بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۹۵)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭… نماز شروع کرتے وقت تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے رفع یدین کرنا چاہیے یا نہیں اور اس کی کیا دلیل ہے؟
٭… شادی کی انگوٹھی جو مرد خاص طور پہنتے ہیں کیا اس کا پہننا جائز ہے؟
٭… کیا ہمیں گھر خریدنے، اسے Renovateکرنے اور پھر بیچنے کا کاروبار کرنے کی اجازت ہے؟
٭… حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصلح موعود کے بارے میں پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہم ۲۰؍فروری کو یوم مصلح موعود مناتے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موعود پوتے تھے، جنہیں وحی الٰہی میں یحییٰ کا نام بھی دیا گیا تھا۔ تو کیا ہمیں موعود پوتے کا دن بھی نہیں منانا چاہیے؟
٭… اگر کوئی شادی شدہ جوڑا مل کر گھر خریدتا ہے اور خاوند اس گھر کی مارگیج اور بلز وغیرہ دیتا ہے تو کیا اسلامی تعلیم کے مطابق گھر صرف خاوند کا ہوتا ہے؟
٭…کیا حدیث نبویہﷺ یُدْفَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ سے مراد آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات میں مماثلت بھی ہو سکتی ہے؟

سوال: لیبیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ نماز شروع کرتے وقت تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے رفع یدین کرنا چاہیے یا نہیں اور اس کی کیا دلیل ہے؟ نیز شادی کی انگوٹھی جو مرد خاص طور پر پہنتے ہیں کیا اس کا پہننا جائز ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عیسائیوں کا رواج ہے اور ان سے مشابہت نہیں ہونی چاہیے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍جولائی ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا آنحضرتﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔ تکبیر تحریمہ کے علاوہ نماز کے دوران کسی اَور موقع پر ہاتھ اٹھانا ضروری نہیں۔ حضورﷺ کی سنت متواترہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھ کانوں تک بلند کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کے قریب تک بلند فرماتے۔ پھرآپؐ نماز ختم کرنے تک رفع یدیں نہیں فرماتے تھے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے ایک موقع پر لوگوں سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں حضورﷺ کی طرح نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ اورپھر آپ نے نماز پڑھی اور اپنے دونوں ہاتھ صرف پہلی مرتبہ اٹھائے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ بَاب مَنْ لَمْ يَذْكُرْ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ)
اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے اسوہ پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا کہ آپ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع یدین فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تحریر کرتے ہیں: خواجہ عبدالرحمٰن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والدصاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے۔ یعنی یہ دونوں آپس میں چھو جاتے تھے۔(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۷۴۵،۷۴۴ مطبوعہ فروری ۲۰۰۸ء)
تکبیر تحریمہ کے علاوہ نماز کے دیگر حصوں میں رفع یدین کرنے کے بارے میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا خواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔ احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے اوروہابیوں اورسنّیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کردیا۔ (البدر نمبر ۱۱ جلد ۲ مورخہ ۳ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۵)
رفع یدین کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہی طریق تھا جس پر آنحضورﷺ نے دوام اختیار فرمایا۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ  تحریر کرتے ہیں:بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں میں سخت غیر مقلد تھا اور رفع یدین اور آمین بِالجَھر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا۔ عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبداللہ اب تو اس سنت پر بہت عمل ہوچکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع یدین کرنا ترک کردیا بلکہ آمین بِالجَھر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بِالجَھر کہتے نہیں سُنا اور نہ کبھی بسم اللہ بِالجَھر پڑھتے سُنا ہے۔(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ۱۴۷ مطبوعہ فروری ۲۰۰۸ء)
