متفرق مضامین

حضرت قمر الانبیاء ؓکی یاد

(’ابو لطفی‘)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو قریب سے دیکھنے کا عاجز کو موقع ملا ہے۔ آپؓ خاموش، نرم اور نفیس طبیعت کے بزرگ تھے۔ الہامی نام قمر الانبیاء کے عین مطابق آپ کی دھیمی دھیمی روحانی روشنی دل آویز تھی

آج سے قریباً ۶۹؍سال قبل ۱۹۵۶ء کے رمضان المبارک کی ۲۹؍تاریخ کو ربوہ کی مسجد مبارک ہزاروں افراد سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی جو درس القرآن کے اختتام پر اجتماعی دعا کے لیے تشریف لائےتھے۔
دعا سے قبل حضرت قمر الانبیاء – حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ، امیر مقامی نے قرآن کریم کی آخری دو سورتوں (معوذتین) کی لطیف تفسیر بیان فرمائی۔ ان دنوں حضرت مصلح موعودؓ مری میں قیام پذیر تھے۔

قمر الانبیاءحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ


پُرمعارف درس کے بعد حضرت میاں صاحبؓ نے اجتماعی دعا کرائی جو اگرچہ قریباً بیس منٹ جاری رہی مگر اُس میں اِس قدر جذب کی کیفیت تھی کہ ذرا اکتاہٹ محسوس نہ ہوتی تھی بلکہ روحانی سرور اور لذت سے دل و دماغ معطر و معمور تھے۔ خاکسار کو بھی اس موقع پر موجود ہونے کی بفضلہ تعالیٰ سعادت نصیب ہوئی۔ ایک دل آویز سماں تھا۔دل دنیا سے پوری طرح منقطع ہوکر آستانہ الوہیت پر سجدہ ریز تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس عاجز کو شدت سے احساس ہوا کہ اس وقت اس محفل میں اللہ تعالیٰ کا نزول ہوا ہے اور دل بے قرار ہوگیاکہ نزول باری تعالیٰ پر ہمیں سجدہ ریز ہوجانا چاہیے۔ دعا جاری تھی، عاجز بھی دعا کررہا تھا مگر دل بے چین تھا کہ جبکہ اس محفل میں خدا تعالیٰ نے نزول فرمایا ہے تو ہمیں اس کے لیے سجدہ میں گرجانا چاہیے۔عاجز اسی کیفیت میں تھا کہ حضرت میاں صاحبؓ نے اللہ اکبر کہا اور سجدہ میں گر گئے۔ آپؓ کی اقتدا میں سب حاضرین بھی سجدہ ریز ہوگئےاور سجدے کی حالت میں کچھ دیر دعا جاری رہی،جس کے بعد اللہ اکبر کی صدا پر سجدے سے اٹھ کر پھر آمین کے بعد یہ پُر کیفیت دعا اختتام پذیر ہوئی۔الحمدللہ
بہت عرصہ ہوا عاجز نے یہ واقعہ ایک موقع پر بیان کیا، جس کے بعد جماعت کے ایک علم دوست بزرگ ’’حوالوں کے بادشاہ‘‘ (مولانا دوست محمد شاہد صاحب) کا خاکسار کو فون آیا۔ کہنے لگے کہ فلاں جماعت کے فلاں دوست آپ سے ملنے آئے ہیں؟ عاجز نے عرض کی نہیں تو! فرمانے لگے وہ میرے پاس آئے تھے اور کہا کہ کل جو واقعہ بیان کیا گیا تھا اس کا آپ کو علم ہے کہ ایسا واقعہ ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو اس کا علم نہیں۔مگر ان کے چلے جانے کے بعد میں نے الفضل کے پرانے فائل دیکھے تو اس واقعہ کی تصدیق ہوئی، میں آپ کو اس پرچے کی فوٹو کاپی بھجوارہا ہوں۔ وہ کاپی اب بھی خاکسار کی فائل میں ہے۔
پھر وہ صاحب واقعی عاجز کے غریب خانہ پر آئے۔ خاکسار انہیں نہیں جانتا تھا۔جب انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو خاکسار سمجھ گیا کہ یہ وہی دوست ہیں۔ کہنے لگےمیرے خیال میں عملًا کو ئی ایسا واقعہ نہیں ہوا ہوگا بلکہ آپ نے ایسا کوئی نظارہ دیکھا ہوگا۔ عاجز نے ان کی ساری بات سنی پھر ان کے سامنے الفضل مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۵۶ء کی فوٹو کاپی رکھ دی۔ ملاحظہ فرمانے کے بعد کہنے لگے ٹھیک ہے میری تسلی ہوگئی ہے۔
(۲)حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو قریب سے دیکھنے کا عاجز کو موقع ملا ہے۔ آپؓ خاموش، نرم اور نفیس طبیعت کے بزرگ تھے۔ الہامی نام قمر الانبیاء کے عین مطابق آپ کی دھیمی دھیمی روحانی روشنی دل آویز تھی۔ بہت دفعہ آپ سے مصافحہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ روحانی بصیرت بہت گہری تھی۔
حضرت اماں جانؓ کی تشویشناک علالت اور بعد میں ۲۰؍اپریل ۱۹۵۲ء کو وفات کے مواقع پر حضرت میاں صاحبؓ نے الفضل میں کچھ نوٹس لکھے تھے۔ سب پڑھنے کے لائق ہیں۔ایک نوٹ میں آپ نے حضرت اماں جانؓ کی وفات کے بعد آنے والے رمضان کے مبارک مہینہ میں جماعت کو پانچ دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی تھی۔ خاکسار ان ایام میں لاہور میں F.Scکا طالبعلم تھا۔ اس نوٹ میں مذکور دعاؤں میں سے دوسری اور تیسری یہ تھیں:
(۲) ’’حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی اید ہ اللہ تعالیٰ کی صحت اور لمبی عمر اور بیش از پیش ترقی کی دعا‘‘
(۳) ’’اگر حضرت ام المومنین اَدَامَ اللّٰہُ فُیُوْضَھَا کی وفات کے ساتھ خدا تعالیٰ کی کسی اور تلخ تقدیر کی تاریں لپٹی ہوئی ہیں تو اس تلخ تقدیر سے جماعت کی حفاظت کی دعا۔‘‘(روزنامہ الفضل لاہور۔ ۲۴؍مئی ۱۹۵۲ء)
چنانچہ وہ تلخ تقدیر ظاہر ہوئی۔ حضرت اماں جانؓ کی وفات ۱۹۵۲ء میں ہوئی اور اگلے ہی سال۱۹۵۳ء میں جماعت کے خلاف ملک میں فساد برپا ہوا۔ پھر۱۹۵۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ پر حملہ ہوا۔ ہر دو مواقع پر انجام کار اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی۔ حضرت مصلح موعودؓ کو حملے کے بعد گیارہ سال تک حیات رکھا۔ جماعت کو اس تلخ تقدیر میں محفوظ رکھا اور عالمی طورپر عظیم ترقیات عطا فرمائیں۔
(۳)حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ  کی وفات جلسہ سالانہ ربوہ کے ایام میں ۲۶؍دسمبر ۱۹۶۱ء کو ہوئی تھی۔ اس موقع پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے الفضل میں ایک نوٹ لکھا تھا۔ جس میں آپؓ نے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ مرحوم و مغفور کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ کے مندرجہ ذیل چار الہام درج فرمائے:
(i) ’’عَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ‘‘
(ii) ’’اب تُو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں‘‘
(iii) ’’اس نے قاضی بننا ہے‘‘
(iv) ’’وہ بادشاہ آیا‘‘
