بعض قرآنی دعائیں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍ستمبر۲۰۱۰ء)
[حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پر احباب جماعت کو بعض اہم قرآنی دعاؤں کی طرف توجہ دلائی:]رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَنَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (التحریم:12) اے میرے رب! میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنا دے، اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ ’’قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مثال فرعون کی عورت سے ہے جو کہ اس قسم کے خاوند سے خدا کی پناہ چاہتی ہے‘‘۔ (یعنی فرعون سے)۔ ’’یہ ان مومنوں کی مثال ہے جو نفسانی جذبات کے آگے گِرگِر جاتے ہیں‘‘۔ (ان کے جو نفسانی جذبات ہیں وہ فرعون کی طرح نیکیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں )۔ اور غلطیاں کر بیٹھتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں، توبہ کرتے ہیں، خدا سے پناہ مانگتے ہیں۔ ان کا نفس فرعون سے خاوند کی طرح ان کو تنگ کرتا رہتا ہے۔ وہ لوگ نفسِ لوّامہ رکھتے ہیں۔ بدی سے بچنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ دوسرے مومن وہ ہیں جو اس سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف بدیوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ نیکیوں کو حاصل کرتے ہیں۔ ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؑسے دی ہے۔اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا (التحریم: 13)۔ ہر ایک مومن جو تقویٰ و طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریمؑ ہوتا ہے۔ اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے جو کہ ابنِ مریم ؑ بن جاتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ522، 523۔ایڈیشن1988ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں وہ مومن بنائے جو نیکیوں کو حاصل کرنے والے ہوں اور اس رمضان میں جو نیکیاں ہم نے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ان میں دوام حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں اور تقویٰ اور طہارت میں ہمارے قدم ہر آن آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ نیز اللہ تعالیٰ ظالم گروہوں اور ظالم حکمرانوں سے بھی ہمیں نجات بخشے۔ ایسے فرعونوں سے ہمیں نجات بخشے جو طاقت کے نشے میں آج احمدیوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں اور ان کی خود پکڑ فرمائے۔
پھر سورۃ قمر کی ایک آیت میں یہ دعا ہے۔
اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ (القمر: 11) کہ مَیں یقیناً مغلوب ہوں۔ پس میری مدد کر۔
رَبِّ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ(القصص:22) اےمیرے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات بخش۔
رَبِّ اِنَّ قَوۡمِیۡ کَذَّبُوۡنِ (الشعراء:118) اے میرے ربّ! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے۔ فَافۡتَحۡ بَیۡنِیۡ وَبَیۡنَہُمۡ فَتۡحًا وَّنَجِّنِیۡ وَمَنۡ مَّعِیَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (الشعراء:119)پس میرے درمیان اور ان کے درمیان واضح فیصلہ کر دے اور مجھے نجات بخش اور ان کو بھی جو مومنوں میں سے میرے ساتھ ہیں۔
انبیاء اور ان کی جماعتوں کا اصل ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس زمانے میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے واضح فرما دیا ہے کہ ہماری کامیابی، ہماری فتوحات دعا کے ذریعے سے ہونی ہیں۔ نہ کہ کسی ہتھیار سے، نہ کسی احتجاج سے۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ36۔ ایڈیشن1988ء)
نہ کسی اور ذریعے سے۔ پس دعاؤں کو مستقل مزاجی سے کرتے چلے جانا یہی ہمارا فرض ہے اور یہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔
پھر یہ دعا سکھائی۔ فرمایا کہ رَبِّ اَعُوۡذُ بِکَ مِنۡ ہَمَزٰتِ الشَّیٰطِیۡنِ (سورۃ المومنون: 98)۔ اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔وَاَعُوۡذُبِکَ رَبِّ اَنۡ یَّحۡضُرُوۡنِ (المومنون: 99)۔ اور اس بات سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے رب! کہ وہ میرے قریب پھٹکیں۔ رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّتَوَفَّنَا مُسۡلِمِیۡنَ (الاعراف:127)۔ اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اے خدا ! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آ جائے اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو۔ جاننا چاہئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نور اتارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوتِ ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں‘‘۔ (تقریر جلسہ مذاہب۔ صفحہ 188) (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10صفحہ420، 421)
پھر یہ دعا ہے کہ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡلَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (الاعراف:24) اےہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ہمارا اعتقاد ہے کہ جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے ذریعہ زیر کیا تھا۔ اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے‘‘۔ (پس ہمارا ہتھیار تلوار نہیں بلکہ دعا ہے)۔ (الحکم جلد7 نمبر12 مورخہ 31؍ مارچ 1903ء صفحہ 8)
’’آدمِ اول کو شیطان پر فتح دعا ہی سے ہوئی تھی۔ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا۔ اور آدمِ ثانی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرتا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعے فتح ہو گی‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ نمبر190 ,191۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
پھر ایک دعا سکھائی۔
رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ (آل عمران: 9)اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے، بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تُو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔
پھر یہ دعا ہے کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَاعۡفُ عَنَّاٝ وَاغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (البقرۃ:287) اے ہمارے ربّ! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے رب ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ان گناہوں کے نتیجہ میں ہم سے پہلے لوگوں پر تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے رب! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم کر۔ توُہی ہمارا والی ہے، پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا اس طرح ترجمہ فرمایا ہے کہ ’’یعنی اے ہمارے خدا! نیک باتوں کے نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں مت پکڑ جن کو ہم بھول گئے اور بوجہ نسیان ادا نہ کر سکے‘‘۔ (ایسی باتیں جن کو ہم بھول کر ادا نہ کر سکے ان کی وجہ سے پکڑ نہ کر)۔ ’’اور نہ ان بد کاموں پر ہم سے مؤاخذہ کرجن کا ارتکاب ہم نے عمداً نہیں کیا‘‘۔ (ایسے ادھورے کام جن کا ارتکاب ہم نے جان بوجھ کر نہیں کیا، ان پر ہمیں نہ پکڑ) بلکہ سمجھ کی غلطی واقع ہو گئی۔ اور ہم سے وہ بوجھ مت اٹھوا جس کو ہم اٹھا نہیں سکتے۔ اور ہمیں معاف کر اور ہمارے گناہ بخش اور ہم پر رحم فرما‘‘۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ25)
پھر ایک دعا ہے رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (البقرۃ:251)اےہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہمارا خدا گناہ بخشنے والا نہ ہوتا (کہ ہمیں معاف فرماسکے) تو پھر وہ ایسی دعا بھی ہرگز نہ سکھلاتا۔ (چشمہ ٔ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 25)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: شیطان کے حملوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہو