سنہ سات اور آٹھ ہجری کے بعض غزوات اور سرایا کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۸؍اپریل ۲۰۲۵ء
٭… آنحضرتؐ ان مہمات میں یا جنگ کے لیے اُس وقت بھیجتے تھے، جب یہ خبر ہوتی تھی کہ لوگ اسلام کے خلاف سازش کر رہے ہیں
٭… مولوی اور اِن کے چیلے جو آجکل پاکستان میں ہیں، جنّت میں جانے کی باتیں کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ احمدیوں کو قتل کر دو تو جنّت میں جاؤ گے لیکن اُنہیں پتا نہیں کہ یہ عمل انہیں الله تعالیٰ کی سزا کا مورد بنا رہے ہیں۔ کبھی نہ کبھی تو الله تعالیٰ کی پکڑ ان پر آئے گی
٭… پاکستان میں احمدیوں کی حالیہ مخالفانہ لہر کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍اپریل ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۸؍ شہادت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامسايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۸؍اپریل۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے بعض اور غزوات و سرایا کا آج ذکر کروں گا۔
تاریخ میں ایک سریّہ
حضرت عمر بن خطابؓ بطرف تربہ
کا ذکر بھی ملتا ہے۔یہ سریّہ شعبان ۷؍ہجری میں ہوا۔ رسول اللهؐ نے حضرت عمربن خطاب ؓکو ہواذن قبیلہ کی طرف تربہ مقام کی طرف تیس افراد کے ساتھ بھیجا۔ اِس سریّہ کو بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللهؐ کو اہلِ تربہ کی طرف سے اسلام کے خلاف سازشوں کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔ حضرت عمرؓ روانہ ہوئے تو آپؓ کے ساتھ بنو ہلال کا ایک شخص گائیڈ تھا۔ صحابہؓ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپ جاتے۔ اہلِ تربہ کو خبر پہنچی تو وہ وہاں سے بھاگ گئے۔حضرت عمرؓ ان کے علاقے میں پہنچے، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا، وہ پہاڑوں پر چلے گئے تھے اور اُن کا سارا مال مویشی وغیرہ وہاں تھا وہ قبضے میں کر لیا، کیونکہ یہ شرارتی لوگ تھے ۔حضرت عمرؓ یہ سامان لے کےواپس چل پڑے۔
پھر ایک سریّہ
حضرت بشیر بن سعدؓ فدک میں بنو مُرّہ کی طرف ہے۔
یہ سریّہ شعبان ۷؍ہجری میں حضرت بشیر بن سعدؓ کی قیادت میں ہوا۔آپؓ کی کُنیت ابو نعمان تھی۔آپؓ زمانۂ جاہلیت میں لکھنا جانتے تھے۔انہوں نے بیعت عقبہ ثانیہ میں کی، جس میں ستّر انصار شامل ہوئے تھے، آپؓ غزوۂ بدر، اُحد و خندق اور باقی کے تمام غزوات میں آنحضرتؐ کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔آپؓ انصار کے پہلے شخص تھے، جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر سقیفہ بنو ساعدہ کے دن بیعت کی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت ۱۲؍ہجری میں آپؓ حضرت خالدبن ولیدؓ کے معرکہ عین التمر میں شریک ہوئے اور آپؓ کو شہادت نصیب ہوئی۔
اِس سریّہ کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللهؐ نے حضرت بشیر بن سعد ؓکو تیس صحابہؓ کے ساتھ فدک بن بنو مُرّہ کی طرف بھیجا۔یہ واضح ہوکہ
آنحضرتؐ اِن مہمات میں یا جنگ کے لیے اُس وقت بھیجتے تھے، جب یہ خبر ہوتی تھی کہ لوگ اسلام کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
