مورگیج پر گھر لینے کے متعلق راہنمائی
ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ سود لینا اور دینا حرام ہے، مغربی دنیا میں جب کوئی اپنا مکان خریدنا چاہتا ہے تو اسے اس پر بھی سود دینا پڑتا ہے۔ تو کیا ایک مسلمان ان ممالک میں اپنا گھر نہیں خرید سکتا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: مغربی دنیا میں مارگیج کے ذریعہ جو مکان خریدے جاتے ہیں، ان میں عموماً بینک یا کسی مالیاتی ادارہ سے قرض حاصل کیا جاتا ہے، اور جب تک یہ قرض واپس نہ ہو جائے ایسا مکان قرض دینے والے بینک یا اس مالیاتی ادارہ ہی کی ملکیت رہتا ہے۔ اور بینک یا مالیاتی ادارہ اپنے اس قرض پر کچھ زائد رقم بھی وصول کرتا ہے۔ جس کی وجہ وہ پیسہ کی Devaluation بتاتے ہیں۔
چونکہ ان ممالک میں ہر انسان اپنے رہنے کے لیے بھی مکان آسانی سے نہیں خرید سکتا، اس لیے یا تو اسے ساری زندگی کرایہ کے مکان میں رہنا پڑتا ہے، جس میں اسے زندگی بھر ادا کیے گئے کرایہ کا اس مکان میں رہنے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ کرایہ کی اتنی بڑی رقم ادا کرنے کے باوجود یہ مکان کبھی بھی اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ یا پھر وہ ان مجبوری کے حالات میں مارگیج کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر اپنی رہائش کے لیے ایک گھر خرید لیتا ہے۔ جس پر اسے تقریباً اتنی ہی مارگیج کی قسط ادا کرنی پڑتی ہے جس قدر وہ مکان کا کرایہ دے رہا ہوتا ہے، لیکن مارگیج میں اسے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان اقساط کی ادائیگی کے بعد یہ مکان اس کی ملکیت ہو جاتا ہے۔
پس مارگیج کے ذریعہ مکان خریدنا ایک مجبوری اور اضطرار کی کیفیت ہے، جس سے صرف اپنی رہائش کے لیے ایک مکان کی خرید تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن مارگیج کے اس طریق کار کے ذریعہ کاروبار کے طور پر مکان در مکان خریدتے چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں اور جماعت اس امر کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرتی، بلکہ اس سے منع کرتی ہے۔
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۵۵، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍ مئی ۲۰۲۳ء)
مزید پڑھیں: متکبّر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے