تمہارا سب سے بڑا عزیز اور دوست خداتعالیٰ ہےاس لیے تم اسی کے سامنے جھکو اور اسی سے مدد طلب کرو
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ۲۰؍مارچ ۱۹۵۳ءبمقام ربوہ)
۱۹۵۳ء میں بیان فرمودہ اس بصیرت افروز خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کے فلسفے کو خوبصورت پیرائے میں بیان فرمایا۔ یہ خطبہ قارئین کے استفادے کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
اگر تمہاری صحت درست،تمہاری روحانیت درست ہے اور تم خوشی اور رنج میں خدا تعالیٰ کی طرف ہی دوڑتے ہو تو خدا تعالیٰ کی قسم! تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور دنیا کی کوئی بہتری نہیں جو تم حاصل نہیں کر سکتے
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
’’انسان خوشی میں بھی اور رنج میں بھی، راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی ہمیشہ ہی اپنے عزیزوں اور دوستوں کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ دیکھو! جب شادیاں ہوتی ہیں تو سارے رشتہ دار اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ موتیں ہوتی ہیں تب بھی سارے رشتہ دار اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ لیکن عام حالات میں لوگ اپنے اپنے گھروں میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی خوشی میں بھی اپنے عزیزوں کو شامل کرے اور اپنے رنج میں بھی اپنے عزیزوں کو شامل کرے۔ اور جو شخص بھی فطرت کے اس مسئلہ کے خلاف چلتا ہے اس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ جس قدر حصہ میں وہ فطرت کے اُصول کے خلاف کرتا ہے اسی قدر اس کی فطرت مر چکی ہے۔ بچے کھیلتے ہیں تو انہیں اگر کوئی ٹوٹی ہوئی ٹھیکری بھی مل جائے اور وہ انہیں پسند آجائے تو وہ اسے پکڑ کر گھر کی طرف دوڑتے ہیں اور ماں سے کہتے ہیں اماں! ہمیں یہ چیز ملی ہے۔ یا اگر انہیں شیشہ کا کوئی ٹکڑا مل جائے اور وہ پسند آجائے تو وہ اسے گھر لے آتے ہیں اور ماں سے کہتے ہیں اماں! ہمیں یہ شیشےکا ٹکڑا ملا ہے۔ حالانکہ ماں کو بتانے سے اس چیز کی عظمت نہیں بڑھ جاتی۔ صرف اس لیےکہ فطرت کہتی ہے کہ خوشی کے وقت میں ماں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ بچہ اپنی خوشی میں اپنی ماں کو بھی شریک کر لیتا ہے۔ پھر بچے کو کوئی مارتا ہے تو اس وقت بھی وہ دوڑتا ہوا گھر آتا ہے۔ بسا اوقات مارنے والا بہت بڑی شان کا ہوتا ہے اور ماں بے چاری غریب اور مزدور پیشہ ہوتی ہے لیکن ایک بچہ کے لیے تو وہی سب سے بڑی ہوتی ہے۔ وہ اُس وقت بھی اسی کے پاس فریاد کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی ماں اس کے غم میں شریک ہوگی اور شاید ( بلکہ بچےکے نزدیک یقیناً ) وہ اس کے غم کو دور کرنے کی کوشش کرے گی۔ سو جہاں حقیقی تعلق ہوتا ہے وہاں خوشی میں بھی اور رنج میں بھی انسان اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جاتا ہے اور اگر کوئی فطرت کے اس قانون کے خلاف کرتا ہے اور وہ خوشی اور رنج کے وقت اپنے عزیزوں کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کے جنون اور دیوانگی کی علامت ہو گی مثلاً اگر بچہ دیوانہ ہے یا نیم دیوانہ ہے تو وہ نہ خوشی میں اپنی ماں کو شریک کرے گا اور نہ رنج میں اس سے مدد حاصل کرے گا۔ اسی طرح ایک مجنون اور دیوانہ انسان خوشی اور رنج کے وقت اپنے عزیزوں کے پاس نہیں جاتا۔ لیکن ایک تندرست اور صحیح الدماغ انسان خوشی اور رنج میں ہمیشہ اپنے عزیزوں کے پاس ہی پہنچتا ہے۔ اور پھر صحیح الدماغ اور تندرست عزیز بھی ہمیشہ اُس کی مدد کرتے ہیں۔
