متفرق مضامین

اعزازِ اسیری

مصنفہ : مرزا مبارک احمد صاحب

ایک دلچسپ اورایمان افروز اور دیدہ زیب کتاب کے مطالعہ کی سعادت ملی، دل نے چاہا کہ سلسلہ کے مؤقر ترجمان کے ذریعہ اکناف عالم میں پھیلے ہوئے شمع احمدیت کے پروانوں کو اس سے روشناس کرائوں کہ کس طرح غلامانِ مسیح الزمانؑ اپنی وفاؤں کی داستانیں رقم کررہے ہیں تاکہ جہاں ہمیں ان مبارک وجودوں کے لیے دعاؤں کا موقع ملے وہیں اپنامحاسبہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہوسکے۔وباللہ التوفیق
’اعزاز اسیری‘ مکرم ومحترم مرزا مبارک احمد صاحب (سابق اسیرراہ مولیٰ) کی ایک ایسی کتاب ہے جو نہ صرف مصنف کی ذاتی کہانی ہے، بلکہ یہ ایک ایسی اجتماعی کہانی بھی ہے جو احمدی جماعت کے ہزاروں افراد کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس میں پاکستان میں جماعت کے ساتھ ہونے والے مذہبی تعصبات اور ناانصافیوں کی المناک داستان بھی درج ہے۔ مصنف نے ایک دلچسپ داستان کے رنگ میں سلیس اورشستہ زبان میں اپنی زندگی کے ایک مشکل ترین دَور کو بیان کیاہے، جب انہیں اللہ اوررسول پاکﷺ کی محبت کے’جرم‘ میں قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
کتاب کی ابتدا میں مصنف نے اپنا تفصیلی تعارف اور خاندانی حالات بیان کیے ہیں، جو قاری کو ان کے پس منظر سے روشناس کراتے ہیں۔ اس کے بعد کتاب کا مرکزی حصہ شروع ہوتا ہے، جس میں مصنف نے اپنی گرفتاری، جیل میں گزارے گئے مشکل لمحات، اور پھر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے رہائی کے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ کتاب کا اختتام مصنف کی ہجرت اور آسٹریلیا میں خدمتِ سلسلہ کے تجربات پر ہوتا ہے۔
’اعزاز اسیری‘ ایک ایسی کتاب ہے جو قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ مصنف کا اسلوب نہایت سادہ، سلیس، اور مؤثر ہے۔ وہ اپنے تجربات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری خود کو ان واقعات کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ جب وہ لکھتے ہیں کہ’’لاک اپ چونکہ چاروں طرف سے کھلاتھا، جنوری کا مہینہ تھا ٹھنڈی ہواجسم میں ایسے جاتی تھی جیسے گولی لگ رہی ہے۔جب 298-C کا نماز پڑھنے کا مقدمہ بنایااس سے ایک دودن پہلے ہی جب تھانیدار کے بڑے منشی نے گالیاں دی تھیں کہ ’نماز سے تیرا کیاکام ؟تو تو کافرہے ۔‘ پھرمیں نے سوچا کہ فرض نمازیں تو پڑھ ہی رہا ہوں، اب میں ساتھ میں تہجد بھی باقاعدہ شروع کردوں گا ۔‘‘
تو معاً جیل کی سختیاں، قیدیوں اورخصوصاً احمدی اسیران کے ساتھ ہونے والےظالمانہ سلوک اورمصنف کے عزم و استقلال کا نقشہ نظروں میں گھوم جاتاہے۔جب وہ بیان کرتے ہیں کہ’’ بس کنڈیکٹرنے پولیس والوں سے پوچھا کہ اس کو کس جرم میں ہتھکڑی لگائی ہے۔ تو پولیس والے کہتے اس پر مولوی نے کیس کیاہے جس کے جواب میں مَیں نے اپنے ہاتھوں میں لگی ہتھکڑی کو چومااور پوری تفصیل بتادی ،ہمارا تو کام ہی تبلیغ کرنا ہے سو اس بہانے تبلیغ بھی ہوگئی،جب میری بات مکمل ہوگئی تو میں نے دوبارہ اپنی ہتھکڑی کو چوماکہ میں قسمت والا ہوں کہ چودہ سوسال بعد مجھے بھی ابتدائی تاریخ اسلام کودہرانے کا موقع عطاہوا۔‘‘
تو مصنف کی ایمان افروز استقامت کا قائل ہوئے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔موصوف کا بیان کرنے کا انداز نہایت دلکش اور متاثر کن ہے۔اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کس طرح ان مظلوموں کے شامل حال ہوتی ہے ملاحظہ ہو:’’جب کبھی نئے قیدی آتے وہ شاہ جی جو شیعہ تھا اکثر نئے آنے والوں کو میرے خلاف بھڑکا دیتا یعنی وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔میں اس وجہ سے اس سے خاصا تنگ تھا اللہ کے حضور دعا کرتا یا اللہ اس مصیبت کو دُور کر مجھ سے ۔ اسی دوران ایک دن وہ رات کو بہت برا بھلا کہنے لگا اور قیدیوں کے ساتھ بھی لڑنے لگ گیا۔ پھر اسے پولیس والے رات دس بجے ہسپتال لے گئے۔ صبح تک نہیں آیا تو پتہ چلا اس کو پاگلوں کے وارڈ میں بھرتی کر دیا ہے کہتے وہ پاگل ہو گیا ہے۔ دو ہفتے تک وہ نہیں آیا اوربیرک میں بہت سکون رہا خاص کر میرے لئے یہ سکون کی بات تھی۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہائی کی نوید بھی موصوف کو حاصل ہوئی وغیرہم امور سمیت مصنف نے بارہا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ذکر کیا ہے، جو ان کی رہائی اور آسٹریلیاہجرت کا باعث بنی۔
مصنف نے اپنی زندگی کے تجربات کے ذریعے یہ دکھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور خلافت سے وابستگی ہر مشکل کو آسان بنا دیتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف احمدی مسلمانوں کے لیے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔
’اعزاز اسیری‘ ان قارئین کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے جو مذہبی استقامت، صبر، اور ایمان کی کہانیاں پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ خاکسار کی حقیر رائے میں یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ احمدیت کے ان جاں نثاروں کو جہاں اپنی شبانہ روز دعاؤں میں یاد رکھیں وہیں ان کی داستانوں سے خود بھی آگاہی حاصل کریں اورا پنی نسلوں کو بھی اس کادرس دیں۔
اللہ تعالیٰ محترم مرزا صاحب کو جزائے خیر عطافرمائے اورعمروصحت میں خارق عادت برکت عطافرمائے۔آمین

(وسیم احمد عظیمؔ۔ قائد اشاعت مجلس انصار اللہ بھارت)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ایک عزیز کے نام خط

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button