باقی جہاں تک شادی کی انگوٹھی پہننے کا سوال ہے تو اس میں بظاہر کوئی ہرج والی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ کوئی شرعی شرط بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں مرد و عورت کا کوئی فرق ہے۔کیونکہ شرعاً تو مرد کو حسب استطاعت صرف حق مہر دینے اور ولیمہ کرنے کی تاکید ہے۔ انگوٹھی پہننے کا حکم نہ مرد کے لیے ہے نہ ہی عورت کے لیے ۔ بعض لوگوں نے بظاہر رشتہ کی مضبوطی کے اظہار کے لیے انگوٹھی پہننے کے طریق کو اختیار کر لیا ہےاور بعض لوگ ایسا نہیں بھی کرتے۔ احمدیوں میں عموماً أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کے نقش والی انگوٹھی پہننے کاطریق رائج ہے۔
ہاں شادی بیاہ پر غیر ضروری رسمیں کرنا اور ان پر بےدریغ فضول خرچی کرنا ناپسندیدہ فعل ہے اور اس بارے میں مَیں اپنے مختلف خطبات اور خطابات میں توجہ بھی دلاتا رہتا ہوں۔ حال ہی میں مَیں نے ایک Virtual ملاقات میں بھی اس طرف توجہ دلائی تھی کہ اس قسم کی رسومات پر فضول خرچیاں کرنے سے ایک مومن کو اجتناب کرنا چاہیے۔

سوال:کینیڈا سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ کیا ہمیں گھر خریدنے، اسے Renovateکرنے اور پھر بیچنے کا کاروبار کرنے کی اجازت ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍اگست ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اگر اس کاروبار میں سودی پیسہ کی ملونی نہ ہو تو ایسا کاروبار کرنے میں کوئی ہرج کی بات نہیں کیونکہ گھر خریدنے، اسے ٹھیک ٹھاک کرنے اور پھر مارکیٹ میں اسے بیچنے کے تمام مراحل میں انسان محنت بھی کرتا ہے، اپنا وقت بھی لگاتا اور اپنا پیسہ بھی خرچ کرتا ہے۔ اس لیے اس میں کوئی ہرج نہیں۔
باقی مغربی معاشرہ میں رائج مارگیج کے طریق کے تحت گھر خریدنے کی جماعت نے جو اجازت دی ہے وہ صرف مجبوری اوراضطرار کی ایک کیفیت ہے اور صرف ذاتی رہائش کے لیے ایک گھر تک محدود ہے۔ مارگیج کے اس طریق کار کے ذریعہ کاروبار کے طور پر مکان در مکان خریدنا یا اس طریق کار کے تحت مکان خرید کر ان کی Renovation کرکے انہیں فروخت کرنے کا کاروبار کرنا درست نہیں اور جماعت اس امر کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، بلکہ اس سے منع کرتی ہے۔کیونکہ اس میں سود کا لین دین کرنا پڑتا ہے۔
عصر حاضر کے مختلف مالی معاملات از قسم بینکوں کے قرض، سٹاک مارکیٹ اور مارگیج وغیرہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں ایک مرکزی کمیٹی ان مسائل پر غور کر رہی ہے۔فیصلہ ہونے پر افراد جماعت کو ان شاء اللہ اس سے آگاہ کر دیا جائے گا۔

سوال: یوکے سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مصلح موعود کے بارے میں پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہم ۲۰؍فروری کو یوم مصلح موعود مناتے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موعود پوتے تھے، جنہیں وحی الٰہی میں یحییٰ  کا نام بھی دیا گیا تھا۔ تو کیا ہمیں موعود پوتے کا دن بھی نہیں منانا چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍اگست ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: ۲۳؍مارچ اور ۲۰؍فروری کسی کی پیدائش کے دن کے طور پر ہم نہیں مناتے۔ بلکہ جماعت احمدیہ ان دنوں میں یوم مسیح موعود اور یوم مصلح موعود اس لیے مناتی ہے کہ ان دنوں کا تعلق دو عظیم الشان پیشگوئیوں کے ساتھ ہے۔ ۲۳؍مارچ کو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی چودہ سو سال قبل کی جانے والی پیشگوئی دربارہ مسیح محمدی پوری ہوئی اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دین اسلام کی تجدید اور اس کی نشأۃ ثانیہ کے لیے اپنے باصفا مریدوں سے بیعت لے کر جماعت احمدیہ کا آغاز فرمایا۔اور ۲۰؍فروری کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چالیس روزہ چلہ میں کی گئی آپ کی تضرعات اور آپ کی پُر سوز دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے دین اسلام کی حقانیت اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی صداقت کے نشان کے طور پر دین اسلام کی خدمت اور اسلام کے پیغام کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کے لیے مصلح موعود کی صورت میں ایک عظیم الشان بیٹے کی بشارت سے آپؑ کو نوازا۔ اس پیشگوئی کی اشاعت کے لیے آپؑ نے ایک اشتہار بھی شائع فرمایا اور اسے ایک خاص الٰہی نشان قرار دیا۔ پس ان دنوں کو دو عظیم الشان اور غیر معمولی نشانوں سے متعلق ہونے کی وجہ سے ہم مناتے ہیں۔