یہ الہامات اور ان میں سے بعض کی تشریح بیان کرنے کے بعد لکھا:’’دراصل یہ چاروں الہام جو اوپر درج کیے گئے ہیں عزیزم میاں شریف احمد صاحب کی ذاتی زندگی اور ذاتی سیرت کے مختلف پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے نازل ہوئے تھے۔ مگر تعجب نہیں کہ آگے چل کر ان کی نسل میں ان مکاشفات کے بعض ظاہری پہلو بھی رونما ہوں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی بات خدا کی طرف سے ظاہر کی جاتی ہے وہ بعض اوقات اس کی بجائے اس کی اولاد یا نسل میں پوری ہوتی ہے، جیسا کہ ہمارے آقا آنحضرتﷺ نے اپنے ہاتھ میں قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دیکھیں، مگر آپﷺ ان کنجیوں کے ملنے سے پہلے ہی فوت ہوگئے اور یہ کنجیاں آپؐ کے خلفاء اور روحانی فرزندوں کے ہاتھ میں آئیں۔ یا جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے ابو جہل کے ہاتھ میں جنت کے انگوروں کا خوشہ دیکھا، مگر ابو جہل کفر کی حالت میں ہی مرگیا اور یہ بشارت اس کے لڑکے حضرت عکرمہ میں پوری ہوئی۔ یا جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ مکہ فتح ہوا ہے اور حضورﷺ نے مکہ کا انتظام اُسَید کے سپرد کیا ہے۔ مگر اُسَید آپ ﷺ کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا، اور آپﷺ نے مکہ فتح ہونے پر اس کے بیٹے عتاب بن اُسَید کو مکہ کا حاکم مقرر کیا۔ یہ قدرت خداوندی کے عجائبات ہیں جن سے روحانی دنیا معمور نظر آتی ہے۔اور خدا اپنے مصالح کو بہتر سمجھتاہے۔‘‘(الفضل ۹؍جنوری ۱۹۶۲ء)
حضرت میاں صاحبؓ  کایہ نوٹ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مبارک ذات میں بڑی شان سے پورا ہوا جس کے ہم سب شاہد ہیں۔ الحمد للہ علیٰ ذٰلک
ضمناً عرض ہے کہ عاجز کو حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ سے بھی بارہا ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ہم جب B.Scکے زمانے میں کالج سے فزکس کا پریکٹیکل کرنے کے بعد عصر کے قریب واپس آرہے ہوتے تو قریباً روزانہ ہی حضرت میاں صاحبؓ پیدل دارالیمن جارہے ہوتے، میرے ساتھ بعض اوقات خاکسار کے ایک گہرے دوست بھی ہوتے ( جو آج کل جماعت میں عمدہ خدمت بجالارہے ہیں)، ہم حضرت میاں صاحبؓ  کو سلام عرض کرتے اور آپ ؓ جواباً وعلیکم السلام فرماتے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۴)حضرت قمر الانبیاءؓ کی سیرت میں نازک معاملات میں انتہائی احتیاط کا پہلو بڑا نمایاں تھا۔ ایک دفعہ خاکسار مسجد مبارک میں نماز عصر ادا کرکے جب باہر جانے کے لیے مسجد کے صحن میں آیا تو حضرت میاں صاحبؓ مسجد میں داخل ہورہے تھے اور ساتھ ہی کچھ اور احباب بھی داخل ہوئے۔ ان احباب نے حضرت میاں صاحبؓ سے عرض کی کہ آپ ؓ ہمیں عصر کی نماز پڑھا دیں۔ حضرت میاں صاحبؓ  کی طبیعت میں بہت انکسار تھا۔ بالعموم نمازوں میں امامت نہیں کراتے تھے۔آپ خاموش رہے۔خاکسار وہاں دیکھنے کے لیے ٹھہر گیا۔احباب نے اصرار کیا تو فرمایا اچھا پھر صف کو مسجد سے باہر لے چلو۔ احباب ایک صف مسجد سے باہر لے گئے اور وہاں حضرت میاں صاحبؓ نے امامت کرائی۔جب نماز شروع کی تو خاکسار وہاں سے چلا آیا۔
حضرت قمر الانبیاء ؓ کو الرفیق الاعلیٰ کے پاس گئے سال ہا سال ہوچکے مگر ان کی یاد اب بھی دل میں بالکل تازہ ہے۔ آپ سے بہت دفعہ مصافحہ کا شرف حاصل ہوا۔الحمد للہ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیتِ اولاد

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button