مکرم چودھری منیر احمد صاحب مرحوم
سابق وائس پرنسپل نصرت جہاں کالج ربوہ
خاکسار نے یہ مضمون چودھری صاحب کی بیٹی ڈاکٹر آمنہ صاحبہ سے مخاطب ہوکر لکھا ہے۔
بہت ہی پیارا وجود تھا۔ آپ کے والد تھے میرے دوست تھے،میرے بڑے بھائی تھے، میرے رازدار تھے، میرے مشیر تھے۔ میں کیا کیا کہوں، میں کس طرح کہوں۔ وہ تو مجسم ایک ایسی ہستی تھی کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ بلکہ نایاب! لوگ چراغ لے کے ڈھونڈیں تو نہ ملیں ایسے لوگ!
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، جوارِ رحمت میں جگہ دے، اپنے پیاروں کا ساتھ نصیب ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے پاس بیٹھ کر، ان سے بات کرکے، جتنا وقت ان کے ساتھ گزارا ہے، ہم تواسے اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ کس کس بات کو یاد کروں۔ وہ حسین یادیں، وہ گزرے ہوئے لمحات اور واقعات۔ کچھ ذکر کرکے امانت کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔
ہم تقریباً اکیس سال اکٹھے رہے۔ اٹھنا بیٹھنا،سوچنا، ملنا جلنا، ان کی ساری باتیں، ان کی باتوں کا انداز، ان کا چہرہ، آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ کیونکہ جس طرح انہوں نے میرا ساتھ دیا، میں نے ان کے ساتھ اکٹھے کام کیا ہے، بہت ہی مزہ آیا۔ کیونکہ زندگی میں اتنا لمبا ساتھ رہا اور اتنا اچھا انسان، جو ہر لحاظ سے نافع الناس تھے۔ چاہے طلبہ ہوں، ٹیچر ہوں، ماتحت ہوں، جماعت کے افراد ہوں، یا جماعت کے عہدے دار ہوں، ہر جگہ ایک خوشبو تھی اچھی، ایک نیک نامی تھی۔ وہ خوشبو پھیلتی تھی ہر جگہ پہ۔ اللہ تعالیٰ ان کی سب اولاد کو ان کے نقش قدم پر چلنے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنےکی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔
چند دلچسپ واقعات: پرانی بات ہے، (اب تو نصرت جہاں اکیڈمی کے تمام اسٹاف کو حضورِانور نے وقف کرنے کی اجازت دی ہے) چودھری منیر احمد صاحب بطور انگلش ٹیچر نصرت جہاں اکیڈمی میں آئے تھے۔ جب انہوں نے وقف کردیا تو ان کی تقرری وکالتِ دیوان نے کرنی تھی۔ مجھے فکر پیدا ہوئی تو خاکسار نے موجودہ حضور انور سے ذکر کیا کہ ہمیں تو ان کی نصرت جہاں اکیڈمی میں اشد ضرورت ہے۔میاں صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا مسروراحمد صاحب اس وقت ناظرتعلیم تھے) نے میری درخواست پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے خود ہی منظوری لے لی۔ ان کا وقف بھی منظور ہو گیا اور ان کی نصرت جہاں اکیڈمی میں پڑھانے کی منظوری بھی مل گئی۔سبحان اللہ! مَیں قربان جاؤں خلیفۂ وقت کے۔ ایسا پیارا وجود جس نے ہماری ادنیٰ ادنیٰ باتوں کا خیال رکھا۔
چودھری منیر احمد صاحب کے بارے میں حضور کا ایک اورارشاد ملاحظہ فرمائیے۔ جنوری ۲۰۰۰ء میں ان کی والدہ کی وفات کے موقع پر حضور انور بطور ناظر اعلیٰ تعزیت کے لیے ان کے گھر تشریف لے گئے تو چودھری صاحب نے کہا کہ میاں صاحب! اب میری عمر ۷۰ سال ہو گئی ہے اورمیرا خیال ہے کہ اب مجھے ریٹائرڈ ہو جانا چاہیے۔ توحضور انور نے فرمایا کہ اب آپ نے ائرفورس سے بعد از ریٹائرمنٹ زندگی وقف کر دی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی ۔ آپ نے یہ کہاوت سنی ہو گی کہ جب اوکھلی میں دیا سر تو موسل سے کیا ڈر۔
