ایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا
’’میں تجھے عنقریب ایک زکی بیٹا عطا کروں گا جو تیری صلب اور تیری ذرّیّت اور تیری نسل میں سے ہوگا اور وہ ہمارے مقبول بندوں میں سے ہوگا‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی عظیم الشان پیشگوئی بابت مصلح موعود کے بارے میں بعض لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ اس پیشگوئی میں مذکور مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی جسمانی اولاد میں سے نہیں ہونا تھا بلکہ روحانی اولاد میں سے ہونا تھا۔ایسا دعویٰ کرنے والے اپنی دلیل کے طور پر یہ پیش کرتے ہیں کہ پیشگوئی میں شامل زکی غلام والا الہام کہ ’’ایک زکی غلام تجھے ملے گا‘‘،حضور علیہ السلام کو ۱۹۰۷ء تک ہوتارہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ۱۹۰۷ء تک بہرحال وہ لڑکا پیدا نہیں ہوا۔لہٰذا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مصلح موعود نہیں ہیں۔ کیونکہ مبشر وجود کی پیدائش کے بعد بشارات نہیں ہوا کرتیں۔نیز’غلام‘ اور’بیٹا‘ دو الگ الگ وجود شمار ہوتے ہیں۔یعنی اس پیشگوئی میں ’غلام‘ ایک الگ وجود ہے اور’بیٹا‘ الگ۔ پس اس پیشگوئی میں مذکور ’غلام‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کی ذرّیّت سے نہیں ہونا تھا۔
ان کےاس بیانیہ میں درج ذیل تین دعوے کیے گئے ہیں۔
۱: چونکہ حضور علیہ السلام کو یہ الہام ۱۹۰۷ء تک ہوتارہا ہے۔اس لیے یہ ثابت ہوتا ہے کہ۱۹۰۷ء تک بہرحال وہ لڑکا پیدا نہیں ہوا۔
۲:حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۹۰۷ء سے پہلے پیدا ہو چکے تھے لہٰذا آپؓ اس کے مصداق نہیں تھے۔ کیونکہ مبشر وجود کی پیدائش کے بعد بشارات نہیں ہوا کرتیں۔
۳:غلام اور بیٹا، دو الگ الگ وجود شمار ہوتے ہیں۔یعنی اس پیشگوئی میں’بیٹا‘ ایک الگ وجود ہے اور’غلام‘ الگ۔ پس یہ’غلام‘ آپؑ کی ذرّیّت سے نہیں ہونا تھا۔
پہلا دعویٰ کہ چونکہ حضور علیہ السلام کو یہ الہام ۱۹۰۷ء تک ہوتارہا ہے۔اس لیے یہ ثابت ہوتا ہے کہ۱۹۰۷ء تک بہرحال وہ لڑکا پیدا نہیں ہوا۔
ایسا اصول تو کہیں نہیں ہے۔لہٰذا ان کے اس دعویٰ پر سوال یہ ہے کہ انہوں نے یہ اصول لیا کہاں سے ہے ؟ کیا قرآن کریم میں اس کے بارے میں کوئی اصول بتایا گیا ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے ایسابتایا ہے؟ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسابتایا ہے؟ کہ جب تک خبر دی جاتی رہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں خبر دی گئی ہو،وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہوا ہوتا۔
اس طرح کے خود ساختہ اصول تومنکرین کے ہوتے ہیں۔صرف سورت بنی اسرائیل کی آیات ۹۱ سے ۹۴ تک ہی دیکھیں کہ رسول اللہ ﷺ کے منکرین نے آپؐ کی تکذیب کے لیے کیا کیا اصول اور معیار تراش لیے تھے۔منکر ہی ہمیشہ تکذیب کے لیے جھوٹے اصول بناتے ہیں۔ ان کی تقدیر بھی یہی ہے۔ سچ،جھوٹ کو مٹاتا ہے۔ سچ کو جھوٹ سے نہیں مٹایا جا سکتا۔
یہ بات کہ ۱۹۰۷ء تک یہ پیشگوئی دہرائی جاتی رہی اس لیے وہ موعود پیدا نہیں ہوا، یہ تو پیشگوئی کو دھندلانے کی محض ایک جھوٹی جسارت ہے۔جب کہ ایسے الہامات ایک اہم پیشگوئی کی عظمت قائم کرنے کے لیے بھی ہوتے ہیں۔پس بشارتوں کے نزول پر کوئی حدّ نہیں باندھی جا سکتی۔