متفرق مضامین

رمضان المبارک کی آمد اور حالات حاضرہ

ہر سال کا رمضان بھی اللہ تعالیٰ کی نئی شان لیے ہوئے ہوتاہے۔
اس مہینہ میں فیضان عام بھی ہوتے ہیں اور فیضان خاص بھی

یوں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے فیضانِ عام اور فیضان خاص کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔اگرغور کریں تو فیضان کو جاری رکھنے والے واجب الوجود کی شان کے کیا کہنے۔چنانچہ امر واقعہ یہ ہے کہ ’’جس طرح ستارے ہمیشہ نوبت بہ نوبت طلوع کرتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کے صفات بھی طلوع کرتے رہتے ہیں۔ کبھی انسان خدا کے صفات جلالیہ اور استغناء ذاتی کے پَرتَوہ کے نیچے ہوتا ہےاور کبھی صفات جمالیہ کا پرتوہ اس پر پڑتا ہے۔اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ(الرحمٰن: ۳۰)( چشمہ مسیحی ،روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۳۶۹)

اللہ تعالیٰ کے جلوے ہر آن نئی شان رکھتے ہیں ہر ماہ نئی شان رکھتے ہیںاور ہر سال ہی نئی شان رکھتے ہیں۔چنانچہ رمضان بھی تو اس سے الگ نہیں۔ ہر سال کا رمضان بھی اللہ تعالیٰ کی نئی شان لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس مہینہ میں فیضان عام بھی ہوتے ہیں اور فیضانِ خاص بھی۔چنانچہ فیضانِ عام کے حوالے سے قرآن مجید اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری تشریحات خدا تعالیٰ کے بندوں کی راہنمائی کے لیے بھری پڑی ہیں۔ان میں سے صرف چند کا ہی ذکر کیا جا رہا ہے۔

قرآن مجید کے حوالے سے یوں بیان ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔گنتی کے چند دن ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنی مدت کے روزے دوسرے ایام میں پورے کرے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ پس جو کوئی بھی نفلی نیکی کرے تو یہ اس کے لئے بہت اچھا ہے۔ اور تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اُس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔(البقرۃ:۱۸۴تا۱۸۷)

پھر فیضانِ خاص کے تعلق سے غور کیا جائے تو لیلۃ القدر کی بات آتی ہے جو ایک ایسی گھڑی ہوتی ہے جو ہزار مہینوں یعنی لگ بھگ تراسی سال کے عرصہ سے بہتر ہوتی ہے۔مگر وہ بھی اپنی نوعیت کے لیے افراد کے حالات کے لحاظ سے الگ الگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس لطیف مضمون کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے:’’اصل بات یہ ہے کہ ہر مومن پر روحانیت کی بلوغت کا زمانہ آتا ہے۔ آخر ہر شخص پیدائش کے وقت سے تو روحانیت میں کامل نہیں ہوتا۔اکثر لوگوں پر جسمانی بلوغت کے بعد ہی کسی وقت روحانی بلوغت کا زمانہ آتا ہے۔بعض کو جوانی میں بعض کو ادھیڑ عمر میں اور بعض کو بڑھاپے میں اور بعض کو بڑھاپے کے آخر میں۔جس رات بھی کسی مومن کی نسبت اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہو جاتا ہے کہ اب سے یہ ہمارا قطعی جنتی بندہ ہے وہی اس کی لیلۃالقدر ہے اور اس کے لیے رمضان کی کوئی شرط نہیں۔سارے سال میں کسی وقت کسی کی لیلۃ القدر آسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن رحیم ہے۔اور اس کی یہ دونوں صفات ہر وقت ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔پس ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کے معین اوقات کے علاوہ کوئی اور سلسلہ بھی اس کے فضلوں کا ہوتا جو ہر وقت اور ہر لحظہ ظاہر ہوتا رہتا اور یہ انفرادی فضلوں کا ہی سلسلہ ہے۔کسی مومن بندہ کی لیلۃ القدر کسی دن آجاتی ہے۔کسی کی کسی دن۔اور اس طرح روزانہ سارے سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل اس کے نیک بندوں پر نازل ہوتے رہتے ہیں۔پھر سال میں ایک دفعہ قرآن کریم کے نزول کی یاد میں ساری امت پر ایک ہی رات رمضان کے آخری عشرہ میں اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے۔اور وہ لیلۃالکبریٰ ہوتی ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۳صفحہ۴۸۳،۴۸۲)

نیز فرمایا کہ ’’لیلۃ القدر آتی تو ہر سال ہےمگر ہر شخص کو وہ رات میسر تو نہیں آ جاتی۔جو لوگ سچے تقویٰ اور سچی نیکی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں انہیں خاص توجہ اور خاص خشوع و خضوع کی حالت میں وہ میسر آتی ہے۔یعنی گو اس کی عام برکات تو عام مسلمانوں کو ہر سال ہی مل جاتی ہیں لیکن اس کا کامل ظہور جبکہ انسان کو یہ معلوم بھی ہو جاتا ہے کہ آج لیلۃ القدر ہے، خاص خاص آدمیوں کو اور کبھی کبھی ہی نصیب ہوتا ہے ۔ یہ تجربہ درمیانہ درجہ کے مومنوں کو اپنی عمر میں کبھی ایک دفعہ یا دو دفعہ نصیب ہوتا ہے۔پس اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں لیلۃ القدر مل جائے اسے سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری عمر کامیاب ہوگئی اور عمر کا اندازہ تراسی سال لگا کر بتایا ہے کہ ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ رات اس کی باقی عمر سے افضل ہے اور اسی رات کی خاطر اس کی زندگی گزری ہے اور یہ رات اس کی زندگی کا نچوڑ ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۳صفحہ۴۹۱)

سال ۱۴۴۶ھ بمطابق سال ۲۰۲۵ء کے رمضان المبارک کی بات کریں تو لگ بھگ ڈیڑھ ہزار رمضان کے مہینے گزر چکے ہیں۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ ثانی اور ظہورِ امام مہدی کے دور کے لحاظ سے اب تو ۱۳۹؍رمضان گذر چکے ہیں۔جہاں ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود مہدی کی چمکار واضح ہے وہاں دوسری طرف حاسدین اور معاندین اپنی شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ بڑا جوش دکھا رہے ہیں۔ان کو معلوم نہیں کہ ’’رمضان‘‘ کا تعلق نیت صحیح کے ساتھ جسمانی مشقت برداشت کرنےسے ہے نہ کہ ایمانیات سے۔ اللہ، ملائکہ، کتب اور رسل پر ایمان لانا ایمانیات میں سے ہے۔ اس کے علاوہ عبادات جیسےنماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ اعمال کے زمرہ میں آتے ہیں۔

یہ بھی واضح ہے کہ ایمانیات کا ہر ایک حصہ اتنا اہم ہے کہ کسی ایک کا انکار کفر بھی بن جاتا ہے۔ان میں سے ایک یعنی انبیاء علیہم السلام کی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وجود روحانی ہوتے ہوئے مادی بھی ہیں۔چونکہ ان کا وجود ’’بشر‘‘ ہوتاہے۔اس لیے بشری لوازمات ان کے اندر ہوتے ہیں۔چنانچہ یہ ایک اتفاق ہے کہ بنی نوعِ انسان کو جو مکلف کیا گیا ہےکہ ان پر ایمان لائیں تو منکرین اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے’اختیار‘ کا غلط استعمال کرکے انبیاء کا انکار تو کرتے ہی ہیں، ان میں سے بعض اُن سے استہزا بھی کرنے لگتے ہیں اور پھر جلد یا بدیر مخالفین کو اس گستاخی کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔

علاوہ ازیں ’بشر‘ کے ’خواص‘ کی امتیازی خصوصیت بھی اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی شریعت کے رو سے خواص ملائک کا درجہ خواص بشر سے کچھ زیادہ نہیں۔بلکہ خواص الناس خواص الملائک سے افضل ہیں۔‘‘(توضیح مرام ،روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۷۴)

