ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب(دورہ یورپ۔ ستمبر و اکتوبر ۲۰۱۹ء کے چند واقعات۔ حصہ دوم)
ایک غیر متوقع ہاؤس ٹور
رات دس بج کر پینتالیس منٹ کا وقت تھا۔ میں اپنا سامان کھول رہا تھا کہ اچانک ایک دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ آواز کی سمت سے مجھے فوراً اندازہ ہو گیا کہ یہ وہی دروازہ تھا جسے کچھ دیر پہلے احمد بھائی نے مجھے نہ کھولنے کی تاکید کی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ دروازہ کھولنے والے یقیناً حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہی ہوں گے۔مجھے قدموں کی آہٹ سنائی دی، چنانچہ میں جلدی سے کوریڈور کی طرف دوڑا۔جب مَیں نے اوپر نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ہمارے پیارے حضور سفید شلوار قمیص اور سفید ٹوپی پہنے میری طرف آ رہے ہیں۔
حضور انور نے چند لمحوں کے لیے اس کمرے کا جائزہ لیا جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا اور پھر آپ باقی عمارت کے بھی معائنے کے لیے چلنے لگے۔اسی منزل پر ایک اَور کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے عرض کی کہ کیا میں لائٹ جلا دوں؟ کیونکہ وہاں تقریباً مکمل اندھیرا تھا، مگر حضور نے فرمایا کہ بند ہی رہنے دو۔چند لمحے بعد ہی مجھے اندازہ ہو گیاکہ حضور نے ایسا کیوں فرمایا تھا۔حضور انور کھڑکی کے قریب گئے جو باہر کی طرف کھلتی تھی اور باہر موجود احمدیوں کو دیکھنے لگے۔ اگر روشنی جلا دی جاتی تو باہر کھڑے لوگ فوری طور پر اس کمرے کی طرف متوجہ ہو جاتے مگر حضور خاموشی سے اپنے لوگوں اور پورے کمپلیکس کا نظارہ فرمانا چاہتے تھے۔ اس لمحے میں نے سوچا کہ اگر باہر کھڑے احمدیوں کو معلوم ہوتا کہ کون انہیں دیکھ رہا ہے تو وہ تو خوشی سے جھوم اٹھتے!
سب سے خوبصورت آواز
چند لمحوں بعد میں خود کو حضور انور کی نہایت خوبصورت آواز میں قرآن کریم کی تلاوت سننے سے روک نہ سکا کہ جو کوریڈور کے اُس پار دروازے کے دوسری طرف سے آرہی تھی۔نماز کے دوران حضور انور کی تلاوت سننا ہمیشہ دل و روح کو راحت دیتا ہے مگر صبح سویرے جب کہ کوئی اور موجود نہ ہو،حضور انور کی تلاوت سننا ایسا حسین تجربہ تھا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔کچھ لمحوں کے لیے میں نے خیال کیاکہ کہیں یہ سننا،حضور انور کی پرائیویٹ عبادت میں مداخلت تو نہیں ۔لیکن جب تک میں اپنے کانوں کو ڈھانپ نہ لیتا، یہ سننے سے بچنا ممکن ہی نہیں تھا۔چنانچہ میں نے ان کو اور اگلی کچھ صبحوں تک دہرائے جانے والے لمحات سے دل کی گہرائیوں سے محظوظ ہوا۔ میں نے اسے اپنی خوش قسمتی سمجھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح (ایدہ اللہ تعالیٰ) کی نہایت پرسوز آواز میں قرآن کریم کی تلاوت سننے کا موقع ملا۔
ایک نَومسلم کی داستان
اسی شام حضور انور نے فیملی ملاقاتیں فرمائیں اور جن خوش نصیب افراد کو حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ان میں۳۸؍ سالہ عبدالحلیم بریجہ بھی شامل تھے جو الجزائر سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی نومسلم تھے۔انہوں نے ۲۰۰۹ءمیں احمدیت قبول کی اور اب فرانس کے شہر نیس (Nice) میں مقیم تھے۔