جیسےآنحضرت ﷺ نے اپنے بیٹےابراہیمؓ کے بارے میں اس کی وفات کے بعد امّت کوبشارت دی تھی کہ اگر وہ زندہ رہتا تووہ نبی ہوتا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیدائش کے بعد تو کیا،بشارتیں موت کے بعد بھی دی گئی ہیں اور دی جا سکتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ چونکہ ۱۹۰۷ء تک یہ الہام ہوتا رہا ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جس کے بارے میں تھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موعود بیٹے سے پہلے ایک بیٹی اور پھر ایک بیٹا پیدا کر کے، جو دراصل اس پیشگوئی کے مصداق نہ تھے،ہر سمت اس پیشگوئی کی یاددہانی، اہمیت اور عظمت قائم کردی تھی، اسی طرح وہ اس پیشگوئی کو یاددہانی، اہمیت اور عظمت کے لیے بار بار نازل فرماتا رہا ہے۔
دوسرا پہلو:الہامات کی اس طرز سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فقرہ (سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیّت و نسل ہوگا) بنیادی طور پرپیشگوئی مصلح موعود کا حصہ ہے۔اگر ان متواتر الہامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کسی وقت اس ’’زکی غلام‘‘نے پیدا ہونا تھا تو یہ پیشگوئی اُس بعد میں آنے والے کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ والصلوٰۃ السلام کے تخم، نسل، صلب اور ذرّیّت میں ہی محصور و محدود کرتی ہے۔ اسے کسی اَور کے تخم، نسل، صلب اور ذرّیّت سے باہر نہیں جانے دیتی۔
چنانچہ بعد میں آپؑ کی ذرّیّت سے پیدا ہونے والے ہر اس بیٹے (غلام) کے لیے بھی الہام ہوتا رہا ہے۔ جو آپؑ کے کام کو لے کر آگے چلنے والا تھا۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی کے حقیقی اور بنیادی مصداق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدّین محمود احمد مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد آپؑ کی ذرّیّت سے تین اور زکی غلام (حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز)آپؑ کو عطا ہو چکے ہیں اور یہ پیشگوئی اس رنگ سے بھی بڑی وضاحت سے پوری ہو چکی ہے۔ کیونکہ بیٹا ہو یا پوتا، پڑپوتا ہو یا نواسہ وہ ذرّیّت میں(عربی زبان میں) غلام یا (اردو میں)بیٹا ہی کہلاتا ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے ان تین مذکورہ بالا غلام اور بیٹوں کے ذریعہ معترض کی یہ خواہش بھی پوری کر دی ہے۔
پس اگر کسی نے بعد میں آنا تھا تو وہ بھی آپؑ کے تخم، نسل، ذرّیّت اور صلب سے ہی ہونے والے زکی غلام (بیٹے)تھے۔اس پہلو کو سمجھنے کے لیے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو یاددہانی کے لیے ۱۸۶۵ء سے۱۹۰۶ء تک ’تَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا‘ کئی بار الہام ہوا۔چنانچہ اس کے یہ دونوں معنے ہیں۔
۱:تو اپنی دُور کی نسل دیکھے گا۔
۲: اپنی نسل کو دُور تک دیکھے گا۔
جس کا مقصود آپؑ کے تخم، ذرّیّت، نسل اور صلب سے آئندہ آنے والی نسلوں میں پاک بیٹوں کے لیے ایک سے زائد بار یاددہانی تھی۔چونکہ آپؑ کے الہام میں زکی غلام کی خوشخبری کو آپؑ کےتخم، ذرّیّت، نسل اور صلب میں محصور، محدود اور معیّن کر دیا گیا ہے اس لیے اس کے تحت یہ پیشگوئی آپؑ کی نسل اور ذرّیت ہی میں بار بار پوری ہونی مقدّر تھی۔
دوسرا دعویٰ کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۹۰۷ء سے پہلے پیدا ہو چکے تھے لہٰذا آپؓ اس کے مصداق نہیں تھے۔ کیونکہ مبشر وجود کی پیدائش کے بعد بشارات نہیں ہوا کرتیں۔
قرآن کریم اس دعویٰ کو کلّیۃ ًردّکرتا ہے۔قرآن کریم کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے دینِ حق کو دیگر ادیان پر غالب کرنا تھا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۔ یہ آیت قرآن کریم میں وقتاً فوقتاً تین بار( یعنی سورۃ التّوبہ: ۳۳، الفتح:۲۹ اور الصّف:۱۰ میں ) نازل ہو ئی ہے۔