امر واقعہ یہ بھی ہے کہ ’’الناس‘‘ میں سے ایک زمرہ جو رسول کا ہوتا ہے اس کے لیے تو ملائکہ کو حکم الٰہی ہوتا ہے کہ سجدہ کرو۔پس سجدہ ملائکہ کا ایک لطیف مضمون چلتا ہے۔اسی لیے افضل انسانیت حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت امام الزمانؑ نےکیا خوب کہا کہ

’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘

پھر مقامِ افضلیت کے بعد نبی کایہ مقام بھی ہے کہ اعمال عبادت بھی موثر ہو جاتے ہیں۔ یعنی نبی کی پکار کی آواز ہو اور کوئی بندہ نماز پڑھ رہا ہو تو لازم ہے کہ نماز توڑ کر نبی کی آواز پر لبیک کہا جائے۔(ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۴۰۸-۴۰۹)

یہی حال زکوٰۃ کا بھی ہے نیز کوئی بندہ فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے افغانستان سے نکلے اور راستے میں خدا تعالیٰ کا مامور آجائے تو اس خدا کے مامور کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور فریضہ حج کو بے شک موقوف کر دے یہ فعل ایسا مستحسن ہے کہ وہ بندۂ خدا سید الشہداء کے مرتبہ تک پہنچ گیا۔

پھر اس زمرہ انبیاء کا یہ بھی مقام ہے کہ عناصر اربعہ (آگ، خاک،ہوا اور پانی)بھی ان سے ڈرتے ہوئے خدمت میں لگے رہتے ہیں۔(ماخوذ ازبرکات الدعاء ،روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۲۹،۲۴)

چاند بھی ان کے لیے دو ٹکڑے ہوں گے، طوفان، زلزلے، تباہ کاریاں بھی آئیں گی،چاند سورج دونوں ہی مل کر رمضان سمیت ’’ھو صادق، ھو صادق‘‘ کے نعرے لگائیں گے۔تویہی حق ہوگا۔

مذکورہ تین حقائق کو مدنظر رکھتے ہو، بجا طور پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ خدا کے مامور نبی اپنے زمانہ کے لیے حصن حصین ہوتے ہیں۔

ان میں جو ادب و احترام کے ساتھ داخل ہوتا ہے وہ ہر طرح امن و عافیت کے حصار میں ہوتا ہے۔جبکہ باہر رہنے والے کی لاش کی بھی خیریت نہیں ہوا کرتی۔بلکہ کبھی فرعون اول کی طرح زیر زمیں پانی میں بھی ہلاک ہوا کرتے ہیں تو کبھی فرعون ثانی کی طرح آسمان میں اوپر آگ میں جل کر ہلاک ہواکرتے ہیں۔چنانچہ عصر حاضر کےحضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام نے متنبہ کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ’’میرا انکار تیز تلوار کی دھار پر ہاتھ مارنا ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۴۸)

اس پس منظر میں موجودہ رمضان المبارک میں ایک سبق ہے۔چونکہ بد نصیبوں نے امن پسند مومنوں کی جان، مال پر حملے کرتے ہوئے کلمہ طیبہ اور خانہ خدا کی بڑی بےدردی سے بے حرمتی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔اس کا رد عمل تو حقیقی طور پر اسی خدا تعالیٰ نے کرنا ہے جس نے مامور زمانہ کو مبعوث فرمایا ہے۔جبکہ دوسرا رد عمل خدا تعالیٰ کے نیک اور مظلوم بندوں کی طرف سے ہوتا ہے۔جس کا بہتر موقع رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔

اس رمضان المبارک میں فیضان خاص کے حصول کےلیے ہمارا کیا ردعمل ہونا چاہیے؟اس حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے احمدی! اس رمضان کو فیصلہ کن رمضان بنا دو، اس الٰہی جہاد کے لیے تیار ہو جاؤ مگر تمہارے لیے کوئی دنیا کا ہتھیار نہیں ہے۔دنیا کے تیروں کا مقابلہ تم نے دعاؤں کے تیروں سے کرنا ہے۔ یہ لڑائی فیصلہ کن ہوگی لیکن گلیوں اور بازاروں میں نہیں ، صحنوں اور میدانوں میں نہیں بلکہ مسجدوں میں اس لڑائی کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ راتوں کو اٹھ کر اپنی عبادت کے میدانوں کو گرم کرو اور اس زور سے اپنے خدا کے حضور آہ و بکا کرو کہ آسمان پر عرش کے کنگرے بھی ہلنے لگیں۔متی نصر اللّٰہ کا شور بلند کر دو۔خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے سینوں کے زخم پیش کرو، اپنے چاک گریبان اپنے رب کو دکھاؤ اور کہو کہ اے خدا !

قوم کے ظلم سے تنگ آکے مرے پیارے آج
شور محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد نمبر ۵ صفحہ ۲۲۴)

پس اس زور کا شور مچاؤ اور اس قوت کے ساتھ متی نصر اللہ کی آواز بلند کرو کہ آسمان سے فضل اور رحمت کے دروازے کھلنے لگیں۔اور ہر دروازے سے یہ آواز آئے:اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْب،اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْب،اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْب(البقرۃ:۲۱۵)سنو سنو کہ اللہ کی مدد قریب ہے۔اے سننے والو سنو! سنو کہ خدا کی مدد قریب ہے۔اے مجھے پکارنے والو سنو کہ خدا کی مدد قریب ہےاور وہ پہنچنے والی ہے۔(خطبات طاہر جلد دوم صفحہ ۳۴۹)

ہمارے پیارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز رمضان المبارک کی آمد اور حالات حاضرہ کے تناظر میں ہم سب کو عبادت اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ دلا تے آ رہے ہیں۔فرماتے ہیں کہ’’اے مسیح محمدی کے غلاموں! آپ کے درخت وجود کی سر سبز شاخو! اے وہ لوگو! جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد وہدایت کے راستے دکھائے ہیں اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم کی وجہ سے مظلومیت کے دن گزار رہے ہو ،اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بہت سنتا ہوں۔تمہیں خدا تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزار دو۔یہ رمضان جو خلافت احمدیہ کی دوسری صدی کا پہلا رمضان ہے۔خدا تعالیٰ کے حضور اپنے سجدوں اور دعاؤں سے نئے راستے متعین کرنے والا رمضان بنا دو،اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا رمضان بنا دو۔اپنی انکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کردو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں۔اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے۔کیوںکہ مسیح محمدی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے۔

خدا تعالیٰ جو ان دنوں میں ساتویں آسمان سے نیچے اترا ہوتا ہے۔ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آغوش میں لے لے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیے گئے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے ہوئے دیکھ لیں۔اے اللہ تو ایسا ہی کر۔آمین۔

یہ جو شہادتیں ہوئی ہیں اور جس اذیت کے دور سے بعض جگہ جماعت گزر رہی ہے اس کے پیچھے بھی فتحنالک فتحا مبینا کی آوازیں آرہی ہیں۔خدا دشمنوں کو کبھی خوش نہیں ہونے دےگا۔ان کی خوشیاں عارضی خوشیاں ہیں۔ہر شہادت جو کسی بھی احمدی کی ہوئی ہے ،پھول پھل لاتی رہی ہے اور اب بھی ان شاء اللہ تعالیٰ پھول پھل لائے گی۔ (خطبات مسرور جلد ششم صفحہ ۳۶۷،۳۶۶)

اللہ تعالیٰ ہر احمدی پر رمضان المبارک کے مہینہ میں اپنے افضال و برکات اور رحمت کی بارش برسائے۔آمین۔

(محمد کلیم خان ۔مبلغ انچارج مڈیکری کرناٹک)

مزید پڑھیں: رمضان المبارک اور خواتین کے مسائل

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button