دادی جان کا آنگن

حضرت علی رضی اللہ عنہ

تینوں بہن بھائی حسب معمول دادی جان کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے۔
احمد : دادی جان آپ کو پتا ہے میرے دوست فاران کو اللہ میاں نے بہت پیارا سا چھوٹا سا بھائی دیا ہے اور اس کا نام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیدر رکھا ہے۔ اور آپ کو پتا ہے؟ وہ بتارہا تھا کہ حضرت علیؓ کا ایک نام حیدر بھی تھا آپ ہمیں حضرت علیؓ کی کہانی سنائیں ناں، ویسے بھی اب تو انہی کی کہانی کی باری ہے۔
دادی جان : ماشاء اللہ یہ تو بہت اچھی خوشخبری ہے۔ میری طرف سےبھی انہیں مبارکباد دیں۔ ان شاء اللہ جلد ان سے ملنے جائیں گے۔
دادی جان : تو بچو حضرت علیؓ کا پورا نام علی بن ابی طالب تھا جو عبدالمطلب بن ہاشم کے بیٹے تھے۔ آپؓ کے والد کا نام عبد مناف تھا جن کی کنیت ابوطالب تھی۔ آپؓ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھا۔ آپؓ بعثت نبویؐ سے دس سال قبل پیدا ہوئے تھے۔ حضرت علی ؓکےحلیہ کے بارے میں بیان ہوتا ہے کہ آپؓ کا قد درمیانہ تھا۔ آنکھیں سیاہ تھیں۔ آپؓ کا جسم فربہ تھا۔ کندھے چوڑے تھے۔ حضرت علیؓ کی کنیت ابوالحسن، ابوسَبْطَین اور ابوتُراب تھی۔
آپؓ چوتھے خلیفہ راشد اور آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ کی سب سے لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی تھی۔
احمد:کیا آپ رسول اللہؐ کے گھر میں رہتے تھے؟
دادی جان : جی بچو! یہ بات درست ہے کہ آپؓ کا بچپن آنحضرت ﷺ کی سرپرستی اور شفقت میں گزرا تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سیرت خاتم النبیینﷺ میں لکھتے ہیں کہ ابو طالب ایک بہت باعزت آدمی تھے مگر غریب تھے اور بڑی تنگی سے ان کا گزارہ چلتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے جب اپنے چچا کی اس تکلیف کودیکھا تو اپنے دوسرے چچا حضرت عباسؓ سے ایک دن فرمانے لگے کہ چچا! آپ کے بھائی ابو طالب کے مالی حالات تنگ ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ ان کے بیٹوں میں سے ایک کو آپ اپنے گھر لے جائیں اور ایک کو میں لے آؤں۔ انہوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور پھر دونوں مل کر ابوطالب کے پاس گئے اور ان کے سامنے یہ درخواست پیش کی۔ ان کو اپنی اولاد میں عقیل سے بہت محبت تھی۔ کہنے لگے عقیل کو میرے پاس رہنے دو اور باقیوں کو اگر تمہاری خواہش ہے تو لے جاؤ۔ چنانچہ حضرت جعفرؓ کو حضرت عباسؓ اپنے گھر لے آئے اور حضرت علیؓ کوآنحضرت ﷺ اپنے پاس لے آئے۔ حضرت علیؓ کی عمر اس وقت قریباً چھ سات سال کی تھی۔ اس کے بعد علیؓ ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے پاس رہے۔ حضرت خدیجہؓ کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت علیؓ تھے۔
گڑیا :اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بچوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ ایمان لائے تھے۔
دادی جان: جی بچو! اسی واقعہ کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح سے کیا ہے کہ جب آپ کے گھر میں خدا تعالیٰ کی وحی کے متعلق باتیں ہوئیں تو زید بن حارث غلام جو آپ کے گھر میں رہتا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔ اس کے بعدحضرت علیؓ جن کی عمر اس وقت گیارہ سال کی تھی اور وہ ابھی بالکل بچے ہی تھے اور وہ دروازہ کے ساتھ کھڑے ہو کر اس گفتگو کو سن رہے تھے جو رسول کریمﷺ اور حضرت خدیجہؓ کے درمیان ہو رہی تھی۔ جب انہوں نے یہ سنا کہ خدا کا پیغام آیا ہے تو وہ علیؓ جو ایک ہونہار اور ہوشیار بچہ تھا۔ وہ علیؓ جس کے اندر نیکی تھی۔ وہ علیؓ لجاتا اور شرماتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! جس بات پر میری چچی ایمان لائی ہیں اور جس بات پر زید ایمان لایا ہے اس پر میں بھی ایمان لاتا ہوں۔
محمود :دادی جان اور بھی کوئی واقعہ سنائیں۔