یہی فلسفہ دعا کا ہے۔
انسان کا سب سے بڑا عزیز خداتعالیٰ ہے
اور جب انسان کو کوئی خوشی پہنچتی ہے تو
جو سچی فطرت والا انسان ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اس نے سمجھا ہوا ہوتا ہے وہ بے اختیار خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتا ہے
اور کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کیا ہے؟ اسی امر کا اظہار ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ آخر یہ چیز میرا خیرخواہ اور دوست ہی مجھے دے سکتا ہے۔ اسے بیٹا ملتا ہے یا نیا عہدہ ملتا ہے یا مال ملتا ہے یا جائیداد ملتی ہے یا ترقی ملتی ہے یا عزت اور شہرت ملتی ہے یا کوئی اچھا کام کرنے کی توفیق ملتی ہے تو انسان کی فطرت کہتی ہے کہ آخر اسے یہ چیز ملی ہے تو کسی دوست سے ہی ملی ہے۔ دشمن تو یہ چیز نہیں دیا کرتا اور اگر قانون یہ ہے کہ تحفہ خیرخواہ دوست ہی دیا کرتا ہے تو معاً اس کی فطرت کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ سے بڑا کون خیر خواہ اور دوست ہو سکتا ہے۔ اس لیے بے اختیار اس کے منہ سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ نکلتا ہے۔ پھر جب کوئی رنج انسان کو پہنچتا ہے تو فطرت کہتی ہے میرے اندر آخر کوئی کمزوری تھی تبھی تو مجھے یہ دکھ پہنچا۔ اگر میں طاقتور ہوتا تو یہ دکھ کیوں پہنچتا۔ اب اس دکھ کو کوئی طاقتور ہی دور کر سکتا ہے۔
رنج ہمیشہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت مدد کرے۔ اور جب انسانی ذہن کو فطرت اس طرف لے جاتی ہے کہ اب کوئی غیر طاقت ہی مدد کرے تو کرے، تو معاً اُس کا دل ادھر مائل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو اس دکھ کو دور کرے۔ اور وہ کہتا ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ میں اللہ تعالیٰ کا ہی ہوں اور میں اُسی سے مدد مانگتا ہوں۔ اُس کے سوا اور کون ہوسکتا ہے۔ جو میری مدد کرے۔ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ کے یہ بھی معنی ہیں کہ آخر ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ
اگر ہم نے لوٹنا ہے توخدا تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اگر ہم نے گریہ وزاری کرنی ہے تو اُس کے سامنے ہی کرنی ہے۔
پس اسلام نے یہ دونوں سبق فطرت کے تقاضا کے عین مطابق دیے ہیں۔ کامیابی کے وقت رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اَلحَمدُ لِلّٰہِ کہو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب فضل الحامدین (مفہوماً)) اگر تمہاری فطرتِ صحیحہ ہے اور تمہارے دماغ پر جنون اور دیوانگی طاری نہیں اور تمہیں جب بھی خوشی پہنچی ہے تم عزیزوں کی طرف لوٹتے ہو۔ لیکن
یاد رکھو !تمہارا سب سے بڑا عزیزخدا تعالیٰ ہے۔ اگر تمہیں کوئی خوشی پہنچی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی پہنچی ہے۔ اِسی طرح جب کوئی رنج پہنچتا ہے تو یہ انسان کی کمزوری کی علامت ہوتا ہے۔
اس لیے وہ خود اسے دور نہیں کر سکتا۔ وہ طبعاً یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے دوست اور عزیز اُس کی مدد کریں۔ مگر یاد رکھو!
