خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍فروری ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: جنگ اُحد کے واقعات کے حوالے سے آنحضرتﷺ کی سیرت کے پہلو اور صحابہؓ کا آپؐ کے ساتھ عشق و وفا کا تعلق، اس کا ذکر ہو رہا تھا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خارجہ بن زیدؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت خارجہؓ نے غزوۂ اُحد میں بڑی بہادری اور جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا۔ تیروں کی زد میں آ گئے اور آپؓ کو تیرہ سے زائد زخم لگے۔ آپؓ زخموں سے نڈھال پڑے تھے کہ پاس سے صَفْوان بن امیہ گزرا۔ اس نے انہیں پہچان کر حملہ کر کے شہید کر دیا۔ پھر ان کا مُثْلہ بھی کیا اور کہا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے بدر میں ابوعلی کو قتل کیا تھا یعنی میرے باپ اُمَیہ بن خَلَف کو قتل کیا تھا۔ اب مجھے موقع ملا ہے کہ ان اصحابِ محمد (ﷺ) میں سے بہترین لوگوں کو قتل کروں اور اپنا دل ٹھنڈا کروں۔ اس نے حضرت ابن قَوقَلؓ، حضرت خَارِجہ بن زیدؓ اور حضرت اَوس بن اَرْقم ؓکو شہید کیا۔ حضرت خارجہؓ اور حضرت سعد بن ربیع ؓجو کہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ روایت ہے کہ اُحد کے دن حضرت عباس بن عُبادہؓ اونچی آواز سے کہہ رہے تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ اور اپنے نبی سے جڑے رہو۔ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے یہ اپنے نبی کی نافرمانی سے پہنچی ہے۔ وہ تمہیں مدد کا وعدہ دیتا تھا لیکن تم نے صبر نہیں کیا۔ پھر حضرت عباس بن عبادہؓ نے اپنا خَود اور اپنی زرہ اتاری اور حضرت خارجہ بن زیدؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟ خارجہ نے کہا نہیں۔ جس چیز کی تمہیں آرزو ہے وہی میں بھی چاہتا ہوں یعنی شہادت۔ پھر وہ سب دشمن سے بھڑ گئے۔ عباس بن عبادہ ؓکہتے تھے کہ ہمارے دیکھتے ہوئے اگر رسول اللہﷺ کو کوئی تکلیف پہنچی تو ہمارا اپنے رب کے حضور کیا عذر ہو گا۔ اور حضرت خارجہؓ یہ کہتے تھے کہ اپنے رب کے حضور ہمارے پاس نہ تو کوئی عذر ہو گا اور نہ ہی کوئی دلیل۔ حضرت عباس بن عبادہؓ کو سفیان بن عبدشمس سَلَمِی نے شہید کیا اور خارجہ بن زیدؓ کو تیروں کی وجہ سے جسم پر دس سے زائد زخم لگے۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت شماس بن عثمانؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت شماس بن عثمانؓ غزوۂ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے۔ آپؓ غزوہ اُحد میں بہت جانفشانی سے لڑے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے شماس بن عثمان کو ڈھال کی مانند پایاہے۔ رسول اللہﷺ دائیں یا بائیں جس طرف بھی نظر اٹھاتے شماس کو وہیں پاتے جو جنگِ اُحد میں اپنی تلوار سے مدافعت کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ پر غشی طاری ہو گئی جب آپؐ پر حملہ ہوا اور پتھر آ کے لگا۔ حضرت شماسؓ نے اپنے آپ کو آپﷺ کے سامنے ڈھال بنا لیا تھا یہاں تک کہ آپؓ شدید زخمی ہو گئے اور آپ یعنی حضرت شماس ؓکو اسی حالت میں مدینہ اٹھا کر لایا گیا۔ آپؓ میں ابھی کچھ جان باقی تھی۔ ان کو حضرت عائشہؓ کے ہاں لے جایا گیا۔ حضرت ام سلمہؓ نے کہا کہ کیا میرے چچا زاد بھائی کو میرے سوا کسی اَور کے ہاں لے جایا جائے گا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ انہیں حضرت ام سلمہؓ کے پاس اٹھا کر لے جاؤ۔ پس آپ کو وہیں لے جایا گیا اور آپ نے انہی کے گھر وفات پائی۔ آپ اُحد سے زخمی ہو کے آئے تھے۔ پھر آنحضرتﷺ کے حکم سے حضرت شماس ؓکو مقام اُحد میں لے جا کر انہی کپڑوں میں دفن کیا گیا۔ دو دن بعد مدینہ میں وفات ہو گئی لیکن دفن ان کو اُحد میں جا کے کیا گیا۔ جب جنگ کے بعد آپؓ کو زخمی حالت میں اٹھا کر مدینہ لایا گیا تو وہاں ایک دن اور ایک رات تک زندہ رہے تھے اور اس دوران کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں۔ انتہائی کمزوری کی حالت تھی بلکہ بیہوشی کی حالت تھی۔ حضرت شماسؓ کی وفات چونتیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ نوجوان تھے۔ حضرت شماس بن عثمانؓ کے بارے میں تاریخ نے ایسا واقعہ محفوظ کیا ہے جو اُن کی آنحضرتﷺ سے محبت کی ایک مثال بن گیا ہے اور اسلام کی خاطر قربانی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے کی بھی مثال ہے۔ جنگِ اُحد میں جہاں حضرت طلحہ ؓکی عشق و محبت کی داستان کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنا ہاتھ آنحضرتﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے رکھا کہ کوئی تیر آپؐ کو نہ لگے وہاں حضرت شماسؓ نے بھی بڑا عظیم کردار ادا کیا۔ حضرت شماسؓ آنحضرتﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہر حملہ اپنے اوپر لیا۔ آنحضرتﷺ نے حضرت شماسؓ کے بارے میں فرمایا کہ شماس کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوں تو ڈھال سے تشبیہ دوں گا کہ وہ اُحد کے میدان میں میرے لیے ایک ڈھال ہی تو بن گیا تھا۔ وہ میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا۔ آنحضرتﷺ جس طرف نظر ڈالتے آپؐ فرماتے ہیں شماس انتہائی بہادری سے وہاں مجھے لڑتے ہوئے نظر آتا۔ جب دشمن آنحضرتﷺ پر حملے میں کامیاب ہو گیا اور آپؐ کو غشی کی کیفیت طاری ہوئی۔ آپؐ گر گئے تب بھی شماس ہی ڈھال بن کر آگے کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے۔ اسی حالت میں انہیں مدینہ لایا گیا۔ حضرت ام سلمہؓ نے کہا یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں۔ میں ان کی قریبی ہوں۔رشتہ دار ہوں اس لیے میرے گھر میں ان کی تیمار داری اور علاج وغیرہ ہونا چاہیے لیکن زخموں کی شدت کی وجہ سے ڈیڑھ دو دن بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ شماس کو بھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے جس طرح باقی شہداء کو کیا گیا ہے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت نعمان بن مالکؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت نعمان بن مالکؓ غزوۂ بدر و اُحد میں شریک ہوئے اور غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے۔ انہیں صفوان بن امیہؓ نے شہید کیا تھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نعمان بن مالکؓ کو اَبَان بن سعیدنے شہید کیا تھا۔ حضرت نعمان بن مالکؓ، حضرت مُجَذَّرْ بن زیادؓ اور حضرت عبادہ بن حَسْحَاسؓ کو غزوۂ اُحد کے موقع پر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔حضرت نعمان بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ کے غزوۂ اُحد کے لیے نکلتے اور آپﷺ کے عبداللہ بن ابی بن سلول سے مشورہ کے وقت عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! بخدا میں جنت میں ضرور داخل ہوں گا۔ بڑی تحدی سے فرما رہے ہیں۔ کہتے ہیں آنحضرتﷺ کو مَیں جنت میں ضرور داخل ہوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا وہ کیسے؟ تو حضرت نعمانؓ نے عرض کیا اس وجہ سے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور میں لڑائی سے ہرگز نہیں بھاگوں گا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم نے سچ کہا۔ چنانچہ وہ اسی روز شہید ہو گئے۔خالد بن ابومالک جَعْدِی روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد کی کتاب میں یہ روایت پائی کہ حضرت نُعْمَان بن قَوْقَل انصاریؓ نے دعا کی تھی کہ مجھے تیری قسم اے میرے ربّ! ابھی سورج غروب نہیں ہو گا کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت کی سرسبزی میں چل رہا ہوں گا۔ چنانچہ وہ اسی روز شہید ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی کیونکہ میں نے اسے دیکھا، آپﷺ نے کشفی نظارہ دیکھا اور یہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو بتایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اس کو دیکھا کہ وہ جنت میں چل رہا تھا اور اس میں کسی قسم کا لنگڑا پن یا لڑکھڑاہٹ نہیں تھی۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت ثابت بن دحداح ؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ثابت بن دحداحؓ نے بھی غزوہ اُحد میں نمایاں شرکت کی۔ان کا نمایاں کردار ہے۔ آنحضرتﷺ کی شہادت کی خبر کے بعد مسلمانوں میں سے بعض نے کہا اب جبکہ رسول اللہﷺ شہید ہو گئے ہیں تو تم اپنی قوم کے پاس لوٹ چلو وہ تمہیں امان دیں گے۔ اس پر کچھ دوسرے لوگوں نے کہا کہ اگر رسول اللہﷺ شہید ہو گئے ہیں تو کیا تم اپنے نبیﷺ کے دین اور اس کے پیغام کے لیے نہیں لڑو گے یہاں تک کہ تم اپنے رب کے حضور شہید ہو کر حاضر ہو جاؤ؟