پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

جون تا ستمبر۲۰۲۴ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

سمبڑیال ۔ضلع سیالکوٹ

۱۰؍ ستمبر۲۰۲۴ء کو گیارہ سال سے سپیرئر کالج سے منسلک ایک احمدی لیکچرار کو طلبہ کی جانب سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے ایک منظم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ جب وہ کلاس میں پڑھا رہے تھے تو طلبہ کا ایک گروہ وہاں جمع ہو گیا اور ا ن کے خلاف نعرے بازی اور غلیظ زبان کا استعمال کرنے لگا۔ جب لیکچر ختم ہوا اور احمدی لیکچرار باہر نکلے تو ان طلبہ نے ان کا پیچھا کیا اور ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔

اپنے تحفظ کی خاطر وہ دوسرے کیمپس میں چلے گئے اور سٹاف سیکرٹری کو اس معاملے کے متعلق آگاہ کیا۔ سٹاف سیکرٹری نے قاری وسیم کو فون کر کے سارے معاملے کی حقیقت دریافت کرنے کا کہا۔ لیکن ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے قاری وسیم کو پہلے سے سارے معاملے کا علم ہے یا وہ خود بھی اس میں شامل ہے۔

اسی دوران موصوف کے خلاف نعرے بازی میں اضافہ ہونے لگا۔ اپنی حفاظت کے پیش نظر انہوں نے کالج سے باہر جا کر اپنے ایک دوست کے ہاں پناہ لے لی۔ ان حالات میں کالج کی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی اور طلبہ کو روکنے کےلیے کوئی بھی مداخلت نہیں کی۔اسی سہ پہر مذکورہ احمدی لیکچرار کو ٹیلی فون کال آئی کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے کیمپس میں طلبہ ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ان کے عقیدے کی وجہ سے فوری طور پر انہیں کالج سے برخاست کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر کالج نے ان کی بات نہ مانی تو وہ یہ احتجاج سڑکوں تک لے جائیں گے۔

کالج انتظامیہ نے کہا کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر اور ان کے خلاف اُن کے عقیدے کی وجہ سے ہونے والی گذشتہ کئی شکایات کی بنا پر کالج ان کو نوکری سے برخاست کر رہا ہے۔ کالج انتظامیہ نے یہ جانتے ہوئے کہ احمدی لیکچرار کو عرصہ دراز سے دھمکایا جارہا ہے یہ فیصلہ کیا۔ ایک ماہ قبل بھی مولویوں کا ایک ہجوم کالج آکر انتظامیہ کو دھمکا چکا تھا۔ کالج انتظامیہ کا یہ فیصلہ احمدیوں کے خلاف ظلم وستم ، مذہبی عدم برداشت اور ادارہ جاتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ملک گیر صورتحال

ستمبر۲۰۲۴ء میں احمدیہ مساجد کے خلاف انتہائی تشویشناک حملے اور حکومتی کارروائیاں احمدیوں کو درپیش مسلسل ظلم وستم کو عیاں کر رہی ہیں۔ مذہبی انتہاپسندوں نے حکومتی انتظامیہ کے ساتھ مل کر احمدیوں کو ہراساں کرنے اور ان کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور نتیجۃً کئی مساجد کے میناروں کو شہید کیا اورکئی مساجد کو سیل کردیا گیا۔ مزید برآں احمدیوں پر جھوٹے مقدمات بھی درج کروائے گئے۔

۶؍ ستمبر کو احمدیت مخالف مہم کے زیر اثر گوٹھ مسان ضلع لاڑکانہ میں ایک احمدیہ مسجد کو پولیس کی نگرانی میں سیل کر دیا گیا۔ یہ مہم کئی ماہ قبل شروع ہوئی تھی جس میں مخالفین احمدیت نے مسجد کے میناروں اور محراب کے خلاف شکایات درج کروائیں کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ جب انتظامیہ نے ان کی بات نہ مانی تو انہوں نے پولیس پر دباؤ ڈالنے کےلیے ریلیاں نکالیں اور دھرنے دیے تا کہ اس مسجد کو سیل کیا جائے اور مقامی احمدیوں کو گرفتار کیا جائے۔

ڈیرہ ورکاں ضلع خوشاب میں ۱۵؍ ستمبر کو انتظامیہ اور شدت پسند گروہوں کی جانب سے شدید دباؤ کے پیش نظر مقامی احمدیوں کو مسجد کے مینار اور محراب مسمار کرنے پڑے۔ کئی ہفتوں سے یہ لوگ مقامی احمدیوں کو دھمکا رہے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ مینار اور محراب کو مسمار کیا جائے کیونکہ یہ ان کی نظر میں غیر قانونی تھے۔ ابتدائی طور پر تھوڑی مزاحمت کے بعد اپنے اہلِ خانہ کی حفاظت کی خاطر مقامی احمدیوں نے خود ہی مینار اور محراب کو مسمار کر دیا۔

۱۰؍ ستمبر کو دیپالپور ضلع اوکاڑہ میں بھی ایک مسجد میں اسی طرز کی کارروائی انتظامیہ کی جانب سے کی گئی ۔ ڈی ایس پی کی موجودگی میں مسجد سے مینار ،کلمہ اور الفاظ بیت الذکر ہٹا دیے گئے۔ ۱۹۸۴ء سے قبل بنی اس مسجد کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت مکمل قانونی تحفظ حاصل تھا۔