چودھری منیر احمد صاحب کے ایک اَور واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت حضور انور ناظر اعلیٰ تھے۔ جب چودھری صاحب کی بہو اور بیٹا کینیڈا جانے لگے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے رہنے کے لیے کرایہ کا مکان چاہیے۔ ان کی بہو کو صدر انجمن احمدیہ میں کوارٹرالاٹ ہوا تھا۔ چودھری صاحب ان کے ساتھ رہتے تھے۔ میں نے اپنی طرف سے initiative لیتے ہوئے کہا کہ ابھی ٹھہریں۔ آپ بھی چونکہ واقف زندگی ہیں، میں ابھی ناظر صاحب اعلیٰ کے پاس جاتا ہوں۔ میں نے ٹیلیفون اٹھایا حضور انور سے ایک منٹ کی ملاقات کی اجازت چاہی۔ حضور انور کے دفتر میں داخل ہوا۔ میں نے بات کی کہ چودھری منیر احمد صاحب بھی واقف زندگی ہیں یہ مکان جس میں ان کی بہو اور بیٹا رہتے تھے انہیں الاٹ کر دیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ چودھری صاحب اپنا مکان بنا سکتے ہیں یا بنالیں گے، ان سے زیادہ مستحقین موجود ہیں اور ساتھ ہی فرما یا کہ آپ کی ملاقات کا ایک منٹ ختم ہو گیا ہے۔ آپ کے والد کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گئے۔ خدا کی قدرت اس طرح جلوہ نما ہوئی کہ حضور انور کے ارشاد کے بعد کچھ ہی عرصہ میں چودھری منیر احمد صاحب کو، جو سالہا سال سے کرائے کے مکان میں رہتے رہے تھے، مکان کی تعمیر کے لیے دار العلوم (جو بعد ازاں دار النصر غربی حلقہ منعم کہلایا)میں پلاٹ بھی خریدنے کی توفیق ملی اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے حضور انور کے ارشاد کی لاج رکھ لی اور یہ مکان ریکارڈ ٹائم میں تعمیراور مکمل ہوا۔ الحمدللہ
جہاں تک ان کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے۔میرا تعارف چودھری صاحب سے اسی وقت ہوا جب وہ اکیڈمی میں آئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب کہ ان کی آخری پوسٹنگ لوئر ٹوپہ مری میں تھی، تو وہاں سے ہی ان کے دل میں خیال آیا کہ باقی زندگی اب ربوہ میں گزاریں۔ جب انہوں نے سلسلہ کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا اور وہ اکیڈمی میں آئے، تو اس وقت وہ واقفِ زندگی نہیں تھے۔ بہرحال جب وہ آئے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے گھر میں آپ کی دادی اماں کے ساتھ ان کا سلوک، اپنی بیگم سے ان کا سلوک،وہ بھی ہم سب کے سامنے قابل تقلید ہی تھا۔ اللہ کے فضل سے بہت ہی عزت اوراحترام سے اپنی والدہ سے پیش آتے تھے۔ وہ مقام جو والدہ کا ہوتا ہے اس کا پاس کرتے ہوئے بڑی عزت سے، بڑے احترام سے، ان کی خدمت کرتے دیکھا۔ اہلیہ کے ساتھ سلوک تو وہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے اس کے مطابق تھا۔ ماشاءاللہ بھابھی جان کو تو بہت محبت اور پیار سے ساری عمر رکھا۔ ان کی باتوں کا جواب بڑے میٹھے اور پیارے انداز میں دیا کرتے تھے۔ وہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہے۔
وہ آخر دم تک ٹھیک رہے ہیں بلکہ وفات سے ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے مجھ سے بات ہوئی تو کہتے ہیں میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے کوئی بیماری نہیں اللہ کا فضل ہے۔ بھابھی جان کی ایک دفعہ حالت بڑی غیر ہو گئی، ہسپتال میں ان کے چھوٹے بھائی کیپٹن نعیم صاحب کو ان کی تیمار داری کرتے دیکھا، تو اپنے بھائی سے بھی چودھری صاحب کا سلوک بہت ہی پیار کا تھا اور وہ بھائی بھی بڑے مؤدبانہ انداز سے ان سے پیش آتے رہے کیونکہ چودھری صاحب بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔
ہم صرف کولیگ ہی نہیں تھے بلکہ بھائیوں کی طرح چھوٹے بھائی اور بڑے بھائی تھے۔ دل کی، راز کی بات وہ بھی مجھ سے کر لیا کرتے تھے، تو میں بھی ان سے کر لیا کرتا تھا۔ جب ایک بیٹی مشکل دور سے گزر رہی تھی اور جو بیٹی کا غم تھا وہ غالب تھا اور اس کا اظہار بھی اور دعا بھی اور یہ ساری باتیں ہوتی رہیں لیکن اس کے باوجود طبیعت میں بیلنس (balance) تھا لیکن بیٹی کی محبت کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی بوجھ تھا توان کو میں جو چھوٹے بھائی کی حیثیت سے دلاسہ دے سکتا تھا یا کوئی بات کر سکتا تھا وہی فرض ادا کیا۔ الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دور سے بھی جلد گزار دیا۔
فیکٹری ایریا میں رہائش کے دوران مجھے یاد ہے کہ جب عزیزہ لبنیٰ بیٹی کولڈ کافی(cold coffee) سے تواضع کیا کرتی تھیں، مجھے بڑا مزہ آتا تھا اوراس کی تعریف ہوتی تھی۔
چودھری صاحب کی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کی طرف اگرچلیں تو گھر میں جب بھی کوئی مہمان آیا ان کی کوشش ہوتی تھی کہ اٹھ کے خود پلیٹ میں ڈال کے دیں۔ شرم بھی آتی تھی کہ اتنا بڑا آدمی، رتبے کے لحاظ سے، عقل اور علم کے لحاظ سے بھی، کیسے شوق و جذبہ سے خدمت بجا لا رہا ہے۔
آخروہ جاٹ بھی تھے اور گاؤں کے چودھری بھی۔ ان کے نام کے ساتھ چودھری چلتا تھا۔ مجھے ایک واقعہ سناتے تھے کہ بچپن میں ہوتا یہ تھا کہ ہم دیکھتے تھے جب باہر سے کوئی مہمان آتا تھا اور ہمارے گاؤں میں داخل ہوتا تھا تو اگر وہ کہتا تھا کہ میں چودھریاں دےگھر جاناں اے، تو سارے گاؤں کے بچوں کو پتا تھا کہ چودھریوں کا گھر کون سا ہے۔ تو اس کی انگلی پکڑ کر وہ سیدھے ہمارے گھر لے آتے تھے۔
ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ آبائی زمین کی فروخت کے لیے سارے بہن بھائیوں نے مختار نامہ چودھری صاحب کو دے دیا تھا۔ اور اتفاق سے جو خریدار تھا اس کو جرأت نہیں تھی کہ چودھری صاحب سے ڈائریکٹ سودے کی بات کرے۔ اور جو ان کا لڑکا تھا وہ امریکہ میں آباد تھا جس نے یہ زمین (گاؤں والی) خریدنی تھی، تو وہ سودا کرنے کے لیے ہمارے علاقے کے ایک احمدی دوست کے ساتھ میرے پاس آئے۔ کھاریاں میں اس کی کوٹھی بھی تھی۔ اس کی بڑی بہن بھی وہاں تھی۔ جب ہم زمین انتقال(transfer) کروانے کے لیے گئے تو تحصیلدار کو وہیں بلوا لیا تھا۔ میں اور چودھری صاحب دونوں ہی گئے تھے۔ بہرحال سودے کے وقت وہ بات کرنے سے ڈرتے تھے کہ چودھری صاحب تو بہت اصولی سے آدمی ہیں کہ کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو جائے اورسودا ہی نہ ہو۔ چودھری صاحب نےاپنے بھائی کیپٹن نعیم احمد صاحب کو بھی بلا لیا تھا۔ جب بات طے ہو گئی توانہوں نے بیعانہ کی رقم (ایک لاکھ یا دو لاکھ روپیہ تھی) چودھری صاحب کودی، تو رجسٹری کی بات شروع ہوئی۔ تو انہوں (زمین خریدار) نے کہہ دیا کہ بات یہ ہے کہ اصل میں ہم نےجتنے دینے ہیں اس سے لکھانے ہم نے زیادہ ہیں۔ تو مجھے یاد ہے کہ چودھری صاحب نے وہ جو ان کے ہاتھ میں بیعانہ کی رقم تھی زمین پر پھنک دی اور کہا ’’تسی میرے کولوں جوٹھ بلواندے او، میں کوئی نئیں زمین ویچنی‘‘۔ وہ شخص جو ساتھ آیا ہوا تھا وہ ہنس پڑا اورکہا کہ واقعی جس طرح ان کو ڈرتھا ویسے ہی ہیں جیسا کہ انہوں نے سنا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ آگے بڑھ کے ہیں۔ تو پھر اس کے بعد میں نے کہا کہ سودا تو ٹھیک ہے لیکن چودھری صاحب کی اس بات کا کچھ مداوا کرلیں کیونکہ جھوٹ تو انہوں نے بولنا نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ چلو ٹھیک ہے مداوا ہم کر لیں گے سودا پکا ہے۔ خریدنے والوں کی ایک بہن جو ساتھ آئی ہوئی تھی وہ آپ کی پھوپھی اور دادی اماں کا بڑے پیار سے ذکر کر رہی تھی۔ وہ اس وقت تو مالی طور پر بہت زیادہ چودھری صاحب سے آگے تھے لیکن ان کی طبیعت میں وہ پرانا حجاب، فرمانبرداری کی جھلک اور پرانی خاندانی وجاہت کا اتنا اثر تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ چودھری صاحب سے اس کی ہمشیرہ بڑی ہچکچاہٹ اور حجاب محسوس کرتی تھی کہ جیسے چھوٹا آدمی بڑے آدمی سے بات کر رہا ہو۔ پھرایک اور بڑی بات وہاں پر یہ ہوئی کہ جب وہ ڈاکومنٹ تیارہو گیا اور چودھری صاحب نے وہاں دستخط کر دیے اور گاؤں کی زمین دوسروں کے نام کروا دی تو سب کے سامنے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’گورایہ صاحب! اے چودھر پئی جے ککرالی دی‘‘۔ اس بات کا اثراس طرح سے اس شخص پرہوا (جو خرید رہا تھا) کہ اس نے بڑے عزت اور احترام سے کہا کہ چودھری صاحب آپ نے کسی اور کو تو دی نہیں یہ آپ نے اپنے بھتیجے کو ہی دی ہے۔ زمین بے شک آپ اپنے نام ہی رکھیں۔ میں نے کہا کہ اب تو یہ سب کہنے کی باتیں ہیں جو بات چودھری صاحب نے کر دی سو کر دی۔ تو بڑا لطف آیا ان دونوں باتوں میں، مَیں نے اس لیے اس واقعہ کا ذکر کردیا ہے کیونکہ میں اس وقت ان کے ساتھ تھا اور آپ لوگوں میں سے یا ان کے بھائیوں میں سے کوئی موجود نہیں تھا۔ میں اور چودھری صاحب اکیلے گئے تھے جب زمین کا انتقال ہونا تھا۔ ایک آدمی مال و دولت کے لحاظ سے خواہ کسی مقام پر بھی پہنچ گیا تھا، لیکن وہ جو عزت اور احترام آپ کے خاندان اور چودھری صاحب کے لیے ان کے دل میں تھا اور وہ جواسے ایک ڈر تھا ایک حجاب سا تھا، وہ سودا کرتے وقت بھی موجود تھا، انتقال کراتے وقت بھی موجود تھا، وہ زمین ان کے نام لگواتے وقت بھی موجود تھا۔ چودھری صاحب کے اس اظہار پر کہ ’’چودھر تے اے اتھے پئی ہوئی اے‘‘ اس کے دل پہ ایسی لگی کہ اس نے سمجھ لیاکہ واقعی یہ بات تو صحیح کر رہے ہیں۔ تبھی تو اس نے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں چاچا جی میں بھی تو آپ کا ہی ہوں۔
اب میں اس اکیڈمی کی طرف آتا ہوں۔ جب وہ آئے تو اللہ کے فضل سے پہلے دن ہی جب ان سے میرا تعارف ہواکہ میں نے ہمیشہ سٹاف سے بڑے پیار محبت سے ساری زندگی نائیجیریا میں بھی، یہاں بھی، (اب اپنا سکول بھی بنایا ہوا ہے) تو محبت پیار سے ہی کام لیتا ہوں اور ہم تم والی بات نہیں ہوتی۔ تو چودھری صاحب کو تو پہلے دن سے ہی ان کے تجربے سے، ان کے علم سے، ان کی فراست سے، ان کے مرتبے سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی اور ہر کام ان کے مشورے سے کرنا شروع کر دیا۔ اور انہوں نے بھی کبھی ایسی کوئی بیگانگی یا اجنبیت نہیں برتی۔ بڑے چھوٹے کے فرق کو مٹاتے ہوئے ہر طرح خاکسار کے ساتھ تعاون بھی کیا اور کام بھی کیا اور پھر محنت بھی کی۔ بس ہمارا مطمح نظر ہمارے سامنے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا ارشاد تھا کہ سیکنڈ ٹو نن (second to none) والی بات ہے۔ دنیا کی کوئی بات ایسی نہیں ہے کہ جو ہم حاصل نہیں کر سکتے۔ پھر اللہ کے فضل سے جب ہم نے اکٹھے کام کرنا شروع کیا تو جوں جوں ان سے قربت بڑھتی رہی، ان کی شخصیت نکھرتی ہوئی سامنےآتی چلی گئی، تو پھران سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام سکول کا نہیں ہوتا تھا۔ گھر میں بھی ہم اپنے گھریلو مسائل پہ بھی ان سے گفتگو کر لیا کرتے تھے۔اور آپ اللہ کے فضل سے بڑی صائب رائے رکھنے والے، بڑے قدر شناس اور مردم شناس تھے۔ سمجھ جاتے تھے کیونکہ انہوں نے ایک ڈسپلنڈ لائف (disciplined life) گزاری تھی ملٹری ٹریننگ کا ایسا اثر تو تھا ہی۔ تو ہم نےان کی اصول پسندی اور سختی اوران کی ملٹری ٹریننگ سے بھی فائدہ اٹھایا اور کبھی ناراض بھی نہیں ہونے دیا۔ الحمدللہ
اکیڈمی ستمبر ۱۹۸۷ء میں شروع ہوئی۔ جنوری ۱۹۸۸ء کے آخر میں یا فروری کے شروع میں چودھری صاحب نے ہمیں جوائن کر لیا۔ جب وہ آئے تو میرے ایک عزیز تھے انہوں نے مجھے ایک دن بلا کے کہا کہ ’’گورایہ صاحب ! تسی اپنی فکر کرو‘‘۔ میں نے کہا ’’کیوں کیا ہوا ہے؟’’ توانہوں نے کہا کہ آپ سے زیادہ پڑھے لکھے، عمرمیں زیادہ تجربہ کار، آپ سے زیادہ کوالیفائیڈ، ہر لحاظ سے آپ سے ایک بہتر منتظم موجود ہیں تو اب وہ پرنسپل بنیں گے آپ نہیں۔ میں نے کہا چلیں یہ تو دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہےاور کیا نہیں ہوتا (مجھے اب یاد نہیں کہ میں نے کیا کہا تھا اور کیا نہیں کہا تھا ) لیکن کوئی ایک دن بھی ان اکیس سال میں ایسا نہیں آیا کہ میں نے یہ محسوس کیا ہو کہ چودھری صاحب باس ہیں یا میں۔ باس والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ پاکستان سے باہر کا مجھے جو تھوڑا بہت تجربہ تھا میں تو کہتا تھا کہ نام کا پرنسپل تو مَیں ہوں، اصل میں وہی تھے کیونکہ ہم ان کے مشورے کے بغیر تو چلتے ہی نہیں تھے۔ چھوٹی چیز ہو یا بڑی ہو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے مشاورت سے بہت ہی فائدہ اٹھایا، ان کے ہر قسم کے تجربے سے بھی فائدہ اٹھایا۔ ان کی قابلیت سے بھی فائدہ اٹھایا۔ ان کے مشوروں سے، ان کی ایجوکیشنل اپروچ سے بھی۔ جس طرح کا سٹاف تھا، اسی سے ہی ہم نے کام لینا تھا۔ تو جتنا بھی سٹاف میسر آیا، جیسے بھی حالات تھے، ہمارے ذہن میں صرف جماعتی خدمت اور جماعتی ادارہ تھا اور حضرت صاحب کے ارشادات کو سامنے رکھ کے ہم نے کوشش شروع کی تو اللہ نے ہم کو اپنے فضل سے نوازا۔ پھرجو زمانہ صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کا بطور ناظرتعلیم تھا، ان سے بھی ہم اکٹھے ہی ملتے تھے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے اورویسے بھی ان کے نظریات اور خاندان کے فرد کی حیثیت سے وہ علمی آدمی تھے، تو ان سے بھی بہت کچھ ہم نے سیکھا۔ صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب موجودہ حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کا زمانہ جب وہ ناظر تعلیم یا پھرناظر اعلیٰ تھے۔ تو جب بھی ہم ان سے ملتے تو چودھری صاحب ایک بات کو بہت دہرایا کرتے تھے، کوئی مشورہ دیتے ہوئے پہلے ہی کہہ دیتے تھے کہ’’بعض اوقات میں عمر کا فائدہ اٹھا لیتا ہوں تو میں نے اپنی عمر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بات کردی ہے‘‘۔ بات کرنے کے انداز میں بھی اپنے خلفاء سے، خلفاء کی اولاد سے،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کےافراد سے عزت و احترام والی بات قائم دائم رہتی تھی۔ بعض دفعہ وہ اس کو کنسیڈر(consider) بھی کرلیا کرتے تھے، اس لیے ان باتوں ان مشوروں اورمحنت کا نتیجہ تھا ورنہ ہم تو کوئی زیادہ پڑھے لکھے PhD بندے نہیں تھے، نہ ہی کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ چودھری صاحب کی آمد سے میٹرک تک انتظامی اور ڈسپلن کے لحاظ سے جو کمیاں تھیں وہ پوری ہوتی رہیں۔ جب ہم نے O-Levelشروع کیا تو وہ بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ ا س وقت سوائے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کےکسی اور جگہ او لیول کی کلاسز نہیں ہوتی تھیں۔ ہم نے یہاں شروع کیں تو اللہ کے فضل سے پہلے ہی سال ۱۹۹۸ء میں جو رزلٹ آیا اس میں Mrs Rickwood جوO level exam کی انٹرنیشنل مینیجر تھیں وہ او لیول ایگزام کے ۱۴؍ ایوارڈ لے کرپاکستان آئی تھیں۔ برٹش کونسل لاہور میں یہ تقریب منعقد ہوئی تھی۔ برطانیہ کے سفیر بھی آئے ان ۱۴؍ایوارڈز میں سے ۲؍ایوارڈ اللہ کے فضل سے ہماری اکیڈمی کے تھے۔ سارے پاکستان میں ملکی لیول پر یہ پہلی کامیابی تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو اس وقت ناظر تعلیم تھے ہم ان کے پاس رزلٹ لے کر جاتے تھےکہ اتنے فیصد رزلٹ ہے، اتنے بچے اے گریڈ میں ہیں اتنے بچےان میں سے۹۰فیصد سے اوپر ہیں تو میاں صاحب اس وقت یہ کہتے تھے کہ میں تب مانوں گا کہ جب ہماری بورڈ میں کوئی پوزیشنز آئیںگی۔ میں نے عرض کی کہ آپ دعا کریں۔ محنت سے ہم نے کام شروع کیا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم نے اپنے بستر اکیڈمی میں ہی لگا دیے ہیں۔ سٹاف نے بڑی محنت کی۔ جتنے بھی لوگ تھے ان حالات میں کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر ہم نے ہر چیز میں حصہ لینا شروع کردیا۔ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ ڈسٹرکٹ لیول پر وہ ہمیں اطلاع ہی نہیں دیتے تھے کیونکہ ہر مقابلہ میں ہماری پوزیشنز ہوتی تھیں۔ پھر بورڈ لیول، پھرصوبائی اور ملکی سطح پر انعامات حاصل کیے۔ الحمدللہ۔ یہ سب نظارے ہم نے دیکھے۔ اس میں چودھری صاحب کا اور پروفیسر طاہر احمد نسیم (جوانگلش کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے) کا بڑا کردار ہوتا تھا۔ اللہ کے فضل سے ۱۹۹۷ء میں جو پچاس سالہ تقریبات اسلام آباد میں نیشنل لیول پر منعقد ہوئیں انگلش کی تقریرمس فاطمہ خان نے کی تھی جو نصرت جہاں اکیڈمی کی طالبہ تھی اور فرسٹ پرائز بھی اس نے لیا تھا، یہ ایک تاریخی واقعہ ہوا۔ یہ تقریر پروفیسر طاہر احمد نسیم اور چودھری صاحب کی مرہون منت تھی۔ اللہ کے فضل سے پھر بورڈز میں پوزیشنیں آنی شروع ہو گئیں۔ ڈویژن لیول پر بھی ملکی لیول پر بھی انٹرنیشنل لیول پر بھی O۔لیول کےامتحان کے ذریعے بڑی بڑی کامیابیاں ملتی رہیں لیکن یہ سب کچھ خدا کا فضل اور حضور انور کی دعائیں اور ان کی راہنمائی کی بدولت تھیں۔ اللہ کے فضل ادارے پر بھی نازل ہوتے رہے طلبہ کے داخلے بھجوانے کے موقع پر چودھری صاحب اپنے موقف پر ڈٹ جاتے تھے تو ہم انہیں منا ہی لیتے تھے۔ اگر گھر بھی جانا پڑے تو ہم جا تےتھے۔ بہرحال انہوں نے بھی عزت و احترام کا رشتہ میرے ساتھ، بڑے پیار کا رشتہ چھوٹے بھائیوں کی طرح ہمیشہ قائم رکھا۔
ان کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے۔ جہاں تک دینی پہلو کا تعلق ہے وہ بڑے دعا گو ،تہجد گزار تھے۔محلہ میں امام لصلوٰۃ بھی تھے۔ ان کا انداز بھی بہت پیارا تھا۔ بچوں کے ساتھ بھی دوستوں و بزرگوں کے ساتھ بھی ہمیشہ ان کی شخصیت کو اگر مختصر الفاظ میں بیان کرنا پڑے تو میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اللہ کے فضل سے ایک بڑے کھرے، سچے اور لگی لپٹی رکھے بغیر قولِ سدید سے کام لینے والی ہردلعزیز شخصیت تھے۔
جب میں یہاں سے ۲۰۰۸ء میں فارغ ہوا تو حضرت صاحب نے میری پوسٹنگ دفتر صدر عمومی میں کر دی۔ چودھری صاحب لمبا عرصہ وہاں کالج میں رہے۔ میں یہ بھی تصحیح کر دوں کہ وہ جب آئے تھے بےشک پروفیسرطاہر نسیم صاحب وائس پرنسپل تھے لیکن جب کالج کی کلاسز شروع ہوئیں تو چودھری صاحب ہی وائس پرنسپل نصرت جہاں کالج تھے اور اللہ کے فضل سے بچوں نے اور ہم نے بہت کچھ ان سے سیکھا ہے۔ بچوں کے ساتھ ان کا رویہ بھی اسی طرح تھا اورمیرے ساتھ بھی۔ یہ پانچوں سیکشن اکٹھے تھے اور خاص طور پر گرلز سیکشن جب ہم نے شروع کیا۔ اور جونیئر سیکشن کے لیے بھی چودھری صاحب کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ایئر فورس کے تجربے کی بنا پر گرلز سیکشن کی راہنمائی بھی کرتے رہے اور ہمیشہ میرے ساتھ ہی ہوتے تھے۔ وہ ہم سب کے بزرگ تھے اور اُن کی باتوں میں ہمیشہ روحانیت کا بھی پہلو ہوتا تھا ۔ بڑا مزہ آتا تھا باتیں کرنے کا، کام کرنے کا اور ان سب پہ عمل کرنے کا۔ اس زمانے کا جتنا سٹاف ہے ہم ایسے ہی تھے جیسے ایک فیملی کے ممبران کام کرتے ہیں اور چھوٹے بڑے کی عزت احترام کو قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت اور پیارعزت و احترام سے ہم اکٹھے رہے۔ اللہ کے فضل سے بہت ہی پیار سے خدمت کی توفیق ملی ہے۔
وہ بات جو کسی نے مجھ سے ان کے آنے پر کہی تھی ساری زندگی کبھی سامنے نہیں آئی۔ چودھری صاحب نے قضا میں قاضی کے طور پربہت ہی اعلیٰ کام کیا۔قضا کے ریکارڈ میں بھی اور تعلیمی میدان میں بھی ان کی جتنی خدمات ہیں انہیں ایک لمبا عرصہ یاد رکھا جائے گا۔
اساتذہ کے لیے راہ نما ہدایات: نصرت جہاں اکیڈمی میں قیام کے دوران مکرم چودھری منیر احمد صاحب کی راہنمائی میں ہم نے اساتذہ کے لیے راہنما ہدایات تیارکروائیں جو اُ مید ہے اساتذہ کے لیے سود مند ثابت ہوں گی۔ ہمارے وہ نوجوان جو Trainedنہیں، ان کو تدریس کے قواعد سےآگاہی ہو گی اور جو تجربہ کار ہیں ان کے لیے وہ باتیں جو Complacency کی وجہ سے ہوسکتا ہے محو ہو گئی ہوں پھر سے مستحضر ہو جائیں گی۔ ان شاءاللہ۔ مثلاً: ادارہ آپ سے کیا چاہتا ہے، پلاننگ (منصوبہ بندی )پریڈ کے وقت کی تقسیم، کلاس روم کا ماحول، پڑھانے کا اسلوب، کلا س کنٹرول، بلیک بورڈ ار وائٹ بورڈ وغیرہ وغیرہ۔
