دورِ حاضر کی ’’نہی عن المعروف ‘‘کی مہم اور اس قومی المیہ کاخطرناک انجام!(قسط اوّل)
نمازیا جمعہ یا عید کی نما ز جیسی اعلیٰ عبادت اورنیکی سے روکنا نہ صرف گناہ کبیرہ
بلکہ ایک قومی گناہ ہے جس سے باز نہ آنے کی سخت وعید ہے
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
(اکبر الٰہ آبادی)
قارئین بھی حیران تو ہوں گے کہ ہمیشہ سے ’’امر بالمعروف‘‘ یعنی نیکی کا حکم دینے کا محاورہ توسنتے آئے،یہ نہی عن المعروف (نیکی سے روکنا) کیسی اصطلاح ہوئی؟ اس میں حیرانی کی بات نہیں آجکل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہی الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے۔
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
جیسا کہ آپ کے مؤقر جریدہ انٹر نیشنل الفضل کے ۲۴؍مارچ ۲۰۲۵ء کے شمارہ میں جماعت احمدیہ کی شائع شدہ پریس ریلیز سے ظاہر ہے کہ اسلام پورہ لاہور اور رائےونڈ سٹی تھانہ لاہور میں درجنوں احمدیوں کے خلاف نماز جمعہ( جیسی اعلیٰ درجے کی نیکی) ادا کرنے پر مقدمہ کرنے کے لیے دھرنا دیا گیا۔اور کئی احمدی خانہ ہائے خدا کے باہر نماز سے روکنے اورمساجد کو سیل کرنے کے مطالبے کیے جارہے ہیں۔ ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ میں ۲۱؍احمدیوں بشمول ۱۵؍سالہ متعلم جماعت نہم نےنماز جمعہ ادا کرنے کے جرم میں رمضان کا مہینہ سیالکوٹ جیل میں گزارا۔ چک۷۱۔جنوبی سرگودھا کے ۲۳؍احمدی جمعہ پڑھنے کے جرم میں مسلسل عدالت میں تاریخیں بھگت رہے ہیں۔کراچی میں ۷۵؍سے زائد احمدیوں کے خلاف جمعہ کےدن عبادت کرنے پر مقدمات درج ہیں۔اور ۲۸؍احمدیوں کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔(پریس ریلیز امور عامہ مورخہ۳؍مارچ ۲۰۲۵ء )
ابھی یہ روح فرساخبر ہضم نہ ہونے پائی تھی کہ عیدالفطر کےموقع پر ۳۱؍مارچ ۲۰۲۵ کو پاکستان کے احمدیوں کو پنجاب اور سندھ کے متعدد مقامات پر نمازعید کی عبادت سے جبراً روک دیا گیا۔پنجاب میں راولپنڈی اور لاہور کےعلاوہ شیخوپورہ اور ساہیوال میں ایسے واقعات ہوئے۔ سندھ اورکراچی کےتھانہ سرسیداور عزیزآباد کےاحمدیوں کو اجتما ع عید سے روکتے ہوئے احمدی عبادت گاہوں کو غیر قانونی طور پر سیل کردیا گیا جو نہ صرف آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۰ کے خلاف ہے بلکہ چاردیواری میں احمدیوں کومذہب پر عمل کرنے سے روکنا سپریم کورٹ کے فیصلہ کےبھی خلاف ہے۔(پریس ریلیز مورخہ۳۱؍مارچ ۲۰۲۵ء) إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔
احمد یوں کو عبادت خداوندی سے روکنے والے مذہبی تشدد پسند گروہ اوران کے سرکردہ لوگوں کا تعلق جس گروہ سے بھی ہے ایک بات واضح ہے کہ اسلام اور بانی اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جیسا کہ ان کے عمل سے ظاہر ہے یہ وہی گروہ ہے جس کی خبر ہمارے آقاومولا حضرت محمد مصطفیٰ ؐنے دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائےگا قرآن کے حرف باقی رہ جائیں گے۔ مساجد بظاہر آباد لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ان سے ہی فتنے نکلیں گے اور انہی میں داخل ہوجا ئیں گے۔(مشکاۃ المصابیح کتاب العلم)
زبان سے ’’لبیک یا رسول اللہ !‘‘کا نعرہ لگا کرآج مساجد کے مینار گرانے والے اور خانۂ خدا اور قرآن اور نمازوں سے مزموم طریق پر روکنے والے یہ وہی امتی ہیں جو ’’رسوائی پیغمبر‘‘ ہیں۔ جن کے حالات اور نمونوں کی خبر پاکریقیناً روحِ رسولؐ بھی پکار اُٹھی ہوگی قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا (الفرقان: ۳۱) یعنی رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ وہ قرآ ن جس میں خالق کائنات فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات:۵۷)میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔تو پھر اس خالق کی عبادت سے روکنے والی یہ کیسی مخلوق ہیں؟ کیا یہ مسلمان کہلا سکتے ہیں؟
اسلام کا خدا تو ربّ العالمین ہے جس نےتمام مذاہب یہودی،عیسائی وغیرہ کی عبادت گاہوں کی غیر مشروط حفاظت کی ذمہ داری لیتےہوئے فرمایا :وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيرًا(الحج:۴۱) یعنی اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور جہاں تک مساجد سے روکنے والوں اور ان کو ویران کرنے والوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو سخت عذاب کی تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّٰهِ أَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَسَعٰى فِي خَرَابِهَا أُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَّدْخُلُوْهَآ إِلَّا خَآئِفِيْنَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۔(البقرہ:۱۱۵)اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے منع کیا کہ اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام بلند کیا جائے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کی (حالانکہ) ان کے لیے اس کے سوا کچھ جائز نہ تھا کہ وہ ان (مسجدوں) میں ڈرتے ہوئے داخل ہوتے ان کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بہت بڑا عذاب (مقدر) ہے۔
پس یہ لوگ جو قرآن اور معبود حقیقی کے بندوں کو اس کی عبادت سے روکتے ہیں کیا یہ خالق کائنات سے اعلانِ جنگ نہیں؟یہ لوگ کوئی بھی ہوں خواہ مذہبی تشدّدپسند گروہ ہو یا ان کی آڑ میں کچھ حکومتی سرپرست ان سب کو اللہ تعالیٰ مجرم قرار دیتے ہوئے واضح اعلان کرتا ہے کہ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيْهَا لِيَمْكُرُوْا فِيْهَا وَمَا يَمْكُرُوْنَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (الانعام:۱۲۴) یعنی اور اسى طرح ہم نے ہر بستى مىں اس کے مجرموں کے سرغنے بنائے کہ وہ اس مىں مکروفرىب سے کام لىتے رہىں اور وہ اپنى جانوں کے سوا کسى سے مکر نہىں کرتے اور وہ شعور نہىں رکھتے۔ اور ان کی تمام بڑی سازشوں اور مکروں کو پامال کرنے کا وعدہ خدائے عزیز و ذوالانتقام خود کرتے ہوئے فرماتا ہے:وَقَدۡ مَکَرُوۡا مَکۡرَہُمۡ وَعِنۡدَ اللّٰہِ مَکۡرُہُمۡ ؕ وَاِنۡ کَانَ مَکۡرُہُمۡ لِتَزُوۡلَ مِنۡہُ الۡجِبَالُ۔فَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰہَ مُخۡلِفَ وَعۡدِہٖ رُسُلَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ۔ (ابراهيم:۴۷-۴۸) اور انہوں نے (مقدور بھر) اپنا مکر کر دىکھا اور اُن کا مکر اللہ کے سامنے ہے خواہ اُن کا مکر اىسا ہوتا کہ اس سے پہاڑ ٹل سکتے،پس تو ہرگز اللہ کو اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدوں کى خلاف ورزى کرنے والا نہ سمجھ ىقىناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) اىک سخت انتقام لىنے والا ہے۔
خودرسول کریمؐ نے بھی اپنی امت کےا س بگاڑ کے پیدا ہونےکی واضح خبریں دی تھیں جو دورِحاضر میں پوری ہورہی ہیں۔آپؐ نے مسلمانوں کو یہود کے مشابہ ہونے کی پیشگوئی کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری امت کے ساتھ بھی وہی کچھ پیش آئے گاجو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آیا تھا۔بالکل اسی طرح جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کےبرابر ہوتا ہے۔یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی شخص نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ طور پر زنا کیا تھا، تو میری امت میں بھی کوئی ایسا شخص ہوگا جو ایسا کرے گا اور بنی اسرائیل ۷۲؍فرقوں میں تقسیم ہوئے تھے اور میری امت ۷۳؍فرقوں میں تقسیم ہو گی۔ ایک گروہ کے علاوہ باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ لوگوں نے دریافت کیا: وہ کون لوگ ہوں گے؟ یا رسول اللہ ! (جو جنت میں جائیں گے؟) تو نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : جو اس راستے پر چلیں گے جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں۔ ( سنن ترمذی كتاب الإيمان باب مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الْأُمَّةِ)
آج یہود کی وہی تاریخ پھر سے نام نہاد مسلمانوں میں دہرائی جا رہی ہے۔اور ہماری قوم بجائے نیکیوں کی تحریک کے نمازاورجمعہ کی نیکی اور عید کی عبادت سے روک رہی ہے۔اقبال نے سچ ہی توکہا تھا۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
