اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیتِ اولاد
بچے اللہ تعالیٰ کی نعمت اور کسی بھی قوم کے مستقبل کےمعمار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عمدہ تعلیم وتربیت قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اس نعمت اور کَل کے معماروں کی تربیت کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا (التحریم:۷)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ۔
یعنی مومنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی تربیت اوراصلاح کی طرف توجہ دیں۔ ان کی ایسی راہنمائی کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوکر اس کے دین کے خادم بنیں۔ یقیناً اس کے لیے دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور محنت کی ضرورت ہے۔
ہر بچہ پیدا تو فطرتِ صحیحہ (فطرتِ اسلام) پر ہوتا ہے لیکن وہ نومولود بڑا ہو کر کیا بنتا ہے، کس راستے پر چلتا ہے اور کس مذہب کا پیرو بنتا ہے، یہ سب ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے جو والدین کی پرورش اور قریبی ماحول کے اثر کی صورت میں ابتدا ہی سے بچے کے دل و دماغ پر مسلط ہو جا تا ہے۔ جب یہ بچہ شعور کی عمر میں داخل ہوتا ہے تو بچپن کے سیکھے ہوئے عقائد اور عادات و اطوار پختہ ہو جاتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
ہربچہ فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الجنائز)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کا نمونہ بچوں کی آئندہ زندگی پر گہرےاثرات مرتب کرتا ہے۔ بحیثیت مسلمان اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت کے لیے اسلامی تعلیمات کا جاننا اور عملی طور پر راسخ کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ خوبصورت تعلیمات ہی اسلام کی آئندہ نسلوں کےنیک مستقبل کی ضامن ہیں۔ دعاکااولاد کی تربیت میں بڑااہم دخل ہے۔
اللہ تعالیٰ نےہمیں قرآن کریم میں حضرت زکریا علیہ السلام کے ذریعے پاکیزہ اولاد کے حصول کی دعا ان الفاظ میں سکھائی ہے۔
رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ (آل عمران :۳۹)
ترجمہ: اے میرے رب! تو مجھے (بھی) اپنی جناب سے پاک اولاد بخش۔ تو یقیناً دعاؤں کو بہت قبول کرنے والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:” اولاد کی خواہش تو لوگ بڑی کرتے ہیں اور اولاد ہوتی بھی ہے، مگر یہ کبھی نہیں دیکھا گیا وہ اولاد کی تربیت اور ان کو عمدہ اور نیک چال چلن بنانے اور خدا کے فرمانبردار بنانے کی سعی اور فکر کریں، نہ کبھی اُن کےلیے دعا کرتے ہیں اور نہ مراتبِ تربیت کو مدّ نظر رکھتے ہیں۔ میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔“ ( ملفوظات جلد اوّل۔ صفحہ ۵۶۲، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حضرت زکریا علیہ السلام کی اس دعا کو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔
وَزَکَرِیَّاۤ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَیۡرُ الۡوٰرِثِیۡنَ (الانبیاء:۹۰)
اور زکریا (کا بھی ذکر کر) جب اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ اے میرے ربّ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس دعاکی اہمیت بیان کرتےہوئےفرماتےہیں:
”اور اب یہ دعا ایسی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو کرنی چا ہیے اور ہر ایک کا دل چاہتاہے کہ کرے اور صالح اولاد ہو اور پھربچوں کی پیدائش کے وقت بھی اور پیدائش کے بعد بھی ہمیشہ بچوں کے نیک صالح اور دیندار ہونے کی دعائیں کرتے رہنا چاہیے کیونکہ والدین کی دعائیں بچوں کے حق میں پوری ہوتی ہیں۔“ (خطبہ جمعہ ۴/جولائی ۲۰۰۳ء،ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹/اگست ۲۰۰۳ءصفحہ ۵)
جب اللہ تعالیٰ اولاد جیسی انمول نعمت سے نوازے تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔ اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ جو آواز بچے کے کان میں پہلے پڑتی ہے اس کا اثر اس کے دل و دماغ پر منقش ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت کو اس زمانےمیں ماہرین نے بھی تحقیق کے بعد تسلیم کیا ہے۔ گویا اذان کے ذریعےبچے کے دل پر اپنے پیدا کرنے والے اور اس کی تعلیمات کا پختہ نقش قائم ہو جائے۔
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے متعلق فرمایا کہ اذان شیطان کو دھتکار دیتی ہے۔ (صحیح بخاری)
پیدائش کے بعد بچے کا اچھا نام رکھنے اور اس کے سر کے بالوں کو بھی جلد از جلد ا تارنے کا حکم ہے۔ اگر لڑکا پیدا ہو تو ختنہ بھی کروایا جائے۔ اسی طرح بچے کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے اورعقیقہ کےجانورکی قربانی کا بھی ارشاد ہے۔ پھرہدایت فرمائی کہ جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو اسے کلمہ سکھاؤ۔ سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز پڑھنے کےلیے کہا کرو۔ اس وعظ و نصیحت کے لیے تین سال کا عرصہ دیا اور فرمایا کہ اگردس سال کی عمرمیں بچّے نماز نہ پڑھیں تو سرزنش کی جائے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰة)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمارے مد نظررہنا چاہیے کہ نیک آداب سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے۔ (ترمذی ابواب البروالصلۃ باب فی ادب الولد)
پس یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ آداب سکھائیں۔ عمدہ تربیت کے لیے نیک اورا چھے کام کرنے پر حوصلہ افزائی کریں اور غلط کام سے روکنے کے لیے حکمت کے ساتھ وعظ و نصیحت، تنبیہ اور پیار سے غلطی کا احساس دلائیں۔
پھر جب بچے بلوغت کی عمر کو پہنچیں تو آج کل کے ماحول کے بد اثرات اور شیطانی حملوں سے بچانے کے لیے والدین ان کے لیےنیک جیون ساتھی کی دعاکریں اور مناسب رشتہ ملنے پروقت پر شادی کر دیں۔
حضرت ابو سعیدؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کرے۔ اگر وہ بچہ بالغ ہو جاتا ہے اور وہ اس کی شادی نہیں کرتا اور بچہ سے کوئی گناہ سر زد ہو جاتا ہے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا۔
(مشکوٰۃ المصابیح کتاب النکاح باب الولی فی النکاح واستئذان المراة)
اللہ تعالیٰ سےدعاہے کہ وہ ہمیں اپنےبچوں کی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کرنے کی توفیق عطافرمائے،ہماری کمزوریاں دورفرماتےہوئےہماری عاجزانہ دعاؤں کوہمارےبچوں کےحق میں قبول فرمائے۔آمین
؎ مری اولاد جو تیری عطا ہے ہراک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے
(درثمین)