امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ ساؤتھ ویسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات
اللہ کے وعدے تو پورے ہوں گے اور ان کو اگر ہم نے اسی وقت میں پورا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہوا ہےتو ہمیں اپنے عمل بھی اور اپنی عبادتوں کو بھی اس معیارتک لے جانا پڑے گا کہ جو اللہ تعالیٰ چاہتاہے اور اگر نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کوئی نئی قوم پیدا کر دے گا، لیکن وعدے تو اللہ تعالیٰ کے کسی وقت پورے ہو جائیں گے
مورخہ۶؍ اپریل ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ویسٹ ریجن کے اٹھارہ (۱۸) رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔

مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔
جب حضورانور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السّلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ دورانِ ملاقات تمام شاملینِ مجلس کو دربار خلافت میں اپنا تعارف اور مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
ایک شریکِ مجلس نے حضورانور سے دریافت کیا کہ کیا ایک وقت آئے گا کہ جب انسان معجزات کے پیچھے چھپے ہوئے قدرت کے قوانین کو جان لے گا؟ نیز راہنمائی طلب کی کہ کیا احمدی مسلمان سائنسدانوں کو روحانی دنیا اور ظاہری دنیا کے درمیان تعلق کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے تحقیق کرنی چاہیے؟
اس کے جواب میں حضورانور نے تحقیق کرنے کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ تحقیق کیوں نہیں کرنی چاہیے؟ ضرور کرنی چاہیے۔
اسی تناظر میں واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ سائنس کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی فرمایا ہے کہ قانونِ قدرت، قانونِ شریعت اور سائنس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے، اللہ تعالیٰ نے جو علم دیا ہوا ہے، اس کا عملی طور پر اظہار سائنس کو ثابت کرنا ہے۔
حضورانور نے ملفوظات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی ڈاکٹر کلیمنٹ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملا تھا، اس کو آپؑ نے فرمایا تھا۔ ملفوظات میں تو پڑھا ہی ہو گا، دسویں جِلد میں جا کے پڑھ لینا۔
[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ حضورانور نے جن ڈاکٹر کلیمنٹ صاحب کا تذکرہ فرمایا ہے،ان کا مکمل نام پروفیسر کلیمنٹ لنڈلے ریگ (Clement Lindley Wragge)ہے، جو کہ ایک ممتاز انگریز ماہرِ موسمیات، ہیئت دان (ماہرِ فلکیات)، سیّاح اور لیکچرار تھے۔ وہ ۱۸۵۲ء میں انگلستان میں پیدا ہوئے اور ۱۹۲۲ء میں نیوزی لینڈ میں وفات پائی۔عمومی طور پر ان کو پروفیسر کلیمنٹ ریگ کے نام سے جانا چاہتا ہے۔
۱۹۰۷ء میں پروفیسر صاحب نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔جس دورا ن انہیں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی وساطت سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچا۔
یہ وہ خوش نصیب انسان ہیں، جنہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے کچھ روز قبل مع اہلیہ و بچہ حضورؑسے دو تفصیلی ملاقاتوں کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلی ملاقات مورخہ ۱۲؍مئی ۱۹۰۸ء کو قبل از نمازِ ظہر ہوئی، جس میں انہوں نے آپؑ کی خدمتِ اقدس میں ۹؍ سوالات پیش کیے اور دوسری ملاقات مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۸ءکو بعد نمازِ ظہر احمدیہ بلڈنگ لاہور ہی میں ہوئی، جس میں پروفیسر صاحب کو تیرہ سوالات پیش کرنے کا موقع ملا۔
