متفرق مضامین

امر بالمعروف یا ’’نہی عن المعروف ؟‘‘ایک لمحۂ  فکریہ!(قسط سوم)

(’ایچ ایم طارق‘)

آئین، قانون اور شریعت میں کسی غیر مسلم پر اس بات کی کوئی پابندی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کرے، رسول کریمﷺکو اپنے دعویٰ میں سچا تسلیم کرے۔ قرآن کو ایک اچھے نظام حیات کے طور پر قابل عمل تسلیم کرے(فیصلہ شرعی عدالت)

[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍اپریل ۲۰۲۵ء]

قارئین کرام !قبل ازیں ۱۲؍اپریل کی اشاعت میں نظارت امورعامہ پاکستان کی دوپریس ریلیز کےحوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں کو نماز پڑھنے،نماز جمعہ ادا کرنےاور نماز عید سے روکنے کی رپورٹس پر تبصرہ بعنوان ’’نہی عن المعروف کی نئی مہم اور اس کا خطرناک انجام‘‘ نظر سے گزرا ہوگا۔ جس میں اسلامی تعلیمات کے مطابق اس فعل بد کے خطرناک انجام کا ذکر تھا۔اسی تسلسل میں ۱۴؍اپریل کے شمارے میں’’امربالمعروف و نہی عن المنکر میں جبر کی ممانعت‘‘کے زیرعنوان گزارشات کی گئی تھیں۔
اس دوران بھی پاکستان میں احمدیوں پرمذہبی جبرو تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ ۱۱؍اپریل کو پھر سرگودھا شہرمیں نماز جمعہ ادا کرنے پر بھی کچھ لوگوں کو وقتی حراست میں رکھا گیااورضلع بھرمیں جمعہ سے روکاگیا۔اسی روزضلع سیالکوٹ کی بڑی جماعت پنڈی بھاگومیں احمدیوں کو مسجد میں جمعہ سے روکاگیا۔۱۲؍اپریل کو سلیم پورضلع سیالکوٹ کی مسجد کا محراب مسمارکردیا۔۱۳؍اپریل کو فاروق آباد ضلع شیخوپورہ کی احمدیہ مسجد سے سرکاری اہلکاروں نے کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات کو مٹاکر ایک اَور نام نہاد ریکارڈ قائم کیا۔
بہرحال جب تک یہ ناپاک مہم جاری ہے اس بارےمیں آگاہی اور اتمام حجت کرنا بھی ایک امر بالمعروف ہی ہے جو آج جماعت احمدیہ کا ہی طرّہ امتیاز ہے ۔
آج نیکی کے حکم اور برائی سے روکنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والابہترین امت کا اعزاز پاکستان کےمسلمانوں سے چھینا جاچکاہے۔ کیونکہ احمدیوں کو دینی عبادات سے روکنےکے قومی اور دینی جرم میں وہ شامل ہیں۔اور کوئی اس کے مقابل پر آواز نہیں اٹھارہا جوپوری قوم کو ہلاکت کےگڑھے میں لے جانے کےمترادف ہے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ عوام الناس کو اس بارے میں مطلع کرکے ان کی اجتماعی دینی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے رہیں ۔ تاکہ کم ازکم باشعور اور نیک فطرت مسلمان نیکیوں سے روکنے کے فعل قبیح سے بچ سکیں یااس عمل بد کے خلاف آواز بلندکریں۔
آج احمدیوں کو عبادات سے روکنے کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر رسول کریمﷺ کی وہ پیشگوئی بھی پوری ہورہی ہےجوآپؐ نے فرمایا تھا کہ جب امت مسلمہ یہود کےنقش قدم پر چلتے ہوئے تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی ایک فرقہ ناجی ہوگا جو میرے اور میرے اصحاب کے نمونہ پر ہوگا۔اوروہ نمونہ کیا تھا یہی کہ رسول اللہؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو کلمہ، اذان، نماز، حج اورتبلیغ وغیرہ سے روکا جاتا تھا۔پاکستان میں یہی سلوک آج احمدیوں سے رواہے۔ مگرآپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کا دستور ہمیشہ نیکی کی تلقین اور برائی سے روکناہی رہا۔وہ نمازجیسی نیکی سے منع کرنے کوگناہ سمجھتےتھے اوراللہ کے خوف سے ممنوع نماز سے روکنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔جیسے عید سے پہلے کوئی نفل نمازنہیں ہوتی مگرایک عید کے موقع پر حضرت علیؓ جبانہ( نامی عید گاہ) گئے توانہوں نےکچھ لوگوں کو نماز (عید) سےپہلے (نفل) نمازپڑھتےدیکھاآپؓ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے حاضرین سےفرمایا: کیاتم دیکھ رہے ہو یہ لوگ نمازاداکررہےہیں؟انہوں نےکہا: آپ انہیں منع کیوں نہیں کردیتے؟حضرت علی ؓنےفرمایا: میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ میں اُس شخص کی مانندہوجاؤں جوبندے کو نماز ادا کرنے سے روکتا ہے۔(مصنف عبدالرزاق جلد۲ صفحہ۵۴۶، مترجم اردو،مطبوعہ شبیر برادرز لاہور )
کجا وہ زمانہ کہ حضرت علیؓ جیسے شجاع کو نماز عید سے قبل ممنوع نفل وغیرہ پڑھنے سے روکنےکا بھی حوصلہ نہ ہوا اور ایک آج پاکستان کے ’’بہادر‘‘ ہیں جو واجب نماز عید سے روکنے کےلیے جلوس لے کر نکلتے ہیں ۔نہ خود نماز عید پڑھتے ہیں نہ احمدیوں کو پڑھنے دیتے ہیں۔
حضرت علیؓ نے جس آیت کی وجہ سے عید سے قبل نماز پڑھنے والوں کو نہیں روکا وہ یہ آیت تھی جو آج بھی نماز سے ہرروکنے والے کو تنبیہ کررہی ہے: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى۔ عَبْدًا إِذَا صَلَّى۔(العلق ۱۰-۱۱)یعنی کیا تو نےاس شخص کو دیکھا جو ایک عبادت کرنے والے کو نمازپڑھنے سے روکتا ہے ۔
آج مذہبی دہشت گردی کی انتہا یہ ہے کہ نمازعیدہی نہیں،نماز جمعہ اورفرض نماز وں سے روکا جارہاہےاورنمازیں نہ پڑھنے والوں کوکھلی چھٹی ہے۔روکنے والے دیہاڑی دار ۱۱ بجے دن سے سہ پہر تک احمدیہ مساجد کے باہر پہرے دیتے ہیں اور خود بھی نماز نہیں پڑھتےاور ذمہ داران کو کوئی پروا نہیں۔پس ایسے لوگ ضرورخدا کے حضور جواب دہ ہوں گےاور آج نہیں تو کل حساب دیں گے۔
وہ لوگ جو آج احمدیوں کو عبادات سے روک رہے ہیں وہ نہیں سوچتے کہ اس حرکت سے وہ اہل ایمان کا نہیں معاند کفار کاکرداراداکررہے ہیں کیونکہ تاریخ مذہب شاہدہے کہ عبادات سے روکنے والے کبھی بھی خدا کے نبی یا ان کی جماعت کےلوگ نہیں تھے بلکہ ہمیشہ انبیاء کے مخالف گروہ ہی اس شنیع حرکت کے مرتکب ہوئےاور بالآخرخدائی قہر کا شکار ہوکر اُس سے تباہ و برباد ہوگئے ۔
جیساکہ ذکر ہواکہ یہ ظالم کفار مکہ ہی تھے جو آنحضرتﷺ اور صحابہ کرامؓ کو بھی عبادات سے روکا کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺبیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے تھے۔ان میں ایک دوسرے سے کہنے لگا تم میں سے کون ہے جو فلاں قبیلے میں ذبح ہونے والی اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لائے اور محمد(ﷺ) کی پشت پر اس وقت رکھ دے جب وہ سجدہ کرے۔تب لوگوں میں سے بدبخت انسان عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور وہ اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لایا اور دیکھتا رہا جب نبی کریمﷺنے سجدہ کیا تو اس نے وہ گند بھری بچہ دانی آپؐ کے کندھوں پر رکھ دی۔ عبداللہ بن مسعودؓ (جو ایک کمزور قبیلہ کے فرد تھے)کہتے ہیں، میں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ان سرداروں کی موجودگی میں رسول اللہﷺکی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا۔اے کاش! مجھے بھی طاقت حاصل ہوتی اور میں آپؐ کے لیے کچھ کرسکتا۔
