حضرت مصلح موعود ؓ

فلسفۂ صوم و صلوٰۃ(قسط دوم۔ آخری)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرمودہ۱۲؍مئی ۱۹۲۲ء)

۱۹۲۲ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۴کی روشنی میں روزہ اور نمازکے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

نماز اور روزے کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان کو خداتعالیٰ کے لیے کام کرنے اور خداتعالیٰ کے لیے کاموں سے رکنے کی مشق ہوتی ہے اور جب کوئی ایسا موقع آتا ہے جہاں خدا کا یہ حکم ہوتا ہے کہ یہ کام کرو وہاں آسانی اور خوشی سے وہ کام کر سکتا ہے

جس طرح نماز میں اﷲ نے یہ بتایا کہ جو کرو ہمارے حکم سے کرو۔ اِسی طرح روزہ میں حکم دیا کہ جو کچھ نہ کرو ہماری ممانعت سے نہ کرو۔ اس طرح

کوئی انسانی فعل نہیں جو خدا کے تصرف سے باہر رہتا ہو۔ انسان جو کام کرے خدا کے امر کے ماتحت اور جو نہ کرے وہ خدا ہی کی نہی کے ماتحت۔

اس طرح انسان کے تمام اعمال کو خدا کے تصرف کے نیچے لایا گیا ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر یہ عادت اور یہ قدر ت پیدا کرے کہ وہ جو کام کرتا ہے خدا کے لیے کرتا ہے اور جس سے باز رہتا ہے خدا کے حکم سے باز رہتا ہے۔ نماز اور روزہ اس بات کی مشق کے لیے ہیں اور ہر کام کے لیے مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ سپاہیوں کو مشق کروائی جاتی ہے کہ اُن سے خندقیں کھدواتے ہیں، چاندماری کراتے ہیں حالانکہ اُن کے سامنے اُس وقت دشمن نہیں ہوتا۔ ان تمام کاموں سے یہ غرض ہوتی ہے کہ مشق ہو۔ کیونکہ بغیر مشق کے دنیا میں کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ مثلاً لوگ روزانہ معماروں اور نجاروں کو کام کرتے دیکھتے ہیں اور بہت سے خیال کرتے ہیں کہ یہ کام سہل ہے اور ہر شخص بڑی آسانی سے اینٹیں لگا سکتا ہے۔ اِسی طرح بڑھئی کے کام کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ہم بھی لکڑی کاٹ سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ نہیں ہو سکتا۔ جب تک مشق نہ ہو۔ نہ لکڑی کاٹی جا سکتی ہے اور نہ اینٹیں لگائی جا سکتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جبکہ میری عمر چھوٹی تھی ہمارا ایک مکان بن رہا تھا مستری لگے ہوئے تھے۔ یہ لوگ اپنے اوزاروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اُس وقت باہر گئے ہوئے تھے۔ میں لکڑی کاٹنا معمولی بات سمجھ کر تیشہ سے لکڑی کاٹنے لگا۔ لیکن میرے ہاتھ پر اس سے آدھ انچ زخم لگ گیا۔ جس کا اب تک نشان ہے۔ چونکہ مشق نہ تھی تیشہ بجائے اصلی جگہ پر پڑنے کے اِدھراُدھر پڑتا تھا۔

لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کہ کوئی امیرزادہ تیراندازی سیکھنے لگا۔ جس نشان پر وہ تیر پھینکتا تھا تیر بجائے اُس پر پڑنے کے اِدھراُدھر جاتا تھا۔ ایک فقیر جو دیر سے اس نظارہ کو دیکھ رہا تھا اپنی جگہ سے اُٹھا اور نشانہ پر آ بیٹھا۔ امیر زادہ کے مصاحبین نے ڈانٹا کہ کیا تمہاری موت آئی ہے اور تمہیں زندگی دوبھر معلوم ہوتی ہے کہ ہدف پر آ بیٹھا ہے فقیر نے کہا زندگی کی خواہش ہی تو یہاں لائی ہے۔ کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تیر اِدھراُدھر تو پڑتے ہیں۔ اگر نہیں پڑتے تو نشانہ کی جگہ پر نہیں پڑتے۔ تو ناواقف خواہ کسی کام کی نیت بھی کرے تو بھی مشق کے بغیر خلوصِ نیت کبھی کچھ کام نہیں دے سکتا۔ مثلاً اگر کسی شخص کے بیٹے پر اُس کا دشمن تلوار اُٹھائے اور اُس شخص کے پاس بندوق ہو مگر اُس کو چلانے کی مشق نہ ہو ایسی حالت میں بیٹے سے محبت کی وجہ سے اور اُس کو بچانے کی نیت سے دشمن پر بندوق چلائے تو بجائے دشمن کے ممکن ہے بیٹے ہی کو مار ڈالے۔ اور اس طرح اس کا بیٹا بجائے دشمن کے ہاتھ سے مرنے کے باپ ہی کے ہاتھ سے مارا جائے۔ برخلاف ازیں مشّاق لوگ بطور تماشا اپنے بچے کے سر پر سیب رکھ کر گولی سے اڑا دیتے ہیں اور بچے کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ یہ محض تماشا کے لیے اپنے پیارے بچہ کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور بچا لیتے ہیں مگر ناواقف باوجود خطرے سے نکالنے کی نیت اور ارادے کے اُس کی جان لے لیتا ہے۔ اسی طرح سپاہی چند روپیہ لے کر مشق کی بنا پر دشمنوں کا مقابلہ کرتا ہے اور ایسے ایسے لوگوں کو گرا دیتا ہے جو اُس سے مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں۔ لیکن جس کو مشق نہ ہو وہ اپنی جان کی حفاظت بھی نہیں کر سکتا۔ اِسی طرح تیراک کی مثال ہے وہ محض تفریح یا گرمی میں چند منٹ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے تیرتا ہے مگر ایک دوسرا شخص جو تیرنا نہیں جانتا وہ اگر دریا میں پڑ جائے تو اپنی جان کی بھی حفاظت نہیں کر سکتا۔ سمندر کے کناروں پر بعض اقوام کے بچے پیسہ دو پیسہ کے لیے غوطہ لگاتے ہیں۔ لوگوں کو کہتے ہیں کہ پانی میں پیسے ڈالو ہم نکالیں گے اور قبل اِس کے کہ پیسہ زمین پر جائے نکال لاتے ہیں۔ مگر ایک دوسرا شخص جو تیرنا نہیں جانتا اپنے ڈوبتے ہوئے بیٹے کو نہیں بچا سکتا۔ اور اگر ڈوب چکا ہو تو اپنے مُردہ بچہ کی لاش بھی نہیں نکال سکتا کہ خشکی پر دفن کرسکے۔ اِس سے ثابت ہوا کہ جن کو کسی کام کی مشق ہو اُن کے نزدیک مشکل سے مشکل کام آسان ہوتا ہے اور جن کو مشق نہ ہو وہ خطرہ کے وقت اپنی یا اپنے بچہ کی عزیز جان باوجود کوشش کے بھی نہیں بچا سکتے۔

پس شریعت نے جو احکام دیئے ہیں اُن میں بعض کرنے کے متعلق ہیں اور بعض نہ کرنے کے متعلق ہیں۔اور ان کا مرکز نماز اور روزہ ہیں تا کہ

انسان ان کے ذریعہ اس بات کی مشق کرے کہ جب کوئی خدا کا حکم آئے گا تو میں وہ بجا لاؤں گا اور جس کام سے رکنے کے متعلق حکم آئے گا اُس سے رک جاؤں گا۔

جب یہ مشق ہو گی تو وقت پر کامیاب ہو گا اور اگر مشق نہیں ہو گی تو موقع آنے پر رہ جائے گا۔

دیکھو جب سپاہی سے خندق کھدوائی جاتی ہے اُس وقت اگر کوئی کہے کہ یہ کیا فضول حرکت ہے کون سا اس کے سامنے دشمن آ گیا ہے تو یہ اُس کی نادانی اور ناواقفی ہو گی۔ کیونکہ سپاہی سے خندق کھدوانا اور چاندماری کرانا اور محنت کے کام لینا اُس کے قدم کو جنگ میں مضبوط کر دیتا ہے اور جب موقع آتا ہے تو انہی خندقیں کھودنے اور چاند ماری کرنے کی وجہ سے دشمن سے خوب مقابلہ کرتا ہے لیکن جو آرام کرتے ہیں اور ان کو مشق نہیں ہوتی وہ لڑائی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

مشہور ہے اور اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کہاں تک درست ہے کہ ایک بیوقوف بادشاہ کو خیال آیا کہ فوجوں پر بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے کیوں نہ فوجوں کو توڑ دیا جائے اور وقتِ ضرورت قصائیوں سے کام لیا جائے۔ یہ بھی تو خون بہاتے رہتے ہیں۔ چنانچہ فوجیں توڑ دی گئیں۔ اِس کا جب غنیم کو علم ہواتو وہ چڑھ آیا اور بادشاہ نے ملک کے قصائی جمع کر کے انہیں مقابلہ کے لیے بھیجا۔ لیکن وہ واپس بھاگ آئے۔ جب بادشاہ نے بھاگ آنے کی وجہ پوچھی تو کہا بادشاہ سلامت! وہ تو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ پٹھا اندھا دھند مارتے چلے جاتے ہیں ہم وہاں کیا کر سکتے ہیں۔ چونکہ سپاہی مرنا اور مارنا دونوں باتیں جانتا ہے۔ وہ اگر دیکھتا ہے کہ میں دشمن کو نہیں مار سکتا تو ملک کی حفاظت کے لیے خود مر جاتا ہے اور بھاگنے کی نسبت مر جانا بہتر سمجھتا ہے۔ مگر قصائی آرام سے چُھری تیز کر کے ذبح کرنا ہی جانتا ہے۔ اس لیے وہ دوسرے کے مقابلہ میں کب کھڑا ہو سکتا ہے۔

پس ہمیں بھی شریعت نے مشق کرائی ہے جس میں یہ شرط ہے کہ انسان نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے ہوئے نیت کرے کہ خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کرتا ہوں۔ اور جب یہ مشق پختہ ہو جائے تو پھر خداتعالیٰ کے لیے خواہ کچھ کرنا پڑے آسانی سے کر سکے گا۔

یہ مت کہو کہ نماز پڑھنے والا خدا کے لیے وطن کیسے چھوڑ دے گا۔ چونکہ اُسے خدا کے لیے کام کرنے کی عادت ہو گی جب خدا کے لیے اُسے وطن چھوڑنا پڑے گا تو چھوڑ دے گا۔ دیکھو فوج میں چاند ماری کراتے ہیں تو سامنے آدمی نہیں ہوتے بلکہ ایک تختہ ہوتا ہے۔ مگر اُسی پر کی ہوئی مشق دشمن کے مقابلہ میں کام آتی ہے۔ نماز سے یا چاند ماری سے غرض اس قسم کا کام کرنے کی عادت یا مشق کرانا ہوتی ہے۔ دیکھو جب بچہ مٹی کھاتا ہے یا کوئی ایسا کام جو اخلاق کے خلاف ہے کرتا ہے یا زمین پر بیٹھتا ہے اور تم روکتے ہو تو اِس سے تمہاری یہ غرض نہیں ہوتی کہ بڑا ہو کر زمین پر نہ بیٹھے یا مٹی نہ کھائے کیونکہ یہ کام تو وہ بڑا ہو کر خودبخود چھوڑ دے گا۔ ہاں اِس طرح تم اُس سے نافرمانی کی عادت نکالتے اور فرمانبرداری کی مشق کراتے ہو۔ اِسی طرح نماز سے غرض نماز کی مشق نہیں بلکہ خدا کے لیے کام کرنے کی مشق ہے کہ جو کام کرے خدا کے لیے کرے۔ اور روزہ سے یہ غرض ہے کہ جو کام چھوڑے وہ خدا کے لیے چھوڑے اور اس کو آئندہ جو کام بھی کرنا پڑے یا چھوڑنا پڑے خدا ہی کی رضا کے لیے کرے یا چھوڑے۔

روزہ کی مشق میں خدا کے لیے کاموں سے رکنے کی مشق کرانا مدّنظر ہے اور نماز میں خدا کے لیے کام کرنے کی مشق کرانا مدّنظر ہے۔

روزے کے ذاتی فوائد بھی ہیں وہ ان شاءاللہ اگلی دفعہ بیان کریں گے۔ فی الحال یہ سمجھو کہ جیسا فوجوں میں مشق کرائی جاتی ہے اور اُن کو حکم ہوتا ہے ’’مارچ‘‘ تو وہ چل پڑتے ہیں اور جہاں روکنا ہوتا ہے وہاں کہہ دیا جاتا ’’ہالٹ‘‘ تو ٹھہر جاتے ہیں۔ اِس مارچ اور ہالٹ سے اس بات کی مشق کرانا مدّنظر ہوتا ہے کہ جب کام کرنے کا حکم دیا جائے۔ کرو۔ اور جب کام سے رکنے کا حکم دیا جائے رک جاؤ۔ اسی طرح نماز سے کام کرنے کی مشق کرانا اور روزے سے روکنے کی مشق مدّنظر ہے۔ گویا کہ یہ بھی مارچ اور ہالٹ کی طرح دو حکم ہیں۔ یہ دونوں احکام علیحدہ علیحدہ ہیں اور ان دونوں کے فوائد ہیں ان سے مشق کرائی جاتی ہے۔ اور شرط یہ ہے کہ انسان جانتا ہو کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت کام کر رہا ہوں۔ لیکن اگر نماز اس نیت سے نہ پڑھی جائے گی کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت پڑھتا ہوں اور روزہ اس نیت سے نہیں رکھا جائے گا کہ میں خدا کے حکم سے رکھتا ہوں تو یہ مشق نہ ہو گی۔

پس نماز اور روزے کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ انسان کو خداتعالیٰ کے لیے کام کرنے اور خداتعالیٰ کے لیے کاموں سے رکنے کی مشق ہوتی ہے۔ اور جب کوئی ایسا موقع آتا ہے جہاں خدا کا یہ حکم ہوتا ہے کہ یہ کام کرو وہاں آسانی اور خوشی سے وہ کام کر سکتا ہے۔ اور جہاں خدا کا یہ حکم ہوتا ہے کہ اس کام سے رک جاؤ وہاں آسانی سے رک سکتا ہے۔ علاوہ ازیں روزے کے ذاتی فوائد بھی ہیں جو ان شاءاللہ اگر توفیق ملی تو اگلی دفعہ بیان کروں گا۔

(الفضل۱۸؍مئی۱۹۲۲ء)

مزید پڑھیں: اپنے وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنا دنیا میں اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا موجب ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button