حضرت ثابت بن دحداحؓ نے انصار سے کہا۔ اے انصار کے گروہ! اگر محمدﷺ شہید ہو گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے اسے موت نہیں آ سکتی۔ اپنے دین کے لیے قتال کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح و کامرانی عطا کرنے والا ہے۔ یہ سن کر انصاری مسلمانوں کا ایک گروہ اٹھا اور انہوں نے حضرت ثابتؓ کے ساتھ مل کر مشرکین کے اس گروہ پر حملہ کر دیا جس میں خالد بن ولید، عِکْرِمَہ بن ابوجہل،عمرو بن عاص اور ضِرَار بن خَطَّاب تھے۔ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت کو حملہ کرتے دیکھ کر خالد بن ولیدنے ان پر سخت جوابی حملہ کیا اور ثابت بن دَحْدَاحؓ اور ان کے انصاری ساتھیوں کو شہید کر دیا۔ ایک اَور روایت میں بیان ہوا ہے کہ عبداللہ بن عمر خَطْمِیکہتے ہیں: ثابت بن دحداحؓ اُحد کے دن سامنے آئے اور مسلمان اس وقت منتشر اور پریشان حال تھے۔ یہ اونچی آواز میں پکارنے لگے کہ اے گروہ انصار! میرے پاس آؤ۔ میں ثابت بن دحداح ہوں۔ اگر محمدﷺ واقعی قتل ہو گئے ہیں تو اللہ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ لہٰذاتم اپنے دین کی طرف سے لڑو اللہ تمہیں غالب کرے گا اور تمہاری مدد کرے گا۔ چنانچہ ایک جماعت انصار کی ان کے پاس جمع ہو گئی۔ یہ انصاری تھے اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر کفار پر حملہ کرنے لگے۔ ان کے مقابلے پر کافروں کا ایک سخت لشکر آیا جس میں ان کے سردار خالد بن ولید، عمرو بن عاص، عکرمہ بن ابوجہل اور ضرار بن خطاب تھے۔ یہ سب لوگ مل کر ان پر حملہ کرنے لگے۔ ثابتؓ پر خالد بن ولید نے نیزے سے حملہ کیا اور نیزہ ان کے پار کر دیا۔ ثابت شہید ہو کر گر پڑے اور ان کے ساتھ اَور جو انصار تھے وہ بھی شہید ہوگئے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس دن سب مسلمانوں کے آخر میں یہی لوگ شہید ہوئے۔ ایک روایت میں ہے کہ خالد نے بڑھ کر نیزہ مارا جس سے حضرت ثابتؓ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ لوگ اٹھا کر لائے اور علاج شروع کیا۔ اس وقت تو خون بند ہو گیا اور وہ اچھے ہو گئے لیکن غزوۂ حدیبیہ کے بعد یکایک زخم پھر پھٹ گیا اور اس کے صدمہ سے انہوں نے وفات پائی۔ بہرحال یہ بھی ایک روایت ہے۔ حضرت جابر بن سمرہؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ حضرت ثابت بن دحداحؓ کے جنازے کے ساتھ پیدل تشریف لے گئے تھے اور گھوڑے پر بیٹھ کر واپس آئے تھے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ احدکےشہداءکی تعدادکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: شہدائے اُحد کی تعداد کے بارے میں یہ ذکر ہے جہاں تک غزوۂ اُحد میں مسلمان شہداء کی تعداد کا تعلق ہے تو اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ اُس دن کل مقتولین کی تعداد ستّر تھی جن میں سے چار مہاجرین میں سے تھے جن کے نام یہ ہیں حضرت حمزہ ؓ،حضرت مُصْعَبؓ، حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور حضرت شَمَّاس بن عثمانؓ۔ ایک قول یہ ہے کہ شہدائے اُحد کی کل تعداد اسّی تھی جن میں سے چوہتر انصار میں سے تھے اور چھ مہاجرین میں سے۔ علامہ ابنِ حَجر عَسْقَلَانِی ؒکہتے ہیں کہ اگر چھ مہاجر شہید تھے تو شاید پانچویں حاطِب بن اَبِی بَلْتَعہؓ کے غلام سَعْد اور چھٹے ثَقِیف بن عَمرو تھے جو بنو عبد شمس کے حلیف تھے۔ ایک کتاب ہے عُیون الاَثر اس میں شہداء کی کل تعداد چھیانوے بتائی گئی ہے۔ مشرکین میں سے مرنے والوں کی کل تعداد تیئس تھی۔ ایک قول یہ ہے کہ مشرکین کی یہ تعداد بائیس تھی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس جنگ میں تنہا حضرت حمزہؓ نے اکتیس مشرکوں کو قتل کیا تھا۔یہ روایت صحیح نہیں لگتی کیونکہ ان کےمرنے والوں کی کل تعداد ہی تیئس تھی۔ ایک سیرت نگار شہدائے اُحد کی تعداد کے بارے میں لکھتا ہے کہ غزوۂ اُحد میں کفار کے ہاتھوں شرفِ شہادت سے ہمکنار ہونے والے صحابہ کرام ؓکی تعداد کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ تاریخ دانوں، سیرت نگاروں اور محدثین کرام کے ہاں شہدائے اُحد کی تعداد کے بارے میں انچاس سے لے کر ایک سو آٹھ تک کے اقوال ہیں لیکن اکثر یہی ہے کہ اُحد کے دن ستر صحابہ شہید ہوئے تھے۔