حضورانور کی بیان فرمودہ نشاندہی کے مطابق ملفوظات جِلددہم میں ان دو ملاقاتوں کی تفصیل بالترتیب صفحات( ۳۰۶ تا ۳۱۱)اور (۳۷۰ تا ۳۸۰) پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
پھر پروفیسر صاحب کے نصیب میں ایک سعادت یہ بھی آئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دورۂ مشرقِ بعید ۲۰۰۶ءکے دوران نیوزی لینڈ میںپروفیسر صاحب کی قبر پر دعا کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ نیز پروفیسر صاحب کے پوتے اور پوتی نے بھی حضورانور سے شرف ملاقات حاصل کیا۔
حضرت اقدسؑ سے ملاقاتوں کے حوالے سے پروفیسر صاحب کی ذات پر مرتّب ہونے والے نیک اثرات کی بابت حضورانور کا تبصرہ نیز پروفیسر صاحب کی نسل سے ملاقات کے احوال کے لیے ملاحظہ ہوا خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ مئی ۲۰۰۶ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍ جون ۲۰۰۶ء]حضورانور نے اس حوالے سے مزید توجہ دلائی کہ اس میں ریسرچ تو کرنی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تیرے ماننے والے علم و عرفان میں ترقی کریں گے۔ جہاں روحانی علم و عرفان ہے، وہاں دنیاوی علم و عرفان بھی ہے، تو ریسرچ میں جاؤ گے تو علم و عرفان میں ترقی کریں گے۔
اس ضمن میں حضورانور نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے ایک معروف ارشاد کی بابت یاد دہانی بھی کروائی جو آپ نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبیل انعام ملنے پر فرمایا تھا کہ مجھے نئی صدی میں سو ایسے سائنٹسٹ چاہئیں جو نوبیل انعام لینے والے ہوں۔ اس پر حضور انور نےتوجہ دلائی کہ اب تو اس پر بھی چالیس سال اور گزر گئے، ابھی تک تو ہمارے پاس کوئی نہیں آیا، تو ریسرچ ضرور کرنی چاہیے۔
قرآنی تعلیم یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ کا حوالہ دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین اورآسمان میں تفکر کرتے ہیں اور سوچتے ہیں، اس پر جو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے، تو سوچنے کا مطلب یہی ہے کہ ریسرچ کرو اور تحقیق کرو۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ شریف میں کہہ دیا کہ تحقیق کرو اور پھر نتیجہ پر پہنچو۔ جو اللہ تعالیٰ نے دماغ دیا ہے، اس کو استعمال کرو اور سائنٹسٹ کو اوپر جانا چاہیے، کیوں نہیں جانا چاہیے۔ آئندہ آنے والے سائنٹسٹ ہمارے ہونے چاہئیں۔
معجزات کے حوالے سے حضورانور نے نہایت بصیرت افروز وضاحت فرمائی کہ معجزات کا تعلق زیادہ تر روحانیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ بعض واقعات ہو جاتے ہیں، جو ایک روحانی آدمی ہے، وہ اس کو کہتا ہے کہ یہ معجزہ ہوا لیکن جو دنیاوی آدمی ہے، دنیا دار ہے، وہ کہتا ہے کہ اتفاقی حادثہ ہو گیا۔ اگر تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بعض ایسے معجزات دکھا بھی دیتا ہے، لوگوں کو زندگی میں ہوئے ہوں گے، تمہاری اپنی زندگی میں بھی کوئی نہ کوئی معجزہ ہوا ہو گا۔ تو پھر جب ہوا ہے تو بس اس کا مطلب ہے کہ معجزات ہوتے ہیں، قدرت کے قوانین کے اندر رہتے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں شقّ القمر کے معجزے پر روشنی ڈالتے ہوئے حضورانور نے فرمایا کہ جس طرح شقّ القمر ہے، وہ کہتے ہیں کہ چاند ٹکڑے کس طرح ہو سکتا ہے، اس طرح تو سارا نظام درہم برہم ہو جائےگا؟ تو ہو سکتا ہے، وہ ایک کشفی نظارہ تھا، جو ساروں کو دکھایا گیا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں بھی بعض لوگوں نے اس کو دیکھ لیا، اس کی گواہی ہے، تو وہ ایک کشفی حالت ہو جاتی ہے۔ معجزہ اس طرح اس قانونِ قدرت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے وہ بعض معجزات اپنے انبیاء کی خاص نشانی کےلیے ایسے بھی دکھا سکتا ہے جو بظاہر انسان کے علم کا، جو قانونِ قدرت ہے، اس کے مطابق اس کے علم میں نہیں ہے، لیکن وہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے بھی واقعات ہو جاتے ہیں۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ مغربی ممالک میں آج کل یونیورسٹیاں اور سکول ایسا نصاب پڑھاتے ہیں جو بعض اوقات اسلامی اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہوتا، دوسری طرف ان ممالک میں آزادیٔ اظہار بھی خطرے میں ہے۔ ہم احمدی اپنے آپ کو اس کے لیے کس طرح تیار کر سکتے ہیں جو آئندہ حالات آنے والے ہیں؟ پیارے حضور سے درخواست ہے کہ آپ اس بارے میں راہنمائی عطا فرمائیں کہ ہمیں مغربی ممالک میں ممکنہ ردِّ عمل یا حتّٰی کہ مخالفت کےلیے کس طرح تیاری کرنی چاہیے؟
حضورانور نے فرمایا کہ اس کو generalize نہیں کر سکتے۔ تاہم normally تو بعض چیزیں ایسی ہیں، جو ٹیچنگ سے alignedہیں۔ جس طرح بعض چیزیں سیکس یا اور چیزوں کے بارے میں پڑھاتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں اسلامی تعلیمات سے alignedنہیں ہیں۔ کیونکہ ایک stage پر آ کے خود ہی انسان کو بڑی عمر میں ان باتوں کا پتا لگ جاتا ہے، کم عمری میں نہیں بتانا چاہیے۔
حضورانور نے توجہ دلائی کہ آپ کو پتا ہے کہ مجبوری ہے اور کوئی سکول نہیں ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ آپ اپنے سکول کھول لیں اور اس میں پڑھائیں۔ اس کے لیے بھی ابھی ہمارے پاس اتنے resources نہیں ہیں۔ اس لیے جب بچے گھر میں آتے ہیں تو ان کے ساتھ ڈسکشن کریں۔ یہ مَیں بار بار کہتا ہوں۔ ماں باپ ان کو بتائیں، سمجھائیں کہ یہ جو تم سکول میں پڑھ کے آئے ہو اسلام اس کے متعلق یہ کہتا ہے، تو ان کے دماغ میں، اسلامک ٹیچنگ اور سیکیولر ٹیچنگ جو بھی سکول میں پڑھائی جاتی ہے، دونوں conceptآ جائیں۔
آزادیٔ اظہارِ رائے پر گفتگو کرتے ہوئے حضورانور نے امریکہ میں ہونے والے ایک حالیہ واقعے کا تذکرہ فرمایا کہ اس لیے کہ سکول کی ٹیچنگ نہیں مان رہے، اس پر تو پرسیکیوشن نہیں ہوتی، لیکن ایک اور نیا کام اب یہاں شروع ہو گیا ہے کہ یونیورسٹی میں اگر تم فلسطینیوں کے حق میں بول دو، اس پر پچھلے دنوں میں ایک سٹوڈنٹ کو تمہاری یونیورسٹی سے نکالا ہے، وہ افریقن تھا، اس کو deportکر دیا۔
حضورانور نے تاکید فرمائی کہ اس طرح کی جب باتیں ہوں گی تو اس میں یہی ہے کہ خاموشی سے تعلیم حاصل کرو اور اس کے بعد حکمت سے کام لو۔ لیکن اگر کہیں کھل کے ایسی بات ہو رہی ہے تو وہاں اپنے مذہب کو دنیاوی چیزوں کے ساتھ کمپرومائزنہیں کرنا۔ وہاں تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ یہ بڑی subtle lineہے،جوdrawکرنی پڑے گی کہ یہ مذہب ہے اور یہ دنیاوی تعلیم ہے۔ اور ہم نےدونوں کو کس طرح manageکرنا ہے۔ یہ تو خود ہی سوچنا پڑے گا۔ بس ڈرنا نہیں ہے!
