حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍اور ۱۴؍فروری ۲۰۲۵ء میں غزوہ خیبر کا ذکر فرمایا۔ خطبہ میں مذکور مقامات کا مختصر تعارف پیش ہے۔
خیبر: وادی خیبر ایک وسیع سبزہ زار ہے جو چشموں اور بکثرت پانیوں سے شاداب ہے اور عرب میں کھجوروں کے سب سے بڑے باغات میں شمار کیا جاتا ہے۔ خیبر مدینہ سے شمال کی جانب اندازاً ۱۸۰؍کلومیٹر کی دُوری پر تھا۔عہدنبویﷺ میں خیبر کے علاقوں کو آج خیبر القدیمة کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ موجودہ دَور میں آباد خیبر شہر ،اس قدیم حصہ سے ملحق ہے۔خیبر میں یہود بہت قدیم سے آباد تھے اور انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر مضبوط قلعے بنائے ہوئے تھے۔ خیبر کی تین وادیاں تھیں جن میں یہود کے متعدد قلعے بنے ہوئے تھے۔پہلے حصے کو النطاة کہتے تھے۔جس میں تین بڑے قلعے تھے۔۱۔ حصن ناعم۲۔ حصن صعب بن معاذ۳۔ حصن قلّہ؍زبیر بن العوام۔


دوسرے حصے کو الشقّ کہتے تھے۔ الشق کو موجودہ دور میں الروان کہتے ہیں۔ اس میں دو قلعے تھے۔ ۱۔حصن اُبی۲۔ حصن بَرِی؍ النزار۔
تیسرے حصے کو الکتیبة کہتے تھے۔ اس میں تین قلعے تھے۔۱۔ حصن قموص۲۔حصن وطیح ۳۔حصن سلالم۔قلعوں اور وادیوں کےناموں اور تعداد میں اختلاف موجود ہے۔
جنگ سے پہلے جس جگہ رسول اللہﷺ نے قیام فرمایا وہاں سے حصن صعب زیادہ نزدیک تھا لیکن مسلمانوں نے پہلے یہود کے سب سے مضبوط اور ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے قلعہ حصن ناعم پر ضرب لگانی مناسب سمجھی جس کی کمان مرحب کے اپنے ہاتھ میں تھی۔ جب یہ قلعہ فتح ہوگیا تو یہود کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد سوائے قموص کے باقی قلعے جلد فتح ہوتے گئے۔روایات کے مطابق معلوم ہوتا ہےکہ رسول اللہﷺ کو ایک یہودی سے معلوم ہوا کہ الشقّ کے قلعوں میں منجنیق بھی موجود ہیں۔ اس لیے النطاة کی فتح کے بعد آپﷺ نے الشقّ پر حملہ کیا۔وہاں قلعوں سے منجنیقیں حاصل کی گئیں اورحصن قموص پر حملہ کرنے میں ان کو استعمال کیا گیا۔


عصر حاضر میں یہود کے قلعوں اور گھروں کے کھنڈرات ہمیں خیبر القدیمہ میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ کھجوروں کےوسیع باغات موجود ہیں۔پانی کے چشمے بھی رواں دواں ہیں۔ یہود کے قلعوں کے آثارپہاڑوں کی چوٹیوں پر ملتےہیں۔روایات کے مطابق بعض قلعوں کی تین طرح کی چار دیواری تھی۔بلندی پر ہونے اور بلند و بالا فصیلوں کی موجودگی میں بظاہر یہ قلعے ناقابل تسخیر معلوم ہوتے تھے۔ اسی لیے یہود کو ان پر بہت غرور تھا۔اللہ تعالیٰ کی خاص تائید سے رسول اللہﷺ کو کامیابی حاصل ہوئی۔ موجودہ دور میں سعودی حکومت کی طرف سے خیبر القدیمہ کے اطراف میں باڑ لگا کر علاقے کو محفوظ کیا گیا ہے۔ سیاحت کرنے والے ایک قریبی ہوٹل تک جا کر اوپر سے نظارہ کرتے اور پھر گائیڈ کی مدد سے اندر کے علاقے تک جاتے ہیں۔چند قلعے کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں۔


صھباء: رسول اللہﷺ نےخیبر کی طرف جاتے ہوئے اور واپسی پر صھباء مقام پر قیام فرمایا۔ یہ مقام خیبر القدیمہ سے چندکلومیڑ قبل ایک جگہ ہے۔ عاتق بلادی مصنف معجم المعالم الحجاز کے مطابق رسول اللہﷺ نے جبل عطوہ کے بعد میدان کے دامن میں قیام فرمایا تھا۔ یہی صھباء مقام تھا۔ یہیں غزوہ سے واپسی پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہؓ سے عقد فرمایا۔
سوق المنزلہ: صھباء سے چلنے کے بعد رسول اللہﷺ خیبر کے قریب ایک بازار ‘‘المنزلہ ’’ میں اترے۔یہ جگہ یہود کے قلعوں کے بہت قریب تھی۔ پھر حضرت حباب بن المنذرؓ کے مشورے سے اس سے اسلامی لشکر رجیع مقام کی طرف چلا گیا۔ المنزلہ کو موجودہ دور میں سوق الشریف کہتے ہیں۔ جنگ کے بعد یہ بازار حضرت زید بن ثابتؓ کے حصہ میں آیا۔

رجیع: حضرت حباب بن المنذرؓ کے مشورہ سے اسلامی لشکر کا کیمپ رجیع مقام پر لگایا گیا۔ موجودہ نقشہ میں رجیع سے موسوم مقام موجودنہیں ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ غزوے میں شہید ہونے والے صحابہ کورجیع میں ہی دفن کیاگیا تھا۔ خیبر القدیمہ کے دائیں طرف نسبتاً کھلی وادی ہے۔ یہیں پر شہدائے خیبر کا مقبرہ بھی ہے۔ غالباً اسی جگہ کو رجیع کہا جاتا تھا اور یہیں اسلامی لشکر کا قیام تھا۔ اس جگہ قیام سے مسلمان لشکر اہل خیبر اور غطفانی قبائل کے درمیان حائل ہو گئے اور وہ یہود کی مدد نہ کر سکے۔ غطفانی قبائل خیبر کے مشرق میں نجد میں آباد تھے۔اسی طرح اہل خیبر کے لیے شام سے مدد مانگنے کا رستہ بھی مسدود ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خواتین کا عالمی دن اور اس کی اہمیت