احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
مطلق اطلاع غیب خاصہ انبیاء نہیں ہے خاص کر اطلاع بحفاظت و حراست انبیاء سے مخصوص ہے
براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میں ابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو
مذہبی نکتہ چینی کا جواب
فریق اوّل (امرتسری منکروں) کی وجہ انکار کا جواب
(گذشتہ سے پیوستہ)پس واضح ہو کہ ان حضرات نے جو نقلی استدلال پیش کیا ہے۔ یہ جار اللہ زمخشری معتزلی کا استدلال ہے۔ چنانچہ تفسیر کشاف میں آیت متمسکہ فریق اول کے ذیل میں اُس نے کہا ہے کہ و فی ھذا ابطال الکرامات لان الذین تضاف الکرامات الیھم و ان کانوا اولیاء مرتضین فلیسوا برسل و قد خص اللّٰہ الرسل من بین المرتضین بالاطلاع علی الغیب (کشاف)
اس آیت میں کرامات اولیاء کا ابطال پایا جاتا ہے کیونکہ جن لوگوں کی طرف کرامات منسوب ہیں وہ اگرچہ پسندیدہ ولی ہیں مگر رسول نہیں ہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے اپنے غیب پر مطلع کرنے کے لیے رسولوں کو مخصوص کر دیا ہے۔
اس کا جواب علماء اہلِ سُنّت (کثرھم اللّٰہ تعالیٰ) سے امام رازی قاضی بیضاوی شاہ عبد العزیز دہلوی وغیرہ اکابر نے متعدد وجوہ سے دیا ہے۔ ان سب میں سے جواب حضرت شاہ صاحب بسیط و لطیف ہے۔ لہٰذا اس مقام میں اُسی جواب کی نقل پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ حضرت شاہ عبد العزیز نے تفسیر عزیزی میں فرمایا ہے۔’’باید دانست کہ صاحب کشاف بناء بر مذہب اعتزال خود در تحت این آیۃ گفتہو فی ھذا ابطال الکرامات۔الخ‘‘ولیکن باوجود ادعائے دانشمندی این معروف از و بسیار بعید واقع شدہ زیرا کہ این آیۃ نفی اطلاع بر غیب بوجہ کہ رفع تلبیس و اشتباہ بکلّی در آن حاصل شود از غیر رسولان میکند نہ نفی اطلاع بر غیب مطلقاً چہ جائے آنکہ کرامات دیگررا ابطال نماید و در تفسیر گذشت کہ اظہار شخصے بر غیب چیزے دیگرست۔ و اظہار غیب بر آن چیزے دیگر۔ و از نفی آن نفی این لازم نمی آید۔ اولیاء اللہ را اگرچہ اظہار بر غیب حاصل نیست امّا اظہار غیب برایشان جائز و واقع ست چنانچہ در حق مادرِ مُوسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ وا لسلام۔ سورۃ قصص منصوص ست کہ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَجَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔
اکثر علماء اہلِ سُنّت کہ فرق در اظہار شخص بر غیب و اظہار غیب بر شخص نکردہ اندمیگویند کہ مراد از غیب در این آیۃ احکام شرعیہ اندکہ تکلیف بآنہا عام بر مُکلّفین می باشد و اگر از غیب مطلق غیب مراد باشد لازم آید کہ نبی محض را مثل حضرت خضر نیز اطلاع بر ہیچ غیب حاصل نہ شود زیرا کہ در آیۃ حصر علم غیب بر لفظ رسول فرمودہ اندو رسول اخص از نبی ست آرے اطلاع بر احکام شرعیہ جدیدہ دادن خاصہ رسول ست کہ دروی یافتہ نمے شود و بعض ازیشان گفتہ اند کہ حصر بہ ملاحظہ قید اصالت است یعنی بالالصالۃ اطلاع بر غیب خاصہ پیغمبر ان ست و اولیاء را اطلاع بر غیب بطریق وراثت و تبعیت حاصل مے شود چنانچہ نور قمر مستفاد از نور شمس ست۔ اور اس سے پہلے تفسیر آیۃ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا میں غیب پر کسی کو مطلع کرنے اور اُس کو غیب کی اطلاع دینے میں فرق کے بیان میں فرمایا ہے۔ پس مطلع نمی کند ہیچکس رابو جہے کہ رفع تلبیس و اشتباہ خطا بکلی در آن اطلاع حاصل شود۔ و احتمال خطا و اشتباہ اصلاً نماند و ہمیں اطلاع دادن کذائی ست کہ او را اظہار شخصی بر غیب تو ان گفت بخلاف اطلاع منعمین و اطبا و کاہنان و رمالان و جفریان و فال بینان کہ علم ایشان ببعض حوادث کونیہ ازراہ استدلال باسباب و علامات ظنیہ یا اخبار متحملۃ الصدق و الکذب جنیان و شیاطین تخمینی و وھمی می باشد نہ یقینے۔ و اولیا راہر چند علم الہامی یقینی۔ بعض حقائق ذات و صفات یا وقایع کونیہ حاصل می شود اما تلبیس و اشتباہ بجمیع الوجوہ از ان مرتفع نمے گردد تا اظہار ایشان برغیب و استیلا بران مستحق گردد بلکہ اظہار غیب برایشان و انعکاس صورت غیبیہ در آئینہ وجدان ایشان ست و لہذا یکلف عام بآن مستحق نمے شود و خود ہم درتحصیل یقین بآن و اعتماد بر آن محتاج بشواہدِ کتاب و سُنّت کہ اقسام وحی اندمیشوند پس اظہار بر غیب ہیچکس را نمے دہند۔اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ۔ مگر کسی کہ پسندمی کندو آنکس رسول مے باشد خواہ از جنس ملک باشد مثل حضرت جبریل علیہ السلام و خواہ از جنس بشر مثل حضرت محمدؐ و موسیٰ و عیسیٰ علیھم الصلوٰۃ و التسلیمات کہ او را اظہار بر بعض از غیوب خاصہ خود مفرماید تا آن غیوب را بمکلفین برساند و تلبیس و اشتباہ را ازان بکلی رفع نماید تا احتمال خطا و ناراستی اصلاً پیرا مون آن نگردد و عامہ مکلّفین کہ بدیدن معجزہ تصدیق رسول بشری نمودہ باشند در وحی ہر بارہ برآن اعتماد نمودہ در غلط نیفتد وراہ گم نکُند و لہذا اُو را انزال وحی احتیاط بلیغ بکارمے برد فَاِنَّہُ یَسْلُکُ۔ یعنی پس بتحقیق پروردگار من روانہ میکند مِنْ بَیْنَ یَدَیْہِ پیش دست آں رسول خواہ ملکی باشد خواہ رسول بشری و پیش دست قوت فکریّہ و قوت وھمیہ و قوت خیالیہ اوست و طبائع و اخلاق حاضر الوقت وَ مِنْ خَلْفِہٖ یعنی و از پس پشت آں رسول خواہ ملکی باشد خواہ بشری و پسِ پشت علوم مخزونہ در حافظہ اوست و عادات و اخلاق متروکہ رصدًا چوکیداران را از جنس ملایکہ تا وقت آوردنِ وحی و گرفتن آن قُوّت فکریہ وھمیہ و خیالیہ را سبقت کردن ندہند۔ الخ‘‘
اس کلام بلاغت نظام میں حضرت شاہ صاحب مرحوم نے استدلال منکرین الہام و کرامات اولیاء اللہ کا شافی جواب دیا اور بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ اس آیۃ میں خدا تعالیٰ نے اپنے غیب پر بُجز رسول کسی کو ایسے طور پر مطلع کرنے کہ ’’اُس میں خطا و اشتباہ کا امکان دخل نہ ہواور اُس کے ساتھ فرشتوں کا پہرہ چوکی بھی ہو۔‘‘ کی نفی کی ہے۔ مطلق اطلاع غیب کی غیر رسول سے نفی نہیں کی اور ایسی اطلاع غیب خدا کی طرف سےغیر رسول کے لیے جائز بلکہ واقع ہو چکی ہے۔ چنانچہ والدہ حضرت موسیٰ و خضر علیہ السلام کے لیے ہوئی۔
خاکسار (اڈیٹر) کہتا ہے۔ اس مقام میں ان تمثیلات کی تشریح ضروری ہے تا کہ عوام اہل حدیث جو فریق اوّل کے دام اعتزال میں پھنس رہے یا پھنسا چاہتے ہیں۔ ان تمثیلات منصوصہ قرآنیہ سے واقف ہو کر ان کے دام سے رہائی پائیں اور یہ جان جائیں کہ مطلق اطلاع غیب خاصہ انبیاء نہیں ہے خاص کر اطلاع بحفاظت و حراست انبیاء سے مخصوص ہے۔
حضرت موسیٰ کی والدہ کو غیب پر مطلع کرنے کا حال قرآن میں یُوں بیان فرمایا ہے کہ وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَلَا تَخَافِیۡ وَلَا تَحۡزَنِیۡ ۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَجَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔(القصص ع ۱)ہم نے مادر موسیٰ کو یہ الہام کیا (جب اس کو حضرت موسیٰ کے تولد ہونے پر فرعون کے حکم قتل کا ڈر لگا) کہ تو اس کو دودھ پلا۔ پھر جب تجھے (اس کے مارے جانے کا) ڈر لگے تو اسے (صندوق میں بند کر کے) دریا میں ڈال دے اور (اس کے ڈوب جانے یا فرعون کے ہاتھ سے مارے جانے کا) خوف و غم نہ کر ہم اس کو تیرے پاس پھر لائیں گے اور اس کو پیغمبر بنائیں گے۔
اور حضرت خضر علیہ السلام کا حال اطلاع غیب قرآن میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تو اُنہوں نے کشتی کے تختے کو اوکھاڑ دیا۔ پھر ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالا۔ پھر ایک قوم کی گرنے والی دیوار کو کھڑا کر دیا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اِن فعلوں پر اعتراض کیا تو حضرت خضر نے ان کا سبب یوں بتایا کہ اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا وَ کَانَ وَرَآئَ ھُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُکُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا۔وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوَاہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا۔ فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا۔وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَ کَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّھُمَا وَ کَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّھُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا کَنْزَھُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ وَ مَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا۔ (الکہف ع ۱۰)کشتی تو مسکینوں کی تھی (جس کے ذریعہ سے) وہ دریا میں کام کیا کرتے۔ میں نے اس کو (اس لئے) عیب ناک کرنا چاہا (کہ) اُن کے پیچھے سے ایک (ظالم) بادشاہ آ رہا تھا جو سب (اچھی) کشتیوں کو بیگار میں پکڑ لیتا تھا وہ لڑکا (پیدائشی کافر تھا اور)اُس کے ماں باپ مسلمان تھے۔ مجھے خوف لگا کہ وہ (بڑا ہو کر) ان کو گمراہی و کفر میں ڈال دے گا۔ میں نے (اس کے قتل کرنے سے)یہ چاہا کہ خدا ان کو اس کے بدلے اس سے بہتر ستھرا اور رحم والا فرزند عطا کرے۔ وہ دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے اُن کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک تھا خدا نے ازراہ مہربانی (میرے اس فعل سے) یہ چاہا کہ وہ دونوں جوان ہو کر اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ جو کچھ میں نے کیا یا کہا اپنی رائے یا اختیار سے نہیں کیا یعنی یہ خدا کا حکم اور الہام تھا۔
ایسی ہی منصوص اور صریح ایک اور مثال (حضرت مریم کو غیب کی اطلاع دہی) قرآن میں موجود ہے جس کو شاہ صاحب نے اس مقام میں ذکر نہیں کیا۔ اس کا ذکر بھی بمقابلہ اس نقلی استدلال مخالفین کے مناسب ہے۔ (حاشیہ:گو سر گروہ فریق اول کے استدلال سابق کی مقابلہ میں پیش نہیں کی جا سکتی کیونکہ اُس میں اس نے غیر نبی کی طرف وحی خداوندی (اطلاع غیب پر مشتمل کیوں نہ ہو) جائز رکھی ہے لہٰذا اس تمثیل کا اِسی نقلی استدلال مخالفین کے مقابلہ میں پیش کرنا مناسب ہے جس میں غیر نبی کے لیے مطلق اطلاع غیب کی (بواسطہ فرشتہ ہو خواہ بلاواسطہ) نفی کی گئی ہے۔)
خدا تعالیٰ نے سورہ مریم میں فرمایا ہے کہ فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا۔ قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّا۔ قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا۔ قَالَتْ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا۔ قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ وَ لِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ (مریم ع ۲)ہم نے مریم کی طرف اپنی روح الامین کو بھیجا وہ اس کو پورے انسان کی صورت میں دکھائی دیا اس نے کہا میں تجھ سے خدا کی پناہ میں آئی اگر تجھے خدا کا ڈر ہے وہ بولا میں تو خدا ہی کا رسول ہوں کہ تجھے ایک ستھرا لڑکا دوں۔ وہ بولی مجھے لڑکا کیونکر ہو گا مجھے کسی بشر نے جائز طور پر ہاتھ نہیں لگایا۔ اورنہ میں ناجائز فعل کرنے والی ہوں اس نے کہا ایسا ہی (بلا مس بشر تولد فرزند) ہو گا۔ تیرا رب کہتا ہے یہ امر بلا مس بشر لڑکا دینا مجھے آسان ہے اور تا کہ میں اس کو لوگوں کے لیے ایک نشانی قدرت اور اپنی طرف سے رحمت بناؤں یہ امر ہوا ہوایا ہے۔
اِن تمثیلات ثلٰثہ کو پڑھ یا سن کر مسلمان پیرو قرآن کو اس میں شک باقی نہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مریم علیھاالسلام اور والدہ موسیٰ علیہ السلام کو (جو بالاتفاق نبی نہ تھیں) اور حضرت خضر علیہ السلام کو (جو باتفاق جمہور علماء اسلام نبی نہ تھے۔ اور اُن کے رسول نہ ہونے میں تو کلام ہی نہیں۔) بعض غیب باتوں کی اطلاع دی جس سے یقیناً و جزماً معلوم ہو گیا کہ اس آیۃ متمسکہ مخالفین میں غیر نبی کے لیے مطلق اطلاع غیب کی نفی ہرگز مراد نہیں کسی خاص وجہ (یا قسم کی اطلاع غیب کی نفی مراد ہے۔ وہ وجہ یا قسم وہ ہو جو شاہ صاحب وغیرہ نے بیان کی ہے خواہ کوئی اور وجہ (یا قسم) جس کو یہ حضرات خود تجویز کر لیں۔ (حاشیہ: اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وجہ بیان کردہ شاہ صاحب یا کسی اور صاحب کی صحت کا بالخصوصیت ہم کو دعویٰ نہیں ہمارا مقصود صرف یہ ہے کہ اس آیۃ میں مطلق اطلاع دینے کی نفی ہرگز مراد نہیں۔ اس مطلق نفی کو چھوڑ کر اس کی مراد جو چاہو سو ٹھہرا لو۔ ہم کو اس سےاس مقام میں بحث نہیں۔) بہرحال ظاہری اطلاق ہرگز مورد نفی نہیں ہو سکتا۔
مزید پڑھیں: خلافت خامسہ کے بابرکت دَور میں امن عالم کے لیے ہونے والی کاوشوں پر ایک طائرانہ نظر