متفرق مضامین

روزمرہ استعمال میں آنے والے الفاظ کا صحیح تَلَفُّظ

(حیدر علی ظفر۔ مبلغ سلسلہ جرمنی)

کئی سال قبل مجھے بعض الفاظ، اصطلاحات اور جملوں کا صحیح تلفظ پیش کرنے کی توفیق ملی تھی جسے احباب جماعت نے پسند فرمایا۔اب مزید کچھ ایسے الفاظ درج کیے جاتے ہیں جہاں پر غلطی کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ البتہ وہاں مبائع (جس شخص نے امام کی بیعت کی ہو) کی جمع مبایعین لکھی گئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی جمع مُبائعین بھی لکھی ہے۔

تَشَہُّدْ: ذیلی تنظیموں کے اجلاس میں تلاوت کے بعد عہد دہرایا جاتا ہے جس سے پہلے تتین مرتبہ شہد پڑھا جاتا ہے جس کا آغاز اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ سے ہوتا ہے۔ لکھنے میں تو اَشْهَدُ کے بعد اَنْہے مگر اسے لَّاکے ساتھ ملا کر پڑھنے کے وقت نون کی آواز نہیں آنی چاہیے بلکہ لَّاپر تشدید ہونے کی وجہ سے الف کو لا کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اس طرح پھر اَنْ کی آواز نہیں آتی بلکہ اَلْکی آواز آئے گی۔ اذان میں بھی اسی طرح پڑھا جائے گا۔

ذیلی تنظیموں کے عہد میں استعمال ہونے والے بعض الفاظ کا تلفظ درج ہے:

خِلَافَتْ : خ کی زیر سے ہے زبر سے نہیں۔

خِلَافَتِ احْمَدِیَہ: یہ مرکب اضافی ہے۔ اس صورت میں ت کے نیچے زیر آجائے گی۔

خَاطِرْ: ط کے نیچے زیر ہے۔

اِشَاعَتْ: الف کے نیچے زیر ہے۔

نِظَامِ خِلَا فَتْ: ن کے نیچے زیر ہے۔

حِفَاظَتْ: ح کے نیچے بھی زیر ہے

اَخْلَاقْ : اِخلاق نہیں بلکہ الف کی زبر سے اَخْلَاقْ ہے

اِستِغْفَار : مغفرت طلب کرنے کے عمل کو الف اور ت کی زیر کے ساتھ اِستِغْفَار کہتے ہیں۔ مگر جب دعا کرتے ہوئے کہنا ہو کہ میں مغفرت چاہتا ہوں تو پھر الف کی زبر اور ت کی زبر کے ساتھ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ہوتا ہے۔

اَطْفَال : طِفْل کی جمع ہے۔ الف کی زبر کے ساتھ اَطْفَال ہوتا ہے۔اِطْفَال درست نہیں۔

مُعَاہَدَہْ : مُعَاہِدَہْ غلط ہے۔ ہ کے اوپر زبر ہے۔

مُقَابَلہ: مُقَابِلہ درست نہیں۔ب کے اوپر زبر ہے۔

اِسْتِدْلَال : اِسْتَدْلَال نہیں ہوتا۔ ت کے نیچے زیر ہے۔

غَلَطْ : غَلْط نہیں ہوتا۔ ل پر زبر ہے۔

تَوَجُّہْ: تَوَجَّہ ْنہیں۔ جیم کے اُوپر پیش ہے زبر نہیں۔

وَقْتْ : وَقَتْ نہیں بلکہ وَقْتْ ہوتا ہے۔

جِدوجُہدْ: کوشش۔دوڑ دھوپ کرنا۔ بہترہے کہ جِد میں ج کے نیچے زیر پڑھی جائے۔

اذان: چونکہ تشہد کے ضمن میں اذان کا ذکر بھی آ گیا تھا۔ اس لیے اذان میں کی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔

اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ: اِس میں اَنَّ کو اَنَّا نہ پڑھا جائے۔ نون کے اوپر شدّ تو ہے اس لیے الف کو نون کے ساتھ ملائیں پھر نون کو زبر کے ساتھ پڑھیں۔ جو کہ نَ پڑھا جائے گا۔ نہ کہ نَا۔

اسی طر ح مُحَمَّدًا میں درمیان والی میم پر شد ہے اور زبر بھی۔ اس کو بھی لمبا کرکے مَا نہ پڑھا جائے۔

رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے۔ رَّسُوْلَ اللّٰہ نہ پڑھا جائے۔

حَیَّ عَلٰی الصَّلوٰۃِ : اس میں حیَّ کی ی کے اوپر شدّ بھی ہے اور زبر بھی ہے۔اس میں بھی تشدید کی ادائیگی کے بعد یَ کو لمبا نہ کیا جائے۔

عَلَى الصَّلوٰةِ میں لَ کو ص جس پر شد ہے کے ساتھ ملانا ہے۔ جس سے پہلے ل کے ساتھ نہیں ملانا – البتہ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ میں لَ کو لْ کے ساتھ ملانا ہے۔

اَللّٰهُ اَکْبَرُ میں بَ کے اُوپر صرف ایک زبر ہے۔ اس لیے اس کو لمبا کر کے اکبارنہ پڑھا جائے بلکہ اَکْبَرْ ہی پڑھا جائے۔

خاکسار نے اس طرح عربی الفاظ کو صحت کے ساتھ لکھنے کی کوشش تو کی ہے۔ بہت توجہ سے پڑھنے والے سیکھ سکتے ہیں کیونکہ کسی ترتیب کے ساتھ قواعد کو سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید، احادیث اور دیگر عربی عبارات جن پر حرکات(زیر، زبر، پیش)لگی ہوئی ہوں کو صحت کے ساتھ پڑھنے کے لیےقاعدہ یَسَّرْنَا القُراٰن کو اچھی طرح پڑھیں۔ ہو سکے تو کسی استاد کی مدد لے کر سے پڑھیں۔ یہ اسباق ویڈیوز کی صورت میں بھی میسر ہیں نیز MTA پر بار بار نشر ہوتے ہیں ان کو ساتھ ساتھ دُہرائیں۔ اس طرح آپ ان شاء الله العزیز تلفظ کی غلطیوں سے پاک الفاظ کی ادائیگی کر سکیں گے۔

قرآن مجید کی تلاوت کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’وَ رَتِّلِ الْقُراٰنَ تَرْتِيلًا ‘‘کہ قرآن مجید کو خوش الحانی سے پڑھا کر۔ ترتیل کے معنی صحت تلفظ کے بھی ہیں۔ لغت کی ایک کتا ب میں ترتیل کے معنی ’’قرآن شریف کے حروف کو مخارج سے ادا کر کے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ‘‘لکھے ہیں۔

قرآن مجید تو ہم پڑھتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم میں سے ہر ایک صحیح تلفظ کے ساتھ اسے پڑھے۔

اب بعض شعبہ جات؍ عہدوں اور اصطلاحات کا صحیح تلفظ درج کیا جاتا ہے

مَجْلِسْ: ل کی زیر کے ساتھ۔

مُعْتَمَد : ت اور اس کے بعد والی میم پر زبر ہو گی۔

نَاظِرْ:ظ کے نیچے زیر ہے۔

لَجْنَۃُ اِمَاءِاللّٰہْ: اس کو لجنہ إِمَا ءِ اللّٰہ بھی لکھتے ہیں۔ اس میں جہاں پر عموماً غلطی کی جاتی ہے وه اماء کا لفظ ہے۔ا لف کے نیچے بھی زیر ہے اور ہمزہ کے نیچے بھی زیر ہی ہے۔

وَکِیْل: کا تلفظ تو ٹھیک ہی ہوتاہے۔مگر جب اس کی جمع بولی جائے توپھر غلطی کا امکان ہوتا ہے۔وُکَلَاء۔ واؤ کے بعد ک پر زبر ہے۔ جزم نہیں ہے۔اسی طرح طالب کی جمع طَلَبَہ ہے نہ کہ طُلْبَا یا طُلْبَہ۔ ط کے بعد ل پر زبر ہے جزم نہیں ہے۔ اب کچھ اور الفاظ مع مطالب و معانی کے بیان کیے جاتے ہیں

قَنَاعَت: تھوڑی چیز پر راضی ہونا۔ اسے قَنَاتْ نہ پڑھا جائے۔

نَظَافَتْ: پاکیزگی اور صفائی۔ نون کےاوپر زبرہے۔

شَجَاعَتْ: بہادری، دلیری۔ یہ لفظ شین کی زبر سے ہے۔ البتہ جو دلیر اور بہادر ہو اُسے شُجاع کہتے ہیں۔

اَذان: اس میں الف پر صرف زبر ہے۔ مد نہیں ہے۔اس لیے آذان نہ کہا جائے۔

اِقَامَتْ: یہ الف کی زیر سے ہے زبرسے نہیں۔

بعض اوقات لا علمی کی بنا پر عام استعمال کے الفاظ ہم اُن کے صحیح ہجوں کے مطابق نہیں بولتے۔ حالانکہ اس طرح ان کے معانی بدلنے کا امکان ہوتا ہے۔ ویسے بھی بہت اچھی گفتگو ایک آدھ ایسے الفاظ کی بنا پر گہنا جاتی ہے۔ اس لیے کوشش کی جائے کہ تلفظ درست ہو۔

اب بعض ضروری جملے مع اُن کی حَرَکات کےلکھے جاتے ہیں تا کہ ٹھیک طور پر بولنے میں سہولت ہو۔ یہ جملے اکثر استعمال میں آتے ہیں اس لیے ان کو اچھی طرح یادکرنا ضروری ہے۔

صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یہ جملہ ہم حضرت محمد مُصْطفیٰ، سرکارِ دو جہاں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جس کے معنی ہیں آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سَلام ہو۔

عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: مسلمانوں میں یہ اصطلاح انبیائےکِرام اور غیر انبیاء کےلیے استعمال ہوتی ہے۔ اِس کے معنی ہیں۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو۔ عام طور پر عَلَیْہِ السَّلام ہی بولتےہیں۔ علیہ السلام اور صلّی اللہ علیہ وسلم دونوں ہی دعائیہ جملے ہیں جو ہم لوگ نبیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بعض احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ انبیاء کے ناموں کے ساتھ بھی صلی اللہ علیہ وسلم کےدعائیہ کلمات استعمال فرمائے ہیں۔

رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ؍ عَنْھُمْ: اس کے معنی ہیں اللہ اُس سے راضی ہوا۔ جمع کی صورت میں عنھم بولا جاتا ہے۔ عَنْھُمْ کی صورت میں ترجمہ یوں ہو گا کہ اللہ اُن سب سے راضی ہوا۔ صحابہ کے لیے یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ صحابی یا اصحاب بلاشبہ اُن خوش بخت بزرگان کے متعلق بھی بولا جاتا ہے جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت صحبت پائی ہو۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ لفظ صرف اسی معنی تک محدود ہے۔ خود آنحضرت ﷺ نے اُمّت مسلمہ میں ظاہر ہونے والے مسیح کے ساتھیوں کے لیے ’’اصحاب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔

اصحاب کے استعمال کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ صحابی یا اصحاب کے لفظ کا صحیح مفہوم اپنے مضاف الیہ کے ساتھ ہی مل کر ادا ہوتا ہے۔ احمدی چونکہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی آمد کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی تسلیم کرتے ہیں اس لیے آپؑ کے ہاتھ پر احمدیت قبول کرنے والوں، آپؑ کے ساتھیوں کے لیے صحابی/صحابہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

فِیْ اَمَانِ اللّٰہ: اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان حاصل ہو۔ کسی کو الوداع کہتے وقت یہ الفاظ کہے جاتے ہیں۔ امانِ اللہ ہے۔ نون کے نیچے زیر ہے۔ زبر نہ پڑھی جائے۔

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ: کیا خدا اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ؟ قرآن مجید کے یہ الفاظ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہاماً بتائے گئے۔ ان میں عَبْدَہٗ میں دال پر زبر پڑھی جائے۔ پیش؍ ضمّہ نہ پڑھی جائے۔

اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهٗ: صبح و شام کیا جانے والا سلام بھی بعض لوگ صحیح نہیں کہتے۔عام طور پر رِحْمَةُاللہ پڑھ دیتے ہیں جو کہ غلط ہے ر پر زبر ہے۔اسی طرح وَبَرَکَاتُہٗ ہے وَبْرَکَاتُہٗ نہیں ہے یعنی ب پر زبر پڑھی جائے۔ بعض لوگ وَبَرْکَاتُہٗ پڑھ دیتے ہیں۔ ر پر بھی زبر ہے، سکون نہیں۔ اسی طرح س کی زبر بھی بعض ادا نہیں کرتے۔ بعض احباب بے دھیانی میں سلالیکم یا سامالیکم کہہ دیتے ہیں جس کے معنی تم پر ہلاکت ہو کے ہوتے ہیں اس لیے اس طرف بہت خاص توجہ دیں۔اور مندرجہ بالا صحیح تلفظ کے ساتھ سلام کہیں۔

خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحِ الْخَامِس: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کے خلفاء کا ذکر کرتے ہوئے خلیفةالمسیح کا لفظ استعمال ہوتا ہے عربی زبان میں اعداد کے بیان کا الگ طریق ہے۔

اس میں اکثر اوقات یہ غلطی ہوتی ہے کہ خلیفة المسیح کی ح پر پیش سمجھ کر خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحُ الْخَامِسْ کہا جاتا ہے جبکہ ح کے نیچے زیر ہوتی ہے۔یعنی خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحِ الْخَامِسْ ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔

اسی طرح باقی خُلَفاء کے لیے اسی ترتیب سے خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحِ الْاَوَّلؓ۔ خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحِ الثَّانِیؓ۔خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحِ الثَّالِثؒ۔ خَلِیْفَةُ الْمَسِیْحِ الرَّابِعؒ پڑھا جانا چاہیے۔ الاول اور الخامس میں لام پڑھا جائے گا۔ لیکن الثانی اور الثالث میں ح کو ث سے ملایا جائے گا اور الرابع میں ح کو ر سے ملایا جائے گا اور لام کی آواز درمیان میں سے ختم ہو جائے گی۔

یہ بھی یاد رہے کہ خلیفہ کی جمع خُلَفَاء ہے۔ بعض لوگ لام پر سکون کے ساتھ اسے خُلْفَاء پڑھ دیتے ہیں جو درست نہیں۔

مزید پڑھیں: خواتین کا عالمی دن اور اس کی اہمیت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button