عبدالحلیم بریجہ نے مجھے احمدیت قبول کرنے کا واقعہ بتاتے ہوئے کہاکہ میرے والد باقاعدگی سے ایم ٹی اے دیکھتے تھے اور اسی کے نتیجے میں انہوں نے احمدیت کی سچائی کو قبول کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ حضرت عیسیٰ طبعی موت وفات پاچکے ہیں اور ان کی جسمانی طور پر زمین پر واپسی نہیں ہو سکتی۔ شروع میں تو مَیں نہایت غصے اور الجھن کا شکار رہا لیکن پھر میرے والد نے مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ دی، جو میری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھی۔موصوف نے مزید کہاکہ مجھے یہ احساس ہوا کہ احمدیوں نے، قرآن کریم میں کوئی تحریف یا تبدیلی نہیں کی البتہ بعض آیات کی تشریح مختلف تھی۔ مثال کے طور پر مجھے یہ پتا لگا کہ احمدی مسلمان قرآن کریم کو تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے ایک عالمگیر کتاب سمجھتے ہیں، جبکہ میں نے پہلے یہی سنا تھا کہ قرآن صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ مجھے یہ نظریہ بےحد پسند آیا اور جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ میرے والد کا اختیار کردہ راستہ ہی حق کا راستہ ہےچنانچہ میں نے بھی احمدیت قبول کر لی۔
انہوں بتایا کہ اب ان کا پورا خاندان احمدیت قبول کرچکا ہے۔ ان کی بہن آخری فرد تھیں جنہوں نے بیعت کی۔اپنی بہن کے احمدیت قبول کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری بہن نے فوراً بیعت نہیں کی۔ جب ہم سب احمدیت قبول کر چکے تو وہ ایک شدید کار حادثے کا شکار ہوئیں۔ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور شیشے کے ٹکڑے ان کی جیب میں جا گرےلیکن کسی طرح پر وہ چہرے پر ایک خراش تک آئے بغیر محفوظ رہیں،اس حادثے کو میری بہن نے خدا کی طرف سے ایک تنبیہ سمجھا اور یہی (واقعہ)انہیں فوری طور پر احمدیت قبول کرنے کی طرف لے آیا۔
اپنی ملاقات کے بارے میں عبدالحلیم نے کہا کہ حضور اس دنیا میں سب سے روشن اور خوبصورت ہستی ہیں۔ احمدیت قبول کرنے سے پہلے میں دعا کیا کرتا تھا کہ کاش!میں کسی حقیقی خلافت کے دور میں زندہ رہ سکتا اور میرا یقین ہے کہ اسی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے خلافتِ مسیح موعودؑ کی طرف راہنمائی عطا فرمائی۔ آج خلیفہ وقت فرانس میں موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ آج یہ دنیا کا سب سے بابرکت ملک ہے۔
خلافت کی عظمت
حضورِانور نے دورۂ یورپ کے دوران یونیسکو کی ایک تقریب سے خطاب فرمانا تھا۔ دورے کے آغاز سے پہلے ایک مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ جب اس پروگرام کو پہلے تیار کیا گیا تھا تو ایک افریقی ملک کے سفیر سے جو سرکاری طور پر UNESCOکی جانب سے اس تقریب کی میزبانی کر رہے تھے یہ طے پایا تھا کہ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوگا۔ تاہم دورے کے آغاز سے صرف ایک دن پہلے۲۴؍ستمبر ۲۰۱۹ءکو مجھے آصف عارف صاحب کی کال آئی کہ سفیر نے اب یہ کہا ہے کہ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ فرانس اور UNESCO کے سیکولر اصولوں کے خلاف ہوگا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ مَیں اس بارے میں حضور کو آگاہ کروں۔ چنانچہ میں نے ملاقات کے دوران حضور کی خدمت میں یہ بات عرض کی اور حضور نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار فرمایا۔
حضور انور نے فرمایا کہ پھر بھی فرانس کی جماعت کو سفیر کو قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے دل پر اثر ڈالنے کی سعی کرنی چاہیے۔ حضور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ فرانس سفیر کو باور کروائے کہ وہ خود بھی ایک باعمل مسلمان ہیں، اس لیے انہیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ قرآن کریم سے ان کی محبت سے انہیں یہ جرأت ملنی چاہیے کہ وہ اس معاملے پر ثابت قدم رہیں اور کسی بھی دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہ خوبصورت نصیحت فرمانے کے بعداچانک حضور نے پوچھاکہ کیا وہ مجھے ،میرا خطاب ’بسم اللہ‘سے شروع کرنے سے روکنے کی کوشش کریں گے؟حضور کے اس سوال پر میں حیران رہ گیا۔جواب میں، مَیں نے عرض کیاکہ حضور! کوئی بھی آپ کو ’بسم اللہ‘ کہنے یا قرآن کریم کی کسی بھی آیت کی تلاوت کرنے سے نہیں روک سکتا۔ اس کے بعد حضور نے جو اگلے الفاظ فرمائے،مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی بھول پاؤں گا۔