ادھر سردارانِ قریش رسول اللہﷺکی یہ حالتِ زار دیکھ کر ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہوکر ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔ رسول اللہﷺسجدہ کی حالت میں پڑے ہوئے سر نہ اٹھا سکتے تھے۔یہاں تک کہ حضرت فاطمہ آئیں اور انہوں نے رسول اللہﷺ کی پشت سے وہ گند ہٹایا تو آپؐ نے سر اٹھایا اور فرمایا’’اے اللہ ! تو قریش پر گرفت کر۔‘‘(صحيح البخاري كتاب الوضوء، باب إذا ألقي على ظهر المصلي قذر أو جيفة لم تفسد عليه صلاته)
پھر وقت آنے پر قریش کے یہ سب سردار پکڑے گئے۔آج بھی مظلوم احمدیوں کی دعائیں عرشِ الٰہی کے تار ہلارہی ہیں اور مظلوم کی دعا اورخدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔
ایک اَورموقع پر ابو جہل نے کہا کہ اگر میں محمدﷺ کو خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لوں تو گردن دبوچ کے رکھ دوں گا۔پھر اسے پتا چلا کہ نبی کریم ؐ نماز پڑھ رہے ہیں تو آپؐ سے کہنے لگا کہ کیامیں نےتمہیں نماز پڑھنے سے روکا نہیں ہوا؟ رسول کریم ؐ نے اسے اس حرکت سے منع کیاتو وہ کہنے لگا کہ میں تو اہل بطحاء کا سب سے معزز فردہوں اس موقع پر سورة العلق کی آیات نازل ہوئیں۔(مختصر سیرۃ الرسول محمد بن عبدالوہاب صفحہ۱۱۵۔۱۱۶مطبوعہ مکتبہ جدید پریس لاہور)
وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ نےنماز سے روکنے والوں کو سخت تنبیہ اور وارننگ دی ہے، یہ ہیں: اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰیۙ۔ عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ۔ اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَانَ عَلَی الۡہُدٰۤی ۔ اَوۡ اَمَرَ بِالتَّقۡوٰی ۔ اَرَءَیۡتَ اِنۡ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ۔ اَلَمۡ یَعۡلَمۡ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی ۔ کَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ ۬ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِیَۃِ ۔ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ۔ فَلۡیَدۡعُ نَادِیَہٗ۔ سَنَدۡعُ الزَّبَانِیَۃَ۔(العلق:۱۰-۱۹)(یعنی)کىاتُونےاُس شخص پرغورکىا جوروکتا ہے اىک عظىم بندے کو جب وہ نمازپڑھتاہےکىاتُونےغورکىاکہ اگروہ (عظىم بندہ) ہداىت پرہوىاتقوىٰ کى تلقىن کرتاہوکىاتُونےغورکىاکہ اگر اس (نمازسےروکنےوالے) نے (پھربھى) جھٹلادىا اور پىٹھ پھىرلى (تو) کىاوہ نہىں جانتاکہ ىقىناً اللہ دىکھ رہا ہے خبردار! اگروہ بازنہ آىاتوہم ىقىناًاُسےپىشانى کےبالوں سے پکڑ کر کھىنچىں گےجھوٹى خطاکارپىشانى کےبالوں سےپس چاہیےکہ وہ اپنى مجلس والوں کوبُلادىکھےہم ضروردوزخ کے فرشتے بلائىں گے۔
پس آج نہیں تو کل یہ خدائی پولیس مظلوم احمدیوں کی آہ وزاری سن کر اپنا فریضہ انجام دے کر رہے گی۔
