متفرق مضامین

شرائط بیعت کی اہمیت حضور انور ایدہ اللہ تعالی ٰ بنصرہ العزیز کے خطبات جمعہ کی روشنی میں

(ناصرہ حفیظ ۔کینیڈا)


بیعت کی شرائط کی اہمیت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کیونکہ یہی وہ بنیاد ہے جن پر ایک مومن اپنی علمی،روحانی اور اخلاقی زندگی کی عمارت تعمیر کرتا ہے۔بیعت کا مطلب محض کسی شخص سے عہد وفا باندھ لینا نہیں بلکہ اس عہد کو مکمل دیانت داری،اخلاص اور صدق ووفا سے نبھانا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرامؓ نےآپؐ کے دست مبارک پر مختلف مواقع پر بیعت کی۔ جن میں بیعت عقبہ،بیعت رضوان اور دیگر مواقع شامل ہیں۔یہی روایت بعد میں خلافت راشدہ کے دَور میں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے ساتھ جاری رہی جنہوں نے اللہ تعالی ٰکی ہدایت کے تحت ۱۰ شرائط بیعت متعین فرمائیں۔ارشاد ربانی ہے: وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَمِیۡثَاقَہُ الَّذِیۡ وَاثَقَکُمۡ بِہٖۤ ۙ اِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا ۫ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ(المائدۃ: ۸) اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو اور اس کے عہد کو جسے اس نے تمہارے ساتھ مضبوطی سے باندھا جب تم نے کہا کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور اللہ سے ڈرو۔ اللہ یقیناً سینوں کی باتیں خوب جانتا ہے۔
شرائط بیعت ایک رسمی دستاویز نہیں بلکہ حقیقی فلاح اور اصلاح نفس اور خدا تعالی ٰکی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور انہی پر عمل پیرا ہو کر ایک احمدی حقیقی معنوں میں خلافت کا وفادار، اسلام کا علمبردار اور دنیا میں امن و سلامتی کا پیامبربن سکتا ہے۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولو الامرسے نہیں جھگڑ یں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے سے نہیں ڈریں گے۔(مسلم کتاب الامارۃ، باب و جوب طاعۃ الامراء)
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جا تا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہوگا۔ لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اُوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اُسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا۔‘‘(ملفوظات جلد ششم، صفحہ ۱۷۳،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
ہمارےپیارےحضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز عہدِبیعت کی طرف ہماری توجہ دلاتےہوئےفرماتےہیں: ’’ عہدِ بیعت کا خلاصہ کیا ہے؟ شرک سے اجتناب کرنا، جھوٹ سے بچنا، لڑائی جھگڑوں اور ظلم سے بچنا، خیانت سے بچنا، فساد اور بغاوت سے بچنا، نفسانی جوش کو دبانا، پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی کرنا، تہجد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینا، استغفاردعاؤں اور درود کی طرف توجہ دینا، تسبیح و تحمید کرنا، تنگی اور آسائش ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے وفا کرنا، قرآنِ شریف کے احکامات پر عمل کرنا، تکبر تخوت سے پرہیز کرنا، عاجزی اور خوش خلقی کا اظہار کرنا، ہمدری خلق کا جذبہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے اندر پیدا کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلا م کی کامل اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر ڈالنا۔ یہ ہے خلاصہ شرائطِ بیعت کا۔ پس اگر غور کریں تو یہ باتیں ایک انسان میں تقویٰ میں ترقی کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ کم از کم معیار ہے جس کی ایک احمدی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توقع فرمائی ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کایہی مقصدتھا کہ ایک انسان میں یہ چیزیں پیدا کی جائیں اور انسان آپؑ کی بیعت میں آ کر تقویٰ میں ترقی کرے… پھر آپؑ نے فرمایا کہ ایک احمدی قرآنِ شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا۔ قرآنِ حکیم کی حکومت قبول کرنے کے لیے اس سے ایک خاص تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ کے اس کلام کو روزانہ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پس انصار اللہ کی تنظیم میں شامل ہر شخص اس بات کی پابندی کرے کہ میں نے قرآنِ کریم کی تلاوت ہر صورت میں روزانہ کرنی ہے۔ اسی طرح لجنہ ہے، خواتین ہیں، ان کا بھی فرض ہے۔ یہ حکم صرف انصاراللہ کے لیے نہیں ہے۔ جماعت کے ہر فرد کے لیے ہے اور خاص طور پر وہ لوگ، عورتیں اور مرد جنہوں نے اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے ان پر خاص فرض ہے کہ اپنے نمونے قائم کریں اور روزانہ تلاوت کریں۔ پھر اس کا ترجمہ بھی سمجھنا ہے۔ تو جہاں ہم میں سے ہر ایک اس وجہ سے اپنے علم میں اضافے اور برکات سے فیض یاب ہونے کے سامان کر رہا ہو گا وہاں یہ پاک نمونہ اپنے بچوں کے سامنے پیش کر کے انہیں بھی خدا تعالیٰ کے اس کلام سے تعلق جوڑنے کا سامان کر رہا ہوگا۔‘‘ (خطبہ جمعہ یکم اکتوبر۲۰۱۰ء،الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍اکتوبر۲۰۱۰ءصفحہ۶ )


صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
(در ثمین)


بحیثیت احمدی مسلمان ہماری یہ خوش قسمتی ہےکہ ہم نےزمانے کےامام کومانااوراُس کی بیعت میں آئے۔اس لیےہمارافرض ہےکہ اس بیعت کاحق اپنےعمل اورقول سے اداکرنےوالےبنیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں: ’’پس آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے امام وقت کو مانا اوراس کی بیعت میں شامل ہوئے۔اب خالصتاً للہ آپ نے اس کی ہی اطاعت کرنی ہے، اس کے تمام حکموں کو بجا لاناہے ورنہ پھرخدا تعالیٰ کی اطاعت سے باہرنکلنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کواطاعت کے ا علیٰ معیار پرقائم فرمائے اوریہ ا علیٰ معیارکس طرح قائم کیے جائیں۔ یہ معیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرکے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتاہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتاہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتاہے۔ لیکن جو محض نام لکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا تو یاد رکھے کہ خداتعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیاہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے محض نام لکھوانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ اس پر کوئی نہ کوئی وقت ایسا آجائے گا کہ وہ الگ ہوجائے گا۔اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔‘‘
ایک اقتباس میں اپنی تعلیم کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں کہ :’’فتنہ کی بات نہ کرو۔ شر نہ کرو۔ گالی پر صبر کرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو۔ جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ۔ سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کرکے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جاوے۔ دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے۔‘‘( البدر ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء،ملفوظات جلد سوم،صفحہ ۶۲۰۔۶۲۱) (خطبہ جمعہ ۱۹؍ ستمبر۲۰۰۳ء)
بیعت کی شرائط پر عمل پیرا ہونا ہر احمدی کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کو ممکن بنا سکے۔یہ شرائط جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہیں وہاں ہماری زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لانے کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کرتے ہوئے ان شرائط کی اہمیت کا شعور اجاگر کرتے ہیں۔خدا کرے کہ ہم شرائط بیعت پر مضبوطی سے قائم رہیں اور ان پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو جنت نظیر بنائیں۔ آمین۔


مزید پڑھیں: حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت، بیعت اولیٰ کا تاریخی پس منظر اور شرائط بیعت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button