بہرحال صحابہؓ روانہ ہوئے اور بکریاں چرانے والوں سے ملے اور اُن سے بنو مُرّہ کے متعلق پوچھا، اُنہوں نے بتایا کہ بنو مُرّہ اپنی وادی میں ہیں اور چشمے پر نہیں آئے۔ صحابہؓ نے اُن کی بھیڑ بکریاں ہانکیں اور مدینے کی طرف واپس روانہ ہو گئے۔ بنو مُرّہ کا منادی پکار اُٹھا، اِس واقعہ کی خبر دی۔ اِس پر بنو مُرّہ کے لوگ واپس آئے اور اُنہوں نے مسلمانوں پر بہت بڑا لشکر لے کر حملہ کیا۔
ساری رات مسلمان تیر اندازی کرتے رہے، یہاں تک کہ صحابہؓ کے تیر ختم ہوگئے، جب مسلمانوں نے صبح کی تو بنو مرہ نے دوبارہ حملہ کر دیا اور حضرت بشیرؓ کے ساتھیوں کو شہید کر دیا۔ آپؓ اُن لوگوں سے شدید جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ وہ زخمی ہو کر گر پڑے، اِن کے ٹخنے پر چوٹ لگی اور سمجھا گیا کہ وہ فوت ہوگئے ہیں ، لیکن وہ محفوظ رہے۔ پھر بنو مُرّہ اپنی بھیڑیں اور بکریاں لے کر واپس چلے گئے۔
پھر ایک سریّہ
حضرت غالب بن عبدالله لیثیؓ بطرف میفعہ
کا ذکر ہے۔یہ سریّہ رمضان ۷؍ہجری میں ہوا۔ آپؓ اہلِ حجاز میں سے تھے۔ فتح مکّہ کے موقع پر موجود تھے اور اِن کو رسول اللهؐ نے فتح مکہ سے پہلے جاسوس کے طور پر آگے بھیجا تھا۔ حضرت امیر معاویہؓ کے دَور میں یہ خراسان کے والی تھے۔
ابنِ سعدنے لکھا ہے کہ رسول اللهؐ نے آپؓ کوبنو عوال اور بنو عبد بن ثعلبہ کی طرف بھیجا، جو میفعہ میں تھے، انہوں نے مسلمانوں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرتے ہوئے لوگوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا تھا، تاکہ احزابِ عرب جیسی کوئی مزید کارروائی کی جا سکے۔
رسول اللهؐ نے آپؓ کو ایک سو تیس صحابہؓ کے ساتھ بھیجا۔رسول اللهؐ کےآزاد کردہ غلام حضرت یسارؓ اُن کے گائیڈ تھے، مسلمانوں نے ایک ساتھ ان پر حملہ کیا اور اُن کی آبادیوں کے درمیان تک جا پہنچے۔ اُن میں سے جو مقابلے پر آیا، اُس کو قتل کر دیا اور مالِ غنیمت میں بھیڑ بکریاں مدینے لے آئے اور کسی کو قیدی نہ بنایا۔
ابنِ سعدؒ نے لکھا ہے کہ یہ وہی سریّہ ہے، جس میں حضرت اُسامہ بن زیدؓ نےمِرْداس بن نہیک کو قتل کیا، جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا تھا۔ بخاری میں اِس واقعے کی تفصیل بروایت حضرت اُسامہ بن زید رضی الله عنہما یوں ملتی ہے کہ جب نبی کریمؐ کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے فرمایا کہ اَے اُسامہ! کیا تم نے اُسے مار ڈالا بعد اِس کے کہ اُس نے کہالا الٰہ الا اللہ ، مَیں نے کہا کہ وہ اپنا بچاؤ کر رہا تھا، مگر آپؐ مسلسل اِسے دُہراتے رہے۔ یہاں تک کہ مَیں نے یہ آرزو کی کہ مَیں اُس دن سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔مسلم نے اِس روایت کو یوں درج کیا ہے کہ تم نے کیوں نہ اِس کا دل چیرا تاکہ تم جان لیتے کہ اُس نے یہ دل سے کہا تھا کہ نہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ
لیکن آجکل کے مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے احمدیوں کے دل چیر کے دیکھ لیے ہیں، اِس لیے احمدیوں کو شہید کرنا اور اِن پر ظلم کرنا جائز ہے۔ الله تعالیٰ ان کی پکڑ کے بھی سامان کرے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللهؐ نے مِرْداس کے اہلِ خانہ کو اِس کی دیّت دینے کا حکم دیا اور اِس کا مال اُنہیں واپس کر دیا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اِس واقعے کو یوں بیان کیا ہے کہ جب رسول اللهؐ کو اِس لڑائی کی خبر دینے کے لیے ایک بدوی شخص مدینے پہنچا ،تو اُس نے لڑائی کے سب احوال بیان کرتے کرتے یہ واقعہ بھی بیان کیا اِس پر آپؐ نے اُسامہ کو بلوایا اور پوچھا کہ کیا تم نے اُس آدمی کو مار دیا تھا؟ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم کیاکرو گے، جب لا الٰہ الا اللہ تمہارے خلاف گواہی دے گا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا، یہ