مگر اس کےبرخلاف رسول کریم ؐ اور مسلمانوں نےالٰہی حکم کے تابع کبھی کفار کو ان کی عبادات سے نہیں روکا۔ مسلمانوں کوتو یہی الٰہی حکم تھاجو اللہ تعالیٰ فرماتاہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَلَا الشَّہۡرَ الۡحَرَامَ وَلَا الۡہَدۡیَ وَلَا الۡقَلَآئِدَ وَلَاۤ آٰمِّیۡنَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَرِضۡوَانًا ؕ وَاِذَا حَلَلۡتُمۡ فَاصۡطَادُوۡا ؕ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اَنۡ تَعۡتَدُوۡا ۘ وَتَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰی ۪ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ ۪ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ۔ (المائدة:۳)ترجمہ : اے لوگو جو اىمان لائے ہو! شعائراللہ کى بے حرمتى نہ کرو اور نہ ہى حرمت والے مہىنہ کى اور نہ قربانى کے جانوروں کى اور نہ ہى قربانى کى علامت کے طور پر پٹے پہنائے ہوئے جانوروں کى اور نہ ہى ان لوگوں کى جو اپنے ربّ کى طرف سے فضل اور رضوان کى تمنا رکھتے ہوئے حرمت والے گھر کا قصدکر چکے ہوں اور جب تم اِحرام کھول دو تو (بے شک) شکار کرو اور تمہىں کسى قوم کى دشمنى اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہىں مسجدِ حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زىادتى کرو اور نىکى اور تقوىٰ مىں اىک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زىادتى (کے کاموں) مىں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو ىقىناً اللہ سزا دىنے مىں بہت سخت ہے ۔
اس آیت میں احترام شعائر اللہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اوراس میں صلح حدیبیہ کےبعدکےواقعات کی طرف اشارہ ہےجب بعض مسلمانوں نےمشرکین کےقربانی کےجانوروں کوچھین کران کوحج سےروکنےکی کوشش کی اس پریہ آیت نازل ہوئی اورمسلمانوں کوکہاگیاکہ جوشخص بھی اپنےطورپرخواہ کتنی ہی بگڑی شکل میں اللہ کی عبادت کرتاہےاوراس مقصد کےلیےخانہ کعبہ میں آناچاہتاہےچاہےوہ مشرک ہےیاکوئی اور عقیدہ رکھتاہےتواس کومت روکو،اسےآنےدو۔ اس آیت کی شانِ نزول میں’’تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی‘‘کاحکم ظاہرکرتا ہےکہ جب شعائر مشترک ہوں توان میں دخل اندازی نہیں کی جاسکتی ۔
پس قرآن کریم نےایسی تمام مذہبی نشانیوں کے احترام کی تلقین کی ہے جن کی اللہ تعالیٰ سے نسبت ہو۔شعائراللہ کی وضاحت کرتےہوئےبانیٔ جماعت اسلامی علامہ ابوالاعلیٰ مودودی صاحب لکھتےہیں:’’اس سےمرادوہ تمام نشانیاں ہیں جوموحدّانہ نظام میں پائی جائیں اورمسلمان شعائراللہ کےاحترام کاپابندہےکوئی شخص خواہ وہ غیرمسلم وبندگی اوراللہ کی عبادت کاکوئی جزورکھتاہوتواس کی ادائیگی پر مسلمانوں پراس کااحترام لازمی ہے۔‘‘(تفہیم القرآن جلداول صفحہ ۴۳۹,۴۳۸ زیرآیت سورةالمائدة۲)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دیگر مذاہب اہل کتاب یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں کی طرف سےمشترک باتوں میں تعاون کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ۔ (آل عمران:۶۵)ترجمہ:تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کى طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمىان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسى کى عبادت نہىں کرىں گے اور نہ ہى کسى چىز کو اُس کا شرىک ٹھہرائىں گے اور ہم مىں سے کوئى کسى دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہىں بنائے گا پس اگر وہ پھر جائىں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ىقىناً ہم مسلمان ہىں۔
