متفرق مضامین

ہِرَقْلُ۔ عظیم الروم(قسط سوم۔ آخری)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

روایات سے ثابت ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد ہی آپؐ نے خسرو پرویز کو خط لکھا تھا جس کے بعد اس نے یمن کے فارسی حاکم باذان کو آپؐ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ یمن سے بھجوائے گئے فارسی نمائندے جب مدینہ پہنچے تو آپؐ نے ان کو اگلے دن جواب دیا کہ آج رات میرے رب نے تمہارے آقا کو قتل کر دیا ہے (العینی، عمدۃ القاری، جلد ۲ صفحہ ۲۸)

[تسلسل کے لیے دیکھیے الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍فروری ۲۰۲۵ء]

۶۲۲ء کی ادھوری مہم

ہرقل کی حکومت کے پہلے گیارہ سال گویا مسلسل انحطاط، شکست، آفات اور نقصان پر مشتمل تھے۔ مسلسل گیارہ سال! کوئی اَور ہوتا تو شاید مایوس ہو جاتا۔ ہرقل مگر کسی اَور ہی مٹی کا بنا ہوا تھا۔ فولادی اعصاب کے ساتھ اپنے حواس پر قابو رکھتے ہوئے اس نے فارس پر جوابی حملے کا منصوبہ بنایا! انتہائی نقطہ انحطاط تک پہنچ جانے کے بعد ہرقل کی قسمت پھر بدلنے لگی اور اس نے ایسا پلٹا کھایا کہ آج بھی مؤرخین اس پر حیران ہیں۔ ایک مؤرخ ہرقل کی تقدیر کے اس حیرت انگیز چکر کے متعلق لکھتے ہیں:

a reversal of fortunes so extraordinary as to suggest supernatural intervention in human affairs۔ (Howard-Johnston P133)

یعنی قسمت کا یہ پلٹا کھانا اتنا غیر معمولی ہے کہ اس سے خیال ہوتا ہے کہ اس جگہ انسانی معاملات میں کوئی مافوق الفطرت دخل اندازی ہوئی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ہرقل کی فتح کے پیچھے واقعی مافوق الفطرت طاقت کام کر رہی تھی۔ عرب مؤرخین نے اس جگہ یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ہرقل کو مسلسل دو رات خواب میں کہا گیا کہ وہ فارس کے خلاف جنگ لڑے، اسے فتح ملے گی تب اس نے ایسا کرنے کا عزم کیا۔ (طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۱۸۲)

ہرقل کی ۶۲۴ء سے ۶۲۸ ء تک کی مشرقی مہمات

یہ قصہ یقیناً وضعی ہے۔ اگر ہرقل کو ایسا خواب آیا ہوتا، تو ضرور بازنطینی مؤرخین اور ہرقل کے قصیدہ گو درباری شعراء اس کا ذکر کرتے۔ ان کا ایسا نہ کرنا بتاتا ہے کہ یہ صرف قصہ خوانوں کی بنائی ہوئی کہانی ہے جو عرب مؤرخین نے نقل کر دی ہے۔

ہرقل نے سلطنت کی مالی مشکلات کے پیش نظر دارالحکومت قسطنطنیہ میں تین سو سال سے جاری مفت کی ’’سیاسی روٹی‘‘ کی تقسیم بند کر دی تھی۔ شہر میں بڑی تعداد میں لوگ اس روٹی پر ہی گزارہ کرتے اور کام نہ کرتے تھے۔ اسی طرح ہرقل نے ۶۱۵ء میں ایک حکم نامہ کے ذریعہ فوجیوں کی تنخواہ عملاً نصف کر دی تھی۔ (Stratos P101, Howard-Johnston P104)

عام طور پر اس زمانے میں فوجی اس قسم کی کٹوتیوں کے نتیجے میں بغاوت کر دیتے تھے، جیسا کہ فوکاس کے ذکر میں پہلے گزر چکا ہے۔ تاہم ہرقل کے خلاف کوئی بغاوت نہ ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہرقل اپنی افواج میں کس قدر مقبول تھا نیز یہ کہ قوم صورتحال کی نزاکت کو سمجھ کر کس حد تک متحد اور یکسو ہو چکی تھی کہ یہ قربانی کرنے پر تیار ہو گئی۔

ہرقل نے فارس پر اندھا دھند جوابی حملہ نہیں کیا بلکہ اس کی تیاری کے لیے تفصیل کے ساتھ پرانے جرنیلوں کی کتب کا مطالعہ کیا۔ جنگی چالوں اور مختلف تکنیکی معاملات کے متعلق علم حاصل کیا۔ جنگی چالوں کے متعلق نقشے پڑھے۔ اس کے بعد حملہ کی منصوبہ بندی کی اور پھر اسے عملی جامہ پہنایا۔ اسے مختلف مشورے دیے گئے کہ وہ فوجی مہم کی کمان خود کرے یا نہ کرے لیکن اس نے خود کمان کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۶۲۲ء کے ایسٹر والے سوموار یعنی پانچ اپریل کو وہ قسطنطنیہ سے روانہ ہوا۔ اس مہم پر جانے سے پہلے اس نے آفار سردار کو خط لکھا اور اسے اپنے بیٹے کا سرپرست مقرر کر کے درخواست کی کہ ہرقل کی عدم موجودگی میں اگر بیٹے کو ضرورت ہو تو اس کی راہنمائی کرے۔ (Howard-Johnston, P191, P194, P362, Stratos P136)

روانہ ہونے سے پہلے ہرقل نے کلیسا میں دعا کی، مسیحؑ کی ’’ہاتھوں سے نہ بنی تصویر‘‘ اٹھائی اور پھر بحری جہاز میں بیٹھ کر سفر پر روانہ ہوا۔ اس نے قیصریہ کے قریب اپنی فوج کو منظم کیا اور ان کو فوجی مشقیں کروانی شروع کیں۔ اس کی فوج اس وقت محض رومی فوجیوں پر مشتمل تھی اور اس کے ساتھ دیگر اقوام کے دستے نہیں تھے۔ شہربراز کی فوج کے ساتھ جنگ میں معاملہ زیر و زبر ہونے کے باوجود مجموعی طور پر ہرقل بالا رہا۔ اس ابتدائی کامیابی کے باوجود اگست ۶۲۲ء میں اسے یہ جنگی مہم ادھوری چھوڑ کر واپس قسطنطنیہ جانا پڑا۔ اس کی وجہ غالباً مغرب میں رونما ہونے والی آفار قبائل کی شورش تھی۔ لیکن ہرقل نے اپنی فوج اناطولیہ میں ہی چھوڑ دی۔ غالباً اس لیے کہ فارسی بلا روک ٹوک قسطنطنیہ پر حملہ نہ کر سکیں۔ (Stratos P136-P138, P142, Howard-Johnston P198)

