سود کا لین دین اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے
جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے خدا اس کا کوئی سبب پردۂ غیب سے بنا دیتا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کے لئے خداتعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بناتا کہ وہ سُودی قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ یاد رکھو! جیسے اَور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ سُوددینا اور لینا ہے۔ کس قدر نقصان دِہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا۔ معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ مثلاً نکاح ہے اس میں کوئی خرچ نہیں۔ طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہو گیا۔ بعدازاں ولیمہ سنت ہے۔ سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے۔ انسان اگر کفایت شعاری سے کام لے تو اس کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کے لیے خداتعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے۔ دیکھو سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ؟ سؤر کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآاِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (البقرۃ:۱۷۴) یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اللہ غفور رحیم ہے مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لئے تو ارشاد ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (البقرۃ:۲۷۹-۲۸۰) اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے۔ ……مسلمان اگر اس ابتلا میں ہیں تویہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے۔ … انسان کو چاہیے کہ اپنے معاش کے طریق میں پہلے ہی کفایت شعاری مدّنظر رکھے تاکہ سُودی قرضہ اٹھانے کی نوبت نہ آئے جس سے سُود اصل سے بڑھ جاتا ہے۔ … پھر مصیبت یہ ہے کہ عدالتیں بھی ڈگری دے دیتی ہیں مگر اس میں عدالتوں کا کیا گناہ جب اس کا اقرار موجود ہے تو گویا اس کے یہ معنی ہیں کہ سود دینے پر راضی ہے۔
(ملفوظات جلد ۱۰صفحہ۹۴-۹۶۔ایڈیشن۲۰۲۲ء)
مزید پڑھیں: بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں