ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ خواتین کی دینی تعلیم کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرے
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرمودہ۲۶؍دسمبر ۱۹۵۸ءبمقام ربوہ)
حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۸ء میں یہ بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجس میں آپؓ نے عورتوں کے جمعہ پر آنے اور ان کو دینی علوم سکھانے کی طرف توجہ کرنے کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
جس طرح عورتیں دنیا کے علوم حاصل کر سکتی ہیں اِسی طرح وہ دین کے علوم بھی حاصل کرسکتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ انہیں دین سیکھنے کے مواقع بہم پہنچائیں۔
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
یوں تو عام طور پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ مختصر کیا کرتے تھے اور نماز لمبی پڑھاتے تھے۔(مسلم کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلٰوۃ والْخُطْبَۃ)اور اس کا آپؐ کے صحابہؓ پر اس قدر اثر تھا کہ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو آپ خطبہ کے لیے ممبر پر کھڑے ہوئے اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عربی کا خطبہ پڑھا اور نیچے اُتر آئے لیکن آج تو ضرورت کی وجہ سے بھی خطبہ مختصر پڑھنا چاہیے اور پھر میری صحت بھی اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ خطبہ مختصر ہو کیونکہ اگر خطبہ یا نماز لمبی ہو جائے تو بعد کی تقریروں میں نقص پیدا ہو جاتا ہے اس لیے مجبوری کے طور پر بھی جلسہ کے دنوں میں خطبہ کو مختصرکرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ آج میں اختصار کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جمعہ، اسلام کے نہایت اہم ارکان میں سے ہے۔ قرآن کریم اِس کے متعلق فرماتا ہے کہ اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ (الجمعہ: ۱۰) یعنی جب جمعہ کی اذان ہو تو تم جلدی جلدی باقی تمام کام چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے لیے چلے جایا کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز جمعہ مسلمانوں کے لیے مدرسہ کے طور پر ہے۔ اس میں لوگ امام سے مختلف باتیں سنتے ہیں جن میں اُنہیں دین کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جماعت کا مرکزی حصہ مدینہ میں رہتا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جماعت کا مرکزی حصہ قادیان میں رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کبھی کبھی عورتوں میں بھی تقریر فرمایا کرتے تھے جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کبھی کبھی عورتوں میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل بھی عورتوں میں ہر تیسرے دن درس دیا کرتے تھے۔ اب ہماری باہر کی جماعتیں درس القرآن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں کیونکہ ہمارے پاس نہ تو زیادہ عالم ہیں اور نہ مبلغ ہیں اس لیے
عورتوں کو اسلام نے ہدایت دی ہے کہ وہ نمازِ․جمعہ میں شامل ہوا کریں۔
مجھے یہ بات سن کر نہایت افسوس ہوا کہ ہزارہ کے مبلغ نے مجھ سے ذکر کیا کہ صوبہ سرحد میں عورتیں جمعہ میں نہیں جاتیں کیونکہ اُن کے مرد کہتے ہیں کہ ہم خان ہیں ہماری اِس میں ہتک ہوتی ہے۔(٭ اس خطبہ کے بعد پشاور کے جو موجودہ امیر ہیں انہوں نے کہا کہ یہ کسی خاص شہر کی بات ہوگی ورنہ ہمارے ہاں تو پشاور میں عورتیں جمعہ کے لیے باقاعدگی سے جاتی ہیں۔)لیکن اسلام کا رتبہ خانوں اور پٹھانوں سے بھی بڑا ہے۔ اوّل تو ہمیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مسلمان بڑا ہوتا ہے یا خان بڑا ہوتا ہے۔
نیک محمد خان صاحب پہلے پہلے قادیان آئے تو وہ چھوٹے بچے تھے، اُن کا باپ قندھار کا گورنر تھا۔ حضرت خلیفہ اوّل کا جب آپریشن ہونے لگا تو اِس خیال سے کہ لوگ ہجوم کریں گے اور اِس سے کہیں آپریشن خراب نہ ہو جائے نیک محمد خان کو کمرہ سے باہر پہرہ پر کھڑا کر دیا گیا۔ اکبر شاہ نجیب آبادی کا یہ دعوٰی ہوا کرتا تھا کہ میں حضرت خلیفہ اوّل کا بہت پیارا ہوں اس لیے وہ یہ سنتے ہی کہ حضرت خلیفہ اوّل کا آپریشن ہونے لگا ہے دوڑتے ہوئے آئے لیکن جب وہ کمرہ میں داخل ہونے لگے تو نیک محمد خاں نے روک لیا۔ اس پر وہ کہنے لگے تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟ نیک محمد خاں کہنے لگے آپ کون ہیں؟ انہوں نے کہا میں پٹھان ہوں۔ اکبرشاہ خان یو۔پی کے رہنے والے تھے اور نسلاً پٹھان تھے لیکن نیک محمد خان افغانستان سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے آئے تھے۔ نیک محمد خان نے کہا تم نہیں جانتے میں کون ہوں۔ اکبرشاہ نے کہا ہاں! بتاؤ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا میں احمدی ہوں۔ اِس پر وہ شرمندہ ہو کر الگ ہو گئے۔ تو درحقیقت اسلام اور احمدیت کا رتبہ پٹھان اور خان سے بڑا ہے ورنہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ایک پٹھان نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی بڑا ہوتا ہے۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک پٹھان فقہ پڑھا کرتا تھا۔ اس نے فقہ کی کتاب ’’کنز‘‘ پڑھی ہوئی تھی اور اُس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مذہب حنفی یہ ہے کہ حرکتِ کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک دن اُس پٹھان نے حدیث میں پڑھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بعض دفعہ نماز پڑھتے اور حضرت حسنؓ اور حسینؓ رو پڑتے تو آپ اُنہیں اُٹھا لیتے۔ جب سجدہ میں جاتے تو اُنہیں زمین پر بٹھا دیتے اور جب سجدہ سے اٹھتے تو دوبارہ اُٹھا لیتے۔(بخاری کتاب الصَّلوٰۃ باب اِذَا حَمَلَ جَارِیَۃً صَغِیْرَۃً عَلٰی عَاتِقِہٖ فی الصَّلٰوۃ میں امامہ بنت زینب کا ذکر ہے) اِس پر اُس پٹھان نے کہا ’’خُو! محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا‘‘۔کوئی سننے والا بھی پاس موجود تھا۔ اُس نے کہا کمبخت! محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو ہمیں نماز سکھائی ہے اور تم کہتے ہو محمدصاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ اِس پر وہ کہنے لگا کنز میں اِسی طرح لکھا ہے۔
تو جن قوموں میں دین سے غفلت پیدا ہو جاتی ہے اُن میں ایسی باتیں آجاتی ہیں۔ پس اگر یہ بات ٹھیک ہے کہ مردان، پشاور اور ہزارہ کی عورتیں جمعہ میں نہیں جاتیں اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہیں اور خان ہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ احمدی اور مسلمان اس سے بڑا ہوتا ہے۔
کوئی خان ہو یا پٹھان ہو بلکہ پٹھانوں کا بادشاہ بھی ہو تب بھی وہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا غلام ہے۔ کیونکہ اگرچہ وہ پٹھانوں کا بادشاہ ہے لیکن محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم سب کے بادشاہ ہیں۔
پس پٹھان یا خان ہونے سے کسی کی بڑائی نہیں ہوتی۔
بڑائی اسلام اور احمدیت سے ہوتی ہے۔
اور اسلام اور احمدیت کے سیکھنے کا ذریعہ چونکہ جمعہ ہے اس لیے جلسہ کے موقع پر جبکہ پشاور، مردان اور ہزارہ وغیرہ کے علاقہ کے لوگ آئے ہوئے ہیں میں اُن
سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی بیویوں اور لڑکیوں کو جمعہ میں ضرور بھیجا کرو تا کہ وہ دین سیکھیں اور اِس سے واقف ہو جائیں۔ ورنہ اگر وہ دین سے واقف نہیں ہوں گی تو جماعت میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو جائیں گی۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فیصلہ کیا کہ آپ عورتوں میں تقریر فرمایا کریں گے۔ جس عورت نے تقریر کی تحریک کی تھی وہ اَن پڑھ تھی لیکن اس کا خاوند بڑا مخلص تھا۔ اب اُس کا داماد(٭مولوی قدرت اﷲ صاحب سنوری) بہت مخلص ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عام طور پر وفاتِ مسیح پر تقریر فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے عورتوں میں چند تقریریں کیں۔ ایک دن آپ نے اُس عورت سے پوچھا کہ بتاؤ میں نے اپنی تقریروں میں کیا کچھ بتایا ہے؟ اُس نے کہا آپ نے خدا اور اُس کے رسول کی باتیں ہی بیان کی ہوں گی اَور کیا بیان کیا ہو گا۔ اِس کا آپ کو ایسا صدمہ ہوا کہ آپ نے عورتوں میں تقریریں کرنا ہی بند کردیا۔
تو عورتوں میں تعلیم بہت کم ہوتی ہے۔ اوّل تو وہ تقریر اور خطبہ سن کر بھی یہی کہتی ہیں کہ خدا اور رسول کی ہی باتیں ہوں گی۔ کوئی معیّن مضمون ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن اگر وہ باربار دین کی باتیں سنتی رہیں تو جب ایک جانور بھی باربار سن کر ایک بات سمجھ لیتا ہے تو عورت تو آخر انسان ہے اور خداتعالیٰ نے اُسے بڑا روشن دماغ دیا ہوا ہے۔ اگر وہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں باربار سنے گی تو وہ باتیں اُسے یاد ہو جائیں گی اور وہ پکی مسلمان ہو جائے گی لیکن اگر وہ دین کی باتیں باربار نہیں سنے گی تو اس کا اسلام پختہ نہیں ہو گا وہ کچا رہے گا اور وہ موقع پر پوری طاقت نہیں دکھا سکے گی لیکن
جو عورتیں اسلام کو سمجھ جاتی ہیں وہ بعض دفعہ اپنے ایمان میں اتنی پختہ ثابت ہوتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے۔
رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے زمانہ میں تو اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں مگر میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ایک اَن پڑھ عورت آئی اور کہنے لگی حضور! میرا بیٹا عیسائی ہو گیا ہے۔ آپ دعا کریں وہ پھر مسلمان ہو جائے۔ آپ نے فرمایا تم اُسے میرے پاس بھیجا کرو کہ وہ خدا کی باتیں سنا کرے۔ اُس لڑکے کو سِل کی بیماری تھی اور اُس کی والدہ اُسے قادیان میں حضرت خلیفہ اوّل کے پاس علاج کروانے لائی ہوئی تھی۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُسے نصیحت کرتے رہے اور اسلام کی باتیں سمجھاتے رہے لیکن عیسائیت اُس کے اندر اتنی راسخ ہو چکی تھی کہ جب آپ کی باتوں کا اُس کے دل پر اثر ہونے لگا تو اُس نے خیال کیا کہ میں کہیں مسلمان ہی نہ ہو جاؤں۔ چنانچہ ایک رات وہ ماں کو غافل پا کر بٹالہ کی طرف بھاگ گیا جہاں عیسائیوں کا مشن تھا۔ جب اُس کی ماں کو پتا لگا تو وہ راتوں رات پیدل بٹالہ گئی اور اُسے پکڑ کر قادیان واپس لائی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ عورت، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدموں پر گر جاتی تھی اور کہتی تھی مجھے اپنا بیٹا پیارا نہیں مجھے اسلام پیارا ہے۔ میرا یہ اکلوتا بیٹا ہے مگر میری خواہش یہ ہے کہ یہ ایک دفعہ مسلمان ہو جائے، پھر بےشک مرجائے مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے اُس کی یہ التجا قبول کی اور وہ لڑکا مسلمان ہو گیا اور اسلام لانے کے چند دن بعد مر گیا۔
تو
بعض عورتیں بعض مردوں سے بھی زیادہ اسلام میں پکی ہوتی ہیں۔ مرد بعض اوقات کمزوری دکھا جاتے ہیں مگر عورتوں میں بڑی ہمت ہوتی ہے۔
افریقہ سے ایک عورت آئی۔ وہ پینتیس سال کے بعد وطن واپس آئی تھی۔ وہیں اُس کا خاوند فوت ہو گیا تھا۔ واپس آئی تو اُس نے مجھے بتایا کہ میری یہاں ایک بہن ہے۔ اُس نے کہا ہے کہ میری لڑکیاں ہیں اُن سے اپنے بیٹوں کی شادی کردو۔ میں نے کہا اِن کو لٹریچر دو تا کہ وہ اِس کا مطالعہ کریں اور انہیں احمدیت سے واقفیت ہو جائے تو پھر بےشک شادی کردینا۔ اِس پر اُس نے کہا اگر غیراحمدی لڑکی سے شادی کرنا درست نہیں تو میں انہیں چھوڑ دیتی ہوں۔ مجھے ان کو چھوڑ دینا منظور ہے حالانکہ وہ پینتیس سال کے بعد واپس آئی تھی اور اپنی بہن سے ملی تھی۔ میں نے کہا تم جواب نہ دو انہیں لٹریچر دو اور کہو وہ اِس کا مطالعہ کریں۔ اگر تمہاری اور تمہاری بیٹیوں کی سمجھ میں آ جائے اور وہ احمدی ہو جائیں تو میں اپنے لڑکوں کی شادی تمہاری بیٹیوں سے کر دوں گی ورنہ نہیں کروں گی۔ اِس پر اُس نے کہا میں اِسی طرح کر لیتی ہوں۔ لیکن کئی مرد بڑی ضد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں شادی کر لیں تو یہ فائدہ ہوگا کہ ایک اَور خاندان احمدیت میں داخل ہو جائے گا۔ اور وہ اتنا مغز کھاتے ہیں کہ انسان کے سر میں درد شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ عورت سنتے ہی کہنے لگی بس میں اپنی بہن سے کہہ دیتی ہوں کہ میں اس کی لڑکیاں نہیں لے سکتی۔
تو عورتیں بعض دفعہ خداتعالیٰ کے فضل سے مردوں سے بھی اخلاص میں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ کئی مرد کمزوری دکھا جاتے ہیں اور عورتیں اپنے اخلاص کی وجہ سے اُن سے آگے بڑھ جاتی ہیں
اور اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بعض مرد اپنی عورتوں کو دین کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں۔
کراچی میں ایک احمدی دوست تھے۔ اُن کی بیوی غیراحمدی تھی۔ وہ جب کبھی جلسہ پر آتے تو لٹریچر ساتھ لے جاتے۔ ایک دن اُن کی بیوی نے کہا آپ اردو میں لٹریچر لایا کریں تا میں بھی پڑھا کروں۔ چنانچہ وہ اردو کا لٹریچر گھر لے جانے لگے۔ وہ عورت لٹریچر مطالعہ کرتی رہی اور کچھ عرصہ کے بعد احمدی ہو گئی اور اب تو وہ بہت مخلص ہے۔ اس نے اسی سال میری ایک بیوی کو لکھا تھا کہ میں جلسہ پر آ رہی ہوں لیکن وہ بعض وجوہات کی بناء پر نہیں آسکی۔ مجھے یاد ہے میں پچھلی دفعہ کراچی گیا تو وہ میرے پاس آکر روتی تھی کہ میری بیٹی کالج میں پڑھتی ہے، کوئی ایسی کتاب دیں جو میں اُسے دوں اور وہ اُسے پڑھتی رہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کالج کے اثر کے نیچے دین سے دور چلی جائے۔
تو یہ چیز اﷲ تعالیٰ کی ہی دین ہے اور چونکہ کئی عورتوں نے نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ دوسری عورتوں کو دین کی باتیں سیکھنے سے محروم رکھا جائے۔ یہاں ربوہ میں عورتوں نے اپنا ایک ہال بنایا ہوا ہے۔ پھر انہوں نے ایک K.G.SCHOOL اور ایک سلائی کا سکول کھولا ہوا ہے۔ K.G.SCHOOL میں لڑکے بھی پڑھتے ہیں لیکن لڑکے اکثر فیل ہو جاتے ہیں اور لڑکیاں پاس ہو جاتی ہیں۔
تو
جس طرح عورتیں دنیا کے علوم حاصل کر سکتی ہیں اِسی طرح وہ دین کے علوم بھی حاصل کرسکتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ انہیں دین سیکھنے کے مواقع بہم پہنچائیں۔
اگر ہم انہیں دین سیکھنے کے مواقع بہم نہیں پہنچائیں گے تو ہم مجرم ہوں گے، وہ مجرم نہیں ہوں گی۔ خدا ہمیں کہے گا تم گنہگار ہو۔ اِن عورتوں میں دین سیکھنے کی طاقت موجود تھی لیکن تم نے انہیں دین سیکھنے کے مواقع بہم نہیں پہنچائے۔ پس
آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ عورتوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ کریں۔
میں نے جب تفسیرصغیر لکھی تو اگرچہ میرا حق تھا کہ میں کچھ کاپیاں مُفت حاصل کروں مگر میں نے بہت سی کاپیاں خرید کر اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو دیں اور کہا اسے پڑھو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ تا کہ میری محنت غیروں کے ہی کام نہ آئے بلکہ میرے اپنے خاندان کے بھی کام آجائے۔‘‘
(الفضل۱۰؍فروری۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: Earth HourاورEarth Day- ہمارا زمین سے اظہارِ محبت