رسول کریمؐ نے عمداً نماز چھوڑنے والے کو کافر قرار دیا۔(مجمع الزوائد جلد۲ صفحہ۲۶) اور نماز جمعہ ادا نہ کرنے کو ایک ایسا گناہ بیان فرمایا جس کے نتیجے میں حسب فرمان نبویؐ دل پر مہر لگ جاتی ہے اور کئی بار جمعہ نہ پڑھنے کے نتیجے میں سارا دل تاریک اور سیاہ ہوجاتا ہے۔(صحیح مسلم کتاب الجمعه باب التَّغْلِيظِ فِي تَرْكِ الْجُمُعَةِ)جمعہ نہ پڑھنے والے کے خلاف رسول اللہ ؐنے یہ دعا کی کہ فَلَا جَمَعَ اللّٰهُ لَهُ شَمْلَهُ۔(سنن ابن ماجه كتاب إقامة الصلاة والسنة بَابٌ في فَرْضِ الْجُمُعَةِ)کہ اللہ اس کے بکھرے کام کبھی نہ سمیٹے۔ یعنی اس کے ان کاموں میں بےبرکتی ہو جن کی وجہ سے جمعہ چھوڑدیا۔
لیکن پاکستان میں رمضان میں نما زیا جمعہ ترک کرنے والوں کو کوئی نیکی کی تحریک کرتا تونظر آئے یا نہ، نماز اور جمعہ ادا کرنے والے بہت ہیں جو بے چارے مظلوم احمدیوں کو جمعہ،نمازوں اور عید کی عبادات سے مسلسل روک رہے ہیں بلکہ اس کی بنا پر مسلسل مقدمات سے احمدیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
یہ ہے وہ قومی المیہ اور لمحۂ فکریہ جس کی ’’ذمہ داروں‘‘ کو کوئی فکر نہیں۔ حالانکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا مسلم امہ کا وہ عظیم الشان امتیاز اورفخر تھا جس کی بنا پر اسے تمام امّتوں میں سے بہترین امّت کا خطاب دیتے ہوئے فرمایاتھا کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران:۱۱۱)یعنی (اے مسلمانوں!) تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہو تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہواور بری باتوں سے روکتے ہو۔اس آیت کریمہ کےمطابق تو صرف وہی مسلمان خیر امت اور باقی امتوں کے سردار اور فخر کہلا سکتےہیں،جو ہر اچھی اور نیک بات کی تلقین کرنے والے اورہر انتہائی بری بات سے منع کرنےوالے ہوںاس آیت پر بلاشبہ جماعت احمدیہ ہی پورا اترتی ہے۔مگر موجودہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معاملہ برعکس ہے۔ لہٰذا وہ اس حکم پر عمل نہ کر نے والی بدترین امت میں ہی شمار ہوں گے کیونکہ نیکی کا حکم نہ دینا اور برائی سے منع نہ کرنا ایک ا یسا قومی گناہ ہے جس کے نتیجہ میں ہلاکت وتباہی کی سخت وعید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودو نصاریٰ پر لعنت کی وجہ ان کی نافرمانی اور ظلم وزیادتی اور بری باتوں سے منع نہ کرنا ہی بیان فرمایا:لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّکَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ۔کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ۔(المائدة: ۷۹-۸۰) جن لوگوں نے بنى اسرائىل مىں سے کفر کىا وہ داؤد کى زبان سے لعنت ڈالے گئے اور عىسى ابنِ مرىم کى زبان سے بھى ىہ اُن کے نافرمان ہو جانے کے سبب سے اور اس سبب سے ہوا کہ وہ حدسے تجاوز کىا کرتے تھے۔ وہ باز نہىں آتے تھے اُس برائى سے جو وہ کرتے تھے ىقىناً بہت برا تھا جو وہ کىا کرتے تھے۔
دوسری طرف جب کسی قوم یا ملک کا ایک حصّہ ایسے قومی گناہ کا مرتکب ہونےکی وجہ سےعذابِ الٰہی کامورد بنے تو سوائے برائیوں سے منع کرنے والوں کے کوئی اس عذاب سے بچ نہیں سکتا۔اللہ تعالیٰ ظلم وزیادتی کرنےوالے نافرمان یہودکی عبرت انگیز مگر سچّی کہانی بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:وَاِذۡ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہُمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَا ۙ ۣاللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَلَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ۔ فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖۤ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ وَاَخَذۡنَا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بِعَذَابٍۭ بَئِیۡسٍۭ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ۔(الاعراف: ۱۶۵-۱۶۶) اور (ىاد کرو) جب ان مىں سے اىک گروہ نے کہا تم کىوں اىسى قوم کو نصىحت کرتے ہو جسے اللہ ہلاک کرنے والا ہے ىا شدىد عذاب دىنے والا ہے انہوں نے کہا تمہارے ربّ کے حضور اعتذار کے طور پر (ہم اىسا کرتے ہىں) اور اس غرض سے کہ شاىد وہ تقوى اختىار کرىں۔پس جب انہوں نے وہ بھلا دىا جس کى انہىں نصىحت کى گئى تھى تو ہم نے ان کو جو برائى سے روکا کرتے تھے بچا لىا اور ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کىا اُن کى بدکارىوں کے سبب اىک سخت عذاب مىں جکڑ لىا۔