مولوی اور اِن کے چیلے جو آجکل پاکستان میں ہیں، جنّت میں جانے کی باتیں کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ احمدیوں کو قتل کر دو تو جنّت میں جاؤ گے۔ لیکن اُنہیں پتا نہیں کہ یہ عمل انہیں الله تعالیٰ کی سزا کا مورد بنا رہے ہیں۔ کبھی نہ کبھی تو الله تعالیٰ کی پکڑ ان پر آئے گی۔
بہرحال حضرت مصلح موعودؓ خود بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیا جائے گا کہ جب اُس شخص نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا تو پھر تم نے کیوں مارا؟ گو وہ قاتل تھا مگر توبہ کر چکا تھا۔ حضرت اُسامہؓ نے کئی دفعہ جواب میں کہا کہ یا رسول اللهؐ! وہ تو ڈر کے مارے ایمان ظاہر کر رہا تھا۔ اِس پر آپؐ نے فرمایا کہ تُو نے اُس کا دل چیر کے دیکھ لیا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے؟ اور پھر بار بار یہی کہتے چلے گئے کہ
تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے، جب اُس کا لا الٰہ الا اللہ تمہارے سامنے پیش کیا جائے گا؟
پھر ایک سریّہ ہے
حضرت بشیر بن سعد، جو یمن اور جبار کی طرف ہے۔
یہ سریّہ شوّال ۷؍ہجری میں ہوا۔ رسول اللهؐ کو خبر ملی کے غطفان کا ایک گروہ آپؐ کے خلاف جمع ہو رہا ہے اور عُیینہ بن حِصن نے آپؐ کے خلاف اِن کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ آپؐ نے اِس خبر کا ذکر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کیا ،تو اُنہوں نے حضرت بشیربن سعد ؓکو بھیجنے کا مشورہ دیا۔ آپؐ نے حضرت بشیربن سعد ؓکو بلوایا اور اُن کے لیے پرچم تیار کروایا اور اُن کے ساتھ تین سو صحابہؓ کو روانہ فرمایا۔ جب وہ جبار مقام پر پہنچے تو چرواہے وہاں اپنے جانور چرا رہے تھے۔وہ مسلمانوں کو دیکھ کر وہاں سے بھاگ نکلے اور غطفانیوں کو جا کر خبر دی، وہ لوگ یہ خبر سن کر اپنے مال مویشی چھوڑ کر اپنی بستی کے بالائی حصّوں کی طرف فرار ہو گئے۔ اُن میں سے صرف دو آدمی ہاتھ لگے، جنہیں گرفتار کر لیا گیا، صحابہؓ نے بھیڑ ، بکریاں اور اونٹ اپنے قبضے میں لے لیے اور قیدیوں سمیت واپس مدینہ آگئے۔ یہاں وہ دونوں قیدی مسلمان ہو گئے تو آپؐ نے اُنہیں واپس اپنے علاقے میں جانے دیا۔
عمرۃ القضاء
کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔رسول اللهؐ ذوالقعدہ ۷؍ہجری بمطابق فروری ۶۲۹ء عمرۃ القضاءکے لیے روانہ ہوئے۔ یہ وہی مہینہ تھا ، جس میں پچھلے سال مشرکینِ مکّہ نے آپؐ کو عمرہ نہ کرنے دیا تھا اور مقامِ حدیبیہ سے آپؐ تشریف لے آئے تھے۔ چنانچہ اب اِس عمرہ کی قضا کے لیے آنحضورؐ تشریف لے گئے۔