آفار قبائل کا حملہ ۶۲۲ء

گو واضح طور پر ہرقل کی اچانک واپسی کی وجہ بیان نہیں کی گئی لیکن مؤرخین اس بات پر کم و بیش متفق ہیں کہ اس کی وجہ آفار قبائل کا حملہ ہی ہو سکتا ہے۔ ہنگری کے میدانوں میں آباد یہ قبائل بازنطینی سلطنت سے بر سر پیکار رہتے تھے۔ اس لیے قرین قیاس ہے کہ انہوں نے ہرقل کی مشرقی سرحد کی طرف توجہ دیکھ کر عقب سے قسطنطنیہ پر حملہ کا منصوبہ باندھا ہو۔ اسی زمانہ میں یونان کے علاقہ پر آفار کے حملہ کا ذکر بھی ملتا ہے جس سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ آفار اس وقت ہرقل کے لیے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ گو اس حملے کا سب سے زیادہ فائدہ فارس کو ہوا تاہم اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ فارس نے آفار کو اس حملہ پر اکسایا ہو۔ ہرقل کی کمزوری سے دیگر ملوک نے بھی فائدہ اٹھایا۔ اندلس میں گوتھوں کے بادشاہ نے رومی سلطنت کے متعدد شہروں پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح اٹلی میں بھی بغاوت ہو گئی۔ (Howard-Johnston P202, P205, Isidor, P61-P62, Kaegi, Heraclius, P93)

ہرقل کے پاس اب آفار قبائل کے ساتھ معاہدہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ۵؍جون ۶۲۳ء کو ہرقل اور آفار سردار کے درمیان صلح کا معاہدہ ہونا طے پایا۔ معاہدہ اور اس کے بعد خوشی کے اظہار کے لیے ہرقل بہت سے تحائف اور کھیلوں کے سامان اور تھیٹر کرنے والوں کو ساتھ لے کر طے شدہ مقام پر پہنچ گیا۔ دوسری طرف سے آفار کا سردار بھی بہت سے ساتھیوں کے ساتھ وہاں آیا۔ لیکن اس نے چنیدہ فوجی قریبی جگہوں میں چھپا دیے تھے تاکہ ہرقل پر حملہ کیا جاسکے۔ مگر ہرقل کو کسی طرح اس منصوبہ کی خبر ہو گئی۔ نہایت مشکل سے بھیس بدل کر ہرقل وہاں سے جان بچا کر فرار ہوا لیکن اس کے بہت سے ساتھیوں کو آفار قبائل گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ اس موقع پر معلوم ہوتا ہے کہ فارس نے آفار قبائل کو ہرقل کے ساتھ غداری و بد عہدی پر انگیخت کیا تھا ورنہ ایسی حرکت جو خود ان کے لیے نقصان دہ تھی کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ (Howard-Johnston P208, P212, Nikephoros 9-10, Theophanes 618-619, Chronicon Paschale P165)

ایسی غداری کے باوجود، صورتحال ایسی مایوس کن تھی کہ ہرقل نے مجبوراً تین اہم رومی اشخاص بطور ضمانت آفار کے سپرد کرنے اور سالانہ دو لاکھ طلائی سکے دینے پر صلح کرلی۔ (Howard-Johnston P213, Kaldellis P363)

ہرقل کو احساس تھا کہ یہ صلح کسی بھی وقت ایک مرتبہ جنگ میں بدل سکتی ہے۔ اس لیے فارس اور آفار کے دوبارہ حملہ اور قسطنطنیہ کے دو اطراف سے گھیرے میں آ جانے سے پہلے اس مسئلہ کا کوئی پائیدار حل نکالنا ضروری تھا۔ اور یہ حل ترک قبائل تھے جو کہ آفار قبائل کے حریف تھے۔ نیز وہ عقب سے حملہ کر کے فارس کو بھی مشکل میں مبتلا کر سکتے تھے۔

فارس پر حملہ ۶۲۴ء

آفار سے صلح کے بعد ہرقل نے فوری طور پر فارس کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ مبینہ طور پر انہی دنوں کسریٰ نے ہرقل کو خط لکھا جس میں اس کی تذلیل کرنے کے بعد مسیحیت پر شدید حملہ کیا گیا اور یاد دلایا گیا کہ مسیحی خدا فارس کے ہاتھ سے یروشلم وغیرہ اہم مقامات کو نہیں بچا سکا اور اب پایہ تخت قسطنطنیہ کا بھی یہی حال ہو گا۔ بلکہ مسیح تو خود کو بھی یہود کے ہاتھ سے نہیں بچا سکا۔ (Howard-Johnston P215-P216)

یہ خط جعلی ہے اور اس کو پھیلانے کا مقصد محض رومیوں کے مذہبی جذبات انگیخت کر کے انہیں فارس کے خلاف اکسانا تھا۔ تاہم ہرقل ’’محبت و جنگ میں سب جائز ہے‘‘کے اصول کے تحت اس جھوٹ کو پھیلا کر اپنے فوجیوں کو جنگ پر انگیخت کرتا رہا۔ اس خط کے جعلی ہونے پر متعدد قرائن ہیں مثلاً یہ کہ اس میں مذہبی گفتگو موجود ہونے کے باوجود فارسی مذہب کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالانکہ کسریٰ کو اپنے مذہب کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا اور اپنے خداؤں کی برتری اور ان کی تائید وغیرہ بتانی چاہیے تھی۔ اسی طرح اس میں مسیحی مذہب کا بہت تفصیلی ذکر ہے جبکہ بالعموم اس کی ضرورت نہ تھی۔ فارس میں مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی۔ جو نئے صوبے فارس میں شامل ہوئے تھے، یعنی شام و فلسطین و مصر وغیرہ، ان میں بھی اکثریت مسیحی تھی۔ اس لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کسریٰ مسیحیت پر ایسے رکیک اور توہین آمیز سخت حملے کرتا تھا جو اس کی اپنی ہی سلطنت میں موجود مسیحیوں کو اس کے خلاف انگیخت کر سکتے تھے۔ طرفہ یہ کہ کسریٰ کی اپنی بیوی، شیریں، بھی مسیحی تھی اور اس کا سلطنت میں بڑا اثر و رسوخ تھا۔ پس یا تو یہ خط سرے سے ہی جعلی تھا یا اگر اصلی تھا بھی تو اس میں مبالغہ کرکے ایسے فقرے شامل کیے گئے جو بازنطینی مسیحیوں، خصوصاً فوجیوں، کے مذہبی جذبات بھڑکانے والے ہوں۔

ہرقل ۲۵؍مارچ ۶۲۴ء کو بمعہ اہل و عیال قسطنطنیہ سے روانہ ہوا۔ اس کی پہلی بیوی فابیہ کے بچے جبکہ دوسری بیوی مارٹینا اور اس کے بچے بھی ساتھ تھے۔ اپریل کی ۱۵؍ تاریخ کو ایسٹر کے بعد دو بچے واپس دار الحکومت بھجوا دیے گئے جہاں ہرقل نے اپنے بیٹے ہرقل قسطنطین کو ۶۲۲ء کی طرح دوبارہ حکومت کی ذمہ داری سونپی۔ قریباً ایک ماہ کے سفر کے بعد ہرقل نے قیصریہ میں پڑاؤ کیا۔ اس موقع پر اس نے کسریٰ کا مذکورہ بالا مبینہ خط پڑھ کر سنانے کا حکم دیا۔ اس خط پر لشکر کے جذبات بھڑکنا ایک طبعی امر تھا۔ چنانچہ فوج ہرقل کی سربراہی میں اپنے ملک اور اپنے مذہب کی خاطر لڑنے پر تیار ہو گئی۔ لشکر کے سرداروں نے ہرقل کو کہا کہ آپ جہاں بھی جائیں گے ہم زندگی و موت میں آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا کرے کہ آپ کے دشمن آپ کے قدموں کے نیچے خاک ہو جائیں۔ اور خداوند ہمارا خدا ان کو زمین سے نابود کر دے اور اس توہین کو بھی جو انہوں نے کی۔ (Howard-Johnston P217-P218) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرقل نے خط پڑھ کر سنانے کا جو حکم دیا تھا اس نے خاطر خواہ اثر کیا۔ فارس و روم کی جنگ صرف ملکی و سیاسی نہ تھی بلکہ اس کا رنگ ایک مذہبی جنگ کا ہو گیا تھا۔

ہرقل کی فوج کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بتائی گئی ہے۔ لیکن یہ حسب معمول اس زمانہ کی مبالغہ آرائیوں میں سے ایک ہے۔ حقیقت میں اس کی فوج ۱۵ سے ۲۰؍ہزار کے درمیان ہو گی۔(Howard-Johnston P220, Kaldellis P364)

آفار قبائل کے حملہ اور ان کی غداری کا ذکر گزر چکا ہے۔ ان کا ایک توڑ ترک قبائل کے ساتھ مل کر کیا جا سکتا تھا۔ ہرقل کو فارس کی برتر فوجی طاقت کے مقابل پر ایک مضبوط حلیف کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے ۶۲۴ء میں ہرقل نے ترک قبائل کے ساتھ رابطہ کیا اور ایک سفیر بحراسود کے پار ترک علاقہ میں بھیجا جو ترک خاقان کے پاس ہرقل کا پیغام لے کر گیا۔ بہت سے مال غنیمت اور مشترکہ کارروائی کے وعدہ پر ترک قبائل ہرقل کے حلیف بننے پر آمادہ ہوگئے۔(Howard-Johnston P221)اس گفت و شنید اور ترکوں کی جانب سے عملی طور پر مدد ملنے میں ایک عرصہ لگا۔

ہرقل نے حملہ کا آغاز آرمینیا کے علاقہ سے کیا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق اس نے راستہ میں آنے والے شہروں کو فتح کیا، قیدی بنائے اور بہت خون خرابہ کیا۔ ہرقل کے ساتھی عرب قبائل نے کسریٰ کے لشکر کے ایک حصہ پر حملہ کیا۔ اس میں انہیں کامیابی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں کسریٰ اپنے لشکر کو چھوڑ کر محفوظ علاقہ میں واپس چلا گیا۔ البتہ جاتے ہوئے اس نے یہ حکم دیا کہ اس علاقے میں تمام فصلیں جلا دی جائیں تاکہ ہرقل کی افواج کو اناج میسر نہ ہو سکے۔ ہرقل نے گنزک شہر پر قبضہ کر لیا۔ کسریٰ اس دوران تخت سلیمان چلا گیا تاکہ وہاں محفوظ خزانہ اور آتشکدہ کی مقدس آگ لے کر دستگرد چلا جائے۔ جب ہرقل تخت سلیمان پہنچا تو اہل شہر نے اس کے رعب میں آ کر صلح کر لی۔ ہرقل نے ان کی جان بخش دی مگر وہاں کے مشہور آتشکدہ کو آگ لگا کر تباہ کر دیا۔ افسوس کہ اس کے نتیجے میں بہت سی دستاویزات اور کتب ضائع ہو گئیں۔ اس کے بعد سردیوں کے موسم کے لیے کاراباخ کے پہاڑوں کے قریب پڑاؤ کیا اور راستے میں تمام علاقے کو تاراج کیا۔ لوگ غلام بنائے، مال لوٹ لیا، عمارتیں تباہ کر دیں اور تمام فارسی فوجی قتل کر دیے۔(Howard-Johnston P220-P230, Kaldellis P363-364)

خسرو نے مدد کے لیے شہربراز کو بلا بھیجا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے شاہین کو ایک نیا لشکر تیار کرنے کا حکم دیا۔ اور شہراپلاکان کو بھی ایک لشکر تیار کرنے کا حکم دیا۔ ان تینوں لشکروں نے ہرقل کو گھیر کر شکست دینی تھی۔ تینوں کی مجموعی قیادت غالباً شاہین کو دی گئی تھی جسے مؤرخ تھیوفانس فارسیوں کا جرنیل کہتا ہے۔ ہرقل کا ان تینوں لشکروں کے نرغے میں آکر شکست کھانا یقینی تھا۔ اس لیے اس نے تینوں لشکروں کے جمع ہونے سے پہلے سب سے کمزور فوج، جو کہ شہراپلاکان کے ماتحت تھی، پر شب خون مارنا شروع کیا۔ اس کے نتیجے میں یہ لشکر شہربراز کی فوج سے ملنے تک کافی کمزور ہو چکا تھا۔ جب یہ دونوں جرنیل اکٹھے ہو گئے تو شاہین کا انتظار کرنے کی بجائے رقابت کا شکار ہو گئے اور چاہا کہ ہرقل پر فتح شاہین کی بجائے ان کے نام ہو۔ اس لیے انہوں نے شاہین کے پہنچنے سے پہلے ہی ہرقل پر حملہ کا ارادہ کیا اور رومیوں کے بالکل قریب جا کر پڑاؤ ڈالا تاکہ اگلی صبح کو ہرقل پر حملہ کریں۔ ہرقل کو ان کے منصوبہ کا یا تو علم ہو گیا تھا یا اس نے اندازہ لگا لیا کہ ایسا ہو گا، بہرحال اس نے رات ہی کو کوچ کر کے اپنی مرضی کی جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور فارسیوں کا انتظار کرنے لگا۔ صبح جب فارسی لشکر نے دیکھا کہ رومی میدان میں موجود نہیں تو سمجھا کہ ہرقل بھاگ گیا ہے۔ انہوں نے رومیوں کا تعاقب کیا اور اس دوران نظم و ضبط کا پورا خیال نہیں رکھا۔ دوسری طرف رومی پوری تیاری کرکے صفیں ترتیب دے چکے تھے چنانچہ جب جنگ ہوئی تو ہرقل فتح یاب ہوا۔ حسب سابق اس مرتبہ بھی اس نے شکست خوردہ فارسی فوج کے بچے کھچے حصہ کا پیچھا کر کے ختم کرنے کی پوری کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہواکہ جب شاہین میدان جنگ میں پہنچا تو فارسی لشکر شکست کھا چکا تھا اور رومیوں کے حوصلے بہت بڑھ چکے تھے۔ اب شاہین کے ساتھ جنگ ہوئی جس میں شاہین کو بھی شکست ہوئی اور اس کا لشکر بھی تتر بتر ہو گیا۔ شہرپلاکان جنگ میں مارا گیا، شہربراز بڑی مشکل سے جان بچا کر گھوڑے پر فرار ہونے میں کامیاب ہوا جبکہ اس کی بیویاں اور بہت سے سپاہی رومیوں کے چنگل میں پھنس گئے۔ (Howard-Johnston P234-P243, Kaldellis P364)

ہرقل کا لشکر رومی سلطنت کی آخری امید تھی۔ اپنی سرحد سے اتنی دُور اس کو کمک نہیں مل سکتی تھی۔ پس اس موقع پر شکست کا مطلب بازنطینی سلطنت کا خاتمہ ہوتا۔ تاہم بہترین جنگی چالوں کے ذریعہ تمام فارسی لشکر یکے بعد دیگرے ہرقل کے ہاتھوں ہزیمت اٹھا کر پسپا ہو گئے۔ لیکن ان جنگوں میں الجھا کر فارسی اسے اپنے علاقے سے نکالنے میں ضرور کامیاب ہو گئے۔

فارس کا حملہ ۶۲۶ء

فارس نے ۶۲۶ء میں براہ راست قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی مغرب میں حالات ایک مرتبہ پھر مخدوش ہونا شروع ہو گئے۔ آفار قبائل نے دو لاکھ طلائی سکوں کے خراج اور متعدد اہم افراد کے بطور ضمانت تحویل میں ہونے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک بڑا لشکر جمع کر کے قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا۔ یوں بازنطینی دارالحکومت دو اطراف سے گھیرے میں آ گیا۔

(Howard-Johnston P254- 257, Theophanes 625 -626, Nikephoros 13)۔

فارسی جرنیل شہربراز ایشیا کی طرف سے قسطنطنیہ پہنچ گیا جبکہ یورپ کی طرف سے آفار قبائل اتوار ۲۹؍جون ۶۲۶ء کو فصیل شہر کے مقابل پر صف آراء ہو گئے۔ دونوں طاقتیں رومیوں کے مقابل پر متحد اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں تھیں۔ مگر ان کی مشترکہ کوششوں کے باوجود قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا۔ آخر ۷۔۸؍اگست کی درمیانی رات کو آفار قبائل واپس چلے گئے۔ اس کے چند دن بعد فارسیوں کو بھی ناکام واپس لوٹنا پڑا۔(Viernmann P211, Howard-Johnston P274, P281-P282, Kaldellis P365)۔

ہرقل فارسیوں کی مکمل خبر رکھے ہوئے تھا۔ اس نے اپنی فوج تین حصوں میں تقسیم کی۔ ایک حصہ دار الحکومت کی حفاظت کے لیے بھیج دیا جو تیزی کے ساتھ سفر کرتا شہربراز سے پہلے قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ دوسرا حصہ ہرقل کے بھائی تھیوڈوروس کی سربراہی میں شاہین کے مقابل پر گیا اور فتح یاب ہوا۔ (Howard-Johnston P257, P285)جبکہ تیسرا حصہ ہرقل کے ساتھ رہا۔

یوں ہرقل کی فارس کے خلاف مہم اور جوابی کارروائی کا یہ حصہ، جو کہ ۶۲۴ء میں شروع ہوا تھا تین سال جاری رہنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران ہرقل آرمینیا اور فارس کے علاقوں میں گھومتا رہا۔ وہ اپنے مقبوضہ صوبے فارس سے واپس تو نہیں لے سکا، تاہم اس نے قابل ترین فارسی جرنیلوں کو مختلف طریقوں سے زک پہنچا کر اور ان سب کو برتر جنگی چالوں سے مات دے کر میدان جنگ میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا۔

حاکم کو لشکر کی قیادت خود کرنی چاہیے؟

ہرقل نے جنگوں میں اپنے لشکر کی قیادت خود کی۔ یہ عمومی طریق نہ تھا۔ اسی لیے ہرقل کے ہم عصروں میں یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ دو سو سال کی روایت کے برخلاف ہرقل لشکر کی قیادت خود کیوں کر رہا ہے؟ اس پر باقاعدہ بحثیں ہوئیں۔ (Viernmann, P186 -187) یہی بحث حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی ہوئی جس میں جنگ کے ڈول کی طرح اوپر نیچے جانے کا حوالہ دے کر دارالحکومت میں رہنے کا مشورہ دیا گیا جو آپؓ نے قبول فرمایا۔ مگر آنحضورؐ نے اکثر لشکر کی قیادت خود فرمائی۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سا طریق کار بہتر ہے؟

اگر محض دنیاوی اور عسکری نکتہ نظر سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ آنحضورؐ اور ہرقل کا دشمن کہیں زیادہ طاقتور تھا اور اس کا جواب دینے کے لیے صرف ایک لشکر موجود تھا۔ ایسے میں ہردلعزیز حاکم کی اپنے درمیان موجودگی سے لشکری طاقت پاتے اور بے جگری سے لڑتے ہیں۔ انہیں یہ احساس رہتا ہے کہ ان کا سردار ان کے ساتھ بلکہ ان کے درمیان موجود ہے اور شکست کا نتیجہ سردار کی گرفتاری یا قتل ہو گا جو قوم کی مکمل تباہی پر منتج ہو گا۔ اس کے برعکس حضرت عمرؓ  کو بیک وقت مختلف اطراف میں متعدد لشکروں کی کمان کرنا تھی۔ آپؓ کے لشکر فارس، عراق، شام، مصر وغیرہ میں بیک وقت برسر پیکار تھے۔ اگر آپؓ کسی ایک لشکر میں شامل ہو جاتے تو باقی لشکروں کے ساتھ آپؓ کا رابطہ کمزور بلکہ منقطع ہو سکتا تھا۔ پس حکمت عملی کی حد تک دونوں فیصلے اپنی اپنی جگہ درست تھے۔

فارس پر حملہ اور فتح ۶۲۷ء

قسطنطنیہ کے کامیاب دفاع کے بعد ہرقل کی توجہ ایک مرتبہ پھر فارسی مہم پر مرکوز ہو گئی۔ ترکوں کے ساتھ اس کی سفارت کاری اس دوران کامیاب ہو چکی تھی۔ چنانچہ اس نے ۶۲۷ء میں ترک قبائل کے ساتھ مل کر تبلیسی کا محاصرہ کر لیا جوکہ موجودہ جارجیا کا دارالحکومت ہے۔ تاہم شہر کو فتح کرنے پر وقت ضائع کیے بغیر جنوب کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ ہرقل کے لشکر کے قریب مگر محفوظ فاصلہ پر ایک فارسی لشکر راہزادہ کی قیادت میں ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ۹؍اکتوبر ۶۲۷ء کو ہرقل نے کردستان کے پہاڑوں کو عبور کرنے سے پہلے آخری پڑاؤ کیا۔ (Howard-Johnston P304- 305)

راہزادہ نے تعاقب جاری رکھا اور کسریٰ سے کمک مانگی۔ کسریٰ نے کمک بھجوائی اور راہزادہ کو ہر صورت میں ہرقل کو روکنے کا حکم دیا۔ اس پر راہزادہ دریا عبور کر کے ہرقل کے قریب آگیا اور یوں ہرقل کی واپسی کا راستہ مسدود کردیا۔ اب ہرقل واپس نہیں جا سکتا تھا اور اسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ راہزادہ کے لیے مزید کمک بھی آ رہی ہے چنانچہ اس نے فوراً جنگ کرنے کو ترجیح دی اور نینواہ کے قریب پہنچ گیا۔ فارسی لشکر مسلسل تعاقب میں تھا۔ ۱۲؍دسمبر ۶۲۷ ء کو صبح سویرے دھند کی آڑ لیتے ہوئے ہرقل نے اچانک واپس مڑ کر راہزادہ پر حملہ کر دیا۔ فارسیوں کو حملہ کا علم اس وقت ہوا جب شدید دھند میں سے رومی فوجی نمودار ہو کر ان کے سر پر پہنچ چکے تھے۔ سخت لڑائی میں فارسی جرنیل راہزادہ مارا گیا اور لشکر کو بھاری نقصان پہنچا۔ فارسی مذہباً لاشوں کو دفن نہ کرتے تھے نہ ہی ان کی چیزوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ وہ کچھ دیر بعد محفوظ مقام پر چلے گئے تو رومی فوجیوں نے خوب مال غنیمت جمع کیا۔ بہت سی سونے اور جواہرات سے مرصع تلواریں ان کے ہاتھ لگیں (Kaegi, Heraclius, P162, Howard-Johnston P169, P308, Kaldellis P366)

اس جنگ میں ہرقل کی فوج محض پانچ ہزار تھی جبکہ اس کے ترک حلیفوں کی تعداد چالیس ہزار! اسی لیے اس زمانہ کے چینی مصنفین نے جنگ میں ہرقل کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ درست طور پر صرف اتنا لکھا ہے کہ ۶۲۷ء میں ترکوں نے فارسیوں کو شکست دی ۔ (Hoyland, P94, Kaldellis P 366)

کسریٰ خسرو ثانی آبرویز کا قتل ۶۲۸ء

ہرقل کو بازنطینی علاقہ میں واپسی کے سفر میں فارسی لشکر کا سامنا کرنا پڑنا تھا۔ اس صورتحال میں اس نے فارس کے دار الحکومت پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ کسریٰ خسرو ثانی آبرویز (پرویز) اس وقت دار الحکومت سے قریباً ایک سو کلومیٹر دُور دستگرد میں تھا۔ اسے ۲۲؍دسمبر کو معلوم ہوا کہ ہرقل نے دریا پر قائم چار پل قبضہ میں لے لیے ہیں۔ چنانچہ اس نے اسی روز راہزادہ کے بچے کھچے لشکر کو حکم دیا کہ فوری طور پر ہرقل سے پہلے دستگرد پہنچے تاکہ شہر کا دفاع کیا جا سکے۔ تاہم ۲۳؍ دسمبر کو وہ خزانہ ہاتھیوں، اونٹوں وغیرہ پر لاد کر شہر چھوڑنے کے لیے تیار ہو گیا اور اگلے روز یعنی ۲۴؍دسمبر کو اپنے بیوی بچوں سمیت دستگرد سے نکل گیا۔ شہر سے پانچ میل دُور چلے جانے کے بعد اس کی روانگی کی اطلاع دی گئی اور دیگر عمائدین کو بھی شہر چھوڑنے کا حکم ملا۔ کسریٰ تو تیسفون چلا گیا جبکہ یکم جنوری ۶۲۸ء کو ہرقل الجلولاء پہنچ گیا۔ کسریٰ نے ہرقل کو ایک جنگی چال کے ذریعہ رفتار کم کرنے پر مجبور کر دیا اور اتنے میں راہزادہ کی فوج آن پہنچی۔ یوں ہرقل کے لیے تیسفون پر قبضہ مشکل ہو گیا۔ اس نے جنوری ۶۲۸ء کے آغاز میں دستگرد پر قبضہ کر لیا اور علاقہ میں خوب لوٹ مچائی۔ اس نے کسریٰ کو پیغام بھیجا کہ کسریٰ نے خود ہرقل کو فارس پر چڑھائی پر مجبور کر دیا تھا اس لیے اسے جوابی جنگ لڑنی پڑی، اب ان کو صلح کر لینی چاہیے۔ (Howard-Johnston P5, P309-P314, Kaldellis P367)ہرقل اس وقت فارسی دارالحکومت تیسفون سے محض ایک سو کلومیٹر پر تھا۔

اسی دوران کسریٰ کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی جس کے دو مرکز تھے۔ ایک مرکز سابقہ جرنیل گوردان آسپہ تھا جس نے اپنے ساتھ بائیس بڑے نواب اور بہت سے فوجی ملالیے۔ دوسرا مرکز خسرو کے بیٹے شیرویہ کا استاد تھا۔ بعض مؤرخین کے نزدیک درحقیقت یہی اصل محرک اور منصوبہ ساز تھا۔ سازشیوں نے شہربراز، جس کے پاس فارس کا سب سے اہم لشکر تھا، کے دو بیٹے بھی اپنے ساتھ ملا لیے اور شیرویہ کا ایک سوتیلا بھائی بھی۔ اسی طرح فارسی جرنیل راہزادہ، جو رومیوں کے ہاتھوں مارا جا چکا تھا، کا بیٹا بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ ۲۳۔۲۴؍فروری ۶۲۸ء کی درمیانی رات تخت الٹنے کے لیے مقرر کی گئی۔ باغیوں نے ہرقل کی طرف چار فوجی افسران اور دو عمائدین بھیج کر اسے بھی مطلع کر دیا گیا۔ (Howard-Johnston P316-P317, Kaldellis P367)

تخت الٹنے کا واقعہ بغیر کسی مشکل کے طے پا گیا۔ شیرویہ کی تاج پوشی ۲۵؍فروری ۶۲۸ء کو بطور کسریٰ کبد ثانی ہوئی۔ خسرو ثانی آبرویز پر مختلف قسم کے الزامات لگائے گئے۔ مردان شاہ، اس کا چہیتا بیٹا جسے وہ اپنا ولی عہد بنانا چاہتا تھا، اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح اس کے باقی تمام بیٹے بھی قتل کر دیے گئے۔ ۲۸؍فروری ۶۲۸ء کو خود خسرو پرویز ثانی کو بھی قتل کر دیا گیا۔ یا دیگر کے نزدیک ۲۹ فروری ۶۲۸ء کو۔(Howard-Johnston P319, Kaldellis P367, Kaegi, Heraclius, P174)عرب مؤرخین نے یہ واقعہ ۶؍ہجری یعنی ۶۲۸ء (خلیفہ بن خیاط، تاریخ، صفحہ ۷۹، طبری، تاریخ، جلد ۲ صفحہ ۲۳۰) یا ۹؍ہجری یعنی ۶۳۰ء میں بتایا ہے۔(الدینوری، اخبار الطوال، صفحہ ۱۰۷)

نئے کسریٰ یعنی شیرویہ نے فوری طور پر ہرقل کو لکھا کہ ہمیں صلح کر لینی چاہیے۔ اس کے جواب میں ہرقل نے اسے لکھا کہ میری تو تمہارے باپ کے متعلق بھی کبھی یہ خواہش نہ تھی کہ اسے ذلیل کروں۔ اگر میں آبرویز پر قابو پا لیتا تو اسے ہی دوبارہ بادشاہ مقرر کر دیتا یاد رہے آبرویز رومی سفراء کو قتل کر چکا تھا اور اس کا ہرقل کے متعلق رویہ ہمیشہ انتہائی توہین آمیز رہا تھا لیکن اس کے باوجود ہرقل کا یہ رویہ اس کے حیران کن حد تک تحمل اور برداشت کا ثبوت ہے۔ بہرحال ہرقل نے شیرویہ سے صلح کو ترجیح دی اور حضرت عیسیٰؑ کی یروشلم سے قبضہ میں لی گئی مبینہ صلیب کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ شہربراز نے، جس نے یہ صلیب یروشلم سے قبضہ میں لی تھی، کچھ عرصہ بعد یہ صلیب ہرقل کو واپس کر دی۔ (Nikephoros 15 -17)

گو صلح کے بارے میں ہرقل سے منسوب بیانات میں بہت کچھ مبالغہ آرائی ممکن ہے تاہم یہ ظاہر ہے کہ ہرقل صلح کا خواہشمند تھا۔ رومی سلطنت نہ صرف لمبے عرصہ سے اپنے اہم ترین صوبوں سے محروم تھی بلکہ خود ہرقل اپنے مرکز سے بہت دور فارسی علاقہ میں جنگوں میں مصروف تھا۔ ان جنگوں میں فارسیوں کو اس پر تزویراتی برتری حاصل تھی اور ہرقل کو خوب علم تھا کہ جنگ کا پانسہ کسی بھی وقت پھر پلٹ سکتا ہے۔ اسی طرح مغرب میں آفار قبائل کا خطرہ بدستور موجود تھا۔ ان کی وجہ سے ہرقل کو بسا اوقات فارس سے توجہ قسطنطنیہ کی طرف مبذول کرنی پڑتی تھی۔ پس فارسی سلطنت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی بجائے صلح کا فیصلہ ہی عقلمندانہ تھا۔

۸؍اپریل کو فارسی سفیر نے ہرقل سے صلح کرنے کے بعد واپس جانے کی اجازت لی اور اگلے ہی دن ہرقل نے پڑاؤ اٹھا لیا۔ ہرقل نے دارالحکومت قسطنطنیہ کو اطلاع دینے کے لیے خط لکھا جو ۱۵؍مئی بروز اتوار ۶۲۸ء کو قسطنطنیہ کے کلیساء میں پڑھ کر سنایا گیا۔ ہرقل نے ذکر کیا ہے کہ ۲۴؍فروری ۶۲۸ء کو خسرو پرویز کے بیٹے شیرویہ نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کر کے اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اور یوں ۲۵؍فروری کو اسے بادشاہ بنا دیا گیا ہے جبکہ ۲۸؍فروری کو خسرو پرویز کو قتل کر دیا گیا ہے۔ (Chronicon Paschale P182-183, Howard-Johnston P324, P328)

بعض عرب روایات کے مطابق خسرو پرویز کے قتل کی خبر آنحضورؐ کو صلح حدیبیہ کے موقع پر ملی (طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۱۸۷)۔ یعنی اس کا قتل اس سے پہلے ہو چکا تھا۔ تاہم یہ بات درست نہیں۔ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد ہی آپؐ نے خسرو پرویز کو خط لکھا تھا جس کے بعد اس نے یمن کے فارسی حاکم باذان کو آپؐ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ یمن سے بھجوائے گئے فارسی نمائندے جب مدینہ پہنچے تو آپؐ نے ان کو اگلے دن جواب دیا کہ آج رات میرے رب نے تمہارے آقا کو قتل کر دیا ہے! یہ ۱۰؍جمادی الاول ۷؍ہجری یعنی ۱۷؍ستمبر ۶۲۸ء کا واقعہ بتایا گیا ہے۔(العینی، عمدۃ القاری، جلد ۲ صفحہ ۲۸) پس خسرو پرویز کا قتل کسی صورت صلح حدیبیہ کے موقع پر یا اس سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ سال کی حد تک تو بازنطینی اور عرب روایات متفق ہیں۔ تاہم ان میں موجود سات ماہ کے فرق کے متعلق دیگر شواہد کی عدم موجودگی میں بہرحال بازنطینی روایات کو فوقیت دینی پڑے گی جو واقعات کے کہیں زیادہ قریب، آغاز سے تحریری طور پر موجود اور سرکاری بازنطینی دستاویزات پر مبنی ہیں۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ عرب روایات میں آپس میں تناقض بھی پایا جاتا ہے۔

فارسی افواج کی واپسی

صلح کے بعد حسب معاہدہ فارسی افواج نے رومی علاقے خالی کرنے شروع کر دیے۔ البتہ ادیسا میں وہاں کے یہودیوں اور فارسیوں نے کچھ مزاحمت کی جسے ہرقل کے بھائی تھیوڈوروس نے فرو کر دیا اور شہر فتح کر کے یہودی راہنما قتل کرنے شروع کیے، تاہم اسی اثنا میں ہرقل کا حکم پہنچا کہ ایسا نہ کیا جائے۔ اب صرف ایک ہی اہم فارسی جرنیل باقی رہ گیا تھا: شہربراز۔ اس نے رومیوں کو شکست پر شکست دے کر وسیع اور زرخیز علاقے فتح کیے تھے۔ ان کو چھوڑ کر واپس آنا اس کے لیے محال تھا۔ دوسری طرف شیرویہ بادشاہ بننے کے چند ماہ بعد ہی مرگیا! اور بادشاہت اس کے بیٹے اردشیر ثالث، جو کہ بچہ تھا، کو منتقل ہو گئی۔ (Kaldellis P367, Howard-Johnston P327, Kaegi, Heraclius P180-P185، طبری، تاریخ، جلد ۱، صفحہ ۲۲۹۔۲۳۰)

ان حالات میں شہربراز نے ہرقل سے براہ راست مذاکرات شروع کر دیے اور مصر، فلسطین اور آرمینیا کے کچھ حصے واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے بدلے میں اس نے دریائے فرات تک کا علاقہ نیز دو رومی خطے اپنے پاس رکھے۔ شہربراز اور ہرقل کے مابین یہ معاہدہ ۶۲۹ء کے موسم بہار تک طے پا گیا اور اس کے موافق جون ۶۲۹ء میں فارسی افواج مصر سے واپس آ گئیں۔اگلا مرحلہ فلسطین اور شام سے نکلنے کا تھا۔ اس کے لیے جولائی میں ہرقل اور شہربراز کی ملاقات ہوئی جس میں ان علاقوں کے عوض فارس کے تخت کا مطالبہ کیا گیا۔ ہرقل نے یہ مطالبہ منظور کرتے ہوئے شہربراز کو فارس کا بادشاہ مقرر کر دیا! اور اپنا فوجی دستہ شہربراز کے ساتھ کردیا۔ ہرقل نے شہربراز سے حضرت عیسیٰؑ والی ’’اصلی صلیب‘‘ کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا جو کہ شہربراز نے ۱۵؍سال قبل یروشلم سے قبضہ میں لی تھی۔ (Howard-Johnston P342, 343, Kaldellis P368)

شیرویہ کی بغاوت کی وجہ

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیرویہ کباد نے کیوں اپنے باپ خسرو آبرویز کے خلاف سازش میں شرکت کی؟ تھیوفانس نے بیان کیا ہے کہ اس کی وجہ کسریٰ کا یہ ارادہ تھا کہ وہ اپنی دوسری بیوی شیریں کے بیٹے میردان شاہ کو ولی عہد بنانے لگا تھا۔ جب شیرویہ کو علم ہوا کہ اس کی جگہ اس کے سوتیلے بھائی کو ولی عہد بنایا جائے گا تو اس نے باپ کے خلاف بغاوت کردی۔(Theophanes 626 -627)

اس زمانے میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ بادشاہ ولی عہد تبدیل کر دیا کرتے تھے بلکہ اب بھی ایسا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ولی عہد کی جانب سے بغاوت ہونا کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ عرب مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ کسریٰ کے خلاف بغاوت کی چار وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ خسرو عمائدین کی تحقیر کرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس نے ایک کافر و دہریہ اور سخت گیر شخص فرخان زاد کو حاکم مقرر کیا تھا مگر عوام اس کے خلاف تھے۔ تیسرے یہ کہ اس نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے۔ چوتھے یہ کہ جو لوگ ہرقل سے شکست کھا کر آئے تھے ان کے قتل کا حکم دیا۔(طبری، تاریخ، جلد۲، صفحہ ۲۱۶، الدینوری، اخبار الطوال، صفحہ ۱۰۷)یہ چاروں باتیں بغاوت کا جواز تو مہیا کرتی ہیں مگر یہ واضح نہیں کرتیں کہ شیرویہ نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کیوں کی؟ علاوہ ازیں یہ وجوہات درست بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ تمام قیدیوں، جن کی تعداد ۳۶؍ہزار بتائی گئی ہے، کو قتل کرنے کا حکم دینے کی کیا وجہ تھی؟ ایسا کرنا قیدیوں کے پسماندگان کو کسریٰ کے خلاف کردیتا جو کہ پہلے ہی مشکل حالات میں گھرا ہوا تھا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسریٰ نے کچھ خاص قیدیوں، مثلاً رومی قیدیوں، کے قتل کا حکم دیا ہو۔ اسی طرح ہرقل سے شکست کھا کر آنے والے فارسی فوجیوں کو قتل کرنے والی بات بھی معقول نہیں لگتی کیونکہ کسریٰ کو ہرقل کے نزدیک آتےہوئے لشکر کے مقابلہ کے لیے ان فوجیوں کی ضرورت تھی نہ کہ ان کو قتل کرنے کی۔ پس قرین قیاس یہی ہے کہ ولی عہد کی تبدیلی کا ارادہ کیا گیا تھا یا کم از کم اس کی افواہ پھیل چکی تھی، جس کو سن کر شیرویہ نے باپ کے خلاف بغاوت کر دی۔ بھائیوں کو قتل کروانے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے تخت ہاتھ سے جانے کا خوف تھا۔

ہرقل کی دارالحکومت واپسی

شہربراز نے فارسی دار الحکومت پر قبضہ تو کر لیا تاہم سر دست اردشیر کو بادشاہ رہنے دیا۔وعدہ کے مطابق اس نے حضرت عیسیٰؑ کی مشہور مبینہ صلیب ہرقل کو واپس کردی۔(Howard-Johnston P345) فارس پر مکمل فتح اور امن معاہدہ کے بعد ہرقل واپس اپنے دارالحکومت قسطنطنیہ چلا گیا جہاں بطور فاتح واپسی پر اس کا فقید المثال استقبال ہوا۔ (Theophanes 627 -628) واپسی کے سفر میں ہی اسے خبر ملی کہ کسریٰ شیرویہ بھی مر گیا ہے اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ارداشیر ثالث نیا کسریٰ بنا ہے۔ (Theophanes 628-629)

ہرقل یروشلم میں۶۲۹ء

اگلے سال ہرقل نے یروشلم کا سفر اختیار کیا تاکہ مسیحؑ کی مبینہ صلیب واپس اپنی جگہ پر رکھی جا سکے۔ یروشلم میں ہی ہرقل کو آنحضورﷺ کا خط ملا جو کہ حضرت داحیہ کلبیؓ لے کر بصریٰ کے حاکم کے پاس گئے تھے اور اس نے خط ہرقل کو بھجوا دیا تھا۔ اسی جگہ ہرقل نے ابو سفیان کے ساتھ وہ سوال و جواب کیے جو اسلامی تاریخ میں محفوظ ہیں۔(امام بخاری، صحیح، کتاب بداءالوحی)اس سفر کے ساتھ ہرقل کی زندگی کا تیسرا اور آخری دور شروع ہوتا ہے۔

گذشتہ اقساط میں یہ ذکر گزر چکا ہے کہ یہود نے فارسی لشکر کی آمد پر ان کی مدد کی تھی۔ اسی طرح انہوں نے مسیحیوں کی جلاوطنی کی حمایت کی تھی۔ چنانچہ رومیوں کی فلسطین واپسی پر ان کا اضطراب قدرتی تھا۔ اس لیے ان کا ایک وفد ہرقل سے ملا اور ہرقل نے وعدہ کیا کہ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ تاہم جب ہرقل یروشلم پہنچا اور شہر کی فصیل کے پاس مقتول مسیحیوں کی اجتماعی قبریں دیکھیں تو اس نے اپنا ارادہ بدل لیا۔ ہرقل نے یہود کو شہر بدر کر دیا اور حکم دیا کہ وہ آئندہ شہر کے تین میل تک قریب بھی نہیں آ سکتے۔(Howard-Johnston P350, Theophanes, 627- 628)

صلیب الصلبوت

مقدس صلیب درحقیقت حضرت عیسیٰؑ کی مبینہ صلیب کے چند ٹکڑے تھے جو ’’صلیب مقدس‘‘، ’’حقیقی صلیب‘‘، ’’صلیب الصلبوت‘‘ وغیرہ ناموں سے مشہور تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مسیحؑ کے تین سو سال بعد جب قیصر قسطنطین نے مسیحیت قبول کی اور اس کی ماں ہیلینا یروشلم کی زیارت کو گئی تو اس نے گولگتھا کے مقام پر موجود مندر گرا دیا۔ اس کے نیچے تین صلیبیں دریافت ہوئیں۔ ایک قریب المرگ عورت کو باری باری تینوں صلیبیں لگانے سے اصل صلیب کی شناخت ہوئی، کیونکہ وہ اصل صلیب چھو کر شفایاب ہو گئی۔اس صلیب کے کچھ ٹکڑے ہی ہرقل کے زمانے میں مشہور تھے۔ اسی لیے اس صلیب کے متعلق اتنی مختلف اور متضاد کہانیاں مشہور ہیں۔ یہ ٹکڑے اتنے زیادہ تھے کہ سولہویں صدی میں مشہور پروٹسٹنٹ مفکر کالون نے لکھا ہے کہ اس ’’حقیقی‘‘ صلیب کے دنیا بھر میں موجود ٹکڑوں کو جمع کیا جائے تو ان سے ایک بحری جہاز بھر جائے!

بہرحال یروشلم پہنچ کر ہرقل نے مقدس صلیب پادری موڈیسٹوس کو دی، جو کہ یروشلم کا اہم ترین پادری تھا۔ روایت کے مطابق موڈیسٹوس نے صلیب والے صندوق کی مہر دیکھ کر تصدیق کی کہ وہ سلامت ہے۔ یعنی اس میں موجود صلیب وہی صلیب ہے جو کہ یروشلم سے ۱۵؍سال پہلے قبضہ میں لی گئی تھی۔ صلیب کو اس چابی کی مدد سے صندوق میں سے نکالا گیا جو کہ موڈیسٹوس نے اپنے پاس محفوظ رکھی ہوئی تھی۔ اس صلیب کی یروشلم واپسی کی خوشخبری دارالحکومت میں ۳۱؍مارچ ۶۳۰ء کو پہنچی۔(Howard-Johnston P352- 353, Strategos P516)

غالباً یہ کہانی بعد میں گھڑی گئی ہے تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ وہی صلیب ہے جو فارسیوں نے قبضہ میں لی تھی۔ نہ تو فارسیوں کو اس کی ایسی سخت حفاظت کی مجبوری تھی اور نہ ہی دیگر روایات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صلیب کسی صندوق میں محفوظ نہیں تھی بلکہ فارسیوں نے اسے مسیحیوں کی تذلیل کے لیے زمین پر پھینک کر مسیحیوں کو اس پر پاؤں رکھ کر گزرنے کو کہا تھا۔ آخر کار شہنشاہ کی ایک بیوی یا کنیز نے جو کہ مسیحی تھی اسے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ اسی طرح بعض روایات کے مطابق یہ صلیب شہربراز نے مصر سے ہی ہرقل کو بھجوائی تھی۔ (Strategos P510, P513, Kandellis P368)یعنی صلیب فارس گئی ہی نہیں۔

چند سال بعد جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو یہ صلیب قسطنطنیہ منتقل کر دی گئی۔(Baert P138)مسلمان مؤرخین کے مطابق جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم فتح کیا تو اس وقت یہ صلیب بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگی۔(الجزری، الکامل فی التاریخ، جلد ۱۰، صفحہ ۲۵)یہ واضح نہیں کہ ہرقل والی صلیب ہی صلیبی جنگوں میں یروشلم واپس منتقل کی گئی تھی یا یہ مبینہ صلیب کے کچھ مبینہ ٹکڑے تھے جو صلیبیوں نے یروشلم رکھے ہوئے تھے۔

سفر یروشلم کا مسئلہ

ہرقل کے سفر یروشلم کے متعلق تاریخ کا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ابھی تک حتمی طور پر حل نہیں ہو سکا۔ وہ یہ کہ ہرقل میدان جنگ سے پہلے دارالحکومت قسطنطنیہ گیا تھا اور پھر اگلے سال یروشلم گیا، یا اس کے برعکس میدان جنگ سے پہلے یروشلم گیا اور پھر وہاں سے دارالحکومت قسطنطنیہ؟ بعض علماء کے نزدیک ہرقل نے مقدس صلیب کو یروشلم میں رکھنے کے لیے ۲۱؍مارچ ۶۳۰ء کی تاریخ کا انتخاب کیا تھا(Howard-Johnston P346)۔ جبکہ دیگر کے مطابق مقدس صلیب کے یروشلم جانے کا واقعہ ۲۱؍مارچ ۶۲۹ء کا ہے۔ (Kaldellis P368, Baert P137)

پہلے خیال کے حامی علماء کے نزدیک ۶۲۸ء میں شیرویہ نے صلیب ہرقل کو واپس کر دی تھی جو کہ اس نے قسطنطنیہ بھجوادی۔ پھر جولائی ۶۲۹ء میں ہرقل نے شہربراز کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور ستمبر ۶۲۹ء میں وہ خود بھی دارالحکومت واپس لوٹ گیا۔ اگلے سال یعنی مارچ ۶۳۰ء میں ہرقل مقدس صلیب لے کر یروشلم گیا۔(Howard-Johnston, Restoration, P287- 288)

یہ بات اس لیے زیادہ معقول لگتی ہے کہ شیرویہ کے حکومت پر قبضہ کے وقت ہرقل فارسی دارالحکومت سے محض ایک سو کلومیٹر دُور موجود تھا۔ شرویہ کا تخت پر قبضہ کے ساتھ ہی ہرقل کی طرف توجہ کرنا اور صلح کر کے اس کو واپس جانے پر آمادہ کرنا طبعی بات ہے۔یہ ذکر گزر چکا ہے کہ اس نے ہرقل کو تخت الٹنے کی سازش سے بھی مطلع کیا تھا۔ اس ضمن میں خیرسگالی کے طور پر عالم مسیحیت کے اہم ترین تبرک، یعنی مقدس صلیب، کو واپس کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ یہ بات بھی طبعی ہے کہ ہرقل کی خواہش ہو گی کہ ایسا اہم تبرک دارالحکومت قسطنطنیہ بھی جائے اور وہاں لوگ ہرقل کی فتح پر خوش ہوں اور ہرقل کو عالم مسیحیت کے ہیرو کے طور پر دیکھیں۔

تاہم دوسرے خیال کے حامی علماء کے نزدیک صلیب شہربراز نے تخت پر قبضہ کے بعد ۶۲۹ء میں ہرقل کو واپس کی اور وہ اسے وہیں سے لے کر سیدھا یروشلم گیا ۔ (Viernamnn, P263- 264)

ان سب کے برخلاف طبری اور ابن خلدون کے مطابق مقدس صلیب بوران نے ہرقل کو واپس کی تھی۔(طبری، تاریخ، جلد ۲ صفحہ ۲۳۱۔ابن خلدون، تاریخ، جلد ۲ صفحہ ۲۱۵)چونکہ بوران ۶۳۰ء میں شہربراز کے بعد ملکہ بنی تھی، اس لیے یہ روایت ہرقل کے ۶۳۰ء یا اس کے بھی بعد یروشلم جانے کی تائید کرتی ہے۔

شہربراز کا انجام

شہربراز نے ہرقل کے ساتھ معاہدہ کر کے فارس کی سلطنت حاصل کر لی۔ اس کے دارالحکومت پر قبضہ کے بعد خسرو پرویز ثانی آبرویز کا پوتا اور شیرویہ کبد کا بیٹا اردشیر ثالث برائے نام کسریٰ رہ گیا تھا۔۲۷؍اپریل۶۳۰ء کو شہربراز نے اردشیر کو قتل کر کے براہ راست تخت فارس پر قبضہ کر لیا۔ اہل فارس کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا۔ صدیوں سے فارس کا تخت آل ساسان کے پاس تھا۔ شہربراز کا یوں تخت پر قبضہ ان کو پسند نہ آیا۔ چنانچہ چند ہفتے بعد ہی ۹؍جون ۶۳۰ء کو شہربراز کو بھی قتل کر دیا گیا۔

شہربراز کے بعد اس کی بیوی بوران دخت نے سلطنت فارس کا تخت سنبھالا۔ بوران دخت خسرو پرویز ثانی آبرویز کی بیٹی تھی۔ عرب مؤرخین نے بوران کی تخت پوشی ۹؍ہجری میں بتائی ہے۔(خلیفہ بن خیاط، تاریخ، صفحہ ۹۳)اس کی حکومت کمزور تو تھی ہی، اس پر مستزاد یہ کہ اس کا خاوند شہربراز ہرقل کی آشیرباد سے فارس کا بادشاہ بنا تھا۔ چنانچہ اس کا قتل ہرقل کی جانب سے فوجی کارروائی پر منتج ہو سکتا تھا۔ چنانچہ بوران نے جلدی سے ہرقل کے پاس ایک وفد بھیج کر امن برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس ضمن میں اس نے ہرقل کو وہ تمام علاقے بھی واپس کر دیے جو کہ شیرویہ اور شہرباز نے بھی واپس نہیں کیے تھے۔ یوں بازنطینی حکومت ۵۹۱ء کی پرانی سرحدوں تک ممتد ہو گئی اور ہرقل تمام سابقہ بازنطینی علاقے فارس سے واپس لینے میں کامیاب ہو گیا۔(Howard-Johnston P354- 355, Kaegi, Heraclius, P185)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: اسلام اور دنیا کی گرتی ہوئی شرح پیدائش

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button