احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
اگر اولیاء اللہ کے ملفوظات اور مکتوبات کا تجسّس کیا جائے تو اس قسم کے بیانات ان کے کلمات میں بہت سے پائے جائیں گے اور اُمتِ محمدیہ میں محدثیت کا منصب اِس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے جس سے انکار کرنا بڑے غافل اور بے خبر کا کام ہے
براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو
اِن تمثیلات کی نسبت فریق اوّل کا خیال و مقال اور اُس کا ابطال
یہ تمثیلات منصوصہ قرآنیہ قطعیہ یقینہ فریق اوّل کے خواص اور بعض عوام پڑھتے یا سنتے ہیں تو باوجود ادعاء پیروی قرآن و ترک تقلیداین و آن ناانصافی و سخن پروری سے ان تمثیلات کے جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ ان میں غیر نبی کے لئے اطلاع غیبی پائی جاتی ہے۔ تو یہ پہلی امتوں کے لئے ہے۔ اس امت محمدیہ کے اولیاء کہلانے والوں کے لئے (جن کے الہامات سے ہم کو انکار ہے) ایسی اطلاع غیبی ان تمثیلات میں یا اور کہیں کہاں پائی جاتی ہے۔ پھر اس امّۃ کے اولیاء کو دعویٰ الہام غیبی کیونکر جائز ہے۔
ان کے اس مقال کا مآل و ماحصل یہ ہے کہ ہم نے اپنے اس انکار عام کو چھوڑا۔ اور یہ مان لیا کہ مطلق اطلاع غیب خاصہ انبیاء نہیں۔ غیر نبی کو بعض صورتوں سے اطلاع غیب دی جاتی ہے۔ مگر یہ شرف ومنصب پہلی ہی امتوں کو حاصل تھا۔ یہ امّۃ(محمدیہ مرحومہ) اس شرف و فیض الٰہی سے محروم و بےنصیب ہے۔ اس امّۃ میں صحابہ سے لے کر اس وقت کے اولیاء تک کوئی اُس شرف و منصب (جو مادر موسیٰ یا حضرت مریم یا خضر علیھم السلام کو عطاہوا تھا۔) لائق و اہل نہیں گذرا۔
ہر چند ان کا یہ خیال و مقال اس قابل نہ تھا کہ ہم اس کو نقل کرتے چہ جائیکہ اس کا جواب قلم میں لاتے کیونکہ اس میں پرلے سرے کی خفت اور اس امّۃ مرحومہ کے اولیاء و اصفیاء (صحابہ و تابعین وغیرہ ائمہ دین) کی اہانت پائی جاتی ہے مگر چونکہ ان کا یہ خیال و مقال پہلے سے عوام فریق اوّل میں شائع ہو کر صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لئے مجبوراً و اضطراراً اس کا جواب دیا جاتا ہے۔
بعد تسلیم اس امر کے کہ ’’خدا تعالیٰ بعض وجوہ سے اطلاع غیب غیر نبی کو بھی دیتا ہے اور یہ امر پہلی امتوں میں بشہادت قرآن پایا گیا ہے۔‘‘ اس امّۃ مرحومہ کے لئے اس شرف کے حصول پر ہمارے پاس کوئی خاص نص قرآن یا حدیث نہ بھی ہو تو ہم کوحصول اس شرف کے ثابت کرنے کے لئے ایک وہ آیۃ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔ (آل عمرا ن ع ۱۲)جس میں اس مرحومہ امّۃ کو خیر امت ٹھہرایا گیا ہے۔اور ایک وہ حدیث عن بھز عن ابیہ عن جدہ انہ سمع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فی قولہ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس قال انتم تتمون سبعین امۃ انتم خیرھا و اکرمھا علی اللّٰہ۔ ھذا حدیث حسن۔ (جامع ترمذی صفحہ ۴۸۹)جو اس آیت کی تفسیر ہے اوراس میں یہ تصریح ہے کہ تم نے (اے امت محمدیہ) ستّر امتوں کو پورا کیا ہے اور تم ان سب سے اللہ کے نزدیک بہتر اور بہت باعزت ہو کافی دلیل ہے۔