باقی جہاں تک نافلہ موعود کی پیشگوئی کا تعلق ہے تو اس طرح کی متعدد پیشگوئیوں اور بکثرت نشانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سرفراز فرمایا۔ خود آنحضورﷺ نے بھی فرمایا تھا کہ آنے والا مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کی اولاد بھی ہو گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے مبشر اولاد کی پیشگوئی سے نوازا لیکن ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر ہم کوئی دن نہیں مناتے کیونکہ ہر پیشگوئی کا ایک مقام اور مرتبہ ہوتا ہے۔ اور مسیح موعود کی بعثت اور مصلح موعود کی بشارت دو غیر معمولی اور عظیم الشان الٰہی نشانات ہیں جنہیں ایک یادگار کے طور پراس لیے منایا جاتا ہے کہ تاہم ان پیشگوئیوں کے مقاصد کو سمجھیں اور ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے امور کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں اور ان کے نتیجہ میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ہم ادا کرنے والے بنیں۔اللہ تعالیٰ تمام افراد جماعت کو کماحقہ ان ذمہ داریوں کو بجالا نے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اگر کوئی شادی شدہ جوڑا مل کر گھر خریدتا ہے اور خاوند اس گھر کی مارگیج اور بلز وغیرہ دیتا ہے تو کیا اسلامی تعلیم کے مطابق گھر صرف خاوند کا ہوتا ہے؟میں سمجھتی ہوں کہ پُر سکون زندگی کے لیے ‘‘ہمارا گھر’’کی اصطلاح استعمال ہونی چاہیے، کیونکہ عورت گھر کی دیکھ بھال کرتی اور بچوں کی تربیت کرتی ہے۔ تو کیا وہ صرف یہ سننے کے لیے ایسا کرتی ہے کہ خاوند بیوی کو کسی بھی وقت حق مہر دے کر گھر سے باہر نکال سکتا ہے۔ اس لیے قانونی طور پر گھر میاں بیوی میں برابر تقسیم ہونا چاہیے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۹؍اگست ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: شریعت میں گھر تو خریدنے والے کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اگر میاں بیوی دونوں نے مل کر گھر خریدا ہے تو وہ دونوں ہی اس گھر کے مالک ہوں گے اور اس صورت میں دونوں پر ہی اس گھر کے دیگر مالی واجبات کی ادائیگی کی بھی پابندی ہو گی۔ لیکن اگر صرف خاوند نے گھر خریدا ہے اور وہی اس کے دیگر واجبات ادا کر رہا ہے تو پھر یہ گھر شرعاً تو خاوند ہی کی ملکیت متصور ہو گا۔ ہاں خاوند کی وفات کی صورت میں اگر خاوند کی اولاد ہے تو بیوی کو اس میں سے آٹھواں حصہ ملے گا اور اگر خاوند کی اولاد نہ ہو تو بیوی کو چوتھا حصہ ملے گا۔
باقی جہاں تک بیویوں کے ساتھ معاملات زندگی کا تعلق ہے تو اسلام نے اس بارے میں بھی بڑی واضح تعلیم دی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔(النساء:۲۰) یعنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔
پھر حضورﷺ نے بھی فرمایا کہ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ۔(سنن ترمذی کتاب المناقب بَاب فَضْلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی کے لیے اچھا ہے۔
نیز آپؐ نے عورتوں سے حسن سلوک کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:خبردار! میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں، یقیناً وہ تمہارے پاس قید ہیں لیکن تم ان پر اس کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے کہ ان سے صحبت کرو، سوائے اس کے کہ وہ کھلم کھلا بےحیائی کی مرتکب ہوں تو ایسی صورت میں انہیں ان کے بستروں میں الگ چھوڑ دو اور انہیں ایسے مارو جس سے انہیں چوٹ نہ پہنچے۔ پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو انہیں تکلیف پہنچانے کے راستے تلاش نہ کرو۔ غور سے سنوکہ تمہارا تمہاری بیویوں پر اور ان کا تم پر حق ہے۔ تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جن کو تم ناپسند کرتے اور ان لوگوں کو گھر میں داخل نہ ہونے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو۔ اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں بہترین کھانا کھلاؤ اور انہیں بہترین لباس مہیا کرو۔ (سنن ترمذی کتاب الرضاع بَاب مَا جَاءَ فِي حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیویوں کے حقوق کی طرف بہت زیادہ توجہ دلائی ہے اور مختلف مواقع پر اپنے متبعین کو بیویوں سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگر مرد اپنی عورت کو مروّت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھیرایا گیا ہے۔(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۸۸)
حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت فرماتے تھے کہ فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ اور فرمایا ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔ ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضرت اس بات سے بہت کشیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے۔ (الحکم نمبر ۲، جلد ۴، مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۰ء صفحہ۳)
پس اس قدر اعلیٰ اور متوازن تعلیم کسی مذہب اور معاشرہ میں موجود نہیں۔ کمی صرف یہ ہے کہ اس پر کماحقہ عمل نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا ہر احمدی کو اس پر عمل کرنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

سوال:نائیجیریا سے ایک دوست نے حدیث نبویہﷺ یُدْفَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا اس سے مراد آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات میں مماثلت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے پہلے قضائے حاجت کی ضرورت پڑی اور مخالفین نے اس پر بیہودہ اعتراضات کیے، بالکل اسی طرح بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ کو بھی اپنی وفات سے قبل قضائے حاجت کی ضرورت پڑی تھی؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۵؍اگست ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: مذکورہ بالا حدیث سے آپ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ اور آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مابین جومماثلت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس حدیث کی اصل تشریح وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود بعد وفات کے آنحضرتﷺ کی قبر میں داخل ہوگا اس کے یہ معنی کرنا کہ نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کی قبر کھودی جائے گی یہ جسمانی خیال کے لوگوں کی غلطیاں ہیں جو گستاخی اور بے ادبی سے بھری ہوئی ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح موعود مقام قرب میں آنحضرتﷺ سے اس قدرہوگا کہ موت کے بعد وہ اس رُتبہ کو پائے گا کہ آنحضرتﷺ کے قرب کا رتبہ اس کو ملے گا۔ اور اس کی روح آنحضرتﷺ کی روح سے جا ملے گی گویا ایک قبر میں ہیں۔ اصل معنی یہی ہیں جس کا جی چاہے دوسرے معنی کرے۔ اِس بات کو روحانی لوگ جانتے ہیں کہ موت کے بعد جسمانی قرب کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک جو آنحضرتﷺ سے روحانی قرب رکھتا ہے اس کی روح آپؐ کی روح سے نزدیک کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔فَادْخُلِيْ فِي عِبَادِيْ۔وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ(الفجر:۳۱،۳۰)(حقیقہ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۲۶)
باقی قضائے حاجت تو انسان کی ان حوائج ضروریہ میں شامل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ لازم کر دیا ہے، اس بات کو خداتعالیٰ کے کسی فرستادہ پر اعتراض کا ذریعہ بنانا ایک نہایت جاہلانہ فعل ہے۔ لہٰذا میرے نزدیک اس چیز کو کسی مماثلت کا ذریعہ بنانا بھی درست نہیں کیونکہ جس چیز کوکچھ جاہل مخالفین نے ہمارے ایک محبوب کے لیے اعتراض کی وجہ بنایا ہو ہم کیونکر اس چیز کو مماثلت کے لیے اس طرح بیان کریں جو ہمارےایک دوسرے محبوب اور ہمارے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے مخالفین کی نظر میں آپﷺ کی ذاتِ اطہر پر حرف لانے والی ہو۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۹۴)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button