رسول اللہؐ اس پیشگوئی کے بنیادی مصداق تھے۔ آپؐ پیدا بھی ہو چکے تھے اور اللہ تعالیٰ آپؐ کو نبوّت پر سرفراز بھی فرما چکا تھا اور آپؐ ہی کے ذریعہ اسلام کا غلبہ شروع بھی ہو چکا تھا مگراس کے باوجود یہ آیت بار بار آپؐ پر نازل ہوتی رہی۔
دوسرے یہ کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ایسی پیشگوئیاں جن میں کسی کی صفات کا ذکر ہو وہ صفات ظاہر ہونے تک موقوف بھی ہوتی ہیں خواہ وہ وجود پیدا ہو چکا ہو۔ اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی صفات کا ظہور ممکن نہیں ہوتا۔ ہر صفت اپنے مقام اور وقت پر ہی ظاہر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا ظہور تب قرار پاتا ہے جب پیشگوئی میں اس کی مذکورہ صفات ظاہر ہو جائیں۔اس کی صفات کے ظہور تک اس پیشگوئی کا بار بار ہونا اس کی یاددہانی اور اہمیت کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ موعود بچہ جو پہلے پیدا ہو چکا تھا مگر اس میں یہ صفت اور دیگر صفات کے ظہور پر وہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ پیشگوئی میں مذکور یہ صفات چونکہ اللہ تعالیٰ نے رفتہ رفتہ یا یکے بعد دیگرے اس میں ظاہر کرنی تھیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے فرمایا تھا کہ وہ ’قرب اور وحی‘ کے نتیجے میں ظاہر ہوگا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب از راہِ قرب و وحی اس کا اظہار فرمایا تو آپؓ نے اس کے کلّی طور پر پورے ہونے کا اعلان فرمایا کہ اس تفصیلی پیشگوئی کے ہمہ صفات کے مصداق آپؓ ہی ہیں۔گو اس پیشگوئی سے لے کر اس کے اعلان تک کئی دہائیوں کا عرصہ بیت گیاتھا۔پس یہ کہنا کہ مبشر وجود کی پیدائش کے بعد بشارات نہیں ہوا کرتیں، ایک فرضی اصول ہے جس کا الٰہی پیشگوئیوں سے کوئی تعلق نہیں۔
زکی:اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے لفظ ’زکی‘ پر غور بھی ضروری ہے۔چنانچہ لغت میں زکیٰ کے معنےحلال، پاکیزہ اورخوش انجام کے ہیں۔ لیکن اس کے اصل معنی اُس نمو (یعنی بڑھوتی۔افزونی) کے ہیں جو الٰہی برکت سے حاصل ہوتی ہو۔ اس کا تعلق دنیوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور سے بھی۔حضرت امام راغبؒ لکھتے ہیں:’’لِاَھَبَ لَکِ غُلَامًازَکِیًا(مریم: ۲۰) تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں۔ یعنی وہ خود نہیں بنے گا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے زکی بنائے گا۔یعنی وہ فطرتاً پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کر چکے ہیں بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عالِم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم ومشقت و مشق نہیں بلکہ محض توفیقِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسولوں کے ساتھ ہوا ہے۔ اور آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق کا مالک ہوگا۔ لہٰذا زَکِیًا کا تعلق زمانۂ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے۔‘‘پھر وہ لکھتے ہیں:’’انسان کے تزکیہ ٔنفس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا۔ یہ طریق محمود ہے۔ چنانچہ آیتِ کریمہ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰٮہَا(سورۃالشمس:۱۰) اور آیت قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی۔(سورۃالاعلیٰ:۱۵) میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں۔