جیسا کہ زرعی زمین کی فروخت کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولنا۔ اسی طرح وہ سچائی تھی جو ان کے چہرے کا نور تھااور سچائی ہی تھی جو ان کی شخصیت کا مظہر تھی۔ وہ سچائی ہی تھی جو ان کی عبادت میں تھی ان کی خدمات میں بھی تھی۔ ان کا جو روحانی مقام تھااس میں بھی تھی۔وہ سچے اور کھرے اور سیدھے قول سدید سے کام لینے والے انسان تھے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ اچھا مشورہ دینے والے، اچھی گائیڈنس دینے والے، اچھے مشیر تھے اور وہ محبت کے ساتھ اور پیار کے ساتھ اور دعا کے ساتھ ہر کام کو کرنے والے انسان تھے۔ کیونکہ جب کسی انسان سے محبت ہو اور پیار ہواس کی شان میں جب انسان کوئی بات کرتا ہےتو بعض اوقات مبالغہ آرائی بھی ہو جاتی ہے ۔ میں محتاط پہلو اختیار کرتے ہوئے سمجھتا ہوں کہ وہ ہم سے بہت ہی اعلیٰ مقام اور اعلیٰ ظرف والے اعلیٰ انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کوکروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
آپ کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ آپ ایسے والد کی اولاد ہیں، جن پہ ہمیں فخر ہے (آپ کو تو فخر ہونا ہی ہے) کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تعلیمی ادارے کو بنانے میں، اس کو سنورانے میں بہت محنت سے یہاں کے بچوں کی اور اساتذہ کی تعلیم و تربیت میں ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے، ان کےخاندان کے ہر فرد میں، ان کی اولاد در اولاد میں خلافت سے محبت اور پیار اور عزت اور احترام اور خدمت کا یہ جذبہ اوروہ روح ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ آمین۔
انہوں نے تو ان بزرگ صحابہؓ کا دور دیکھا اوران کو ملے، اپنی نظروں کے سامنے ان کا طرز زندگی دیکھا تھا۔ اس میں وہ پورے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ جہاں بھی رہے بالکل نڈر احمدی کی صورت میں، سب کو پتا تھا کہ احمدی ہیں، اور اللہ کے فضل سے احمدیت کی وجہ سے ان کا نام بھی تھا ان کے کام بھی ایسے ہی تھے جس پہ لوگ فخر بھی کرتے تھے اور ان کوfollow کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے۔آپ سب لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی اولاد ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضلوں سے نوازتا رہے – آمین
آخر پر میں اس بات کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں جس کا تعلق میری ذات سے ہے وہ یہ کہ وہ میری حوصلہ افزائی اس طرح پر کیا کرتے تھے کہ جب بھی اکیڈمی یا طلبہ کی بہتری کے لیے بعض میرے اٹھائے گئے اقدامات میری سوچ اور میرے فیصلوں پہ بات ہوتی تھی تو وہ اکثر یہ جملہ کہا کرتے تھے کہ میں آپ کی کوئی خوشامد یا مداہنت نہیں کر رہا، اللہ کے فضل سے یہ فیصلہ بہت اچھا ہے، یہ اقدام بہت اچھا ہے یا آپ کی سوچ ماشاءاللہ بڑی ٹھیک ہے۔ تو اس طرح سے بڑے پیار اور محبت اور بڑے سلوک اور جذبات کے ساتھ اکٹھے ایک دوسرے کی کمپنی کو انجوائے کرتے ہوئے ہم کام کرتے رہے۔ الحمدلله
خداکا فضل سب سے پہلے ہے جس کے نتیجے میں جو کچھ ہمیں حاصل ہوا اسی خدا کے طفیل تھا۔ ان اداروں کو جو کچھ نصیب هوا، طلبہ اور سٹاف کو جو کچھ ملا، یہ سب اسی کی عطا تھی۔ اور اسی کا واسطہ دے کر ہم دست دعا دراز کرتے ہیں کہ خدایا اس کو قبول فرما۔ آئندہ بھی ہماری نسلوں میں اس سے زیادہ جوش اور جذبے کے ساتھ کام کرنےوالے عطا فرماتا رہے آمین۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین
(خالد گورایہ، سابق پرنسپل نصرت جہاں اکیڈمی)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب کا ذکر خیر