یادِ رفتگاں

میرے ابا جی، ماسٹر غلام محمد نصیر صاحب

میرے ابا جی ماسٹر غلام محمد نصیر صاحب ضلع گوجرانوالہ کےعلاقہ مدرسہ چٹھہ میں میاں احمد دین صاحب کے ہاں ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوئے۔ آپ ان کی اکلوتی اولاد تھےاور پیدائشی طور پر اہلِ تشیع تھے۔ آپ کے والد کٹر شیعہ تھے اور ہر ۹؍محرم کو ایک قریبی گاؤں سے آنے والے محرم کے جلوس کے لیے ذاتی خرچ پر کھانے کا خاص انتظام کیا کرتے تھے۔

ہمارے گاؤں میں جب احمدیت کا چرچا ہوا اور وہاں ایک احمدی عالم تبلیغ کے لیے آنے لگے، تو گاؤں کے شیعہ امام نے جماعت احمدیہ کی مخالفت شروع کر دی۔ شیعہ امام نے پڑھے لکھے نوجوانوں کا ایک گروپ تیار کیا اور ان نوجوانوں کو سوالات دے کر کہتا کہ احمدی عالم سے پوچھنا اور ساتھ یہ بھی کہتا کہ وہ ان کے جواب نہیں دے پائیں گے۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلتا رہا، لیکن میرے ابا جی اور دیگر نوجوانوں نے محسوس کیا کہ احمدی عالم کے جواب بہت تسلی بخش اور درست محسوس ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نوجوانوں نے فوری احمدی ہونے کا فیصلہ کیا جبکہ چند نوجوانوں نے کچھ عرصہ خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ جن چند نوجوانوں نے فوری طور پر احمدیت قبول کرنے کا فیصلہ کیا، ان میں سے ایک میرے ابا جی بھی تھے۔ میرے اباجی نے ۱۹۳۶ء میں تقریباً ۲۱؍سال کی عمر میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔

قبول احمدیت کے بعد مخالفت:جب میرے ابا جی کے احمدیت قبول کرنے کی خبر اُن کے والد کو پہنچی تو وہ بہت غصہ ہوئے۔ انہوں نے ابا جی سے کہا کہ وہ توبہ کریں یا گھر چھوڑدیں۔ گھر سے نکالے جانے کے بعد ابا جی ہفتہ دس دن مختلف گھروں میں رہے۔ پھر عید کا دن آیا تو ان کی والدہ سے رہا نہ گیا اور وہ اُن کے پیچھے گئیں۔ انہوں نے کہاکہ آج عید کا دن ہے اور میں نے نہ کچھ بنایا ہے اور نہ کچھ کھایا ہے۔جو تم نے کرنا تھا وہ کر لیا، اب چلو گھر چل کر عید کے لیے کچھ بناتے ہیں۔ ابا جی گھر تو چلے گئے، لیکن ان کے والد کا غصہ برقرار رہا، اور جب انہیں گھر میں دیکھتے تو اکثر باہر چلے جاتے۔

ابا جی کی شادی بیعت سے کچھ عرصہ پہلے ہی ہوئی تھی۔ احمدی ہونے کی خبر پھیلی تو ابا جی کے سسرال والوں کو گاؤں کے شیعہ حضرات نے کہنا شروع کر دیا کہ آپ کا داماد کافر ہو گیا ہے اور آپ کی بیٹی کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، آپ لڑکی کو واپس لے آئیں۔ امی کو ان کے گھر والے لے گئے۔ اللہ کا فضل تھا اور امی کی والدہ سمجھدار تھیں، انہوں نے کچھ عرصہ بعد امی کو واپس ابا جی کے پاس بھیج دیا۔ ابا جی کی تبلیغ سے امی بھی احمدی ہو گئیں اور احمدی ہونے کے بعد امی کا دین سے لگاؤ بڑھ گیا اور انہوں نے قرآن مجید کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔

شوقِ تبلیغ: ابا جی نے تبلیغ کا سلسلہ احمدی ہوتے ہی شروع کر دیا تھا۔ آپ رشتے داروں اور گاؤں والوں کو کافی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ابا جی کے قبول احمدیت کے کچھ عرصہ بعد ہمارے دادا کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی اور ان کا غصہ بھی بتدریج کم ہونے لگا۔ ایک دن موقع پا کر ابا جی نے ان سے احمدیت کے بارے میں بات کی اور تبلیغ کی۔ وہ بیعت کے لیے راضی ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ جس چیز نے مجھے احمدی ہونے سے روکے رکھا، وہ میری محرم کی مہمان نوازی تھی۔ میری اس مہمان نوازی کی وجہ سے گاؤں میں لوگ میری بہت تعریف کیا کرتے تھے اور میری بہت عزت تھی۔ اسی دوران میرے ابا جی کے کچھ رِشتہ دار بھی وہاں موجود تھے، جنہوں نے بھی بیعت کر لی۔الحمدللہ۔ ابا جی کی تبلیغ سے آپ کے کئی رِشتہ داربشمول ایک خالہ زاد بھائی اور ان کے چار بچے احمدی ہوئے تھے۔ تبلیغ کے علاوہ، ابا جی احمدی ہونے کے بعد وقفِ عارضی بھی کرتے رہے۔

حصولِ تعلیم اور پڑھائی سے محبت: میرے ابا جی بچپن میں سکول نہیں گئے، لیکن پڑھنے کا شوق اتنا تھا کہ اپنی جیب خرچ سے پہلی اور دوسری جماعت کے قاعدے چپکے سے خریدے اور دوسرے بچوں سے پڑھنا سیکھا۔ والدین پڑھائی کے خلاف تھے کیونکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کر لیا جاتا تھا۔ جب ابا جی نے زیادہ اصرار کیا تو کچھ سال کے لیے والدین نے گھر پر استاد کا انتظام کر دیا۔ استاد کے سمجھانے پر بالآخر انہیں سکول جانے کی اجازت مل گئی، اور انہوں نے آٹھویں جماعت میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔ابا جی کو مزید تعلیم حاصل کرنے کی بہت خواہش تھی اور انہیں اس مقصد کے لیے وظیفہ کی پیشکش بھی ہوئی، لیکن والدین نے اجازت نہ دی۔

ابا جی اپنے رشتے میں ایک بھانجے کو ریاضی سمجھایا کرتے تھے۔ ایک روز ان کے بھانجے سے استاد نے پوچھا کہ تم یہ ریاضی کہاں سے سمجھ رہے ہو؟ ان کے بتانے پر استاد نے اباجی کو سکول بلوا لیا اور انہیں سکول میں پڑھانے کی ملازمت کی پیشکش ہوئی، جو انہوں نے قبول کر لی۔ اباجی نے ملازمت کے دوران ٹیچر ٹریننگ کا امتحان بھی پاس کیا اور ہومیوپیتھی کا کورس بھی مکمل کیا۔

ابا جی نے ہومیوپیتھی کی پریکٹس شروع کی تو اللہ کے فضل سے کافی لوگوں کو شفا ملی۔ ابا جی نے کبھی دوا کی قیمت کا مطالبہ نہیں کیا۔ جو کوئی دے دیتا یا نہ بھی دیتا تو آپ کبھی مطالبہ نہ کرتے۔ ایک بار ایک غیر احمدی ابا جی کا سن کر علاج کرانے آیا۔ اسے معدے کی تکلیف تھی اور کافی جگہوں سے علاج کرا چکا تھا، مگر آرام نہیں آیا تھا۔ وہ ابا جی سے کہنے لگا کہ آپ کا نام سنا ہے، میرے پاس آپ کو دینے کو فی الحال کچھ نہیں، لیکن اگرکبھی میرے حالات ٹھیک ہوئے تو آپ کا قرض ضرور اتاروں گا۔ ابا جی نے اس کا مفت علاج کیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔پھر جب اس کے حالات بہتر ہوئے تو اپنے باغات کی کھجوریں کئی سال ہمیں بھجواتا رہا۔

مضبوط ایمان: میرے ابا جی کی ملازمت شروع میں تو ایک قریبی گاؤں میں تھی، لیکن آپ نے کوشش کر کے اپنی ٹرانسفر اپنے گاؤں میں کروائی، جس سے گاؤں والے بہت خوش ہوئے۔ گاؤں والوں نے اپنی بچیوں کو بھی اسکول بھیجنا شروع کر دیا، جن میں بڑی عمر کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ گاؤں والے کہتے کہ اب ہمیں کوئی فکر نہیں، ہمارا اپنا ماسٹر آگیا ہے۔ ابا جی نے ملازمت کے آخری سالوں میں ہماری تعلیم کی خاطر اپنی ٹرانسفر علی پور چٹھہ قصبہ میں کروائی اور ہم کافی سال اس قصبے میں رہے۔ ابا جی علی پور چٹھہ میں بھی تبلیغ کرتے رہے۔۱سی طرح قریب رہنے والے احمدی ابا جی کے پاس آتے جاتے اور اکثر نماز باجماعت بھی ہمارے گھر ہوتی۔

۱۹۷۴ء میں، ہم نے گوجرانوالہ میں ایک مکان خریدا ہی تھا کہ جماعت کے خلاف فسادات شروع ہو گئے۔ ایک شام مخالفین کا ایک جلوس ہمارے گھر آن پہنچا اور مکان کو آگ لگانے کی کوشش کی، جبکہ ہم سب گھر کے اندر بند تھے۔ وہ وقت اتنا خوفناک تھا کہ ڈر کے مارے میرے ہاتھ پیر مڑ گئے۔ ابا جی نے ہمیں اس پریشانی کے عالم میں نصیحت کی کہ میں نے احمدی ہونے کے لیے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں، اب ہم اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سب دعائیں کرتے رہے، اور اللہ کا کرم ایسا ہوا کہ ہمارا مکان کچھ اضافی کمروں کی تعمیر کی وجہ سے کافی گیلا تھا اور آگ پکڑ نہ سکا۔ ہم راتوں رات ربوہ آگئے۔ ہمارا گوجرانوالہ والا مکان بڑی مشکل سے اونے پونے داموں بِکا، اور ہم ربوہ میں اسٹیشن کے قریب ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ پھر خدا کا شکر کہ اس نے ہمیں کچھ سال بعد دوبارہ دارالیمن ربوہ میں اپنا گھر خریدنے کی توفیق دی۔

نظام سلسلہ سے عقیدت : ربوہ میں جب میرا رشتہ مربی سلسلہ صدیق منور صاحب کے لیے آیا تو خاندان کے کچھ بڑوں نے مخالفت کی، لیکن میرے ابا جی بضد رہے کہ شادی مربی سلسلہ سے ہی ہوگی۔ میرے ابا جی بتایا کرتے تھے کہ ان کی بہت خواہش تھی کہ ان کا ایک بیٹا مربی بنے، اور جب یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو اللہ نے انہیں مربی داماد عطا فرما دیا۔ اللہ کے فضل سے ہم سب بہن بھائیوں کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں خدمت کی توفیق ملی۔ اب اباجی کے ایک پوتے مکرم شاہد احمد مسعود مربی سلسلہ آئیوری کوسٹ میں متعین ہیں۔ابا جی کی نسل سے کافی افراد مختلف شعبوں میں جماعتی خدمت بجا لا رہے ہیں۔ نمایاں خدمت کرنے والوں میں ابا جی کے نواسے محمد کلیم ہیں، جنہیں کراچی میں مختلف عہدوں بشمول قائد مجلس، نائب قائد ضلع کراچی مجلس خدام الاحمدیہ اور زعیم اعلیٰ انصار اللہ کراچی خدمت کی توفیق ملی۔ اس طرح کینیڈا میں بطور زعیم اعلیٰ مقامی پیس ولیج مجلس انصار اللہ کینیڈا خدمت کی توفیق ملی اور آج کل قائد تجنید مجلس انصار اللہ کینیڈا کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے فرزند صہیب احمد کلیم جامعہ احمدیہ کینیڈا میں آخری سال کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

آپ نرم زبان، دھیمے لہجے والے، مہمان نواز اور غریبوں کا احساس کرنے والے اور مہمان نوزانسان تھے لیکن ابا جی جماعت کے خلاف تنقید برداشت نہیں کرتے تھے۔ میرے بھائی کا ایک غیر احمدی دوست جب ربوہ آتا تو نظام پر تنقید کرتا۔ اس بات پر اس سے ناراض ہو جاتے۔ جب وہ باز نہ آیا تو آپ نے ایک بار اس سے غصے سے کہا، ’’تم وہ مکھی ہو جو سارے خوبصورت جسم کو چھوڑ کر زخموں پر بیٹھتی ہے۔‘‘

اسی طرح جب ربوہ میں تحریک ہوئی کہ لوگ جماعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں، تو ابا جی نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا اور کچھ عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔

ہمارے ابا جی کا انتقال ۱۵؍جولائی ۲۰۰۲ء کو ہوا۔ابا جی اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ دار الفضل ربوہ میں عمل میں آئی۔

اللہ تعالیٰ ہمارے ابا جی کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو بھی جماعت احمدیہ کے ساتھ وفا کرنے والا بنائے اور کوئی مشکل یا نقصان ہمارے ایمان کو کمزور نہ کرے۔ آمین

(امۃالباسط۔فرانس)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ناصر احمد قریشی صاحب۔میرے شریکِ حیات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button