اس آیت کی تفسیرمیں علامہ ابن کثیرؒ فرماتےہیں:’’کلمۂ سواءسےمرادایک اللہ کی عبادت کرناہے انبیاءکی ہمیشہ سےیہی مشترکہ دعوت رہی ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر جلداول صفحہ۵۰۷)
مصری مفسر قرآن علامہ سیدقطب اس آیت کےبارے میں لکھتےہیں:’’یہ ایک ایسی منصفانہ دعوت ہےجسےکوئی متعصب بھی کبھی ردّنہیں کرسکتا۔‘‘(تفسیر فی ظلال القرآن جلد۳ صفحہ۱۸۸ مطبوعہ بیروت)
علامہ مفتی محمدشفیع صاحب دیوبندی اسی آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:’’کلمۂ سواء پر تو اشتراک ہونا چاہیے۔‘‘ (معارف القرآن جلد۲ صفحہ۸۷)
اس آیت کریمہ کے ضمن میں علامہ نسفی’’کلمہ سواء‘‘کی وضاحت میں لکھتےہیں:’’كلمة سواء سے مراد ایسا کلمہ ہے جوہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے اور جس میں تورات، انجیل اورقرآن میں کوئی اختلاف نہیں۔ اورکلمۂ سواءسےمرادیہ ہےکہ ہم اللہ کےسواکسی کی عبادت نہ کریں۔‘‘(مدارک التنزیل جلد۱صفحہ ۲۲۲)
علامہ سیوطیؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’کلمۂ سواء سے مراد لاالہ الااللہ ہے۔‘‘(درمنثور جزء۲ صفحہ۷۱)
ان حوالہ جات سےیہ اصول بھی نکلتاہےکہ اذان بھی شعائراللہ ہے۔ جواذان دیناچاہتاہےاورخداتعالیٰ کی کبریائی کااعلان کرناچاہتاہےوہ بھی ایک نیک کام کررہاہےاورنیک کام میں تعاون کرنےکاحکم دیاگیاہےجب کہ برائی کےکاموں میں تعاون نہ کرنےکاحکم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بانیٔ اسلامؐ نےکبھی کسی مذہب کے لوگوں کو عبادت سے نہیں روکا۔ بلکہ نجران کے عیسائیوں کا وفد جب نبی کریمﷺ کی خدمت میں مدینہ میں حاضر ہوا تو بحث ومباحثہ کےدوران ان کی عبادت کاوقت آگیا۔نبی کریمﷺنےانہیں مسجدنبوی میں ہی ان کےمذہب کےمطابق مشرق کی طرف منہ کرکےنمازاداکرنےکی اجازت فرمائی۔( الطبقات الكبريٰ لابن سعد؛ الجزء۱، صفحہ۳۵۷، طبعة بیروت)
دوسری طرف کفار مکہ رسول کریمﷺ اور صحابہؓ کو عبادت سے نہ صرف روکتے تھے بلکہ بوقت عبادت آپ پر حملہ آور ہوتے۔ جیساکہ آج کل کئی گروہ احمدیوں کو عبادت سے روکنے کےلیے جلوس لے کر آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا۔ وَّاَنَّہٗ لَمَّا قَامَ عَبۡدُاللّٰہِ یَدۡعُوۡہُ کَادُوۡا یَکُوۡنُوۡنَ عَلَیۡہِ لِبَدًا۔ (الجن:۱۹، ۲۰) اور ىقىناً مسجدىں اللہ ہى کے لیے ہىں پس اللہ کے ساتھ کسى کو نہ پکارو۔ اور ىقىناً جب بھى اللہ کا بندہ اُس کو پکارتے ہوئے کھڑا ہوا تو وہ قرىب ہوتے ہىں کہ اس پر غَول در غَول ٹُوٹ پڑىں ۔
یہی صورتحال اور سلوک آج رسول اللہﷺ کے سچے غلاموں پاکستان کے احمدیوں سے روا رکھا جارہا ہے۔جوگذشتہ لمبے عرصہ سے جاری تھا مگر اب اس میں شدّت کی لہر آگئی ہے۔
۱۹۸۴ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے آرڈی نینس XXکے ذریعہ جماعت احمدیہ پر بعض مذہبی پابندیاں عائد کیںتو مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے دیگر تین ساتھیوں کے ساتھ اسے شرعی عدالت میں چیلنج کیا تھا کہ یہ قوانین خلاف اسلام و قرآن ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے عدالت کے سامنے کچھ سوالات بھی اُٹھائے تھے۔ جن کا جواب عدالت نے اثبات میں دیا۔ شرعی عدالت نےفیصلہ میں لکھا:’’چوتھے نقطہ پر جس میں مذہب کے اظہار اور عمل پر آزادی کا تعلق ہے مسٹر مجیب الرحمٰن نے چھ سوال کیے تھے۔‘‘
’’۱۔کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق یا اجازت دیتا ہے کہ وہ اللہ کی وحدانیت کا اظہار کرے۔
۲۔کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق یا اجازت دیتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دعویٰ میں سچا تسلیم کرے۔
۳۔ کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ قرآن کو ایک بہتر نظام حیات کے طور پر قابلِ عمل تسلیم کرے اور اس کی پابندی کرے۔
۴۔کیا کسی غیر مسلم کو اس بات کی اجازت ہے یا نہیں کہ اگر وہ چاہے تو قرآن کی تعلیمات پر عمل کرے۔
۵۔اگر چوتھے سوال کا جواب نفی میں ہو تو قرآن وسنت میں وہ نفی کرنے والی آیت کون سی ہے۔
۶۔اسلام ایسے شخص کے لیے کیا لائحہ عمل تجویز یا مہیا کرتا ہے جسے مسلمان تصور نہ کیا جائے اور تصور کیے جانے کا حق نہ ہو اور وہ اللہ کی وحدانیت، قرآن کی حقانیت اور رسول کریم ﷺ کی رسالت کا اقرار کرتا ہو۔ ‘‘
شرعی عدالت نےان سوالات کا جواب دیتے ہوئے لکھا:’’مسٹر مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے اُٹھائے ہوئے پہلے چار سوالات کا جواب تو اثبات میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ آئین، قانون اور شریعت میں کسی غیر مسلم پر اس بات کی کوئی پابندی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کرے، رسول کریمﷺکو اپنے دعویٰ میں سچا تسلیم کرے۔ قرآن کو ایک اچھے نظام حیات کے طور پر قابل عمل تسلیم کرے۔ پہلے چار سوالوں کے نتیجےمیں پانچواں سوال پیدا نہیں ہوتا‘‘۔(فیصلہ شرعی عدالت صفحہ ۹۳)
نیز شرعی عدالت نے اپنے مختصر فیصلہ میں یہ بھی قرار دیا تھا کہ احمدیوں کو اپنے مسلک اور عقیدہ کے مطابق عبادت بجالانے کا پورا حق ہے۔ستم یہ ہے کہ اس کے باوجود آج احمدیوں کو اس حق سے محروم کیا جارہا ہے۔
جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے وہ تو کلمہ گو ہیں اوران کو غیرمسلم کہنے والے کو اپنے اسلام کی فکرکرنی چاہیے۔کیونکہ حدیث نبویؐ کے مطابق ایسا شخص خود کافر ہوجاتا ہے۔احمدی تو عام مسلمانوں کے ساتھ کلمہ توحید بلکہ ایمان بالرسالت میں بھی اشتراک رکھتے ہیں۔اس سے بڑھ کر اشتراک کیا ہوسکتاہے۔اسی لیےدیوبندی علامہ اشرف علی تھانوی صاحب کے سامنےایک شخص نے احمدیوں کے بارے میں بعض عقائدکاتذکرہ کیا تو علامہ تھانوی صاحب نےکیاعمدہ انصاف کی بات کی:’’یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان کا کوئی اختلاف نہیں ، اختلاف رسالت میں ہے اور اس کے بھی صرف ایک باب میں یعنی عقیدہ ختم رسالت میں۔ بات کو بات کی جگہ پر رکھنا چاہیے۔‘‘(سچی باتیں ازعبدالماجد دریاآبادی صفحہ۲۱۳)
دیکھیے!تھانوی صاحب نے احمدیوں کے ساتھ توحید میں کلمۂ سواء کا اشتراک تسلیم کیا۔صرف ختم نبوت کے معنوں میں اختلاف باعثِ کفر نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح اہل حدیث مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے احمدیوں کو اسلامی فرقہ بیان کرتے ہوئے رسالت پر ایمان کے اشتراک کا ذکر کیا اور لکھا:’’اسلامی فرقوں میں خواہ کتنا بھی اختلاف ہومگرآخرکارنقطۂ محمدیت پر جو درجہ ہے والَّذین معہ کا، سب شریک ہیں… اس نقطۂ  محمدیت کے لحاظ سے ان کو باہمی رُحماء ہونا چاہیے۔مرزائیوں کا سب سے زیادہ مخالف میں ہوں۔مگرنقطۂ  محمدیت کی وجہ سے میں ان کو بھی اس میں شامل جانتا ہوں۔‘‘(اخبار اہلحدیث امرتسر ۱۶اپریل ۱۹۱۵ء)
پس آج اگرمحض سیاسی وجوہ سے احمدیوں پر غیر مسلم کا فتویٰ ہے تو ایک دوسرے کےخلاف ایسے فتاویٰ تکفیر دیگر فرقوں کےبھی موجودہیں۔کیاکل کلاں ان سب فتویٰ زدہ فرقوں کوبھی عبادتوں سے روکا جائے گا؟بس یہ انتظارہوگاکہ آئندہ کس کی باری ہے؟
پھراحمدیوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا تھا اورمسلم لیگ کو ووٹ دے کر ایک خاموش معاہدہ کیاتھا۔اس لیے وہ پاکستان کے اول درجہ کے شہری ہونے کی وجہ سے مکمل شہری حقوق رکھتے ہیں ۔اس معاہدہ کی ایک شق مذہبی آزادی تھی جس کا اعلان قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کوکیا تھا کہ پاکستان میں تما م مذاہب کےلوگوں کو اپنے مذہب کی اورعبادت گاہوں کی مکمل آزادی ہوگی۔(تقریر۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء)
اگربدقسمتی سے آج احمدیوں کو ایک غلط سیاسی فیصلہ کے نتیجے میں غیر مسلم کہہ دیاگیا ہے تو ان کے اقلیتوں کے حقوق اور شہری حقوق تو چھینے نہیں جاسکتے۔ پس اس لحاظ سے بھی احمدیوں کےلیے بطور معاہد پاکستان میں کم از کم وہی مذہبی حقوق تو ہیں ہی جو رسول کریمﷺ نے میثاق مدینہ میں دیگر شہریوں کو عطا فرمائے۔ اسلام نے معاہدین پر کوئی ایسی شرط عائد نہیں کی جو ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنادے یا ان کو پست درجہ دے۔ جو صرف آزادی مذہب اور حریت فکر کی ضمانت ہی نہیں بلکہ ان کی لغت اور ثقافت حتی کہ زندگی کے تمام مسائل میں ان کو آزادی دی گئی ، نہ ان کے مذہب میں مداخلت کی گئی ہے نہ ان پر ان کی مرضی کے خلاف کوئی شرط عائد کی گئی۔
علماء نےتو لکھا ہے کہ کارِخیریا حصولِ ثواب کے لیے ایک کافر یا مشرک کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینا شرعاً جائز ہے۔ (اسلام کا نظام مساجد صفحہ ۱۴۷ دار الاشاعت کراچی )
ان تمام حقوق کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو اس کی بنیاد دراصل ہمیں اس قرآنی آیت میں نظر آتی ہے:لَا يَنْهَكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۔ (الممتحنه: ۸)جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
اس آیت سے جو اصول مستنبط ہوتا ہے یہ ہے کہ حربی کافر اور غیر حربی کافر میں فرق ہے۔ اگر چہ انصاف دونوں سے ہوناچاہیے مگر جو غیر حربی ہے وہ سلوک اور رأفت کا زیادہ حق دار ہے۔ اسی اصول کے اوپر ان غیر مسلموں کی حیثیت کچھ اَور بھی اوپر ٹھہرے گی جو نہ صرف یہ کہ حربی نہیں بلکہ حالات ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ برابر کے شہری ہیں اور اب تک برابر کے شہری رہے ہیں۔