عمرہ کے لیے روانگی کی تفصیل اِس طرح بیان ہوئی ہے کہ اِس عمرے میں آنحضرتؐ کے ساتھ دو ہزار صحابہؓ تھے۔روانگی کے وقت آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ حدیبیہ کے موقعے پر موجود تھے، اُن میں سے ہر شخص شامل ہو۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔اِن کے علاوہ آپؐ کے ساتھ کئی ایسے صحابہؓ بھی شامل تھے جو حدیبیہ کے وقت موجود نہ تھے۔ آپؐ کے ساتھ قربانی کے ساٹھ اونٹ تھے۔ آپؐ نے اُن سب جانوروں کے گلوں میں ہار ڈالے اور اِن کی نگرانی پر حضرت ناجیہ بن جندبؓ کو متعیّن فرمایا۔جب آنحضرتؐ ذوالحلیفہ پہنچے، تو سو گھڑ سواروں کو احتیاطی تدبیر کے طور پر اپنے آگے روانہ کیا، اِن پر حضرت محمدبن مَسْلَمَہؓ کو امیر بنایا گیا۔رسول اللهؐ نے اِس سفر میں خَود، ہتھیار، زِرّہیں اور نیزے بھی ساتھ لیے۔ آپؐ نے ہتھیار بھی آگے بھیج دیے اور اِن پر حضرت بشیربن سعد ؓکونگران مقرر فرمایا۔
محمد بن مَسْلَمَہؓ گھڑ سواروں کے ساتھ مرّ الظہران پہنچے تو وہاں قریش کے کچھ لوگ اُن سے ملے، جن کو اُنہوں نے بتایا کہ آنحضرتؐ کل ان شاء الله اِس مقام پر ہوںگے۔وہ لوگ قریش کے پاس آئے اور اُنہیں اِس کے متعلق بتایا، تو وہ لوگ ڈر گئے۔ جب رسول اللهؐ مرّ الظہران پہنچے تو تمام ہتھیار یاجج مقام پر بھیج دیے۔
جب کفّارِ مکّہ کو خبر ملی کہ آپؐ ہتھیاروں اور سامانِ جنگ کے ساتھ مکّے آ رہے ہیں تو بہت گھبرائے اور اُنہوں نے چند آدمیوں کو تحقیقات کے لیے مرّ الظہران تک بھیجا۔ نمائندہ کفّار مِکرض بن حفص نے کہا کہ اَے محمد(صلی الله علیہ وسلم)! ہم نے آپ کو کبھی عہد شکنی کرتے نہیں دیکھا۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ہم صلح نامے کی شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکّے میں داخل ہوں گے۔ یہ سن کر کفّار مطمئن ہو گئے۔اِس پر مِکرض نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم آپ کو نیکی اور وفا کی خوبیوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔
آپؐ صحابہ کرامؓ کے مجمعےکےساتھ تلبیہ کرتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے، قربانی کے جانوروں کو ذی الطّویٰ کی طرف بھیج دیا، آپؐ اپنی اونٹنی قصواءپر سوار تھے۔
جب آپؐ مکّہ میں داخل ہوئے تو کچھ کفّارِ قریش آپؐ سے بغض و عداوت کی وجہ سے ، آپؐ اور صحابہؓ کے بیت الله کا طواف کرنے کا منظر نہ دیکھ سکنے کی وجہ سے پہاڑوں پر چلے گئے مگر کچھ کفّار دارالنّدوہ میں جمع ہو گئے، وہاں کھڑے ہو کر طواف کا نظارہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے؟ اِن کو تو بھوک اور مدینے کے بخار نے کمزور کر کے رکھ دیا ہے۔ آپؐ نے مسجدِ حرام میں پہنچ کر اضطباعکر لیا یعنی چادر کو اِس طرح اوڑھ لیا کہ آپؐ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گئے اور آپؐ نے فرمایا کہ خدا اُس پر اپنی رحمت نازل فرمائے، جواِن کفّار کے سامنے، اپنی قوّت کا اظہار کرے۔ پھر آپؐ نے اپنے اصحابؓ کے ساتھ طواف کے شروع کے تین چکروں میں شانوں کو ہِلا ہِلا کر خوب اَکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا۔
اِس موقعے پر آنحضورؐ کی حضرت میمونہ بنتِ حارث رضی الله عنہا سے شادی ہوئی۔ یہ شادی حضرت عبّاسؓ نے کروائی تھی اور حضرت میمونہؓ کا مہر چار سو دِرہم مقرر ہوا۔ آنحضرتؐ مکّے میں تین روز رہے۔ چوتھے دن مکّے والوں کے مطالبے پر آپؐ فوراً تمام صحابہؓ کے ساتھ مکّے سے روانہ ہوئے اور اپنے غلام ابو رافعؓ کو حضرت میمونہؓ کے پاس چھوڑ دیا، چنانچہ وہ حضرت میمونہ ؓکو لے کر سَرِفْ مقام پر آپؐ کو جا ملے۔