دوسرے تزکیہ بالقول ہے۔ جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونے کی شہادت دیتا ہے۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعویٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: لَا تَزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ (سورۃ النجم: ۳۳) اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلاً درست اور نہ ہی شرعاً۔‘‘(مفردات امام راغبؒ۔ زیر لفظ زکٰی)
پس اس تشریح کے مطابق زکی کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔چنانچہ قرآنی حقیقت’’لَا تَزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ (النجم:۳۳)‘‘کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنیادی طور پر اس پیشگوئی کے ظہور کے منظر میں شامل فرمایا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ اس مقامِ زکی پر خود قائم فرمائے گا۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذرّیّت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اُس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریں گے سو اُن دنوں کے منتظر رہو۔‘‘ ( الوصیّت، روحانی خزائن جلد ۲۰، صفحہ ۳۰۶ حاشیہ)
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے قرب سے اس طرح نوازا کہ آپؓ کو ۱۹۰۵ء میں جب کہ آپؓ کی عمر سترہ ۱۷سال تھی، اپنی وحی ’’اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘‘ سے سرفراز فرمایا اوردو سال بعد ۱۹۰۷ء میں فرشتے نے آپؓ کوسورۃ الفاتحہ کی تفسیر سکھائی۔پس مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قربِ الٰہی اور وحی و الہام سے سرفراز ہوناآپؓ کا اس پیشگوئی کے حقیقی مصداق ہونے کی شہادت ہے۔
اس پر مزید قطعی دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انتہائی واضح الفاظ میں تحدّی کے ساتھ یہ اعلان فرمایا تھا کہ ’’دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرانام محمودؔ ہے۔ وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پراس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔‘‘(سبزاشتہار، روحانی خزائن، جلد ۲، صفحہ ۴۵۳ حاشیہ)
یہ الٰہی تقدیر کا واضح اعلان تھا کہ جو بچہ پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی اور اوّل مصداق تھا اسی نے ۹ سال کے عرصہ میں پیدا ہونا تھا۔ اسی بچے کی ایک صفت زکی غلام تھی اور وہ بچہ ہی زکی غلام تھا۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو ا لسلام فرماتے ہیں:’’اَنَّ اللّٰہَ بَشَّرَنِیْ وَ قَالَ سَمِعْتُ تَضَرُّعَاتِکَ وَ دَعَوَاتِکَ وَ اَنِّیْ مُعْطِیْکَ مَا سَأَلْتَ مِنِّیْ وَ اَنْتَ مِنَ الْمُنْعَمِيْنَ۔ وَ مَا اَدْرَاکَ مَا اُعْطِیْکَ آيَةَ رَحْمَةٍ وَّفَضْلٍ وَقُرْبَةٍ وَ فَتْحٍ وَظَفْرٍ فَسَلَامٌ عَلَیْکَ اَنتَ مِنَ الْمُظَفَّرِیْنَ۔ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ عَنْمُوَائِلُ وَبَشِیْرٌ۔ اَنِیْقُ الشَّکْلِ دَقِیْقُ الْعَقْلِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ یَأْتِیْ مِنَ السَّمَاءِ وَ الْفَضْلُ یَنْزِلُ بِنزُوْلِهِ وَ هُوَ نُوْرٌ وَ مُبَارَکٌ وَ طَیِّبٌ وَ مِنَ الْمُطَهَّرِیْنَ۔ فَسَیُعْطٰیْ لَکَ غُلَامٌ زَكِیٌّ مِنْ صُلْبِکَ وَ ذُرِّیَّتِکَ وَ نَسْلِکَ وَ یَكُوْنُ مِنْ عِبَادِنَا الْوَجِیْهِیْنِ۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن،جلد ۵،صفحہ ۵۷۷)کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی اور فرمایا: میں نے تیری تضرّعات اور دعاؤں کو سنا اور جو تُو نے مجھ سے مانگا وہ میں تجھے دوں گا اور تو مُنعَم علیہ گروہ میں سے ہو گا۔ اور جو میں تجھے دوں گا وہ رحمت اور فضل اور قربت اور فتح اور ظفر کا ایک نشان ہوگا۔ پس تجھ پر سلام تو فتح نصیب ہے۔ میں تجھے ایک بیٹے کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام عنموایل اور بشیر ہے۔ وہ خوبصورت شکل، گہری عقل والا(سخت ذہین) اور مقرّبوں میں سے ہوگا۔ وہ آسمان سے آئے گا اور اس کے نزول کے ساتھ فضل کا نزول ہوگا۔ وہ نور ہے، مبارک ہے، طیّب ہے اور پاک لوگوں میں سے ہے۔…پس میں تجھے عنقریب ایک زکی بیٹا عطا کروں گا جو تیری صلب اور تیری ذرّیّت اور تیری نسل میں سے ہوگا اور وہ ہمارے مقبول بندوں میں سے ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں جہاں یہ لکھا ہے کہ وہ موعود زکی بیٹا جو آپؑ کی صلب، ذرّیّت اور نسل میں سے ہوگا، وہاں حاشیہ میں اس پیشگوئی کے حوالہ سےیہ وضاحت بھی فرمائی ہے :’’قَدْ اَخْبَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنَّ الْمَسِیْحَ لْمَوعُوْدَ یَتَزَوَّجُ وَ يوُلَد لَهُ۔فَفِی هَذَا اِشَارَةٌ اِلٰى اَنَّ اللّٰہَ یُعْطِیْهِ وَلَدًا صَالِحًا یُشَابِهُ اَبَاهُ وَلَا یَأْبَاهُ وَ یَكُوْنُ مِنْ عِبَادِ اللّٰہِ الْمُكْرَمِيْنَ۔وَالسِّرُّ فِی ذٰلِكَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُبَشِّرُ الْأَنْبِیَاءَ وَ الْأَوْلِیَاءَ بِذُرِّیَّةٍ اِلَّا اِذَا قَدَرَ تَوْلِيْدَ الصَّالِحِیْنَ۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن،جلد۵، صفحہ۵۷۸) کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ جو خبر دی ہے کہ مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہوگی۔اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک ایسا بیٹا عطا فرمائے گا جو صالح ہوگا اور اپنے باپ سے مشابہ ہو گا، اس کے خلاف نہیں ہوگا اور وہ اللہ کے تکریم یافتہ بندوں میں سے ہوگا۔اس میں بھید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاءؑ اور اولیاءؒ کوتبھی ان کی ذرّیّت کی بشارت دیتا ہے جب کہ ان کا صالح ہونا مقدّر ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ میں اس پیشگوئی کی تفصیل میں رسول اللہﷺ کی پیشگوئی میں مذکور مسیح موعود کی شادی اور اس بیوی سے اولاد کے ذکر کو اپنے اس موعود بیٹے سے تعبیر فرمایاہے۔پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ شادی کی پیشگوئی مسیح موعود سے منسلک ہو اور اس شادی سے موعود اولاد آپؑ کی مقرر کردہ تعبیر کے مطابق نہ ہو مگر سو سوا سو سال کے بعد کسی اور کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد موعود قرار دے دی جائے۔ ایسا استدلال کرنے والا آپؑ کے منشاء کے خلاف تو ہے ہی مگر لازمًا صاحبِ عقل نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کی اولاد جو آپؑ کی اس موعودہ شادی کے ذریعہ ہونی تھی، اسی زوجہ کے بطن سے وہ موعود بیٹا بھی پیدا ہونا تھا جس کی ایک صفت پیشگوئی میں زکی غلام قرار دی گئی تھی۔ آپؑ کی بیان فرمودہ توجیہ کے ہوتے ہوئے اس کے علاوہ اور کوئی شخص اس کا مصداق قرار دینا ممکن نہیں ہے۔
الغرض جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حدیث کے مطابق اپنی شادی اور اس کے نتیجہ میں آپؑ کی نسل،ذرّیّت، صُلب اور تخم میں پیدا ہو نے والے بچے کو معیّن، مختص اور محصور کر دیا ہے توکوئی اسے آپؑ کی پیش فرمودہ تشریح سے باہر نہیں نکال سکتا۔
۳:غلام اور بیٹا، دو الگ الگ شمار ہوتے ہیں۔یعنی اس پیشگوئی میں’بیٹا‘ ایک الگ وجود ہے اور’غلام‘ الگ۔ پس یہ ’غلام‘ آپؑ کی ذرّیّت سے نہیں ہونا تھا۔