آخر میں مسلمان ملک میں رہنے والے غیر مسلم شہریوں کے جو حقوق آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کی سنت سے ثابت ہیں،اگراحمدیوں کو جبراً اور اسلامی تعلیم کے برخلاف غیرمسلم ہی مانا جائے تو بھی اسلامی تعلیم کے مطابق وہ درج ذیل حقوق کے حقدار ہیں:
۱۔ جان،دین،اموال اور جملہ املاک محفوظ ہوں گے۔
۲۔ کسی کو تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
۳۔ عام ذمیوں کے درجہ میں نہیں سمجھا جائے گا ۔(امان نامہ اهل مقنا و حنین و خیبر)
۴۔ ان کے مذہب اور قرابت داروں کی تذلیل و تحقیر نہ ہوگی۔
۵۔ مذہب کے بارے میں ان کو فتنہ میں مبتلا نہیں کیا جائے گا۔
۶۔ ان کی ماتحتی کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی کہتری عائد نہ ہوگی۔( نصاریٰ نجران سے معاہدہ)
۷۔ گرجے، عبادت خانے، خانقاہیں اور مسافرخانے کہیں بھی ہوں ان کی حفاظت کی جائے گی۔
۸۔ ان کے عقائد و رسوم اور مذہب کا تحفظ کیا جائے گا۔
۹۔ پادری، راہب جن مناصب پر ہیں انہیں معزول نہ کیا جائے گا۔
۱۰۔ عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔
۱۱۔ نہ انہیں تبدیل کیا جائے گا۔
۱۲۔ان سے مذہبی گفتگو اور بحث و مباحثہ کی آزادی ہوگی ۔
۱۳۔ عدل و انصاف اور سماجی معاملات میں ان کے حقوق مسلمانوں کے برابر ہوں گے۔
۱۴۔ عبادت گاہوں ، خانقاہوں یا قومی عمارتوں کی مرمت وغیرہ بلا روک ٹوک ہوگی۔ (نصاریٰ نجران سے دوسرا معاہدہ )
۱۵۔ طریق عبادت، جملہ منقولہ جائیداد، گھر میں موجود و غیر موجود دونوں کے لیے حمایت۔
۱۶۔ کسی کو ان کے مسلک سے برگشتہ نہ کیا جائے گا۔(معاہدہ نجران منجانب حضرت ابوبکرؓ)
۱۷۔ ان کے دینی اعمال سے مواخذہ نہ ہوگا۔
۱۸۔ ان سے بلاوجہ پرسش ہوگی نہ ضرر رسانی ہوگی۔
۱۹۔ اپنے مذہب کے ہر ایک شعار کی پابندی کا اختیار ہے۔ (امان نامہ برائے باشندگان بیت المقدس از امیر المومنین حضرت عمرؓ )
۲۰۔ غیر مسلموں کو ان کی اہلیت اور استعداد کے مطابق اعلیٰ عہدے یہاں تک کہ وزارت تک کے عہدے بنو عباس کے دور میں دیے گئے۔
۲۱۔ فوجداری قانون میں ذمی اور مسلمان برابر ہیں۔
۲۲۔ شخصی معاملات میں ان کے مذہب کے مطابق قانون ان پر نافذ کیا جائے گا۔ (دستوری سفارشات از مودودی صفحہ ۴ شق ۴)
۲۳۔ غیر مسلموں کو اسلامی ریاست میں تقریر و تحریر اور ضمیر کے اظہار کی وہی آزادی ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہے۔ (اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق صفحہ ۳۳ از مودودی طبع سوم ۱۹۷۰ء)
اللہ تعالیٰ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذمہ داروں کو یہ انصاف اپنے ملک میں قائم کرنے کی توفیق دے تاکہ ان کے پڑوسی ملک میں جہاں ہمارے بھائی مسلم اقلیت موجود ہیں وہ بھی اپنے ان مسلمہ حقوق کا مطالبہ کرسکیں۔
خدا کرےکہ حکومت وقت کو انصاف کی توفیق ملے قبل اس کے کہ خدا کی بے آواز لاٹھی خود یہ انصاف قائم کرکے دکھائے۔آمین

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ میں جبر کی ممانعت(قسط دوم)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button