ایک سائل نے عرض کیا کہ جب ہمارا اِیمان متزلزل ہوتا ہے یا ہمیں اپنے ایمان کے بارے میں سوالات یا شکوک پیدا ہوتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سچے مومن نہیں ہیں؟ نیز راہنمائی طلب کی کہ ہم ایسے حالات سے کیسے نمٹیں یا ان کا مقابلہ کیسے کریں؟
اس پر حضورانور نے نہایت پُرشفقت انداز میں دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین ہے؟
سائل کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورانور نے توجہ دلائی کہ جب یہ ہے تو پھر اللہ سے مانگو کہ اللہ تعالیٰ جو مَیں تھوڑا سا متزلزل ہو رہا ہوں، تو تُو سنبھال لے۔ قبولیتِ دعا اس میں بھی ہوتی ہے۔
حضورانور نے اوّل الذکر سائل کے پیش کردہ سوال کے حوالے سے ذکر فرمایا کہ وہ معجزات کی باتیں کر رہے ہیں، معجزے کی تو علیحدہ بات ہے پہلے اپنے ایمان کو تو بڑھاؤ، پکے ہو، تو اللہ سے مانگو کہ میرا ایمان کبھی نہ بھٹکے، اس لیے جب سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں، تو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ بار بارپڑھتے رہا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ صراطِ مستقیم پر گائیڈ کرے۔ اس سے اپنے دین سے deviate نہیں ہو گے یا اس کا خیال پیدا نہیں ہو گا اور مستقل استغفار پڑھتے رہا کرو۔
حضورانور نے اسی حوالے سے مزید تاکید فرمائی کہ اگر واقعی دین میں دلچسپی ہے تو پھر عام حالات میں بھی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ کے معنے سمجھو، پھر دعا کو پڑھو اور اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ پڑھو۔ نماز میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َکو بار بار پڑھو۔ حضور انور نے فرمایا کہ You can combat with your weakening of faith۔(اس طرح تم اپنے ایمان کی کمزوری کا مؤثر طور پر مقابلہ کر سکتے ہو۔)
ایک خادم نے عرض کیا کہ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ماہرِ نفسیات کے پاس جانے اور تھیراپی لینے کو بُرا سمجھتے ہیں، نیز دریافت کیا کہ اس بارے میں پیارے حضور کی کیا رائے ہے؟
اس پر حضورانور نے فرمایا کہ جو بیمار ہے، مریض ہے، اس کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تو یہی کہتا ہے کہ ہر مرض کا علاج ہے، تم علاج کرو اور اگر علاج کسی کے پاس ہے اور عام طور پرpsychiatristsساری باتیںconfidentialرکھتے ہیں، عموماً بتاتے تو نہیں کہ یہ مریض میرے پاس آیا، تو اس کی ساری باتوں کو exposeکردیا۔ تو علاج کےلیے جانا چاہیے، اس میں کوئی ہرج نہیں اور ٹریٹمنٹ لینی چاہیے۔
حضورانور نے وضاحت فرمائی کہ بعض دفعہ تھیراپی بغیر دوائیوں کے بھی ہو جاتی ہے، بعض دفعہ میڈیسن دینی پڑتی ہے، بعض دفعہ ایسی پوزیشن میں مریض ہو جا تے ہیں، بیماری اتنی flare upہو جاتی ہے کہ راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں، سو نہیں سکتے، دن کو پریشان حال پھرتے رہتے ہیں، پھر دماغ پراثر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر وہ بیماری زیادہflare upکر جاتی ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ علاج کرایا جائے، psychiatristکے پاس جایا جائے، ٹریٹمنٹ کرائی جائے۔
آخرمیں حضورانور نے فرمایا کہ بُری بات تو ہے ہی کوئی نہیں، اچھی بات ہے، علاج کرنا چاہیے۔
حضورانور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جانے والا ایک سوال یہ تھا کہ نئے احمدی ہونے والوں کو اکثر تنہائی، راہنمائی کی کمی اور اپنے نئے مذہبی ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جماعت کے لیے ان کی مدد اور ان کے ایمان کو مضبوط بنانے کےلیے بہترین طریقہ کیا ہے؟