ومع ہذا بالفعل ہم ایک خاص روایت حدیث حصول اس شرف کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں منکرین مخالفین اس حدیث کا ثبوت اس مدعا کے لئے ناکافی ہونا ثابت کریں گے تو ہم اس قسم کی بیسوں روایات کُتب حدیث سے اور پیش کرینگے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہےکہ المُحب الطبری عن عمرو بن الحارث قال بینما عُمر یخطب یوم الجمعۃ اذ ترک الخطبۃ و نادی یا ساریۃ الجبل مرتین او ثلثا ثم اقبل علی خطبتہ فقال ناس من اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ لمجنون ترک خطبۃ و نادی یا ساریۃ الجبل فدخل علیہ عبد الرحمن بن عوف فکان ینسبط علیہ فقال یا امیر المومنین تجعل للناس علیک مقالا بینھما انت فی خطبتک اذ نادیت یا ساریۃ الجبل ای شی ھذا قال و اللّٰہ ما ملکتُ ذلک حین رایتُ ساریۃ و اصحابہ یقاتلون عند جبل و یُوتون من بین ایدھم و من خلفھم فلم املک ان قلتُ یا ساریۃ الجبل لیلحقوا بالجبل فلم تمض الایامُ حتیٰ جاء رسول ساریۃ بکتابہ ان القوم لقونا یوم الجمعۃ فقاتلنا ھم من حین صلینا الصبح الی ان حضرت الجمعۃ و ذرَّ حاجب الشمس فسمعنا صوت منادٍ ینادی الجبل مرتین فلحقنا بالجبل فلم نزل قاھرین لعدونا حتی ھزمھم اللہ تعالیٰ۔ (ازالۃ الخفا حضرت شاہ ولی اللہ) کہ ایک دن آپ مسجد نبوی میں منبر پر جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ناگاہ اثناء خطبہ میں آپ نے یہ الفاظ فرمائے۔’’ یا ساریۃ الجبل‘‘یعنی اے ساریہ!(یہ ایک امیر لشکر ہے جس کو آپ نے سپہ سالار کر کے نہاوند میں بھیجا تھا۔ (حاشیہ: نہاوند کوہستان جنوبی ہمدان میں ایک شہر کا نام ہے۔ قاموس)اور وہ میدان جنگ میں بے موقعہ کھڑا ہوا تھا اور اُس کا یہ بے موقعہ کھڑا ہونا خدا تعالیٰ نے حضرت عُمر کو غیب سے مشاہدہ کرا دیا تھا۔) پہاڑ کو پسِ پشت لے۔ لوگ آپ کے یہ الفاظ سن کر متعجب و معترض ہوئے۔ تو بعد نماز حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے آپ سے استفسار حال کیا۔ آپ نے فرمایا میں نے ساریہ اور اس کے ساتھ والوں کو ایک پہاڑ کے پاس ایسے موقعہ پر کھڑے ہوئے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دونوں طرف سے دشمن آ رہے تھے۔ جس میں ان کی شکست کا خوف تھا۔ تو میں یہ بات کہنے سے رُک نہ سکا۔ پھر بہت دن نہ گذرے تھے کہ ساریہ کا قاصد ان کا خط لے کر پہنچا۔ جس میں یہ لکھا تھا کہ صبح سے جمعہ کے وقت تک ہمارا دشمن سے مقابلہ رہا (اور میدان ہاتھ نہ آتا تھا) کہ ناگاہ ہم نے دو دفعہ یہ پکار سنی کہ اے ساریہ !پہاڑ کو پسِ پشت لے۔ پس ہم نے پہاڑ کو پس پشت لے کر دشمن کا یکسو ہو کر مقابلہ کیا تو خدا نے دشمن کو بھگا دیا۔
اخرج البیھقی و ابو نعیم فی دلایل النُبوّۃ وللالکائی فی شرح السنۃ و الدیرعا قولی فی فوائدہ و ابن الاعرابی فی کرامات الاولیاء و الخطیب فی رواۃ مالک عن نافع عن ابن عمر قال وجہ عُمر جَیشًا و امر علیھم رجلًا یدعی ساریۃ فبینما عمر یخطب جعل ینادی یا ساریۃ الجبل ثلثًا الحدیث قال ابن حجر فی الاصابۃ اسناد قصۃ ساریۃ حسن۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۲۴)
