حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قبولِ احمدیت کے چند ایمان افروز واقعات

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۴؍نومبر ۲۰۲۳ء)

بابائیو اسلام بیک (Boboev Islombek) صاحب روسی ہیں،قرغیزستان کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرا تعلق قرغیزستان میں کاشغر قِشلاق سے ہے اور کہتے ہیں میرے خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کرتے ہوئے حقیقی اسلام یعنی جماعت میں شامل ہو رہا ہوں۔ احمدیت میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اسلام کی خوبیوں کو بہت عمدہ طریق پر بیان کیا ہے۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ صرف امام مہدیؑ ہی اس طرح اسلام کی خوبیوں کو بیان کر سکتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے متقی بنا دے اور دس شرائط بیعت پر عمل کرنے والا بنا دے۔ یہ ایک دُور دراز کے علاقے میں بیٹھے ہوئے شخص کا بیان ہے۔ اب ایک جگہ نہیں ہر ملک میں یہ حال ہے۔

…پھرتنزانیہ کا ایک ریجن ہے شیانگا۔ وہاں کی ایک جماعت ہے مونگا لانگا (Mwangalanga)۔ یہاں جماعت میں جب احمدیت کا آغاز ہوا تو شروع میں احمدی احباب درختوں کے سائے میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے۔ اسی دوران وہاں پر ایک شخص محمد فونگونگا (Fungagunga) نے جماعت کی شدید مخالفت شروع کر دی اور چند احباب سےمل کر مشہور کر دیا کہ یہ احمدی تو مسلمان ہی نہیں ہیں اور ہم مسلمان جلد ہی یہاں مسجد بنائیں گے۔ اس شخص نے ایک صاحبِ حیثیت خاتون کی ضمانت بھی لے لی کہ وہ مسجد کے لیے رقم دے گی۔ دوسری طرف جب ایک مخلص احمدی رمضان صاحب نے اپنی زمین مسجد کے لیے وقف کی تو اس شخص نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہ قطعہ زمین غیر از جماعت مسلمانوں کو مل جائے مگر وہ احمدی ثابت قدم رہے یہاں تک کہ جماعت کی مسجد بننا شروع ہوئی اور پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔ اس اثنا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ اس مخالف شخص کے گھر تک پہنچی۔ اب یہ مخالفت کر رہا ہے اور اس کے گھر بھی احمدیت کا پیغام پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی اور بچوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی اور اب وہ اپنی مخالفت میں اکیلا رہ گیاہے۔ اب اگر اس شخص میں عقل ہو اور اس جیسے بہت سے ایسے لوگ ہیں تو ان کے لیے یہی نشان کافی ہے کہ باوجود مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے اس کے بیوی بچوں کے دل میں حقیقی اسلام کا جوش پیدا کیا اور اس کا کوئی زور نہیں چلا۔ یہ ایمان، یہ تبدیلی کوئی انسان پیدا کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی ہوتا ہے۔

پھر ایک اَور مثال ہے ایمان کی مضبوطی کی، اللہ تعالیٰ کی تائید کی۔ارجنٹائن اب ایک دُور سے امریکہ کے علاقے میں بالکل دوسرا علاقہ ہے۔ ایک افریقہ چل رہا ہے۔ کوئی روس چل رہا ہے ۔کبھی امریکہ ہے۔ وہاں کی ایک خاتون ہیں ماریلہ (Mariela) صاحبہ انہوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن وہ مسلمانوں کے عملی رویّے کی وجہ سے اسلام سے دُور جا رہی تھیں۔ احمدی نہیں ہوئی تھیں۔ اسلام قبول کر لیا تھا۔ جب موصوفہ کا جماعت احمدیہ سے تعارف ہوا اور وہ مشن ہاؤس آکر ہماری عربی اور اسلام کلاسز میں شامل ہوتی رہیں اور کچھ ماہ بعد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئیں۔ کہنے لگیںکہ مجھے بیعت کر کے اطمینان ہوا ہے کیونکہ میں نے جماعت کی تعلیمات اور عمل میں مطابقت پائی ہے اور حقیقی اخوّت کی فضا محسوس کی ہے۔اس میں ہر ایک کو خواہ نیا آنے والا ہو خدمت کا موقع دیاجاتا ہے اور کسی قسم کی discriminationنہیں ہے، فرق نہیں ہے۔ موصوفہ کی بیٹی جو کہ غیرمسلم ہے وہ سنّی اسلامک سنٹر میں پڑھ رہی تھی، یہ ان کا ہائی سکول تھا۔ عربوں نے وہاں پیسہ خرچ کیا ہوا ہے۔ جب سکول کی ایڈ منسٹریشن کو اس کی والدہ کے جماعت میں شامل ہونے کا پتہ چلا تو اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہے۔ جب سکول والوں کو علم ہوا کہ ان کی بیٹی نے اپنے سکول کے پراجیکٹ کے تحت اپنی ذاتی خواہش سے جماعت کے مشن ہاؤس کے لیے خاص ڈیکوریشن کے piecesبھی تیار کیے ہیں تو اس پر سکول کی انتظامیہ سخت ناراض ہوئی اور اس بچی کو کہا کہ جماعت احمدیہ کی حمایت میں تمہارے لیے سکول میں مشکلات ہوں گی۔ تم اور تمہاری والدہ جماعت سے علیحدہ ہو جاؤ۔ جب اس کی والدہ کو علم ہوا تو اس نے فوراً بغیر کسی تردّد کے خود ہی اپنی بیٹی کا اس اسلامی سکول سے تبادلہ کروا لیا اور کہنے لگی کہ اب مجھے بھی اور میری بیٹی کو بھی تسکین ہے کہ ہمیں کوئی بھی ہمارے مذہب کی بنا پر تنگ نہیں کرے گا۔ میں نے جماعت کو حق خیال کرتے ہوئے قبول کیا ہے تو پھر میں غیروں کے سامنے بھی خوشی اور فخر سے اس کا اظہار کروں گی خواہ انہیں برا ہی لگے۔ یہ ایمان ہے جو اُن لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے۔

بخارا جو رشیا کا علاقہ ہے وہاں ایک مخلص احمدی سنت سلطانووچ صاحب ہیں۔ازبکستان سے ان کا تعلق ہے اور رشیا میں ملازمت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں اکیلا ہی احمدی ہوں اور اپنی اہلیہ اور بچے کو اسلام احمدیت کی تعلیمات سے متعارف کراتا رہتا ہوں۔ شوق ہے کہ میرے بیوی بچے بھی احمدی ہو جائیں۔ بہت دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسلام احمدیت کے نور سے منور کرے۔ کہتے ہیں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری خواب میں آئے اور میرے دل پر سر رکھ کر مسلسل سورۂ اخلاص کی تلاوت فرما رہے ہیں جس سے مجھے بہت ہی دلی سکون ملا۔ اسی طرح میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ موجود ہوں اور وہاں میں نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑکو بھی دیکھا۔ مجھے اس خواب سے یہ اطمینان ملا کہ جنت سے مراد اسلام احمدیت ہے جس کی تعلیم جنت نما ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری اہلیہ اور بیٹے کو بھی اس جنت میں لے کر آئے گا۔ ابھی اس خواب کو چند دن ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے انیس سالہ بیٹے دیار بیگ سنت کا دل اسلام احمدیت کے لیے کھول دیا اور اس نے بیعت کر لی ہے۔ میرے لیے بڑا خوشی کا دن تھا۔ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح میری اہلیہ کے دل کو بھی کھولے اور اسلام احمدیت کی آغوش میں لے آئے۔ تو یہ جوش اور جذبہ ہے ان لوگوں کا۔

…پھر دیکھیں افریقہ کا ایک ملک ہے اس کے گاؤں میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دینے کے بعد پھر کس طرح ایمان میں مضبوطی عطا فرمائی۔برکینا فاسو کے ڈوری ریجن کی جماعت ٹاکا (Taka) کے ایک احمدی خادم جابر صاحب کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ دہشت گردوں نے پکڑ لیا اور کہا جس طرح کل ہم نے مہدی آباد میں احمدیوں کو مارا ہے تمہیں بھی قتل کر دیں گے۔ پھر ان کا موبائل فون لے کے چیک کیا تو اس میں سے جماعتی مبلغین کی تقاریر ملیں۔ تقاریر سن کر کہنے لگے کہ ہم ان سب کی تلاش میں ہیں کیونکہ یہ ریڈیو پر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس طرح احمدی خادم سے اس کے والد صاحب کا پتہ پوچھا اور کہاکہ کل ہم تمہارے گاؤں آئیں گے۔ جابر صاحب کو جب یہ پتہ لگا تو وہ گھر آئے اور اپنے والد اور گھر والوں کو لے کر اسی رات محمد آباد جو ڈوری میں ہے اور جہاں جماعت کی آبادی ہے وہاں آ گئے اور اب گھر بار اور سامان وغیرہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا۔ اگلے روز دہشتگرد ان کے گاؤں آئے اور ایک شخص سے زبردستی ان کے گھر کا پتہ معلوم کر کے وہاں پہنچے۔ پورے گھر کی تلاشی لی۔ سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا اور یہ ساتھ کہتے رہے کہ یہاں جو بھی احمدی ہے اسے قتل کر دیں گے۔ بہرحال وہ تو وہاں سے آ گئے تھے اور اس وقت جماعتی انتظام کے تحت وہاں محمد آباد میں مقیم ہیں۔

برکینا فاسو کے شہیدوں نے اپنی جان دے کر وہاں کے احمدیوں کا ایمان کمزور نہیں کیا بلکہ ہر روز ان کے ایمان میں مضبوطی آ رہی ہے۔اب ان غریب لوگوں نے اپنا تھوڑا بہت جو بھی سامان تھا ،گھر میں گھر بار اور جو روزی کا سامان تھا جس پر ان کا انحصار تھا سب کچھ چھوڑ دیا لیکن اپنا ایمان نہیں چھوڑا۔ ان لوگوں کو احمدیت قبول کیے ابھی چند سال گزرے ہیں لیکن ایمان میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اَور ہستی نہیں جو اس طرح ان کے ایمانوں کو مضبوط کر رہی ہے۔

ایک طرف تو احمدیت کی مخالفت کے باوجود ایمان کی مضبوطی کے ہم نظارے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کثرت سے نظر آتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کے لیے کھول رہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا یہ وقت ہے تلاش کرو اللہ تعالیٰ بھی پھر اس میں مدد کرتا ہے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: صحابہ رسول ﷺکی قربانیوں کا ذکر

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button