حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مخالفت کے باوجود لوگوں تک صحیح پیغام پہنچانا ہمارا فرض ہے

مسلمانوں کی حالت بھی اس وقت عجیب ہوئی ہوئی ہے۔ ایک طرف تو نام نہاد مولویوں کا طبقہ ہے یا شدت پسند لوگوں کا طبقہ ہے جس نے جیسا کہ میں نے کہا ہر طرف اسلام کے نام پر اپنوں اور غیروں کے خلاف فساد برپا کیا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اُن کے ردّ عمل کے طور پر یا مغربی اور دنیاداری کے اثر کے تحت مذہب سے لاتعلق ہیں۔ اعتماد سے اسلامی تعلیم کی خوبیوں کو بیان کرنے کے بجائے یا لا تعلق ہیں یا خوفزدہ ہیں۔ بعض چیزوں میں اسلامی تعلیم کی خوبیوں کو بیان کرنے کے بجائے اور دنیاداروں کی باتوں کو غلط کہنے کی بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور اسلامی تعلیم کی غلط توجیہیں اور وضاحتیں پیش کرتے ہیں کہ یہ نہیں، اس کا مطلب تو یہ تھا یا یہ تھا۔ ان لوگوں پر دنیا کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف پر غالب ہے۔ اسی طرح بعض سیاستدان حکمران ہیں۔ دین سے ان کا لوگوں کا کچھ واسطہ نہیں ہے۔ وہ اگر مولوی سے متفق نہ بھی ہوں تو اپنی کرسی کے چِھن جانے کے خوف سے کہ کہیں مولوی لوگوں کوہمارے خلاف نہ بھڑکا دے یہ بزدلی اور اپنی دنیاوی اغراض کی وجہ سے جو اُن پر غالب آ جاتی ہیں، خاموش ہیں۔ گویا کہ مسلمانوں میں سے ہر وہ طبقہ جس نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کا انکار کیا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں سے دُور چلا گیا ہے۔ چاہے وہ مذہب کے نام پر اپنی دوکان چمکانے والے مولوی ہیں۔…مذہب کے نام پر یہ دوکانداری کرنے والا طبقہ ہے یا دنیاداری کی خاطر مذہب کو ثانوی حیثیت دینے والا طبقہ ہے یہ سب لوگ نام کے مسلمان ہیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیم سے ان کا کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔
ایسے حالات میں احمدیوں کو سوچنا چاہئے کہ جب انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مخالفین نے ان پر ظلم تو کرنے ہی ہیں اور اسی طرح مذہب سے دور ہٹے ہوئے جو لوگ ہیں اور خدا تعالیٰ کا انکار کرنے والے جو ہیں انہوں نے بھی اس وقت ہماری مخالفت کرنی ہے جب ہم ان کی ان باتوں کے خلاف بات کریں گے جو وہ آزادی کے نام پر غلط باتیں کرتے ہیں یا قوانین بناتے ہیں، تب ان لوگوں نے ہمارے خلاف ہونا ہے۔ پس کیا ایسے میں ہم خوفزدہ ہو کر چپ ہو جائیں یا ایمانی کمزوری دکھاتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جائیں۔ اگر ہم نے بھی ایسا ہی کرنا ہے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا کیا فائدہ؟ ہمیں تو آپ نے آ کر یہ بتایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلنا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی ہے۔ اپنے ایمان کو بھی ضائع نہیں کرنا اور فساد کو بھی پیدا نہیں ہونے دینا۔ اور ساتھ ہی یہ چیز بھی سامنے رکھنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا بھی ہے تا کہ توحید کا قیام ہو اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلایا جائے اور دنیا کی اکثریت اس تعلیم کی قائل ہو۔

(خطبہ جمعہ ۱۷؍مارچ ۲۰۱۷ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍جون۲۰۱۷ء)

مزید پڑھیں: مرد کی گھر کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button