حضرت میمونہؓ سے آپؐ کی سب سے آخر پر شادی ہوئی۔۵۱؍ہجری میں سرف مقام پر ہی، جہاں آنحضرتؐ کے ساتھ اِن کا رخصتانہ ہوا تھا، حضرت میمونہؓ کی وفات ہوئی ۔حضرت میمونہؓ کو نبی کریمؐ کے ساتھ اِس مقدس رفاقت کی یہ جگہ بہت عزیز رہی ، اِسی لیے آپؓ نے وصیّت فرمائی تھی کہ مَیں جب فوت ہو جاؤں تو مجھے اِسی مقام کی اِسی جگہ پر دفن کیا جائے، جہاں نبی کریمؐ کا خیمہ تھا، جہاں مجھے حضورؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ آپؓ کی وصیّت کے مطابق اِسی مقام پر آپؓ کو دفن کیا گیا تھا اور اُس وقت آپؓ کی عمر اسّی یا اکاسی سال تھی۔
اِس سفر میں حضرت حمزہ ؓکی بیٹی کا بھی واقعہ ملتا ہے۔ جب نبی کریمؐ مکّے سے جانے لگےتو حضرت حمزہؓ کی بیٹی آپؐ کے پیچھے پکارتی ہوئی آئی کہ اَے میرے چچا! اَے میرے چچا! اِس پر حضرت علیؓ نے اِسے لے لیا، اِس کا ہاتھ پکڑا اور حضرت فاطمہ ؓسے کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لیں۔ اُنہوں نے اِس کو سوار کر لیا۔ تو حضرت علیؓ، حضرت زیدؓ اور حضرت جعفرؓ نے اُن کی بابت جھگڑا کیا تو نبیؐ نے اِس کا فیصلہ اُس کی خالہ کے حق میں کیا اور فرمایا کہ خالہ بمنزلہ ماں ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ بھی ایک مسئلہ حل ہو گیا، جو بہت سارے جھگڑے قضاء میں ہوتے ہیں، آپؐ نے فرمایا کہ خالہ بمنزلہ ماں ہے، اُس کو دے دیا ۔اور حضرت علیؓ سے کہا کہ تم مجھ سے ہو اور مَیں تجھ سے ہوں اور حضرت جعفرؓ سے کہا کہ تم شکل اور اخلاق میں میرے مشابہ ہو اور حضرت زیدؓ سے کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو اور ہمارے آزاد کردہ ہو۔حضرت علیؓ نے کہا کہ کیا آپؐ حضرت حمزہؓ کی بیٹی سے شادی نہیں کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، اِس رشتے سے شادی نہیں ہو سکتی۔آنحضرتؐ ذوالحجہ کے مہینے میں مدینے واپس تشریف لے آئے۔
ایک سریّہ
اَخرم بن ابی عوجاء بطرف بنو سُلَیْم
ہے۔یہ سریّہ ذوالحجہ ۷؍ہجری میں ہوا، آپؐ نے حضرت اَخرمؓ کو پچاس آدمیوں کے ساتھ بنو سُلَیْم کی طرف بھیجا، جو مدینے کے قریب آباد تھے، بنو سُلَیْم کا ایک جاسوس آپؓ کے ساتھ تھا۔ اِس نے آگے جا کر اپنی قوم کو چوکنا کر دیا اور اُنہوں نے ایک بڑا لشکر جمع کر لیا۔جب حضرت اخرم ؓ اُن کے پاس پہنچے تو بنو سُلَیْم اُن کے مقابلے کے لیے تیار تھے، آپؓ نے اُن کو اسلام کی دعوت دی تو اُنہوں نے انکار کر دیا۔ اِس کے بعد دونوں طرف سے کچھ دیر تیر اندازی ہوئی ، اِسی دوران بنوسُلَیْم کے لیے مزید کمک آ گئی اور اُنہوں نے مسلمانوں کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ مسلمانوں نے بہت سخت جنگ لڑی، یہاں تک کہ اُن میں سے اکثر شہید ہو گئے اور حضرت اَخرمؓ بھی مقتولین کے ساتھ شدید زخمی ہو کر گر پڑے، پھر یکم صفر آٹھ ہجری کو رسول اللهؐ کے پاس پہنچ گئے۔
پھر ایک سریّہ
حضرت غالبؓ بن عبدالله لیثی بطرف کَدِیْد
کا ذکر ہے۔رسول اللهؐ نے آپؓ کوصفر ۸؍ہجری میں بنو لیث کی شاخ بنو مُلوّح کی طرف پندرہ افراد کے ساتھ روانہ کیا، جو کَدِیْد میں رہتے تھے اور اِس سریّہ میں مسلمانوں کا شعار اَمِتْ اَمِتْ تھا۔ اس سریّہ کی مختصر تفصیل بیان کرنے کے بعد حضورِ انور نے فرمایا کہ ابھی یہ واقعات چل رہے ہیں۔
خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے حوالے سے دعاؤں کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاحظہ ہو:
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: غزوۂ خیبر اور غزوۂ ذات الرقاع کے تناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۱؍اپریل ۲۰۲۵ء