اس حدیث کو امام بیہقی و حافظ ابی نعیم نے دلائل النبوت میں لالکائی نے شرح السُنّت میں دیر عاقولی نے اپنے فوائد میں ابن الاعرابی نے کرامات الاولیاء میں خطیب بغدادی نے رواۃ مالک میں محب طبری و ابن مردویہ ابویعلی وغیرہ نے اپنی اپنی تصانیف میں روایت کیا ہے اور ان سے اکابر محدثین و متکلمین (متقدمین و متاخرین) نے طبقۃً بعد طبقۃً اپنی تصانیف میں (جیسے صاحب مشکوٰۃ نے مشکوٰۃ میں حافظ ابن حجر نے اصابہ میں امام سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں۔ حضرت شاہ والی اللہ نے ازالۃ الخفا میں ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں علامہ تفتازانی نے شرح عقائد میں) نقل کر کے اس سے استشہاد اور اس پر اعتماد کیا ہے۔ اور حافظ امام ابن حجر نے اصابہ میں اس کی اسناد کو حسن کہا ہے۔ چنانچہ امام سیوطی نے تاریخ الخلفا میں ان سے نقل فرمایا ہے۔
اس حدیث میں ایک تو حضرت عمر فاروق کو خدا تعالیٰ کا غیب پر اطلاع دینا پایا جاتا ہے جنہوں نے اتنی دور سے صف جنگ کا معائنہ کر لیا۔ دوسرے حضرت ساریہ اور اُن کے ساتھ والوں کو جنہوں نے اتنی غیبوبت سے حضرت عمر فاروق کی آواز کو سُن لیا۔
اب اس سے بڑھ کر اس امّۃ مرحومہ کے لئے حصول اس شرف پر شہادت و دلیل اور کیسی بکار ہے اور اس دلیل کے ثبوت و دلالت میں کسی کو کب جاء انکار ہے اب تو فریق اول کا اپنے خیال سے دست بردار ہونا ہی شرط انصاف و علامت اتباعِ قرآن و حدیث ہے۔ مگر افسوس فریق اوّل کے بعض ناانصاف اس حدیث کو پڑھ کر یا سن کر بھی اپنے خیال سے دست بردار نہیں ہوتے اور اس حدیث کی صحت یا دلالت میں کچھ نہ کچھ (بنے خواہ نہ بنے) کہہ دیتے ہیں۔
اس کے ثبوت میں تو وہ یہ کلام کرتے ہیں کہ ’’یہ حدیث ضعیف ہے۔‘‘ (حاشیہ:یہ دعوے ہم نے اس فریق کے خواص سے نہیں سنا۔ اور نہ ان کے رسالہ ابطال الہام میں دیکھا صرف ان کے عوام کی زبان پر ہے۔ عرصہ تخمیناً پندرہ سال کا ہوا ہے کہ ہم نے اپنی وعظ میں اس حدیث کو ثبوت کرامات اولیاء اللہ میں پیش کیا تھا تو ایک نو مسلم نے (جو سرگروہ فریق اوّل کا دست گرفتہ ہے) یہ کہہ دیا تھا کہ ’’یہ حدیث ضعیف ہے‘‘ ان دنوں بھی ایک نو مسلم نے (کہ وہ بھی ان حضرت کا مقلد و گرویدہ ہے) یہ دعویٰ کیا ہے۔ ہر چند یہ دعاوی بڑے حضرت کی تعلیمات و افادات سے ہیں ورنہ وہ بیچارہ عوام کیا جانیں مگر جب تک حضرت اعلیٰ بر ملا خود یہ دعویٰ زبان پر یا قلم میں نہ لاویں اور اس کی ثبوت میں کسی محدث و امام جرح و تعدیل کا قول پیش نہ کریں ہم اس دعویٰ کی طرف زیادہ التفات نہیں کرتے اور عامیوں سے خطاب مناسب نہیں سمجھتے۔ حضرت اعلیٰ خود مدعی ضعف حدیث ہیں تو مرد میدان بنیں پھر ہم سے اس کا جواب سنیں بیچارہ نو مسلم جاہلوں کے کانوں میں ایسی باتیں پھونک دینا اور اُن پر دین کو مشتبہ کرنا مردانگی کی بات نہیں ہے۔) اور دلالت میں یہ کلام کہ اس میں صرف صحابہ کی اطلاع غیب کا ثبوت پایا جاتا ہے۔ غیر صحابہ (پچھلے اولیاء) کے الہامات و اطلاع مغیبات کا اس میں کہاں ثبوت ہے۔
ان کی اس کلام (دوم) کا ماحصل یہ ہے کہ ہم نے صحابہ کی اطلاع غیبی کو بھی مانا۔ اور اس سے انکار کو بھی چھوڑ دیا اب ہم کو صرف ان سے پچھلے اولیاء کے الہامات و اطلاع مغیبات سے انکار ہے اور اسی کا ثبوت بکار۔
ان کے دعویٰ ضعف حدیث کا جواب تو ہمارے بیان سابق میں آ چکا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ضعیف نہیں ہے اور شاید یہ حضرات بھی (اگر ان میں کچھ سمجھ و انصاف ہے) اس جواب کو دیکھ کر پھر اس ضعف کا نام نہ لیں۔