معترض نے اعتراض تو کیا ہے مگر وہ اس حقیقت سے قطعی طور پر ناآشنا ہے کہ غلام عربی کا لفظ ہے اور بیٹا اردو کا اور دونوں کا معنیٰ ایک ہی ہے یعنی بیٹا اور فرزند۔
درج ذیل آیاتِ قرآنیہ میں دیکھیں کہ غلام اور بیٹا یا لڑکا کے الفاظ ایک ہی معنیٰ اور مطلب میں یعنی بیٹے کے معنوں میں آئے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان الفاظ میں بیٹے کی بشارت دی: اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ (الحجر: ۵۴) کہ ہم تجھے ایک صاحبِ علم بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام سے فرمایا:اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ(مریم :۸) کہ ہم تجھے ایک بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔یہاں حضرت زکریاؑ کا صلبی بیٹا ہی مراد ہے۔اورحضرت مریم ؑسے فرشتے نے کہا: لِاَهَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا۔قَالَتْ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ(مریم:۲۰-۲۱)۔یہاں بھی لفظ غلام،لڑکے اور بیٹے کے معنوں میں یعنی صلبی بیٹے ہی کے لیے وارد ہوا ہے۔اس کے سوا یہاں اس کے کوئی اور معنے نہیں ہیں۔قرآن کریم کے اس اسلوب سے یہ واضح اصول اور قاعدہ مرتّب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی خاص بندے کو ’’غلام‘‘کی خبر دیتا ہے تو اس سے مراد اس کا حقیقی اور صلبی بیٹا مراد ہوتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد ہم معترض سے پوچھتے ہیں کہ وہ قرآن کریم میں بیان شدہ حضرت ابراہیم، حضرت زکریا اور حضرت مریم علیہم السلام کو جو’غلام‘ کی خوشخبریاں دی گئی ہیں، ان کے مطابق ان کو بیٹے تو عطا ہوئے، مگر ان کے غلام کہاں گئے؟ کیونکہ معترض کے مطابق یہ دونوں الگ الگ وجود ہوتے ہیں!!
بہرحال اللہ تعالیٰ نے اپنے اس اصول کے مطابق اور انہی قرآنی الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام سے فرمایا:اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلاَمٍ حَلِیْمٍ۔(الہام اکتوبر۱۹۰۷ء) کہ ہم تجھے ایک حلیم بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں۔پھریہ بھی الہام ہوا:سَاَھَبُ لَکَ غُلَامًا زَکِیًا۔(الہام مورخہ۶-۷؍نومبر ۱۹۰۷) کہ میں تجھے ایک پاک بیٹاعطا کروں گا۔
ان الہامات میں غلام کے عطا ہونے کا جو ذکر ہے وہ قرآن کریم کے الفاظ میں غلام یعنی بیٹے کے معنوں میں ہے۔لہٰذا اس سے اس موعود کے علاوہ کوئی اور مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ پس یہ آپؑ کا وہ موعود بیٹا ہے جو پیشگوئی مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مذکور ہے۔اس کے علاوہ کسی اور پراوّل طور پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ہاں اگر اس موعود بیٹے کے بعد آپؑ کی دُور کی نسل سے بیٹے لیے جائیں تو وہ ثانوی طور پر ضرور ان الہامات کے مصداق ہو سکتے ہیں۔
معترض کے اعتراض اس حقیقت کے سامنے بھی سرنگوں ہیں کہ پیشگوئی میں مذکور پچاس سے زیادہ صفات یا نشانیاں ایک ہی وجود کے لیے ہیں تو ان میں سے ایک نشانی یا صفت کو الگ کرلینا کسی معقول قاعدہ کلیہ کے تحت نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ زکی غلام والی نشانی اور صفت کے حقیقی مصداق اور مورث مصلح موعود حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدّین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کوئی نہیں۔
(ہادی علی چودھری۔ مدیراعلیٰ احمدیہ گزٹ کینیڈا)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت قمر الانبیاء ؓکی یاد