حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

صحابہ رسول ﷺکی قربانیوں کا ذکر

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍مارچ۲۰۱۸ء)

حضرت عَبّاد بن بشرؓ  ایک انصاری صحابی تھے۔ عین جوانی میں تقریباً پینتالیس سال کی عمر میں ان کو شہادت نصیب ہوئی تھی۔ (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد 3 صفحہ 46 عباد بن بشرؓ دار الفکر بیروت 2003ء)، (الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد 3 صفحہ 496 عباد بن بشرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) ان کی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے وقت جاگے تو مسجد سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آ رہی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لئے بہت جلدی جاگا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ آواز عَباد کی ہے؟ حضرت عائشہ کہتی ہیں مَیں نے عرض کی کہ انہی کی آواز لگتی ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعا دی کہ اے اللہ!عَبّاد پر رحم کر۔ (صحیح البخاری کتاب الشہادات باب شہادۃ الأعمی … الخ حدیث 2655)
کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جو قرآن کریم کی تلاوت میں اپنی راتیں گزار کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے براہ راست حاصل کرنے والے بنے۔ اور راتوں کو اٹھ کر وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اور اس کی رحمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پکارتے تھے۔
حضرت عَبّاد کو اپنی ایک خواب کی وجہ سے یہ یقین تھا کہ انہیں شہادت کا رتبہ حاصل ہو گا۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبّادنے ایک دفعہ مجھے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آسمان پھٹا ہے اور مَیں اس میں داخل ہو گیا ہوں تو پھر وہ جڑ گیا ہے۔ واپس اپنی اصلی حالت میں آگیا ہے۔ اس خواب سے وہ کہتے تھے کہ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کا رتبہ دے گا۔ ان کی یہ خواب جنگ یمامہ میں پوری ہوئی اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے انہوں نے شہادت پائی۔ لیکن جس دشمن سے لڑ رہے تھے اس پر آپ کے دستے نے جس میں تمام انصار شامل تھے فتح پائی۔ آپ تو شہید ہو گئے لیکن دشمن پر فتح پائی۔ حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد ان کا چہرہ تلوار کے زخموں کی وجہ سے پہچانا نہیں جاتا تھا۔ ان کی نعش کو ان کے جسم کے ایک نشان کی وجہ سے پہچانا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد مترجم جلد 4 صفحہ 31 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)
تاریخ ہمیں ایک اور صحابی کے متعلق بتاتی ہے جن کا نام حرام بن ملحان تھا۔ یہ نوجوان نوجوانوں اور دوسروں کو قرآن سکھانے اور غریبوں اور اصحاب صفہ کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ جب بنی عامر کے ایک وفدنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں تبلیغ کے لئے کچھ لوگ بھیجیں تا کہ ہمیں بھی اسلام کا پتہ چلے اور ہمارے لوگ اسلام میں داخل ہوں۔ نیت ان کی اس وقت بھی خراب تھی لیکن بہرحال انہوں نے یہ درخواست کی۔ یہ لوگ قابل اعتبار نہیں تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں سے خطرہ ہے کہ جس کو میں بھیجوں گا اسے شاید تمہارے لوگ نقصان پہنچائیں تو ان کے سردار نے کہا۔ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا۔ لیکن کہنے لگا کہ میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں گا اور سارے میری امان میں ہوں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایک وفد بنی عامر کی طرف بھیجا۔ حرام بن ملحان کو امیر مقرر کیا۔ جب یہ وفد وہاں پہنچا تو حضرت حرام بن ملحان کو شک ہوا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔ ان کے طور کوئی صحیح نظر نہیں آ رہے تھے۔ دُور سے پتا لگ رہا تھا کہ ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ احتیاطی تدبیر کرنی چاہئے اور سب کو وہاں اکٹھے نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر انہوں نے گھیر لیا تو سب کو ایک ہی وقت میں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لئے تم سب یہیں رہو اور مَیں اور ایک اور ساتھی جاتے ہیں۔ اگر تو انہوں نے ہم سے صحیح سلوک کیا تو تم لوگ بھی آ جانا اور اگر ہمیں نقصان پہنچایا تو پھر تم لوگ حالات کے مطابق فیصلہ کرنا کہ کیا کرنا ہے۔ واپس جانا ہے یا ان سے لڑنا ہے یا وہیں رہنا ہے۔ جب یہ حرام بن ملحان اور ان کے ساتھی ان لوگوں کے قریب گئے تو بنی عامر کے سردار نے ایک آدمی کو اشارہ کیا اور اس نے پیچھے سے حرام بن ملحان پر نیزے سے حملہ کیا۔ ان کی گردن سے خون کا فوارہ نکلا۔ انہوں نے اس خون کو اپنے ہاتھوں پر لیا اور کہا کہ رب کعبہ کی قسم! مَیں کامیاب ہو گیا۔ کعبہ کے رب کی قسم مَیں کامیاب ہوگیا۔ اور بعد میں پھر ان کے دوسرے ساتھی کو بھی شہید کر دیا گیا اور پھر باقاعدہ حملہ کر کے باقی جو ستّر لوگ تھے، ان سب کو شہید کر دیا سوائے ایک یا دو کے جو بچے۔ جب ان لوگوں کو ظالمانہ طور پر دھوکے سے شہید کیا جا رہا تھا تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ایک تو ہماری یہ قربانیاں قبول فرما لے اور ہماری اس حالت کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کر دے کیونکہ یہاں تو اطلاع پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبرائیل نے ان صحابہ کا سلام پہنچایا اور وہاں کے حالات اور شہادت کی اطلاع دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اطلاع دی کہ وہ سب شہید کر دئیے گئے ہیں۔ ستر صحابہ تھے جیسا کہ میں نے کہا، اور ان سب کی شہادت کا آپ کو بڑا انتہائی صدمہ تھا۔ آپ نے تیس دن تک ان قبائل کے خلاف دعا کی کہ اے اللہ ان میں سے جنہوں نے یہ ظلم کیا ہے خود ان کی پکڑ کر۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہادتوں کو بڑی عظیم شہادتیں قرار دیا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع … الخ حدیث 4091) (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب ثبوت الجنۃ للشھید حدیث 4917) (تاریخ الخمیس جلد اوّل صفحہ 452 سریہ المنذر بن عمرو الی بئر المعونۃ مطبوعہ موسسۃ شعبان بیروت) (مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 355حدیث 12429 مسند انس بن مالکؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: سورۃ اخلاص ، سورۃ الفلق اور سورۃالنّاس پڑھنے کی اہمیت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button