حضورانور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ بہترین طریقہ ایمان کو مضبوط بنانے کے لیے یہی ہے کہ ان کو اپنے سسٹم میںabsorbکرنا ہے، ان کو دوست بناؤ۔
حضورانور نے اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ ہماری جو پنجابی mentality ہے، امیگرنٹس ہیں، ان کا یہی ہے کہ پاکستان سے آئے ہیں، جب ہم یہاں آ گئے ہیں تو بےشک اردو نہ بھی بولیں، پنجابی نہ بھی بولیں یا پٹھان ہیں تو پشتو نہ بھی بولیں، انگلش بھی بول رہے ہوں گے، تو تب بھی وہ جب foreigner یا کوئی ایسا آدمی آتا ہے، جو دوسرے tribe، نیشن یا کوئیethnicگروپ سے ہے، اس کو absorb کرنا بڑا مشکل لگتا ہے، تو ہمارے لوگ اپنی زبان میں اپنی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔
حضورانور نے تاکید فرمائی کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کو ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔ اور اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جا کے مدینہ والوں کو اور مکّہ والے مہاجروں کو ایک بنانے کے لیے مواخات یعنی آپس میں بھائی بنانے کا سسٹم شروع کیا تھا۔ اس طرح جو نئے آنے والے ہیں ان کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ بھائی بنانا چاہیے۔ یہ تم بناؤ گے کہ یہ فُلاں آدمی ہے، احمدی ہوا ہے، یہ میرا بھائی ہے اور لجنہ میں جو عورت احمدی ہوئی ہے، وہ میری بہن ہے، تو ان سے ذرا پھرcloser relationship شروع ہو جاتے ہیں کہ جب یہ رشتہ پیدا ہو کہ بھائی اور بہن بنا دیں۔ پھر ان کوabsorb کرنے میں آسانی ہو تی ہے۔
حضورانور نے مزید فرمایا کہ پھر ان کو سمجھاؤ۔ بعض دفعہ ان کو زبان نہیں آتی، امریکہ میں کوئی انگریزی بولنے والا ہے، کوئی سپینش ہے، کوئی دوسرا ہے اور پھر ان کے کلچر مختلف ہیں۔ تم لوگوں نے اپنے کلچر کو مذہب کا نام دے دیا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ تمہارا یہ پاکستانی کلچر تمہارے سے ظاہر ہو رہا ہے یا واقعی اسلام کی تعلیم ہے؟ اسلام کی تعلیم ایک علیحدہ چیز ہے، اس کو علیحدہ رکھو اور سب کو بتاؤ۔ اور کلچر ہر ایک کا علیحدہ ہے۔ کوئی بھی کلچر ہے اگروہ کسی اسلامی تعلیم سے کوئی clash نہیں کررہا تو اس کو اس میں جاری رکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ کہہ دینا کہ فلاں آدمی نے فلاں کام کیا، وہ صحیح نہیں کر رہا، حالانکہ اسلامی تعلیم کے مطابق اس میں کوئی بُرائی نہیں۔ لیکن تمہارا اِنڈین، پاکستانی یا بنگلہ دیشی کلچر اس کے خلاف ہے تو تم کہتے ہو کہ un-Islamic ہے، حالانکہ وہ un- Islamicنہیں ہے۔
آخر میں حضورانور نے اپنی اوّل الذکر نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ اپنے آپ کو بھی ایڈجسٹ کرنا پڑے گا۔ اور لوگوں کوabsorb کرنا ہے تواسی طرح اپنے قریب لائیں گے توایڈجسٹمنٹ ہو جائے گی۔ مواخات، بھائی بھائی بنانا،جس کا سسٹم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع فرمایا تھا، تو اس brotherhoodکو قائم کرنا ہے۔ یہ قائم کریں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ایک خادم نے اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ کچھ عہدیداران حضرت خلیفة المسیح ایّدہ اللہ کی بعض ہدایات پیش کرتے ہیں، تاہم ان ہدایات میں اپنی تشریحات شامل کردیتے ہیں۔
