسرے کے اعضاء
اَنْد(ہیں)ضمیر سوم شخص جمع۔
مزید پڑھیں: ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب(قسط نمبر۱۸۹)