دادی جان :آنحضرت ﷺ نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا کہ ایک دعوت کا انتظام کرو اور اس میں بنوعبدالمطلب کو بلاؤ تاکہ اس ذریعہ سے ان تک پیغامِ حق پہنچایا جاوے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے دعوت کا انتظام کیا اور آپؐ نے اپنے سب قریبی رشتہ داروں کو جو اس وقت کم و بیش چالیس نفوس تھے اس دعوت میں بلایا۔ جب وہ کھانا کھا چکے تو آپؐ نے کچھ تقریر شروع کرنی چاہی مگر بدبخت ابولہب نے کچھ ایسی بات کہہ دی جس سے سب لوگ منتشر ہو گئے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ موقع تو جاتا رہا۔ اب پھر دعوت کا انتظام کرو۔ چنانچہ آپؐ کے رشتہ دار پھر جمع ہوئے اور آپؐ نے انہیں تبلیغ کی اور پوچھا کہ اب بتاؤ اس کام میں میرا کون مدد گار ہو گا؟ سب خاموش تھے اور ہر طرف مجلس میں ایک سناٹا تھا کہ یکلخت ایک طرف سے ایک تیرہ سال کا دبلا پتلا بچہ، جس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا اٹھا اور یوں گویا ہوا۔ گو میں سب میں کمزور ہوں اور سب میں چھوٹا ہوں مگر میں آپؐ کا ساتھ دوں گا۔ یہ حضرت علیؓ کی آواز تھی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کے یہ الفاظ سنے تو اپنے رشتہ داروں کی طرف دیکھ کر فرمایا اگر تم جانو تو اس بچے کی بات سنو اور اسے مانو۔ حاضرین نے یہ نظارہ دیکھا تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب کھل کھلا کر ہنس پڑے اور ابو لہب اپنے بڑے بھائی ابو طالب سے کہنے لگا۔ لو اب محمد(ﷺ)تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پیروی اختیار کرو۔ اور پھر یہ لوگ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی کمزوری پر ہنسی اڑاتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
احمد: ہجرت کےوقت حضرت علیؓ ہی رسول اللہﷺ کے بستر پر سوئے تھے ناں!
دادی جان: جی ہاں آپؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ہجرت مدینہ کے وقت آنحضرت ﷺ نےحضرت علیؓ کو ارشاد فرمایا کہ وہ آج کی رات آنحضرت ﷺ کے بستر پر لیٹیں۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہ ﷺ کی سرخ حَضْرَمِی چادر اوڑھ کر رات گزاری اور پھر رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت علیؓ تین دن کے بعد اہل مکہ کی امانتیں لوٹا کر ہجرت کر کے نبی کریمؐ کے پاس پہنچے۔
محمود :دادی جان حضرت علی ؓ بہت بہادر بھی تھے۔
دادی جان : حضرت علیؓ کی بہادری اور شجاعت کے تو بے شمار واقعات ہیں یہ تو بہت مشکل ہوگا کہ کسی ایک واقعے کا ذکر کیا جائے کیونکہ حضرت علیؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شامل ہوئے سوائے غزوۂ تبوک کے۔ غزوہ تبوک میں رسول اللہﷺ نے ان کو اہل و عیال کی نگہداشت کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ چلیں آپ کی خواہش پر خیبر کی فتح کا واقعہ بیان کردیتی ہوں غزوہ خیبر کے موقع پر ایک یہودی سردار جس کا نام مرحب تھا اپنی تلوار لہراتا ہوا نکلا اور وہ کہہ رہا تھا کہ خیبر جانتا ہے کہ میں مَرحب ہتھیار بند بہادر تجربہ کار ہوں جب کہ جنگیں شعلے بھڑکاتی ہوئی آئیں یعنی میری بہادری کا پتہ لگتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو بلوایا جن کی آنکھیں آشوب چشم کے باعث دکھ رہی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا: میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ آپؐ نے ان کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا۔ وہ ٹھیک ہو گئیں۔ آپؐ نے انہیں جھنڈا دیا۔ پھر حضرت علیؓ نے مرحب کی اس بات کا جواب اشعار کی صورت میں دیا جن کا ترجمہ یہ ہے کہ میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے۔ ہیبت ناک شکل والے شیر کی مانند جو جنگلوں میں ہوتا ہے۔ میں ایک صاع کے بدلے سَنْدَرَہ دیتا ہوں۔ یہ عربی کا ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والا۔ یہ کہنے کے بعد حضرت علیؓ نےمَرحب کے سر پر ضرب لگائی اور وہ مارا گیا اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں فتح ہوئی۔
محمود: اور بھی واقعہ سنائیں۔
دادی جان : گھڑی دیکھتی ہوئی بولیں۔ بہت لیٹ ہوگئی۔ اب سونے کی دعا پڑھیں اور سو جائیں۔
دادی جان کی بات سن کر تینوں بچے اپنے اپنے کمرے کی طرف چل پڑے۔ (درثمین احمد۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button