۲۲؍ستمبر کو تحریک لبیک کے تین سو سے چار سو شدت پسند اسلامیہ پارک لاہور میں احمدیہ مسجد کے باہر جمع ہو گئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ اس مسجد کو سیل کیا جائے۔ وہ شدید نعرے بازی کر رہے تھے اور انہوں نے پولیس کو بھی بلا لیا۔ پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود انہوں نے وہاں سے ہٹنے سے انکار کر دیا ۔ پولیس نے مسجد کی تلاشی لی لیکن کوئی بھی قابل اعتراض مواد نہ مل سکا۔ لیکن ان لوگوں نے اصرار کیا کہ اس مسجد کو بند کیا جائے۔ چنانچہ پولیس نے احمدیوں کے خلاف خود کو مسلمان ظاہر کرنے اور محراب بنانے کا مقدمہ درج کر لیا۔

ستمبر میں اسی طرز کے حملے احمدیہ قبرستانوں پر بھی کیے گئے۔ ۲۰،۱۹؍ستمبر کو گوئی بٹالی ضلع کوٹلی آزاد جموں کشمیر کے قبرستان میں تین احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ قبرستان میں موجود آٹھ میں سے تین قبروں کے کتبے توڑ دیے گئے۔ احمدیوں نے اس معاملے سے انتظامیہ او رچیف سیکرٹری آزاد کشمیر ، آئی جی میرپور ریجن اور دیگر پولیس افسران کو آگاہ کیا جنہوں نےجائے وقوعہ کا دورہ بھی کیا اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

اسی طرح چکEB/363 وہاڑی میں پولیس نے متشدد گروہوں کے مطالبے پر تیرہ احمدیوں کی قبروں پر لکھے متبرک الفاظ پر سیاہی پھیر دی۔ جب مقامی جماعت احمدیہ کے وفد نےایس ایچ او کو باضابطہ درخواست دینے کی کوشش کی تو اس نے نہ صرف درخواست لینے سے انکار کیا بلکہ احمدیوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دی اور قبروں سے تمام مقدس الفاظ ہٹانے کا کہا۔

ڈگری گھمناں ضلع سیالکوٹ میں ۲۹؍ستمبر کو پولیس کی موجودگی میں شدت پسندوں نے اڑتالیس میں سے سنتالیس قبروں کے کتبے مسمار کردیے۔ جب دو لوگوں نے اس واقعے کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں پکڑ لیا اور اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کر دیا۔

۳۰؍ ستمبر کو روڈہ ضلع خوشاب میں رات کے وقت نامعلوم افراد نے آٹھ احمدیوں کی قبروں کو مسمار کر دیا۔ شدت پسند گروہ کچھ عرصے سے مقامی انتظامیہ کو احمدیوں کی قبروں پر لکھی تحریرات کے حوالے سے شکایات درج کروا رہے تھے۔ چنانچہ انتظامیہ کی جانب سے احمدیوں کو تحفظ فراہم نہ کر سکنے کے باعث یہ واقعہ پیش آیا۔ سپیشل برانچ، انسداد دہشتگردی اور مقامی پولیس کو اس بات کی اطلاع دی گئی لیکن کوئی خاطر خواہ کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

ڈیرہ عبدالعزیز کمالیہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک احمدی خاتون سکینہ بی بی کا انتقال ہو گیا۔ مقامی احمدیوں نے ان کی تدفین کا انتظام مقامی قبرستان میں کیا تھا۔ اس سے قبل کہ جنازہ وہاں پہنچتا ۔ شدت پسندوں کا ایک ہجوم وہاں جمع ہو گیا اور تدفین کو روکنے کا عندیہ دے دیا۔ جب پولیس کو اس بات کا علم ہوا تو پولیس نے امن و امان قائم رکھنے کی کوشش کی لیکن شدت پسندوں نے اپنا مطالبہ جاری رکھا اور کہا کہ یہ صرف مسلمانوں کا قبرستان ہے۔ بعدازاں ان لوگوں نے جنازے پر پتھر پھینکنے شروع کر دیے۔ نتیجۃً کئی احمدی زخمی ہو گئے ۔ یہ صورت حال ڈی ایس پی کی آمد تک جاری رہی۔ حالات کے پیش نظر پولیس نے احمدیوں کو کہا کہ وہ کسی اَور جگہ پر تدفین کر لیں۔ چنانچہ مرحومہ کی تدفین ایک احمدی کی ذاتی زمین میں کی گئی۔ تدفین کے بعد ان شدت پسندوں نے پورے کمالیہ اور قریبی دیہات میں احتجاجی مظاہرے کیے اور مطالبہ کیا کہ احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ اسی طرح کمالیہ بار ایسوسی ایشن نے بھی دھرنے کی دھمکی دی اور مطالبہ کیاکہ احمدیوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔

(مرتبہ:مہر محمد داؤد)

مزید پڑھیں: سرجانی ٹاؤن کراچی میں جمعہ کے روز عبادت کرنے پر 25 سے زائد احمدیوں پر مقدمہ ۔6 گرفتار

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button