حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
دادی جان: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
بچے: وعلیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ
گڑیا :دادی جان آپ نے کہا تھا کہ مجھے یاد دلا دیں کہ آپ نے ہمیں حضرت عثمانؓ کے بارے میں بتانا ہے ۔
احمد: دادی جان میں پہلے تھوڑا سا بتاؤں؟
دادی جان : جی ہاں ضرور۔ مجھے یاد ہے اس موضوع پر آپ کی ایک تقریر بھی تھی۔
احمد : جی ہاں دادی جان۔ آپؓ کا نام عثمان ؓ بن عفان ہے۔ آپ اس طرح آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہﷺ کے ساتھ پانچویں پشت پر جا کر ملتا ہے۔آپؓ کی والدہ کا نام اَرْوٰی بنت کُرَیْز تھا۔ آپ رشتے میں حضرت محمدﷺ کی پھوپھی زاد تھے۔ حضرت عثمانؓ کی ولادت کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ حضرت عثمانؓ عام الفیل کے چھ سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے آپ رسول اللہ ﷺ سے تقریباً پانچ سال چھوٹے تھے۔
دادی جان: جی بالکل! حضرت عثمانؓ کی کنیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت عثمانؓ کی کنیت ابوعَمرو تھی۔ جب حضرت رقیہؓ بنتِ رسول ﷺ سے آپ کے بیٹے عبداللہ پیدا ہوئے تو اس کی مناسبت سے پھر مسلمانوں میں آپؓ کی کنیت ابوعبداللہ بھی معروف ہو گئی۔
آپؓ کے قبولِ اسلام کے بارے میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت طلحہ بن عُبیداللہؓ دونوں حضرت زُبیر بن عوامؓ کے پیچھے پیچھے نکلے اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان دونوں کے سامنے اسلام کا پیغام پیش کیا اور انہیں قرآن کریم پڑھ کر سنایا اور انہیں اسلام کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا اور ان سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی عزت و اکرام کا وعدہ کیا۔ اس پر وہ دونوں، حضرت عثمانؓ اور حضرت طلحہؓ ایمان لے آئے اور آپؐ کی تصدیق کی۔ پھر حضرت عثمانؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! میں حال ہی میں ملک شام سے واپس آیا ہوں جب ہم حجاز کی حدود کے قریب پڑاؤ کیے ہوئے تھے اور سوئے ہوئے تھے تو ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیا کہ اے سونے والو! جاگو۔ یقیناً احمد مکہ میں ظاہر ہو چکا ہے۔ پھر جب ہم واپس پہنچے تو ہم نے آپؐ کے بارے میں سنا۔ حضرت عثمانؓ رسول اللہﷺ کے دارِاَرْقَم میں داخل ہونے سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے۔
گڑیا: تو کیا ابتدائی مسلمانوں کی طرح آپؓ نے بھی ظلم برداشت کیے؟
دادی جان : جی ہاں قبول اسلام کے بعد آپؓ پر ظلم بھی ہوئے۔ آپ ؓکے چچا حَکَمْ بن ابوالعاص نے آپؓ کو پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کیا تم اپنے آباءاجداد کا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کرتے ہو؟ بخدا میں تمہیں ہرگز نہیں کھولوں گا یہاں تک کہ تم اپنا یہ نیا دین چھوڑ نہ دو۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے کہا خدا کی قسم ! میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ اس سے علیحدگی اختیار کروں گا۔ حَکَمْ نے جب آپ کے دین پر مضبوطی کی یہ حالت دیکھی تو پھر مجبوراً آپ کو چھوڑ دیا۔
گڑیا :آپؓ کو ذوالنورین کیوں کہتے تھے ؟
دادی جان : ذوالنورین یعنی دو نوروں والااس لیے کہتے تھے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی دو بیٹیوں کی شادی حضرت عثمان ؓ سے ہوئی تھی ۔ حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت اُمِّ کلثومؓ سے حضرت عثمان کی شادی کر دی اس وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین کہا جانے لگا۔
احمد: آپؓ نے ہجرت کب کی تھی؟
دادی جان : حضرت عثمان بن عفانؓ نے حضرت رقیہؓ کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ کچھ عرصہ کے بعد حضرت عثمانؓ کی حبشہ سے واپسی ہوئی اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔حضرت عثمانؓ حضرت رقیہؓ کی بیماری کے باعث جنگِ بدر میں شامل نہیں ہوسکے تھے۔البتہ ان آٹھ خوش نصیب صحابہ میں شامل تھے جنہیں نبی اکرم ﷺ نے جنگِ بدر کے مال غنیمت میں حصہ دے کر جنگ میں شامل ہونا ہی قرار دیا تھا۔
پھر حضرت ام کلثومؓ 9؍ہجری میں بیمار ہو کر وفات پاگئیں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام کلثومؓ کی وفات پر فرمایا: اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی بھی عثمان سے کروا دیتا۔
محمود: کیا آپؓ نے جنگوں میں شرکت کی؟
دادی جان : جی ہاں آپؓ نے جنگوں میں شرکت کی۔ صلح حدیبیہ سے قبل آپ ؓ کو آنحضرت ﷺ نے قریش مکہ کی جانب سفارت کاری کے لیے بھیجا تھا ۔آپؓ پیغام لے کر مکہ گئے اور ابوسفیان سے مل کر جو اس زمانہ میں مکہ کا رئیس اعظم تھا اور حضرت عثمانؓ کا قریبی عزیز بھی تھا اہل ِمکہ کے ایک عام مجمع میں پیش ہوئے۔ اس مجمع میں حضرت عثمانؓ نے آنحضرت ﷺ کی تحریر پیش کی جو مختلف رؤسائے قریش نے فرداً فرداً بھی ملاحظہ کی مگر باوجود اس کے سب لوگ اپنی اس ضد پر قائم رہے کہ بہرحال مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ حضرت عثمانؓ کے زور دینے پر قریش نے کہا کہ اگر تمہیں زیادہ شوق ہے تو ہم تم کوذاتی طور پر طواف بیت اللہ کاموقع دے دیتے ہیں مگراس سے زیادہ نہیں۔ حضرت عثمانؓ نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تومکہ سے باہر روکے جائیں اور میں طواف کروں !مگرقریش نے کسی طرح نہ مانا اور بالآخر حضرت عثمانؓ مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے۔ اس موقع پر مکہ کے شریر لوگوں کو یہ شرارت سوجھی کہ انہوں نے حضرت عثمانؓ اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا۔ دوسری طرف مسلمانوں میں یہ افواہ مشہور ہوگئی کہ اہل ِمکّہ نے حضرت عثمانؓ کو قتل کردیا ہے۔ یہ خبر سن کر آنحضرتﷺ کو بھی شدید غصہ اور صدمہ تھا۔ تب آپ نے وہاں بیعت لی جو بیعتِ رضوان کے نام سے مشہور ہے یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا کی کامل رضا مندی کا انعام حاصل کیا۔ قرآن شریف نے بھی اس بیعت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔
حضرت عثمانؓ میں عفت اور حیا بہت زیادہ تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپؐ کی ٹانگوں کا کچھ حصہ ننگا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ آئے اور بیٹھ گئے۔ پھر حضرت عمرؓ آئے اور بیٹھ گئے مگر آپؐ نے کوئی پروا نہ کی۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضرت عثمانؓ نے دستک دے دی۔ آپؐ فوراً اٹھ بیٹھے اور اپنی ٹانگوں کو کپڑے سے ڈھانک لیا اور فرمایا عثمانؓ بہت شرمیلا ہے۔ اس کے سامنے ٹانگ کا کچھ حصہ ننگا رکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ جب سب چلے گئے تو حضرت عائشہؓ نے نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے جواب دیا کہ اے عائشہؓ !کیا میں اس سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں۔
دادی جان: حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کو خلیفة منتخب کیا گیا۔ آپؓ کا بڑا کارنامہ قرآن مجید کے نسخوں کی تیاری اور اشاعت ہے۔ آپ کی وفات کے بارے میں بھی مختلف روایات ملتی ہیں جن کے مطابق آپ تقریبا ً75برس کی عمر میں شہید کیے گئے ۔ حضرت عثمانؓ کا واقعہ شہادت حضرت عمرؓ کے واقعہ شہادت کے گیارہ سال گیارہ ماہ اور بائیس دن کے بعد ہوا جبکہ رسول اللہﷺ کی وفات کے پچیس سال بعد ہوا ۔
( ماخوذ الفضل انٹرنیشنل 21 و 22؍جنوری اور 2؍اپریل2021ء)
(درثمین احمد۔ جرمنی)