کلام حضرت مسیح موعود ؑ

اوصافِ قرآنِ مجید

نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَجلیٰ نکلا
پاک وہ جس سے یہ اَنوار کا دریا نکلا

حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا
ناگہاں غیب سے یہ چشمۂ اَصفٰی نکلا

یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اِک عالَم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اِس میں مہیا نکلا

سب جہاں چھان چکے ساری دُکانیں دیکھیں
مے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا

کس سے اُس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا

پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اِک لفظ مسیحا نکلا

ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور
ایسا چمکا ہے کہ صد نَیِّرِ بَیْضا نکلا

زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اِس دنیا میں
جن کا اِس نور کے ہوتے بھی دِل اعمیٰ نکلا

جلنے سے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیں
جن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا

(براہینِ احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول صفحہ۳۰۵۔۳۰۶)

مزید پڑھیں: محاسنِ قرآنِ کریم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button