متفرق مضامین

رمضان المبارک اور خواتین کے مسائل

روزہ اسلامی عبادات کا دوسرا اہم رکن ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جس میں نفس کی تہذیب، اس کی اصلاح اور قوت برداشت کی تربیت مدنظر ہوتی ہے۔ صوم(روزہ) کے لغوی معنی رکنے اور کوئی کام نہ کرنے کے ہیں۔ شرعی اصطلا ح میں طلوع فجر (صبح صادق) سے لے کر غروبِ آفتاب تک عبادت کی نیت سے کھانے، پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام صوم یا روزہ ہے۔

روزے کی تکمیل کے لیے یہ تین بنیادی شرائط ہیں۔ لیکن خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لیے کھانے پینے اور جنسی خواہش سے رکنے کا حکم ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کے لیے بطور علامت ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی اَنْ یَدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ۔ (بخاری کتاب الصوم)یعنی جو شخص روزے میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔

رمضان کے روزے ہر بالغ، عاقل، تندرست، مقیم (یعنی جو حالت سفر میں نہ ہو) مسلمان مرد اورعورت پر فرض ہیں۔ مسافر اور بیمار کے لیے یہ رعایت ہے کہ و ہ دوسرے ایام میں ان روزوں کو پورا کرلیں جو اس ماہ میں ان سے رہ گئے ہیں۔ مستقل بیمار جنہیں صحت یاب ہونے کی کبھی امید نہ ہو یا ایسے کمزور و ناتواں ضعیف جنہیں بعد میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ملے، اسی طرح ایسی مرضعہ (دودھ پلانے والی) اور حاملہ جو تسلسل کے ساتھ ان عوارض سے دوچار رہتی ہے ایسے معذور حسب توفیق روزوں کے بدلہ میں فدیہ ادا کریں۔

اس سوال پر کہ روزہ کے دوران اگر کسی خاتون کے ایامِ حیض شروع ہو جائیں تو اسے روزہ کھول لینا چاہیے یا اس روزہ کو مکمل کر لینا چاہیے۔ نیز جب یہ ایام ختم ہوں تو سحری کے بعد پاک صاف ہو سکتے ہیں یا سحری سے پہلے پاک ہونا ضروری ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۰؍اپریل۲۰۲۰ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضورِانور نے فرمایا:عورت کی اس فطرتی حالت کو قرآن کریم نے ’’أَذًى‘‘ یعنی تکلیف کی حالت قرار دیا ہے۔ اور اسلام نے اس کیفیت میں عورت کو ہر قسم کی عبادات کے بجالانے سے رخصت دی ہے۔ اس لیے جس وقت ایامِ حیض شروع ہو جائیں اسی وقت روزہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور ان ایام کے پوری طرح ختم ہونے پر اور مکمل طور پر پاک ہونے کے بعد ہی روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ نیز جو روزے ان ایام میں (بشمول آغاز اور اختتام والے دن کے) چھوٹ جائیں، ان روزوں کو رمضان کے بعد کسی وقت بھی پورا کیا جاسکتا ہے۔ (بنیادی مسائل کے جوابات قسط 24 مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴دسمبر۲۰۲۱ء)

حائضہ، مرضعہ اور حاملہ

طبی مجبوریوں میں عورت مریض کے حکم میں آتی ہے اور ان حالات میں روزہ رکھنا منع ہے ۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم حیض کے باعث روزے چھوڑتی تھیں توہمیں بعد میں وہ روزے پورے کرنے کا ارشاد ہوتا تھا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصیام)

نفاس والی عورت کے لیےبھی یہی حکم ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتی۔ لیکن جب بعد میں یہ عذر دُور ہو جائیں یعنی حائضہ حیض سے پاک ہو جائے اور نفاس کے دن ختم ہوجائیں تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا واجب ہوگی۔ اور یہ روزے انہیں رکھنے ہوں گے۔

مرضعہ اور حاملہ کے متعلق حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ سے رخصت دی ہے۔ (ترمذی ابواب الصوم)یعنی یہ دونوں اپنے عذر کے ختم ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے پورے کر لیں۔ اگر طاقت ہو تو فدیہ بھی دینا چاہیے جو اس بات کا کفارہ ہوگا کہ رمضان کی برکتوں والے مہینے میں وہ روزہ کی عبادت بجا لانے سے محروم رہی ہیں۔ اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں تو روزے کافی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’نیکی صرف رضا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جسم کی سختی کے ساتھ نہیں۔ اور روزوں میں بھی جسمانی سختی خدا تعالیٰ کے پیش نظر ہے ہی نہیں۔ اور بہت سی باتیں جو پیش نظر ہیں مگر تکلیف دینا خدا کے پیش نظر نہیں ہے۔ پس جب خدا فرماتا ہے کہ چھوڑ دو تو چھوڑ دو ۔ جب خدا کہتا ہے رکھو تو رکھو۔ پس فرمایا مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا جو بیمار ہو اَوْ عَلٰی سَفَرٍ یا سفر پر ہو فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر تو پھر رمضان میں روزے نہ رکھنا بعد میں رکھ لینا۔ یُرِیْدُاللّٰہ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ سختی کرو گے تو خدا بہت خوش ہوگا ۔ اپنی جان کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے تو اللہ بڑا راضی ہو گیا تم مصیبت میں پڑ گئے۔ اللہ تو تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا … پس خدا کی وسیع نظر کے سامنے سرتسلیم خم کریں ۔جو اللہ چاہے، جس حد تک سختی ڈالے،اسی حد تک قبول کریں۔ اس سے آگے بڑھ کر زبردستی سے آپ خدا کو راضی نہیں کر سکتے۔‘‘( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ جنوری ۱۹۹۶ء)

اگر کسی عورت کو ایسی حالت پیش آتی رہتی ہے کہ ایک وقت میں مرضعہ ہے اور دوسرے وقت میں حاملہ تو ایسی صورت میں اگر توفیق ہو تو فدیہ دے۔بعد میں اگر صحت اجازت دے تو فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیےلیکن اگر پورے نہ کر سکے تو فدیہ کافی ہو گا۔ حضرت مصلح موعودؓ کا ایک ارشاد ہےکہ اگرروزے کسی جائز عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ اس عذر کے دُور ہونے پر اسے روزوں کی توفیق عطا فرما دے تو وہ جس قدر ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کر سکتا ہو اسے تھوڑے تھوڑے کر کے ان روزوں کو رکھ لینا چاہیے۔(ماخوذازالفضل۸؍مارچ۱۹۶۱ءصفحہ۳،۲)تاہم شیخ فانی اور دائم المریض کے لیے یہی حکم ہے کہ جس کے لیے آئندہ روزہ رکھنے کا امکان صحت کے لحاظ سے کوئی نہیں تو صرف فدیہ ہی ادا کر دے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کے بابرکت مہینہ سے ہر لحاظ سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(آمنہ نورین۔ جرمنی)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: زمین اپنی خبریں بیان کرے گی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button