اسی لیے رسول کریمﷺ نے بھی اپنی امت کو خاص تاکید فرمائی کہ وہ یہود کی عبرت ناک تاریخ دہرانے کی بجائے ہمیشہ بہترین امّت ہونے کاحق اداکرتے ہوئے نیکی کی تحریک اور معاشرہ میں اپنے سامنے ہونے والے برے کاموں سے منع کرتے رہا کریں تاکہ سارے قومی عذاب سے ہلاک نہ ہوجائیں۔چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم ؐ نے معاشرے میں برائی کے کام سے منع کرنے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کچھ لوگ کشتی میں سفر کررہے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک کشتی میں سوراخ کرنے لگے اوردوسرے اُسے منع نہ کریں تو نتیجہ کیا ہوگا؟وہ کشتی بالآخر ڈوب کے رہے گی۔اورسب ہلاک ہوجائیںگے(صحیح بخاری كتاب الشَّرِكَةِ بَابُ هَلْ يُقْرَعُ فِي الْقِسْمَةِ وَالْاِسْتِهَامِ فِيهِ)
رسول کریمؐ نے مسلمانوں کو یہ تاکیدی نصیحت بھی فرمائی کہ اگرکوئی بری اورقبیح بات ہوتے دیکھوتواسے ہاتھ سے روک سکتے ہو تو روکو اگر یہ تمہارے اختیار یا دائرہ کار میں نہ ہو تو پھر زبان سے نصیحت کرو اور یہ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنے دل میں اسے برا سمجھو۔(ترمذی کتاب الفتن باب مَا جَاءَ فِي تَغْيِيرِ الْمُنْكَرِ بِالْيَدِ أَوْ بِاللِّسَانِ أَوْ بِالْقَلْب)تاخود اس کے مرتکب نہ ہواور اس کےلیے زبان سے اس سے بچنے کی دعا کرو۔ رسول کریم ؐ کو ایک دفعہ اطلاع ملی بعض لوگ خواتین کو رات کے وقت نماز باجماعت کے لیے مسجد آنے سے روکتے ہیں تو آپؐ نے مردوں کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی لونڈیوں کو خدا کے گھروں میں آنے سے مت روکو۔( سنن أبي داؤد کتاب الصلاة، باب مَا جَاءَ في خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ)
پس نمازیا جمعہ یا عید کی نما ز جیسی اعلیٰ عبادت اورنیکی سے روکنا نہ صرف گناہ کبیرہ بلکہ ایک قومی گناہ ہے جس سے باز نہ آنے کی سخت وعید ہے۔صحابہ رسول ؐاس بارے میں بہت ڈرتے تھے کیونکہ نماز یا جمعہ اور عبادت خداوندی سے روکنا خداتعالیٰ سے اعلان جنگ کے مترادف ہے اور ایسا گروہ اور اس کی سرپرستی کرنے والے لازماً مالک الملک اورقادروجبار خدا سے جنگ کرتے ہیں۔
اور خدا سے ایسے جنگ کرنے والوں کی ایک سزا تو اللہ تعالیٰ سورۃالبقرہ آیت۱۱۵ میں خود بیان فرماچکا ہےکہ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے دوسرے اگر واقعی اسلامی حکومت قائم اورموجود ہوتو احکام الٰہی میں دخل اندازی کرکے خدا سے جنگ کرنیوالوں کی یہ سزا نافذ ہونی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے:اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَاَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَلَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ۔ (المائدة:۳۴)ترجمہ: ىقىناً اُن لوگوں کى جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہىں اور زمىن مىں فساد پھىلانے کى کوشش کرتے ہىں ىہ ہے کہ انہىں سختى سے قتل کىا جائے ىا دار پرچڑھاىا جائے ىا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دىئے جائىں ىا انہىں دىس نکالا دے دىا جائے ىہ ان کے لیے دنىا مىں ذلت اور رسوائى کا سامان ہے اور آخرت مىں تو اُن کے لیے بڑا عذاب (مقدر)ہے۔
اللہ تعالیٰ مسلم امّہ کو غضب و قہرالٰہی کے اس بدانجام سے بچائے اور انہیں نیکیوں سے روکنے کی بجائے امر بالمعروف کی توفیق دے تاکہ وہ واقعی خیر امّت کہلا سکیں۔آمین(باقی آئندہ)
مزید پڑھیں: ’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ میں جبر کی ممانعت(قسط دوم)