حضورانور نے اس پر ہدایت فرمائی کہ جو باتیں، clear cut order ہیں، ہدایات آتی ہیں۔جو جماعتی تعلیم ہے اس کے مطابق، جو قرآنِ کریم کی تعلیم ہے اس کے مطابق، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے مطابق، اس کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے explainکیا، اس کے مطابق ہم نے ہر کام کرنا ہے۔
حضورانور نے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی کہ ایک بات کو اگر اپنے الفاظ میں توڑ موڑ کے کوئی عہدیدار بیان کرتا ہے تو یہ منشا ءنہیں ہے۔ منشا ءکو چھوڑو۔ اگر کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو ہر ایک کا حق ہے کہ وہ لکھ کے بھیجے کہ عہدیدار نے مجھے یہ کہا ہے کہ یہ آپ کی منشا ءہے تو بتا دیں ،ذرا کلیئر کردیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
اکثر لوگ مجھے لکھتے ہیں تو مَیں جواب دے دیتا ہوں، ان کو بتا دیتا ہوں کہ یہ عہدیدار کی بات ٹھیک تھی، اس کا یہ مطلب ہے یا یہ اس نے غلط کہا ہے۔ کل پرسوں ہی مَیں نے ایک دو کو لکھا، دو تین خط ایسے تھے، مَیں نے کہا کہ عہدیدار غلط کرتے ہیں جو تمہیں یہ کہتے ہیں یہ بالکل غلط بات ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے۔پوچھ لینا چاہیے، بجائے اس کے کہ دل میں بٹھا کے پھر جماعت سے دُور ہٹیں، distanceہوتا چلا جائے اور پھرعہدیداروں کی وجہ سے آدمی جماعت سے بھی ہٹ جائے، پھر نمازیں پڑھنے سے بھی ہٹ جائے، پھر کہہ دے کہ فلاں عہدیدار بُرا ہے تو مَیں اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا۔ نماز تو اللہ کی خاطر پڑھنی ہے۔ اس کا گناہ اس کے سر ہے۔ ویسے جو امامت کرا رہا ہے تو حدیث میں تو یہ ہے کہ اگر اس کے دل میں امامت کراتے ہوئے کوئی بُرا خیال آتا ہے تو پھر جو پچھلے لوگ ہیں، ان کا گناہ بھی اس کے سر پڑ جاتا ہے۔
آخر میں حضورانور نے واضح فرمایا کہ امامت کی تو بڑی ذمہ داری ہے، تم لوگوں کو فکر کرنی ہی نہیں چاہیے، جو پیچھے نمازیں پڑھنے والے ہیں کہ فلاں عہدیدار کیوں نماز پڑھا رہا ہے یا فلاں عہدیدار ہے، اس لیے ہم بات نہیں مانیں گے۔ اس عہدیدار کی بات نہیں ماننی بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ in line with the directives of the Khalifatul Masih or the Jamaat ہیں کہ نہیں؟ اگر ہیں، تب اس کو followکرو اور اگرسمجھ نہ آئے تو پھر پوچھ لو بجائے اس کے کہ دل میں بدظنیاں پیدا ہوں۔
ایک شریکِ مجلس نے استفسار کیا کہ انسان اپنے اندر شکرگزاری کا بلند معیار کس طرح پیدا کر سکتا ہے؟
حضور انور نے اس پر فرمایا کہ اللہ کی جو نعمتیں ہیں، ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ یہ دیا۔ مجھے ہاتھ دیے، مجھے پاؤں دیے، مجھے زبان دی، مجھے دماغ دیا، مَیں پڑھائی کر رہا ہوں۔
حضورانور نے موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں اللہ تعالیٰ کے ہم پر نازل ہونے والے افضال کو یاد دلاتے ہوئے ہمیں شکرگزاری کے جذبے کو اپنانے کی طرف توجہ دلائی کہ دنیا میں کئی لوگ ہیں،even لندن یوکے میں ہی تقریباً تین لاکھ یا اس سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جن کو روز کھانا نہیں ملتا، اللہ کا یہ شکر کرو کہ مجھے آج کھانا مل گیا۔ سوڈان میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں، ہم وہاں aidبھیجتے ہیں تو لوگ بڑے خوش ہوتے ہیں جب جماعت یا ہیومینٹی فرسٹ کی طرف سے امداد جاتی ہے کہ ہمیں کھانا مل گیا، کئی کئی دن سے لوگوں نے کھانا نہیں کھایا ہوتا، بچے بھوکے مر رہے ہیں۔ تو تم لوگ اس کے مقابلے میں اللہ کا شکر کرو کہ دنیا کی یہ حالت ہے۔ توجب یہ خیال،gratitude اور conceptپیدا ہو گا اور جب آدمی یہ دیکھے گا تو پھر اللہ کی زیادہ شکر گزاری کرے گا اور قرآنِ شریف میں بھی یہی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگ شکرگزاری کرو گے تو مَیں تمہیں اور دوں گا۔ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ۔اگر تم شکر کرو گے تو مَیں تمہیں اَور دوں گا اور بڑھاؤں گا، لیکن اگر کفر کرو گے تو پھر سزائیں بھی ملیں گی، چاہے وہ اس دنیا یا اگلے جہان میں مل جائیں۔ تو اس لیے شکر گزاری ہونی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔
حضورانور نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی الله عنہ کی حیاتِ مبارکہ سے ایک ایمان افروز واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت تھی، بیچاری بوڑھی ہو گئی، اس کی آنکھیں کمزور تھیں۔ مَیں نے عورت کو کہا کہ مائی!تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ؟ وہ کہتی کہ نہیں، مجھے کسی چیزکی ضرورت نہیں، ایک بیڈ ہے اور ایک بڑی ساری quilt (لحاف) ہے اور مَیں اور میرا بیٹا ہیں۔ ایک سائیڈ پر مَیں سو جاتی ہوں، ایک سائیڈ پر وہ سو جاتا ہے اور بعض دفعہ جب اس کو سردی لگتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ ماں! مجھے سردی لگ رہی ہے تو تھوڑا سا وہ لے لیتاہے، جب مجھے سردی لگتی ہے تو مَیں اس سے کھینچ لیتی ہوں۔ ہمارا بڑے آرام سے گزارہ ہو رہا ہے، شکر گزاری ہے، ہاں! ایک با ت ہے کہ اب میری نظر کمزور ہو رہی ہے، قرآنِ شریف جو میرے پاس ہے، وہ ذرا باریک لکھا ہوا ہے، آپ کچھ کر سکتے ہیں تو موٹے الفاظ میں، bold، بڑے فونٹ میں قرآنِ شریف مہیا کر دیں تو مَیں قرآن شریف پڑھوں تا کہ میری آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور اللہ کا کلام پڑھ کے مجھے ہو کہ آنکھیں بھی میری شکر گزاری کر رہی ہیں۔ تو دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں، کچھ بھی نہیں تھا، کھانے کو بھی ایک وقت ہی ملتا ہو گا، مشکل سے دو وقت ملتا ہو گا، بیڈ بھی ایک، اس میں بھی دونوں ماں بیٹا گزارہ کر رہے ہیں اور کبھی وہ سو جاتا ہے، کبھی وہ سو جاتی ہے۔ لیکن پڑھنے کے لیے اس نے قرآنِ شریف مانگا۔
حضورانور نے اس بات پر زور دیا کہ یہ واقعہ ایک حقیقی واقعہ ہے جو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے سنایا۔ تو یہ صرف کہانیاں نہیں، ایسے واقعات ہوتے ہیں۔حضور انور نے تلقین فرمائی کہ انسان میں اس طرح کی سوچ پیدا ہونی چاہیے کہ امریکہ میں ہم رہ رہے ہیں، فریج کھولتے ہیں، تو وہاں جُوس، cheese butter اور بہت ساری چیزیں پڑی ہوئی ہیں، نکالتے ہیں اور کھا جاتے ہیں، کیک، پیسٹری جا کے نئی لیتے ہیں اور مہنگائی کا شور مچاتے ہیں۔
جواب کے آخر میں حضورانور نے دنیا کے محروم طبقات کی حالت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے اندر شکر گزاری کی حقیقی روح بیدار کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ اب شیئر مارکیٹ کل پھر پانچ پرسنٹ اَور امریکہ میں گر گئی ہے، اب مزید مہنگائی ہو جائے گی لیکن پھر بھی آپ کو کھانے کو مل رہا ہے۔ لیکن ملینز آف ملینز لوگ جو بھوکے مررہے ہیں، ان کا بہت بُرا حال ہے، تو ان کاsurvival مشکل لگتا ہے، لیکن اس کے باوجود جی رہے ہیں اور ہم اس کے مقابلے میں بہت اچھی طرح بیٹھے ہیں تو اسی پر شکر گزار ہونا چاہیے۔ بس دماغی سوچ ہے!
ایک شریکِ مجلس نے راہنمائی طلب کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ان شاء اللہ اسلام اور احمدیت تین سو سال کے اندر دنیا پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ آپ کے نزدیک اس غلبہ کی طرف بڑھتے ہوئے آئندہ سو سالوں میں عالمی سطح پر جماعت کو کس نوعیت کے چیلنجز یا رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے نیز ہم اس سے اپنی اگلی نسل کو نمٹنے کے لیے کیسے تیار کر سکتے ہیں؟
حضورانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے تو بَغۡتَةً کا اللہ تعالیٰ نے لفظ استعمال کیا ہے کہ وہ سارا کچھ اچانک ہوتا ہے اور بعض حالات ایسے اللہ تعالیٰ پھر پیدا کر تا ہے۔
حضورانور نے عیسائیت کے پھیلنے کی مثال دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ عیسائیت جب پھیلی ہے، اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہےکہ عیسائیت کو کوئی نہیں جانتا تھا، دبے ہوئے تھے، چھپے ہوئے تھے۔ اصحابِ کہف جو تھے وہ چھپ کے عبادت کرتے تھے، موقع ملتا تھا تو آ کے عبادت کر لیتے تھے یا باہر نکل آتے تھے، پھر جب حملہ ہوتا تھاتو چھپ جاتے تھے۔آخر ایک وقت آیا کہ جب رومن ایمپائر میں عیسائیت پھیلی، چاہے غلط یا صحیح لیکن ان کو پھر کھلی چھٹی مل گئی، وہ باہر آ گئے۔ تو جس طرح ان کو تین سو سال بعد یا تین سو سال سے زائد عرصہ میں عیسائیت کو آزادی ملی تھی، تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مَیں بھی مسیح موسوی کے قدموں پر آیا ہوں، مسیح محمدی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی یہی کہا ہوا ہے، وعدہ کیا ہوا ہے کہ احمدیت پھیلے گی، حقیقی اسلام پھیلے گا، لیکن تم دیکھو گے کہ ابھی تین سو سال کا عرصہ نہیں گزرے گا کہ جب اکثریت دنیا کی اسلام کے جھنڈے تلے آ جائے گی۔
حضورانور نے توجہ دلائی کہ اس کے لیے ایک تو یہ ہے کہ ہمارے عمل اور ہماری دعائیں۔ دعاؤں کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے یا صرف ہم یہی کہتے رہیں کہ ہماری احمدیت پھیل جائے گی کیونکہ اللہ کاوعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو حضرت موسیٰؑ سے بھی تھا، لیکن جب یہودیوں نے غلط قسم کا رویہ دکھایا تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں لکھا ہے کہ مَیں نے چالیس سال تک ان کو جنگلوں میں بھٹکتے چھوڑ دیا، ان کوکچھ نہیں ملا۔
اللہ کے وعدے تو پورے ہوں گے اور ان کو اگر ہم نے اسی وقت میں پورا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہوا ہےتو ہمیں اپنے عمل بھی اور اپنی عبادتوں کو بھی اس معیارتک لے جانا پڑے گا کہ جو اللہ تعالیٰ چاہتاہے اور اگر نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کوئی نئی قوم پیدا کر دے گا، لیکن وعدے تو اللہ تعالیٰ کے کسی وقت پورے ہو جائیں گے۔ اگر کوشش یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں ہوں اور ہم زیادہ سے زیادہ ترقی دیکھیں تو ہمیں اپنے عمل اچھے کرنے چاہئیں، نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے حالات پیدا کرے گا کہ کوئی نہ کوئی بادشاہ، کوئی نہ کوئی حالات ایسے پیدا ہوں گے کہ کوئی قوم ایسی پیدا ہو جائے گی کہ جو زیادہ عمل کرنے والی ہو گی اور اس کے زمانے میں پھر احمدیت پھیلے گی۔اگر ہم نے حصّہ لینا ہے تو ہمیں اپنے آپ کو ٹھیک کرنا پڑنا ہے، اگر ہم نے حصّہ نہیں لینا تو پھر دوسرے لوگ حصّہ لے جائیں گے۔
آخر پر حضورانور نے شاملینِ مجلس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ چلو اللہ حافظ! ملاقات کے اختتام پر حاضرینِ مجلس کو حضورانور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔
٭…٭…٭