متکبّر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے
خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے جس بنیادی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت [وَاسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوۃِؕ وَاِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ۔(البقرۃ:46)]میں توجہ دلائی ہے اور یہ قرآنِ کریم میں اَور جگہوں پر بھی ہے، وہ عاجزی اور انکساری ہے۔ یعنی قرآنِ کریم کے تمام احکامات، تمام اوامر و نواہی جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں، اُن کی بنیاد عاجزی اور انکساری ہے۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا عاجزی اور انکساری کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک حقیقی مومن اگر احکامات پر عمل کررہا ہے تو یقیناً اُس میں عاجزی اور انکساری پیدا ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًا‘‘(بنی اسرائیل: 110) کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے۔(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1صفحہ578)
پس ایک مومن جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان لانے والا، اُس کو پڑھنے والا اور اُس پر عمل کرنے والا ہوں تو پھر لازماً قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق اُس کی عبادتیں بھی اور اُس کے دوسرے اعمال بھی وہ اُس وقت تک نہیں بجا لا سکتا جب تک اُس میں عاجزی اور انکساری نہ ہو یا اُس کی عاجزی اور انکساری ہی اُسے ان عبادتوں اور اعمال کے اعلیٰ معیاروں کی طرف لے جانے والی نہ ہو۔ انبیاء اس مقصد کا پرچار کرنے، اس بات کو پھیلانے، اس بات کو لوگوں میں راسخ کرنے اور اپنی حالتوں سے اس کا اظہار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آتے رہے جس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں نظر آتی ہے۔
… پس یہ ہے اُس شارع کامل کا نمونہ جس کا اُسوہ اپنانے کی امّت کو بھی تلقین کی گئی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ جون ۲۰۱۳ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍جون ۲۰۱۳ء)
مزید پڑھیں: مخالفت کے باوجود لوگوں تک صحیح پیغام پہنچانا ہمارا فرض ہے