عام طور پر حضور انور کا لہجہ اور انداز نہایت پُرسکون رہتا ہے۔لیکن چند لمحوں کے لیے حضور کا انداز کچھ بدلا اور حضور نے نہایت پُرشوکت انداز میں وہ الفاظ فرمائے جو آج تک میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اگر اس وقت، جب میں یونیسکو میں اپنا خطاب شروع کروں گا کسی نے مجھے ’بسم اللہ‘ کہنے سے روکنے کی کوشش کی تو میں فوراً اُسی لمحے بغیر تقریر کیے ہال سے باہر نکل جاؤں گا۔ حضورِانور نے مزید فرمایا کہ شاید تم سب کو شرمندگی ہو، لیکن میں بغیر کسی کی پروا کیے وہاں سے چلا جاؤں گا۔
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ حضور کوئی بات فرماتے ہیں اور میں خاموش رہتا ہوں یا ایسا جواب دیتا ہوں جسے بعد میں ناکافی محسوس کرتا ہوں۔لیکن اُس لمحے میں مکمل طور پر حضور کے غیرمتزلزل عشق الٰہی اور عشقِ قرآن سے متاثر ہو گیا جس کے تحت حضور اس بات پر تیار تھے کہ اگر کسی نے انہیں ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘ سے خطاب شروع کرنے سے روکا تو وہ بنا کسی جھجک کے ہال چھوڑ دیں گے۔لہٰذا، اُس وقت میرا جواب ایسا تھا جو ہمیشہ میرا جواب رہے گا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور! میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی شرمندگی یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کروں گا بلکہ میں فخر کے ساتھ حضور کے پیچھے پیچھے ہال سے باہر نکل جاؤں گا۔
میرا جواب سن کر حضور مسکرائے اور مجھے لگا کہ حضور نے میرے دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے جذبات کی قدر فرمائی ہے۔
بدقسمتی سے سفیر نے پروگرام میں تلاوتِ قرآنِ کریم کو شامل نہیں کیا لیکن حضورِ انور نے اپنے خطاب کا آغاز بسم اللہ سے ہی فرمایا۔
جب حضور نے بسم اللہ کہا تو میرے دل میں خوشی اور فخر کی لہر دوڑ گئی کہ کوئی بھی چیز ہمارے پیارے حضور کو اپنے خطاب کا آغاز اللہ کے نام سے کرنے سے نہیں روک سکتی۔
ایک منفرد تصویری موقع
[یونیسکوکے مرکز میں باقاعدہ تقریب سے قبل پیرس کے وسط کے ایک ہوٹل میں حضور انور نے بعض معززین کو شرف ملاقات بخشا۔ ان میں سے پہلے Mr Anouar Kbibechتھے جو Muslim Council of France کے نائب صدر تھے۔ ]جیسے ہی مسٹر Kbibechکمرے سے باہر گئے، جماعت احمدیہ فرانس کے عہدیداران نے حضورِ انور سے ملاقات کرنے والے اگلے مہمانوں کو اندر بلا لیا۔اسی مختصر وقفے کے دوران میں نے دیکھا کہ حضورِ انور کمرے میں تشریف فرما ہیں اور اُن کے اردگرد کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ یہ ایک بہت ہی نایاب موقع تھا کہ حضورِ انور اپنے دفتر کے باہر تنہا نظر آئیں، اس لیے میں نے فوراً اس لمحے کی ایک تصویر کھینچ لی۔یہ تصویر جب بھی میری نظروں کے سامنے آتی ہےمیرے دل و دماغ میں اُس بابرکت دن کی حسین یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جو میں نے پیرس میں گزارا تھا۔(مترجم: طاہر احمد۔فن لینڈ، انتخاب: مظفرہ ثروت۔جرمنی)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات