مومن کو صلح کرنے میں جلدی کرنی چاہئے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۷؍ستمبر۲۰۰۴ء)
حضرت ام کلثوم بنت عتبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، وہ شخص کذاب نہیں کہلا سکتا جو لوگوں کے درمیان اصلاح کروانے کی غرض سے صرف اچھی بات ان تک پہنچاتا ہے یا کوئی بھلائی کی بات کہتا ہے۔ یعنی وہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا جو اصلاح کی غرض سے صرف اچھی بات پہنچائے۔ بعض دفعہ دو آدمیوں میں تعلقات ٹھیک نہیں ہوتے لیکن ایک د وسرے کی اچھائیوں، برائیوں، نیکیوں اور بدیوں کا بھی پتہ ہوتا ہے جب تعلق ایک دوسرے سے ٹھیک تھے۔ اگر کوئی تیسرا شخص جس کا ان دونوں سے تعلق ہے وہ اگر کسی سے دوسرے کے بارے میں نیکی کی بات سنے تو دونوں میں صلح کروانے کی غرض سے اس نیکی کی بات کو ان تک پہنچائے۔ اور سمجھائے کہ دیکھو کہ فلاں نے، دوسرے آدمی نے تمہارے بارے میں فلاں وقت میں بتا دیا تھا کہ تمہارے اندر فلاں فلاں نیکیاں ہیں۔ اس کے دل میں تمہاری بڑی قدر ہے۔ اور جن باتوں پر تمہاری رنجشیں ہوچکی ہیں ان باتوں کو بھول جاؤ اور صلح صفائی کرو، یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں تو فرمایا کہ ایسا شخص کذاب نہیں کہلائے گا۔ چاہے اس کے علم میں تھا کہ ان دونوں نے ایک دوسرے کی برائیاں کی ہوتی ہیں وہ بھی اس کے علم میں آ جاتی ہیں لیکن کیونکہ صلح کروانے کی کوشش کرنی ہے اس لئے وہاں صرف اچھی باتیں جو کی ہوتی ہیں وہی بتاؤ۔ اور برائیاں بتانے کی ضرورت نہیں۔ فساد اور جھگڑے کو ہوا دینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بعض ایسے فتنہ پرداز بھی ہوتے ہیں، تجربے میں آتے ہیں، باتوں کا مزا لینے کے لئے آپس میں دو اشخاص کو لڑا کر بھی بعضوں کو مزا آ رہا ہوتا ہے وہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کس طرح لڑتے ہیں۔ اگر ایک سے دوسرے کے خلاف کوئی بات سنیں گے تو پھر اور اس کو مرچ مصالحہ لگا کر دوسرے کو بتاتے ہیں۔ تو ایسے لوگ فتنہ پردازتو ہیں ہی لیکن ساتھ جھوٹے بھی ہیں اس لئے ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کے لئے ایک دوسرے کی نیک باتوں کو ایک دوسرے تک پہنچانا چاہئے فرمایا اور مشورے بھی ہمیشہ بھلائی کے دو، ایسے مشورے دو جو صلح کے مشورے ہوں، نیکی اور خیر کے مشورے ہوں اور جھوٹے کے بارے میں تو یہی ہے، ایک تو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، پھر اور بھی بہت ساری سزائیں ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر اس دن میں جس پر سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے ہر عضو پر صدقہ ہے۔ اگر تو دو بندوں کے درمیان عدل کرتا ہے تو یہ صدقہ ہے۔ اگر کسی شخص کو اس کی سواری پر سوار کرنے میں مدد کرتا ہے یا اس کا سامان اس پر لادنے میں مدد کرتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے اچھی بات بھی صدقہ ہے۔ اور ہر قدم تو جو نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہوئے اٹھاتا ہے صدقہ ہے۔ اور اگر تو رستہ سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دیتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے۔
تو یہاں اچھی بات کہنے کا، بھلائی کی بات کہنے کا، صلح صفائی کی بات کہنے کا بھی وہی ثواب وہی درجہ رکھا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف جانے والے کی حرکتوں کا ہے۔ دوسرے یہاں یہ بھی پتہ لگ گیا کہ اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے والے ان کے حقوق ادا کرنے والے، ایسے حقوق کی ادائیگی کرنے والے لوگوں کو ان کی نیکیوں کا بھی اتنا ثواب ملے گا جتنا عبادت کرنے کا ثواب ہے جتنا نماز پڑھنے کا ثواب ہے۔ یعنی یہ دونوں چیزیں جیسا کہ کئی دفعہ ذکر ہو چکا ہے اور سب کو علم ہے۔ کہ اللہ کے حقوق بھی، بندوں کے حقوق بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ پھر فرمایا کیونکہ صدقہ ہے۔ اس لئے اس کا ثواب بھی یقیناً صدقے کی طرح ہو گا۔ اور ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ صدقے کا ثواب سات سو گنا تک ہوجاتا ہے تو یہ ہے بھلائی کی بات کہنے والے کا، صلح صفائی کروانے والے کا مقام۔
پھر حضرت ابو عباس سہل روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساتھیوں کے ساتھ ان کی صلح کروانے کے لئے تشریف لے گئے۔ اس دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں دیر ہو گئی۔ اور نماز کا وقت ہو گیا۔ چنانچہ حضرت بلال ؓ، حضرت ابو بکرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں صلح کروانے کے لئے گئے تھے وہاں دیر ہو گئی ہے جبکہ نماز کا وقت ہو گیا ہے کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے۔ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں تو میں نماز پڑھا دیتا ہوں۔ اصل حدیث میں جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ترجیح دی کہ کچھ دیر رک جائیں اور فریقین میں صلح صفائی کروا دیں۔ نماز جو باجماعت ہونی تھی وہ بعد میں پڑھ لیں گے۔ ظاہر ہے اس وقت کچھ وقت نماز کا ہوگا۔ تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ٹھیک ہے کچھ لوگ بعد میں پڑھ لیں گے پڑھا دی جائے۔ لیکن اس وقت مقدم یہی ہے کہ دو مسلمان جو لڑے ہوئے ہیں ان کی صلح صفائی کروائی جائے۔
پھر لڑائی جھگڑوں میں کئی کئی مہینے بلکہ سالوں ناراضگیاں چلتی ہیں۔ لیکن ایک مومن کے لئے یہ حکم ہے کہ اس کو صلح کرنے میں جلدی کرنی چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے۔ یعنی بول چال بند رکھے۔ بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے یہ باتیں سن کر کہ قریبی رشتہ دار آپس میں بعض دفعہ مہینوں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور جس بات پر لڑائی یا رنجش ہو وہ بالکل معمولی سی بات ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو ہمیشہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سامنے رکھنا چاہئے کہ اول تو لڑنا ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی لڑائی ہو بھی گئی ہے، کوئی وجہ بن بھی گئی ہے تو تین دن سے زیادہ حکم نہیں ہے کہ کوئی مومن دوسرے مومن سے بات نہ کرے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتاپس ہر احمدی کو چاہئے کہ تقویٰ اختیار کرے اور خداتعالیٰ کا پسندیدہ بننے کی کوشش کرے۔ آپس کے جھگڑوں اور لڑائیوں اور فسادوں کو ختم کریں۔ مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ ایک طرف تو ایمان لانے کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف اپنے بھائی کے گناہ نہ بخشتا ہو۔ اس کی غلطیاں نہ معاف کر سکتا ہو۔ کیونکہ ایسے لوگ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ترین شخص ہوں گے۔ (بخاری کتاب التفسیر باب وھو الد الخصام)
مزید پڑھیں: گناہوں سے بچو