۱۰؍اپریل: عالمی یومِ ہومیو پیتھی
ہر سال ۱۰؍ اپریل کو عالمی یومِ ہومیوپیتھی منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد ہومیوپیتھی کی اہمیت کو نمایاں کرنا ، عالمی سطح پر فروغ، اس کے اثرات کو اجاگر کرنا اور اس کی کامیابی کو دنیا بھر میں تسلیم کرانا ہے۔نیز اس دن کو ڈاکٹر کرسچن فریڈرک سیموئل ہانیمن کے یوم پیدائش کی یاد میں بھی منایا جاتا ہے، جو ہومیوپیتھی کے بانی تھے۔ہانیمن کا نظریہ اور طریقہ علاج آج بھی دنیا بھر میں بے شمار مریضوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔
ہومیوپیتھی کی بنیاد: اس طریقہ علاج کی بنیاد اٹھارھویں صدی میں ڈاکٹر سیموئیل ہانیمن نے رکھی، جو Similia Similibus Curentur یعنی ’’مشابہ چیزیں مشابہ چیزوں سے علاج پاتی ہیں‘‘ کے اصول پر مبنی ہے۔ڈاکٹر ہانیمن ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے اور انہوں نے مختلف بیماریوں کے علاج کے دوران محسوس کیا کہ ایلوپیتھک طریقے سے بیماریوں کا علاج مکمل طور پر صحت یابی کا باعث نہیں بنتا۔ اس کی بجائے، وہ علاج کا ایسا طریقہ تلاش کرنا چاہتے تھے جس سے بیماری کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔ اس طریقۂعلاج میں قدرتی اجزا کو بار بار پتلا کرکے ایسے محلولات تیار کیے جاتے ہیں، جو جسم کے قدرتی مدافعتی نظام کو تقویت دیتے ہیں اور بیماریوں کو جڑ سے ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ہومیوپیتھی کو دنیا بھر میں ایک محفوظ اور مؤثر علاج کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے، کیونکہ اس میں جڑی بوٹیوں، معدنیات اور دیگر قدرتی اجزا سے بنی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ نہ صرف بیماری کی علامات بلکہ مریض کی مجموعی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے۔ اس کے مضر اثرات نہایت کم ہوتے ہیں، جو اسے روایتی ایلوپیتھک طریقوں سے ممتاز بناتے ہیں۔ خاص طور پر جوڑوں کے درد، دمہ، الرجی، جلدی امراض، ذہنی تناؤ، اور دیگر دائمی بیماریوں کے علاج میں ہومیوپیتھی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
عالمی سطح پر ہومیوپیتھی کامقام: ہومیوپیتھی کو دنیا بھر میں ایک مقبول طریقہ علاج کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحتWHO کے مطابق ہومیوپیتھی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا طریقہ علاج ہے، جو ۸۰؍سے زائد ممالک میں کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے۔ ہومیوپیتھی کا استعمال ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے علاج میں بڑی کامیابی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر سائیکو سومیٹک بیماریوں، الرجی، خواتین اور بچوں کے امراض میں ہومیوپیتھی بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
اس دن کا مقصد صرف ہومیوپیتھی کی اہمیت کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ اس کے فوائد کے بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا بھی ہے۔ اس دن مختلف سیمینارز، ورکشاپس، مفت تشخیصی ٹیسٹ اور عوامی آگاہی کے پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں ہومیوپیتھی کے فوائد اور صحیح استعمال کے بارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ دن ہومیوپیتھی کی ترقی کے لیے درپیش چیلنجز اور مستقبل کی حکمت عملیوں کو سمجھنے کا بھی ایک موقع ہے۔
ہومیوپیتھی کی افادیت: ہومیوپیتھی میں استعمال ہونے والی ادویات کے متعدد فوائد ہیں، مثلاً:
۱۔ہومیوپیتھی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی امراض میں بھی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
۲۔ ہومیوپیتھی میں الرجی اور وائرل بیماریوں کا علاج کامیابی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ ہومیوپیتھی کی ادویات کی دیگر طریق علاج کے مقابل پر نسبتاً کم مضر اثرات ہوتے ہیں۔
۴۔ ہومیوپیتھی کی ادویات قدرتی مادوں سے تیار کی جاتی ہیں، جو صحت کے لیے محفوظ ہیں۔
ہومیوپیتھی طریقہ علاج کو درپیش چیلنجز: اس طریقہ علاج کے فوائد ہونے کے باوجود اس کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ کچھ سائنس دانوں کے مطابق، اس طریقۂ علاج کی مؤثریت پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ایلوپیتھی کے ماہرین ہومیوپیتھی کو سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں، کیونکہ اس کے علاج میں استعمال ہونے والے انتہائی باریک محلول جدید سائنسی تجربات کے دائرہ کار سے باہر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں عوام میں بھی اس کے بارے میں شعور کی کمی ہے اور بہت سے لوگ اسے ایک سست رفتار علاج سمجھتے ہیں حالانکہ صحیح دوا اور پوٹینسی کے انتخاب سے یہ تیز اور مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
کئی ممالک میں ہومیوپیتھی کو مکمل طبی حیثیت حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے اس کے ماہرین کو سرکاری سطح پر کم تعاون ملتا ہے۔اور اکثر ممالک میں اسے صرف ضمنی یا غیر روایتی علاج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مزید برآں غیر مستند معالجین کی وجہ سے اس طریقہ علاج پر عوامی اعتماد بھی کم ہو رہا ہے۔
ہومیوپیتھی کی ترقی کے لیے مزید سائنسی تحقیق، عوامی آگاہی اور حکومتی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ یہ طریقۂ علاج صحت عامہ میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ہومیوپیتھک ریسرچ انسٹی ٹیوٹس قائم کریں، تعلیمی نصاب میں اس کو شامل کریں اور عوامی آگاہی کے لیے مہمات چلائیں۔
ہومیوپیتھی کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے اگر اسے جدید سائنسی اصولوں کے تحت مزید تحقیق اور ترقی کے مراحل سے گزارا جائے۔ بہت سے ممالک میں ہومیوپیتھی پر تحقیق جاری ہے اور نت نئے سائنسی تجربات کیے جا رہے ہیں تاکہ اس کے مؤثر ہونے کو مزید ثابت کیا جا سکے۔ طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ہومیوپیتھی کے طریقۂ علاج کو مزید بہتر بنایا جائے اور اس کے نتائج کو جدید سائنسی پیمانوں پر پرکھا جائے، تو یہ صحت کے شعبے میں ایک انقلابی کردار ادا کر سکتا ہے۔
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ بر صغیر کےماہر ترین ہومیوپیتھک معالج تھے۔ آپؒ کی شہرہ آفا ق کتاب “ہومیوپیتھی یعنی علاج بالمثل” کے علاوہ آپؒ نے ہو میوپیتھی پر لیکچرز کا ایک سلسلہ بھی ریکارڈ کروایا۔
عالمی یومِ ہومیوپیتھی ہمیں اس عزم کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم صحت مند دنیا کے لیے ہومیوپیتھی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے اور ان کی صحت بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو۔ (مرسلہ: انیس احمد خلیل مربی سلسلہ سیرالیون)
مزید پڑھیں: گرمی کا توڑ: سَتُّو