تمہارا سب سے بڑا عزیز اور دوست خدا تعالیٰ ہے۔ تم اُس کے سامنے جھکو اوراُسی سے مدد طلب کرو۔
جو لوگ رسولِ کریم ﷺ کے اس سبق پر عمل کرتے ہیں وہ ناکام و نامراد نہیں رہتے۔ ناکام و نامراد وہی ہوتا ہے جو غیر طبعی فعل کرتا ہے۔ مثلاً رات کو ڈاکہ پڑتا ہے تو عقل مند شخص اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پاس جاتا ہےاور اُن سے مدد طلب کرتا ہے۔ لیکن بیوقوف انسان دوڑ کر جنگل کی طرف چلا جاتا ہے۔ حالانکہ جنگل میں اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اِسی طرح روحانی دنیا میں ایک عقل مند انسان تو خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے۔ لیکن بیوقوف یونہی ہائے اماں! ہائے اماں! کہتا رہتا ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ اماں نے کیا کرنا ہے۔ جو کچھ کرنا ہے خدا تعالیٰ نے کرنا ہے۔ اور وہ خدا تعالیٰ کے پاس جاتا نہیں۔ وہ اس کے پاس جاتا ہے جو کچھ نہیں کر سکتا۔ پس جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو اُس طریق پر چلائیں جو رسولِ کریم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے۔
یاد رکھو!
اسلام سب سے زیادہ کامل مذہب اور اعلیٰ تعلیم دینے والا دین ہے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم عیسائی اور ہندوٴ نہیں تھے کہ ہم عیسائیت اور ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کردیا۔ اور اس طرح سب سے بڑا قدم جو ہم نے چلنا تھا خدا تعالیٰ نے چلا دیا کہ ہم مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئےاور بچپن میں ہی ہمارے کانوں میں یہ باتیں پڑیں کہ
اسلام ایک کامل مذہب ہے۔ رسولِ کریم ﷺ خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں۔ اسلام خدا تعالیٰ کا دین ہے۔ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو انسانوں کو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ قرآنِ کریم اُس کی آخری کتاب ہے۔
بچپن سے ہی یہ باتیں ماں باپ نے ہمارے کانوں میں ڈالنی شروع کیں۔ پھر ہمیں عقل اور ہوش آئی تو ہم نے دیکھا کہ یہ باتیں درست ہیں۔ دنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ اولاد کو بعض دفعہ غلط راستہ پر چلا دیتے ہیں۔ اور جب اُسے ہوش آتی ہے تو اسے پتہ لگتا ہے کہ جس راستہ پر اُسے اُس کے ماں باپ نے چلایا تھا وہ غلط تھا۔ لیکن ہمیں ہوش آئی تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے ماں باپ نے جو کچھ بتایا تھا وہ درست تھا۔ ہمارے ماں باپ نے بتایا تھا کہ قرآنِ کریم ایک کامل کتاب ہے۔ ہمیں جب ہوش آئی تو ہم نے دیکھا کہ ان کی یہ بات سچی تھی۔ قرآنِ کریم فی الواقع کامل کتاب ہے۔ پھر ماں باپ نے ہمیں بتایا تھا کہ رسولِ کریم ﷺ خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں۔ جب ہم بڑے ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ رسولِ کریم ﷺ واقع میں خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء ہیں، آپ کی شان نہایت اعلیٰ اور برتر ہے۔ پھر ماں باپ نے ہمیں بتایا تھا کہ اسلام خدا تعالیٰ کا دین ہے۔ جب ہم بڑے ہوئے اور ہمیں عقل اور ہوش آئی تو ہم نے دیکھا کہ اسلام واقع میں خدا تعالیٰ کا دین ہے۔ وہ خود اسکی مدد اور نصرت کرتا ہے۔ اس کی تعلیم ایسی ہے جوصرف خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔ اس کی سب باتیں معقول ہیں۔ پس اول تو یہ راستہ ہمیں بغیر محنت کے ملا۔ ہمیں عیسائیت یا کوئی اَور مذہب ترک کرکے اسلام قبول نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ ہم مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوگئےاور اس طرح پہلا قدم خدا تعالیٰ نے خود چلا دیا۔ پھر دوسرا فضل خدا تعالیٰ نے یہ کیا کہ جب سوچ اور فکر کے استعمال کا وقت آیا اُس وقت خدا تعالیٰ نے ہم پر یہ ظاہر کردیا کہ اسلام ایک کامل اور بے عیب مذہب ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ اُس کے سچّے رسول ہیں اور تمام انبیاء سے افضل اور برتر ہیں۔ گویا پکی پکائی چیز ہمیں مل گئی۔ اور اگر کسی کو پکی پکائی چیز مل جائے اور وہ پھر بھی اُس کے لینے میں غفلت اور سستی کرے تو کتنے افسوس کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب رسولِ کریم ﷺ کو دنیا میں مبعوث کیا تو ابتدائی لوگوں کو آپ کی باتیں کتنی قربانیوں اور مجاہدات کے بعد سمجھ میں آئیں۔آخر آپ پر معاً ایمان لانے والے چار ہی آدمی تھے۔ حضرت ابوبکرؓ،حضرت خدیجہؓ، حضرت علیؓ، اور حضرت زیدؓ بعد میں کروڑوں اور اربوں لوگ مسلمان ہوئے۔اور کروڑوں اور اربوں سے چار کی نسبت ہی کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے ایک ماہ مجاہدہ کیا۔ کسی نے دو ماہ مجاہدہ کیا۔ کسی نے چار ماہ مجاہدہ کیا۔ کسی نے ایک سال تک مجاہدہ کیا۔ کسی نے دو سال تک مجاہدہ کیا اور کسی نے دس سال تک مجاہدہ کیا اور پھر اسلام قبول کیا۔ بلکہ ایسے لوگ بھی تھے جو۲۰،۲۰ سال تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کرتے رہے اور آپؐ کی وفات کے قریب ایمان لائے اور ایسے لوگ بھی تھے جو آپ کی وفات کے بعد ایمان لائے۔ ان لوگوں کو اتنے بڑے مجاہدوں کے بعد صداقت ملی۔ مگر ہمیں یہ مجاہدہ نہیں کرنا پڑا۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک مسلمان باپ کی پیٹھ اور ایک مسلمان ماں کے رحم میں ڈالا اور دنیا میں ہمیں لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ کہنے والوں کے گھرمیں پیدا کر دیا۔پھر ہماری عقل کامل ہوئی تو اس نے ہماری راہنمائی فرما دی کہ جو کچھ ماں باپ نے تمہیں بتایا تھا وہ درست تھا۔
پس ہمارے لیے صرف اتنی بات رہ گئی کہ ہم اِس پر عمل کریں۔ لیکن افسوس ہے کہ باوجود اتنے بڑے فضل کے انسان خدا تعالیٰ کی طرف بھاگنے کی بجائے غیروں کی طرف بھاگتا ہے۔ اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو کہتا ہے۔ ہائے ! فلاں ہوتا تو میری مدد کرتا۔اِسی طرح اگر خوشی ہوتی ہے تو وہ غیروں کی طرف جاتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جاتا۔ لیکن ایک سچے مومن کو جب خوشی نصیب ہوتی ہے تو وہ بجائے ہائے اماں !یا ہائے ابا !کہنے کے سجدوں میں گر جاتا ہے اور سب سے پہلی خبر خدا تعالیٰ کو دیتا ہے۔
خدا تعالیٰ بے شک عالم الغیب ہے۔لیکن فطرت کہتی ہے کہ تم پہلے خدا تعالیٰ کو یہ خوشی کی خبر بتاؤ اور فوراً سجدہ میں گر جاؤ۔
اگر کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو،اُسے ترقی ملے یا اُسے کوئی اچھا کام کرنے کی توفیق ملے تو وہ سب سے پہلے خدا تعالیٰ کو بتائے اور اس کا شکر ادا کرے اسی طرح اسے رنج پہنچے تو وہ فوراً اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ کہے۔ یعنی اگر مجھ پر مصیبت آگئی ہے۔ تو بقول پنجابی بزرگوں کے
ملّا دی دوڑ مسیت تک
میں نے تو خدا تعالیٰ کی طرف ہی جانا ہے۔ یہ طبعی چیز ہے جو ہماری صحت مند فطرت میں پائی جاتی ہے۔ پس تمہیں اپنی صحت اور روحانیت کی درستی کا خیال رکھنا چاہیے۔
اگر تمہاری صحت درست،تمہاری روحانیت درست ہے اور تم خوشی اور رنج میں خدا تعالیٰ کی طرف ہی دوڑتے ہو تو خدا تعالیٰ کی قسم! تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور دنیا کی کوئی بہتری نہیں جو تم حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘
(المصلح ۹؍اپریل۱۹۵۳ء ) (خطبات محمود جلد۳۴صفحہ۶۵)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ خواتین کی دینی تعلیم کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرے