خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍فروری ۲۰۲۴ءبمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: جنگِ اُحد کے حوالے سے ابوسفیان کے نعروں کا ذکر ہورہا تھا جس میں وہ اپنے بتوں کی بڑائی بیان کررہا تھا اور اس پرآنحضرت ﷺ کی خدا تعالیٰ کے لیے غیرت کا اظہار تھا۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسلمانوں اورابوسفیان کےدرمیان ہونےوالےمکالمہ کی بابت حضرت مصلح موعودؓ کاکیا موقف بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: آپؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جب مسلمانوں کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ رسول کریم ﷺ شہید ہوگئے ہیں تو وہ جلدی جلدی واپس لوٹے اور انہوں نے آپؐ کے اوپر سے لاشوں کو ہٹایا۔ معلوم ہوا کہ آپؐ ابھی زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں۔ اس وقت سب سے پہلے آپؐ کے خَود کا کیل نکالا گیا۔ یہ کیل نکلتا نہیں تھا آخر ایک صحابیؓ نے اپنے دانتوں سے نکالا جس کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ پھر آپؐ کے منہ پر پانی چھڑکا گیا تو آپؐ ہوش میں آ گئے۔اکثر صحابہؓ تو تتربتر ہوچکے تھے صرف چند صحابہؓ کا گروہ آپؐ کے پاس تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا ہمیں اب پہاڑ کے دامن میں چلے جانا چاہئے۔ چنانچہ آپؐ ان کو لے کرایک پہاڑی کے دامن میں چلے گئے اور پھر باقی لشکر بھی آہستہ آہستہ اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ کفار کا لشکر جب واپس جا رہا تھا تو ابوسفیان نے بلند آواز سے رسول کریم ﷺ کا نام لیا اور کہا ہم نے اسے مار دیا ہے۔ صحابہؓ نے جواب دینا چاہا مگر آپؐ نے ان کو روک دیا۔ فرمایا: یہ موقعہ نہیں۔ ہمارے آدمی تتر بتر ہوچکے ہیں کچھ مارے گئے ہیں اور کچھ زخمی ہیں۔ ہم تھوڑے سے آدمی یہاں ہیں اور پھر تھکے ماندے ہیں۔ کفار کا لشکر تین ہزار کا ہے اور وہ بالکل سلامت ہے۔ایسی حالت میں جواب دینا مناسب نہیں۔ وہ اگر کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے مار دیا ہے تو کہنے دو۔ چنانچہ آپؐ کی ہدایت کے مطابق صحابہؓ خاموش رہے۔جب ابوسفیان کو کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابوبکرؓ کو بھی مار دیا ہے۔ آپؐ نے صحابہؓ کو پھر جواب دینے سے روک دیا اور فرمایا خاموش رہو۔ وہ کہتا ہے تو کہنے دو چنانچہ صحابہؓ اس پر بھی خاموش رہے۔ ابوسفیان کو جب پھر کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا ہے۔ حضرت عمرؓ بڑے تیز طبیعت کے تھے۔ آپؓ بولنے لگے لیکن رسول اللہ ﷺ نے آپ کو منع کر دیا۔ بعد میں آپ نے بتایا‘‘ حضرت عمرؓ نے بعد میں یہ کہا ’’کہ میں کہنے لگا تھا کہ تم کہتے ہو ہم نے عمرؓ کو مار دیا ہے حالانکہ عمرؓ اب بھی تمہارا سر توڑنے کے لئے موجود ہے۔ بہرحال رسول کریمﷺ نے ان کو بھی جواب دینے سے منع کر دیا۔ جب ابوسفیان نے دیکھا کہ کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے نعرہ مارا۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔یعنی ہبل دیوتا جسے ابوسفیان بڑا سمجھتا تھا اس کی شان بلند ہو۔ ہبل کی شان بلند ہو۔ (یعنی آخر ہمارے ہبل نے محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھیوں کو مار ہی دیا۔) صحابہؓ کو چونکہ رسول کریم ﷺ نے بولنے اور جواب دینے سے منع فرمایا تھا اس لئے وہ اب بھی خاموش رہے مگر خدا کا وہ رسولؐ جس نے اپنی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو۔ حضرت ابوبکرؓ کی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو۔ حضرت عمرؓ کی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو اور جو بار بار کہتا تھا کہ اس وقت ہمارا لشکر پراگندہ ہے اور خطرہ ہے کہ دشمن پھر حملہ نہ کر دے اس لئے خاموشی کے ساتھ اس کی باتیں سنتے چلے جاؤ۔ اس مقدس انسانؐ کے کانوں میں جب آواز پڑی اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ہبل کی شان بلند ہو، ہبل کی شان بلند ہو تو اس کے جذبہ ٔ توحید نے جوش مارا کیونکہ اب محمد رسول اللہ ﷺ کا سوال نہیں تھا اب ابوبکرؓ اور عمرؓ کا سوال نہیں تھا۔اب اللہ تعالیٰ کی عزت کا سوال تھا۔ آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا تم کیوں جواب نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم کیا جواب دیں؟ آپؐ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ہبل کیا چیز ہے خدا تعالیٰ کی شان بلند ہے خداتعالیٰ کی شان بلند ہے۔ یہ کتنا شاندار مظاہرہ آپؐ کے جذبۂ توحید کا ہے۔ آپؐ نے تین دفعہ صحابہؓ کو جواب دینے سے روکا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو خطرہ کی اہمیت کا پورا احساس تھا۔ آپؐ جانتے تھے کہ اسلامی لشکر تتر بتر ہوگیا ہے اور بہت کم لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں۔ اکثر صحابہؓ زخمی ہوگئے ہیں اور باقی تھکے ہوئے ہیں۔ اگر دشمن کو یہ معلوم ہوگیا کہ اسلامی لشکر کا ایک حصہ جمع ہے تو وہ کہیں پھر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے مگر ان حالات کے باوجود جب خدا تعالیٰ کی عزت کا سوال آیا تو آپؐ نے خاموش رہنا برداشت نہ کیا اور سمجھا کہ دشمن کو خواہ پتہ لگے یا نہ لگے۔ خواہ وہ حملہ کرے اور ہمیں ہلاک کر دے اب ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ چنانچہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا تم خاموش کیوں ہو؟ جواب کیوں نہیں دیتے کہ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔‘‘

سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت حنظلہؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: اسی جنگ میں ایک اَور صحابی کی جاں نثاری، بہادری اور نبی اکرم ﷺ کی محبت میں اپنی جان تک قربان کردینے کا واقعہ ملتا ہے۔ یہ وہ صحابی تھے کہ ان کی بیوی بتاتی ہیں کہ میرے شوہر کو جب پتہ چلا کہ نبی اکرم ﷺ جنگ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں تو میرے شوہر پر غسلِ جنابت فرض تھا لیکن نبی اکرمﷺ کے جانے کی خبر سن کر اتنی جلدی اور بے تابی سے گھر سے نکلے ہیں کہ غسل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور تلوار لے کر میدانِ جنگ کی طرف چل پڑے۔ جنگ کے دوران وہ ایک دفعہ کفار کے سپہ سالار ابوسفیان کے سامنے پہنچ گئے۔ ابوسفیان گھوڑے پر تھا۔ حضرت حنظلہؓ نے اس کے گھوڑے پر وار کر کے اسے زخمی کر دیا جس کے نتیجہ میں گھوڑے نے ابوسفیان کو نیچے گرا دیا۔ ابوسفیان نیچے گرتے ہی چلانے لگا۔ ادھر حضرت حنظلہؓ نے فوراً تلوار بلند کر کے ابوسفیان کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا مگر اسی وقت شَدَّاد بن اوس کی ان پر نظر پڑی۔ ایک قول کے مطابق صحیح نام شدّاد بن اَسْود ہے۔ غرض شدّاد نے حضرت حنظلہؓ کو ابوسفیان پر تلوار بلند کرتے دیکھا تو اس نے جلدی سے حضرت حنظلہؓ پر تلوار کا وار کر کے انہیں شہید کر دیا۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت حنظلہؓ کے قتل پر فرمایا کہ تمہارے ساتھی یعنی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ آسمان اور زمین کے درمیان چاندی کے برتنوں میں صاف شفاف پانی لیے حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں۔ حضرت حنظلہ ؓکی بیوی کا نام جمیلہ تھا اور یہ سردارِ منافقین عبداللہ بن اُبِی بِن سَلُول کی بیٹی اور حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول کی بہن تھیں۔ حضرت جمیلہؓ نے کہا وہ یعنی حضرت حنظلہؓ جنابت کی حالت میں ہی میدان جنگ میں آ گئے تھے یعنی ان کو غسل کرنے کی ضرورت تھی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت جمیلہ ؓکی آواز سن کر فرمایا’’اسی لیے فرشتے ان کو غسل دے رہے تھے۔‘‘ حضرت حنظلہ ؓکی حضرت جمیلہؓ کے ساتھ شادی کی یہ پہلی رات تھی جس کی صبح کو جنگ اُحد ہوئی … ایک روایت میں ہے کہ حضرت جمیلہؓ نے بیان کیا کہ جب حنظلہ نے دشمن کے مقابلے کے لیے کوچ کا اعلان سنا تو فوراً بغیر غسل کیے نکل کھڑے ہوئے۔ اسی رات میں حضرت جمیلہؓ نے خواب دیکھا کہ اچانک آسمان میں ایک دروازہ کھلا اور ان کے شوہر حضرت حنظلہؓ اس دروازے میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد فوراً ہی وہ دروازہ بند ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت جمیلہؓ نے اپنی قوم کی چار عورتوں کو اس بات کا گواہ بنایا تھا کہ حنظلہ میرے ساتھ ہمبستری کر چکے ہیں۔ ان کو ایسا اس لیے کرنا پڑا کہ ان کے حمل کے سلسلہ میں لوگوں کو شبہات نہ پیدا ہوں۔ شکوک و شبہات بھی لوگ پیدا کرتے ہیں۔ باتیں بھی بناتے ہیں۔ آج کل بھی ایسے لوگ ہیں جو الزام تراشیاں کرتے ہیں۔ بہرحال حضرت جمیلہؓ نے خود اس شک کو دُور کرنے کے لیے گواہ بنا لیے۔ حضرت جمیلہ ؓخود کہتی ہیں کہ ایسا اس لیے کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمان میں ایک دروازہ کھلا جس میں وہ داخل ہوگئےاور دروازہ بند ہوگیا۔ چنانچہ میں سمجھ گئی کہ حنظلہ کا وقت آ چکا ہے اور میں ان کے ذریعہ اس رات حاملہ ہوگئی تھی۔ اس حمل سے عبداللہ بن حنظلہ پیدا ہوئے۔ قریش نے حضرت حنظلہؓ کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کا مُثْلہ نہیں کیا تھا یعنی کان ناک آنکھ نہیں کاٹے تھے کیونکہ ان کا باپ ابوعامر راہب قریش کے ساتھ تھا۔

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت سعدبن ربیعؓ کی شہادت کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت سعد بن ربیعؓ غزوہ بدر اوراُحد میں شامل ہوئے اور غزوہ اُحد میں شہید ہوئے۔ غزوہ اُحد کے روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ میرے پاس سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ میں۔ چنانچہ وہ مقتولین میں جا کر تلاش کرنے لگا۔ حضرت سعدؓ نے اس شخص کو دیکھ کر کہا تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے تاکہ میں آپ ﷺ کے پاس تمہاری خبر لے کر جاؤں۔ تو حضرت سعدؓ نے کہا کہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور آپ ﷺ کو یہ خبر دینا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم آئے ہیں اور میرے سے لڑنے والے دوزخ میں پہنچ گئے ہیں یعنی جس نے بھی میرے ساتھ لڑائی کی اس کو میں نے مار دیا۔ اور میری قوم کو یہ کہنا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عذر نہیں ہوگا اگر رسول اللہ ﷺ شہید ہوجائیں اور تم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص ان کے پاس گیا تھا وہ حضرت اُبَی بن کعبؓ تھے۔ حضرت سعدؓ نے حضرت ابی بن کعبؓ سے کہا۔ اپنی قوم سے کہنا کہ تم سے سعد بن ربیع کہتا ہے کہ اللہ سے ڈرو۔ ایک اَورروایت بھی ہے کہ اور جو عہد تم لوگوں نے عقبہ کی رات رسول اللہﷺ سے کیا تھا اس کو یاد کرو۔ اللہ کی قسم! اللہ کے حضور تمہارے لیے کوئی عذر نہ ہوگا اگر کفار تمہارے نبی ﷺ کی طرف پہنچ گئے اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ حرکت کر رہی ہو یعنی کوئی شخص بھی زندہ باقی رہے۔ یعنی تمہیں اپنی جانیں اللہ تعالیٰ کے رسولؐ اور اس کے دین کے لیے قربان کردینی ہیں۔یہ جذبہ تھا صحابہؓ کا کہ مرتے وقت بھی فکر تھی کہ صرف رسول اللہ ﷺ کی حفاظت ہم نے کرنی ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ابھی وہیں تھا یعنی حضرت سعدؓ کے پاس ہی تھا کہ حضرت سعد بن ربیعؓ کی وفات ہوگئی۔ اس وقت وہ زخموں سے چُور تھے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس حاضر ہوا اور آپؐ کو سب بتا دیا کہ یہ گفتگو ہوئی تھی۔ یہ اُن کی حالت تھی اور اس طرح وہ شہید ہوگئے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کا خیر خواہ رہا۔ حضرت سعد بن ربیعؓ اور حضرت خارجہ بن زیدؓ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔

سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اسلام میں مثلہ کی رسم کےممنوع ہونے کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ’’آنحضرت ﷺ بھی میدان میں اتر آئے ہوئے تھے اور شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع تھی۔ جو نظارہ اس وقت‘‘ یعنی جب جنگ ختم ہوگئی ’’مسلمانوں کے سامنے تھا وہ خون کے آنسو رلانے والا تھا۔‘‘ آنحضرت ﷺ زخمی بھی تھے لیکن آپؐ پھر بھی میدان میں آ گئے۔ شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع ہوئی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’ستر مسلمان خاک وخون میں لتھڑے ہوئے میدان میں پڑے تھے اور عرب کی وحشیانہ رسم مُثْلہ کا مہیب نظارہ پیش کر رہے تھے۔‘‘ ان کے اعضاء کاٹے گئے تھے ان کی شکلوں کو بگاڑا گیا تھا۔ ’’ان مقتولین میں صرف چھ مہاجر تھے اور باقی سب انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ قریش کے مقتولوں کی تعداد تئیس تھی۔ جب آنحضرت ﷺ اپنے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی نعش کے پاس پہنچے تو بے خود ہوکر رہ گئے کیونکہ ظالم ہند زوجہ ابوسفیان نے ان کی نعش کو بُری طرح بگاڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو آپؐ خاموشی سے کھڑے رہے اور آپؐ کے چہرہ سے غم وغصہ کے آثار نمایاں تھے۔ ایک لمحہ کے لئے آپؐ کی طبیعت اس طرف بھی مائل ہوئی کہ مکہ کے ان وحشی درندوں کے ساتھ جب تک انہی کا سا سلوک نہ کیا جائے گا وہ غالباً ہوش میں نہیں آئیں گے۔‘‘ ان کو سبق نہیں ملے گا۔ ’’مگر آپؐ اس خیال سے رک گئے اور صبر کیا بلکہ اس کے بعد آپؐ نے مُثْلہ کی رسم کو‘‘ شکلوں کو بگاڑنے والی جو رسم تھی، اعضاء کاٹنے والی رسم اس کو ’’اسلام میں ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار دےدیا اور فرمایا کہ دشمن خواہ کچھ کرے تم اس قسم کے وحشیانہ طریق سے بہر حال باز رہو اور نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرو۔‘‘ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’…قریش نے دوسرے صحابہؓ کی نعشوں کے ساتھ بھی کم و بیش یہی وحشیانہ سلوک کیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جَحْش ؓکی نعش کو بھی بری طرح بگاڑا گیا تھا۔ جوں جوں آنحضرت ﷺ ایک نعش سے ہٹ کر دوسری نعش کی طرف جاتے تھے آپؐ کے چہرہ پر غم والم کے آثار زیادہ ہوجاتے تھے۔‘‘

مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی2024ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا بصیرت افروز خطاب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button