اور دعویٰ خصوصیت صحابہ کا جواب مؤلف براہین احمدیہ نے خود اپنی کتاب کے حصہ چہارم میں بصفحہ ۵۴۵ دے دیا ہے۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ (حاشیہ: اصل کلام مؤلف یہ ہے ’’نبوت کے عہد میں مصلحت ربانی کا تقاضایہی تھا کہ جو غیر نبی ہے اُس کے الہامات نبی کے وحی کی طرح قلمبند نہ ہوں تا غیر نبی کا نبی کے کلام سے تداخل واقعہ نہ ہوجائے لیکن اُس زمانہ کے بعد جس قدر اولیاء اور صاحب کمالات باطنیہ گزرے ہیں اُن سب کے الہامات مشہور و متعارف ہیں کہ جوہریک عصر میں قلمبند ہوتے چلے آئے ہیں اس کی تصدیق کے لئے شیخ عبدالقادر جیلانی اور مجدد الف ثانی کے مکتوبات اور دوسرے اولیاء اللہ کی کتابیں دیکھنی چاہئیں کہ کس کثرت سے ان کے الہامات پائے جاتے ہیں بلکہ امام ربانی صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی میں جو مکتوب پنجاہ و یکم ہے اس میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات و مخاطبات حضرتِ احدیّت سے مشرّف ہوجاتا ہے اور ایسا شخص محدّث کے نام سے موسوم ہے اور انبیاء کے مرتبہ سے اُس کا مرتبہ قریب واقع ہوتا ہے ایسا ہی شیخ عبدالقادرصاحب نے فتوح الغیب کے کئی مقامات میں اس کی تصریح کی ہے۔ اور اگر اولیاء اللہ کے ملفوظات اور مکتوبات کا تجسّس کیا جائے تو اس قسم کے بیانات ان کے کلمات میں بہت سے پائے جائیں گے اور اُمتِ محمدیہ میں محدّثیّت کا منصب اِس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے جس سے انکار کرنا بڑے غافل اور بے خبر کا کام ہے۔ اس امت میں آج تک ہزارہا اولیاء اللہ صاحب کمال گذرے ہیں جن کی خوارق اور کرامات بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ثابت اور متحقق ہوچکی ہیں اور جو شخص تفتیش کرے اس کو معلوم ہوگا کہ حضرتِ احدیّت نے جیسا کہ اس امت کاخیر الامم نام رکھا ہے ایسا ہی اس امت کے اکابر کو سب سے زیادہ کمالات بھی بخشے ہیں جو کسی طرح چھپ نہیں سکتے اور اُن سے انکار کرنا ایک سخت درجہ کی حق پوشی ہے۔‘‘(براہین احمدیہ صفحہ ۵۴۶)صحابہ سے پچھلے پچھلے اولیاء اللہ کے اس قسم کے الہامات کا ثبوت حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب اور شیخ مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی جلد دوم میں موجود ہے۔ ان کتابوں کو ملاحظہ کرو تو معلوم ہو کہ یہ شرف (الہام غیبی) صحابہ کے بعد بھی اولیاء امّۃ محمدیہؐ کو بطور وراثت عطا ہوتا چلا آیا ہے۔اور ظاہر ہے کہ صحابہ سے پچھلے اکابر کے حالات کے لئے اسی قسم کا ثبوت کافی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ پچھلے اکابر کے حالات و واقعات کوئی قرآن و حدیث ہی سے نکالے۔
اور اگر یہ حضرات دائرہ ثبوت و دلائل کو تنگ کریں اور پچھلے اولیاء کے حالات کا ثبوت قرآن و حدیث ہی سے طلب کریں اور یہ کہیں کہ کس آیۃ یا حدیث میں آیاہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی و مجدد الف ثانی کو فلاں فلاں الہام غیبی ہوا ہے۔ تو میں نہیں جانتا کہ کوئی عاقل (ہندو ہو خواہ مسلمان یہودی ہو خواہ نصرانی برہمو ہو خواہ آریہ) ان کے اس سوال کو مستحق جواب قرار دے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ یہ حضرات ایسا سوال کرنے سے شرماویں اور اہل اسلام پر اقوام غیر کو نہ ہنساویں۔(جاری ہے)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی کوشش اور قربانی کا ایک نظارہ