حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍فروری ۲۰۲۰ء)

حضرت مصعب بن عمیرؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنوعبدالدار سے تھا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ اس کے علاوہ ان کی کنیت ابو محمد بھی بیان کی جاتی ہے۔ حضرت مصعبؓ کے والد کا نام عمیر بن ہاشم اور ان کی والدہ کا نام خناس یا حَنَاس بنت مالک تھا جو مکہ کی ایک مال دار خاتون تھیں۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے والدین ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی والدہ نے ان کی پرورش بڑے ناز و نعمت سے کی۔ وہ انہیں بہترین پوشاک اور اعلیٰ لباس پہناتی تھیں اور حضرت مصعبؓ مکّے کی اعلیٰ درجےکی خوشبو استعمال کرتے اور حضرمی جوتا جو حضرِموت کے علاقے کا بنا ہوا جوتا تھا، امیر لوگوں کے لیے مخصوص تھا، وہاں سے منگوا کےپہنا کرتے تھے۔ حضرِموت عدن سے مشرق کی طرف سمندر کے قریب ایک وسیع علاقہ ہے۔ بہرحال اعلیٰ لباس، اعلیٰ خوشبو اور جوتا تک وہ باہر سے منگوایا کرتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ  کی بیوی کا نام حمنہ بنت جحش تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کی بہن تھیں۔ حَمْنَہ بنت جحش سے ایک بیٹی زینب پیدا ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو یاد کرتے تو فرمایا کرتے تھے کہ مَیں نے مصعب سے زیادہ حسین و جمیل اور نازونعمت اور آسائش میں پروردہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ85-86 ’’مصعب بن عمیر‘‘ ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 175 ’’مصعب بن عمیر‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء) (سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمدندوی جلد دوم مہاجرین حصہ اول صفحہ 270، 275، دار الاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد السابع صفحہ 71 ’’حمنہ بنت جحش‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء) (معجم البلدان جلد 2 صفحہ 157 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت مصعب بن عمیرؓ جلیل القدر صحابہ میں سے تھے اور ابتدا میں ہی اسلام قبول کرنے والے سابقین میں شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دارِ ارقم میں تبلیغ کیا کرتے تھے اس وقت آپؓ نے اسلام قبول کیا لیکن اپنی والدہ اور قوم کی مخالفت کے اندیشے سے اسے مخفی رکھا۔ حضرت مصعبؓ  چُھپ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔ ایک دفعہ عثمان بن طلحہؓ نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کے گھر والوں اور والدہ کو خبر کر دی۔ والدین نے ان کو قید کردیا۔ آپؓ قید میں ہی رہے یہاں تک کہ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔ ان کو موقع ملا، باہر آئے اور پھر ہجرت کر گئے۔ کچھ عرصے بعد بعض مہاجرین حبشہ سے مکہ واپس آئے تو حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی ان میں شامل تھے۔ آپؓ کی والدہ نے جب آپؓ کی حالتِ زار دیکھی تو آئندہ سے مخالفت ترک کر دی اور بیٹے کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو دو ہجرتیں کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ نے پہلے حبشہ اور بعد میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ86 ’’مصعب بن عمیر‘‘ ، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 175 ’’مصعب بن عمیر‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2003ء)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو مَیں نے آسائش کے زمانے میں بھی دیکھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی۔ اسلام کی خاطر انہوں نے اتنے دکھ جھیلے کہ میں نے دیکھا کہ ان کے جسم سے جلداس طرح اترنے لگی تھی جیسے سانپ کی کینچلی اترتی ہے اور نئی جلد آتی ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق صفحہ 230، من عذب فی اللہ بمکۃ من المؤمنین، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
یہ قربانی کے ایسے ایسے معیار تھے جو حیرت انگیز ہیں۔ ایک روز مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت حضرت مصعبؓ کے پیوند شدہ کپڑوں میں چمڑے کی ٹاکیاں لگی ہوئی تھیں۔ کہاں تو وہ کہ اعلیٰ درجےکا لباس اور کہاں مسلمان ہونے کے بعد یہ حالت کہ چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ صحابہؓ نے حضرت مصعبؓ کو دیکھا تو سر جھکا لیے کہ وہ بھی حضرت مصعب بن عمیرؓ کی تبدیلی حالت میں کوئی مددنہیں کر سکتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے آ کر سلام کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا اور اس کی احسن رنگ میں ثنا بیان فرمائی۔ پھر فرمایا کہ الحمد للہ دنیا داروں کو ان کی دنیا نصیب ہو۔ میں نے مصعبؓ کو اُس زمانے میں دیکھا ہے جب شہرِمکہ میں اس سے بڑھ کر صاحبِ ثروت و نعمت کوئی نہ تھا۔ یہ ماں باپ کی عزیز ترین اولاد تھی مگر خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے اور اس نے وہ سب کچھ خدا اور اس کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ86 ’’مصعب بن عمیر‘‘، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان1990ء)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو دیکھا تو ان کی ناز و نعمت والی حالت کو یاد کر کے رونے لگے جس میں وہ رہا کرتے تھے۔ جو ان کی پہلی حالت تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آئی کہ کس طرح اب قربانی کر رہے ہو۔
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت مصعب بن عمیرؓ آئے۔ ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز ونعمت کو یاد کر کے رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں وہ اب تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جبکہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا یعنی اتنی فراخی پیدا ہو جائے گی کہ صبح شام تم کپڑے بدلا کرو گے اور پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا یعنی کھانا بھی قسم قسم کا ہوگا اور مختلف کورسز (courses) سامنے آتے جائیں گے جس طرح آج رواج ہے۔ اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردے ڈالو گے جیسا کہ کعبے پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ بڑے قیمتی قسم کے پردے استعمال کیے جائیں گے۔ یہ بالکل آج کل کے نظارے یا اس کشائش کے نظارے ہیں جب مسلمانوں کو بعد میں وہ کشائش ملی۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے ایسی فراخی ہو گی، ایسے حالات ہوں گے تو پھر عبادت کے لیے بالکل فارغ ہوں گے اور محنت اور مشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو۔ (سنن الترمذی ابواب صفۃ القیامۃ حدیث 2476) تمہاری حالت، تمہاری عبادتیں، تمہارے معیار اس سے بہت بلند ہیں جو بعد میں آنے والوں کے کشائش کی صورت میں ہوں گے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ہجرت کرنے والے احمدیوں کو چند نصائح

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button